(موسموں کو روٹھنے سے بچائیں ورنہ(زاہد عباس

372

کراچی کا موسم بھی بڑا عجیب ہوتا جارہا ہے۔ اب یہاں موسم سرما کی آمد ہی کو دیکھ لیجیے، اگر سردی کا مزا لینا ہو تو پہلے کمرے میں تیز پنکھا چلا کر کمبل اور بستر کو اچھی طرح ٹھنڈا کریں، جب کمرے کا ماحول سرد ہوجائے تو کمبل لے کر سونے سے آپ کو موسم سرما کا مزا مل سکتا ہے، ورنہ سردی کسے کہتے ہیں، یہاں کے رہنے والے کیا جانیں؟ ہم نے تو جب سے سردیوں کو دیکھا ایسے ہی دیکھا۔۔۔ ہاں البتہ یہ سنا ضرور ہے کہ ایک زمانہ تھا جب اہلِ کراچی ٹھنڈی ٹھنڈی راتوں اور چمکتے دمکتے سورج سے روشن دنوں میں گرم شعلوں، سوئیٹرز اور مفلر سے ڈھکے، چائے، کافی، انڈوں اور خشک میوں کی سوغات سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے، لیکن اب یہ باتیں کتابی سی لگتی ہیں۔ سردیوں کا لطف لینے کے لیے کراچی کے شہریوں کو موسم گرما کی طرح دوسرے علاقوں میں جانا پڑتا ہے۔ برف باری کا مزا لینا ہو تو شمالی علاقہ جات کا رُخ کریں۔ اگر موسم سرما انجوائے کرنا ہو تو میدانی علاقوں کی طرف کوچ کیا جائے۔ اس طرح، کراچی کے باسی موسموں کا مزا لینے پر مجبور ہیں۔ موسم کی اس بدلتی صورتِ حال پر اگر سوچا جائے تو ہر وہ شخص جو موسمی تغیّرات سے شدبد رکھتا ہے، جان لے گا کہ یہ سب کچھ ایک دم نہیں ہوا۔ موسم کے دورانیے میں تبدیلی کوئی ایک دو دن کی بات نہیں بلکہ اس کا تعلق گلوبل وارمنگ سے ہے، جو گرین ہاؤس گیسوں کا توازن بگڑنے سے وجود میں آئی۔ قدرت نے ہمیں اچھا اور متوازن ماحول دیا تھا، مگر انسان نے اسے خود تباہی کے راستے پر ڈال دیا۔ صنعتی انقلاب کے نام پر کارخانے، فیکٹریاں لگائی جاتی رہیں، جن کی چمنیوں سے اگلتی آگ نے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا اضافہ کردیا، اس کے علاوہ بھی دیگر انسانی سرگرمیوں مثلاً جنگلات کی بے دریغ کٹائی، کوئلے، تیل،گیس اور دیگر ایندھن کا جلایا جانا، بڑی بڑی سڑکوں کی تعمیر، ٹرانسپورٹ کا انتہائی تیزی کے ساتھ اضافہ اور شہروں کی آبادیوں میں بڑھتی تعمیرات کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافے کا ذریعہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساحلی علاقوں کے درجۂ حرارت میں نمایاں تبدیلی ہوتی جارہی ہے۔ ماہرین کے مطابق زمین کا اوسط درجۂ حرارت صنعتی انقلاب کے بعد 15/cسے 16/cتک بڑھ چکا ہے اور مزید بڑھ سکتا ہے، جس کے نتیجے میں کرۂ ارض پر وسیع پیمانے پر بتدریج موسمیاتی تبدیلیاں مشاہدے میں آرہی ہیں۔ ان تبدیلیوں کی زد میں آنے والے ممالک میں پاکستان سرفہرست ہے، خاص طور پر یہ تبدیلی کراچی میں زیادہ محسوس ہورہی ہے، لیکن ملک کے دوسرے حصوں میں، جہاں صنعتی ترقی کی شرح کم ہے، موسم گر ما اور سرما کے مزے لیے جا سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ موسم کی تبدیلی صرف سردیوں تک محدود نہیں بلکہ اس تبدیلی کا اثر موسم گرما پر زیادہ ہوا ہے۔ جب دنیا میں درجۂ حرارت میں اضافہ ہوگا تو لازماً اس تبدیلی کو ہر موسم میں محسوس کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تبدیلیاں خاص طور پر ہمارے شہر میں زیادہ محسوس کی جارہی ہیں۔ موسم کس حد تک بدل رہا ہے، اس بات کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ہجرت کرکے لاکھوں پرندے پاکستان میں آیا کرتے تھے۔ لیکن اب خاص طور پر سائبیریا اور دیگر علاقوں سے آنے والے ان پرندوں کی آمد و رفت میں واضح کمی آچکی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ماضی کے مقابلے میں اب ان مہمان پرندوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، جب کہ فصلوں کی بوائی اور کٹائی میں بھی تبدیلی دیکھی جارہی ہے۔ دوسری طرف، گرمی کی شدت کی وجہ سے گلیشیر پگھلتے جا رہے ہیں اور دریاؤں میں پانی کا بہاؤ تیز اور سمندروں کی سطح بلند ہورہی ہے، جس سے ساحلی علاقوں میں موسمی خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ بہرحال، یہ بالکل واضح ہے کہ زمین پر موسم گرما اور موسم سرما کے دورانیے میں نمایاں فرق پڑا ہے، یعنی ان دونوں موسموں کے درمیان درجۂ حرارت بڑھنے سے وقفہ کم ہوتا جارہا ہے۔ موسم سرما میں درجۂ حرارت گرمیوں کے مقابلے میں بڑی تیزی کے ساتھ بڑھا ہے اور فرق کم ہونے کی وجہ سے سردیاں جلد رخصت ہوجاتی ہیں۔
کراچی میں بسنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئٹہ سے آنے والی ہوائیں سردی ساتھ لاتی ہیں، یعنی جب کوئٹہ میں سرد ہوائیں چلتی ہیں تو کراچی میں کچھ دنوں کے لیے موسم ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ ماہِ دسمبر بھی جارہا ہے لیکن ابھی تک کوئٹہ میں سرد ہوائیں نہیں چلی ہیں۔ ماہرینِ موسمیات کو اس ساری صورت حال نے پریشان کررکھا ہے۔ ممکن ہے رواں ماہ سردی کی ایک لہر آئے۔ تاہم، ایسا ہو بھی گیا تو جس سردی کو نومبر میں آنا تھا، وہ انتہائی کم وقت کے لیے آئے گی۔ ماہرین تو یہ بھی قیاس کررہے ہیں کہ اگر یہی صورتِ حال رہی تو موسم سرما بہت کم وقت کے لیے آیا کرے گا۔
ماہرینِ موسمیات کا کہنا ہے کہ صنعتی آلودگی اور دیگر سرگرمیوں کے باعث پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ایک تہائی مقدار سمندر میں چلی جاتی ہے اور اس کے پانی میں حل ہونے سے نقصان دہ تیزاب پیدا ہوتا ہے۔ اس خراب ہوتی صورت حال میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ خرابی فی الحال خطرناک حد تک نہیں پہنچی ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سمندر میں شامل ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی مقدار میں اضافے سے سمندری پانیوں میں اس قدر کیمیائی تبدیلی رونما ہوگی جس کی مثال گزشتہ کروڑوں برسوں میں بھی نہیں ملی ہوگی۔ اگر یہ تبدیلیاں اسی طرح جاری رہیں تو بنی نوع انسان کو بڑی تباہی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ان فضائی تبدیلیوں کی وجہ سے سرد موسم ساحلی علاقوں سے روٹھ رہے ہیں اور برکھا رُت خواب بنتی جارہی ہے، جو نہ صرف انسانی صحت کو متاثر کررہی ہے بلکہ بتدریج درجۂ حرارت میں اضافے کا باعث بھی بن رہی ہے۔ اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی دوسری خطرناک صورتِ حال خشک سالی بھی ہے۔ گرمی بڑھنے اور موسم سرما کے گھٹنے کی وجہ سے لوگوں کے رہن سہن کے ڈھنگ بھی تبدیل ہوتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
قارئین! دنیا بھر میں بدلتی اس صورت حال میں ہر ملک کو موسموں کو رُوٹھنے سے بچانا ہوگا اور ہر آنے والے دن کی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے مثبت اقدامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان میں تو اس مسئلے پر کام کرنے کی بڑی ضرورت محسوس ہورہی ہے، خاص طور پر کراچی میں، جو ایک ساحلی شہر ہے۔ اس شہر کے بہت سے مسائل آخر میں ان ہی عوامل کی طرف جانکلتے ہیں، جو موسموں کی گردش میں بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔ حکمرانوں کو اس سلسلے میں فوری اقدامات اُٹھانے ہوں گے اور شہریوں کو بھی اپنی جگہ اس بگڑتی ہوئی صورت حال پر کام کرنا ہوگا۔ شہر میں لاکھوں درخت لگانے سے بہت حد تک موسم کے توازن کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ عوام کو موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے آگاہی فراہم کرے۔ اس حوالے سے حکومت اور عوام دونوں ہی کو اپنے اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے احسن اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ مستقبل قریب میں موسمیاتی تغیرات کے نتیجے میں ہونے والے حادثات سے بچا جاسکے۔ حکومت اس سلسلے میں واضح حکمت عملی اپنائے اور سب سے پہلے صنعتی آلودگی پر قابو پانے کے قوانین پر عمل درآمد کروائے۔ اسی طرح آبادی میں ہوش ربا اضافے کو روکنے کے لیے مربوط پالیسیاں ترتیب دے۔ نیز، ایندھن اور دیگر حرارتی امور کے حوالے سے شمسی توانائی کے استعمال کو بڑھانے کے منصوبے پر کام کرے۔ درخت کاٹنے سے بھی گریز کرنا ہوگا اور ان کی حفاظت کو قومی فریضہ سمجھنا ہوگا۔ اسی طرح فلاحی تنظیموں کو گرین ایریاز بنانے پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ سب سے بڑھ کر قدرت کی نعمت پانی کی قدر کرنا ہوگی اور اس کا ضیاع روکنا ہوگا۔ اگر ہر فرد اپنی اپنی ذمے داری سمجھ کر کام کرے تو ہم اپنی آنے والی نسلوں کو سرسبز پاکستان دے سکتے ہیں۔
nn

حصہ