’’ایسا تو جاہل لوگ کرتے ہیں، آپ ایسا کیوں کررہی ہیں اپنے بچوں کے ساتھ؟‘‘ خاتون کے مخاطب ہم تھے۔
سمندر کی جانب سے ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، مئی کا مہینہ تھا، درخت سے کھجور اترنا شروع نہیں ہوئی تھی، آسمان پر ہلکے ہلکے بادل مگر مدھم دھوپ ماحول کو روشن بنا رہی تھی۔ شمالی سعودی عرب میں واقع ایک چھوٹے سے شہر کی پاکستانی کمیونٹی آج ساحلِ سمندر پر ضیافت میں مدعو تھی۔ ہم کوئی چھ ماہ سے اس مملکت میں مقیم تھے اور اپنے چار سے سات سالہ بچوں کو ہوم اسکولنگ کرا رہے تھے۔ یہی ان خاتون کا موضوع تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو اسکول نہ بھیجنا انہیں جاہل رکھنے کے مترادف ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کی سوچ بچوں کو گھر میں پڑھانے کے حوالے سے ایسی ہی ہے۔
دراصل ’’ہوم اسکولنگ‘‘ ہمارے کلچر میں نسبتاً ایک نیا نظریہ ہے اور اسے عموماً ناقابلِ عمل سمجھا جاتا ہے۔ قارئین کو بتا دیں کہ ہوم اسکولنگ ایسا طریق کار ہے جس میں بچے کو اسکول بھیجنے کے بجائے مختلف ذرائع استعمال کرکے گھر ہی پر تعلیم دی جاتی ہے، اسے اپنانے کی وجوہ مختلف ہوسکتی ہیں، مثلاً آپ کے علاقے میں اسکول نہ ہونا، آپ کا اپنے بچے کی تعلیم اور تربیت یا نصاب کے معاملے میں اسکول پر اعتماد نہ کرنا، یا پھر اسکول کا ناقابلِ برداشت حد تک مہنگا ہونا۔
دراصل ہمارے ملک میں اسکول سسٹم کو مقدس گائے سمجھا جاتا ہے، عمومی رائے یہی ہے کہ اس کے سوا بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے والدین کے پاس کوئی متبادل نہیں۔ درحقیقت، ہوم اسکولنگ ایک متبادل نظامِ تعلیم ہے، جو آج سے سو سال پہلے تک دنیا کے بیش تر ملکوں میں کام یابی کے ساتھ رائج تھا۔ مغرب میں لازمی تعلیم کے قانون کے باوجود بڑی تعداد میں والدین ہوم اسکولنگ ہی کو اپناتے ہیں اور ریاست بھی ان کے اس حق کو تسلیم کرتی ہے۔ امریکا میں ہوم اسکولنگ کا قانونی دفاع کرنے والی تنظیم ’’ہوم اسکول لیگ ڈیفنس ایسوسی ایشن‘‘ (HLDSA) کے مطابق امریکا میں 25 لاکھ بچے اس طریقۂ کار کے تحت اپنے گھروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ کینیڈا میں یہ تعداد 60 ہزار اور جنوبی افریقہ میں ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
امریکا کے چھبیسویں صدر تھیوڈور روز ویلٹ نے اپنی زندگی کے سترہ سال تک اپنے گھر میں تعلیم حاصل کی لیکن بعدازاں محض 22 سال کی عمر میں ہارورڈ سے گریجویشن کی۔ کولمبیا یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ 24 سال کی عمر میں شہرۂ آفاق کتاب ’’دی نیول وار آف 1812‘‘ تصنیف کی اور اپنے آپ کو ایک منجھا ہوا تاریخ دان ثابت کیا۔
بھارت کے پہلے وزیر تعلیم ممتاز اسکالر مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی فلسفہ، تاریخ، جغرافیہ، ریاضی، شریعت اور سائنس کی تعلیم گھر ہی پر مختلف ٹیوٹرز کے ذریعے دی گئی۔ آپ نے 12 سال کی عمر میں نہ صرف اپنا ذاتی رسالہ نکالا بلکہ پندرہ سال کی عمر میں دوسرے رسالوں کے ایڈیٹر بھی بنے۔
عصرِ حاضر کے مفکر اور بے شمار تحقیقی کتب کے مصنف سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی ساری تعلیم گھر پر ہوئی۔ مزید برآں انگریزی یا کسی یورپین زبان میں آپ کو کوئی رسمی تعلیم نہ ملی، اس کے باوجود چودہ سال کی عمر میں مولانا نے حقوق نسواں کے عَلم بردار قاسم امین کی ’’دی نیو ویمن‘‘ اور فارسی مفکر ملا سدرہ کی 3,500 صفحات کی کتاب ’’اسفار‘‘ کا اردو ترجمہ کیا اور سترہ سال کی عمر میں اپنی زندگی کی بہترین کتاب ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ بھی تصنیف کی۔
پاکستان میں فی زمانہ بہت سے والدین او، اے لیول کی مہنگی تعلیم کا یہی حل نکال رہے ہیں کہ اسکول چھڑا کر بچوں کو ٹیوشن دلا دیں (جو انہیں بہر صورت لینی ہی پڑتی ہے)۔ ان بچوں کے امتحانات کے نتائج باقاعدہ اسکول میں پڑھنے والوں سے کسی طرح کم نہیں ہوتے بلکہ بسا اوقات زیادہ اچھے ہوتے ہیں، کیونکہ اسکول جانے والوں کے مقابلے میں انہیں پڑھنے کے لیے زیادہ وقت ملتا ہے۔ والدین کو اسکول والوں کے نخروں سے بھی نجات ملتی ہے اور بھاری بھرکم فیسوں سے بھی۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایسے والدین بھی کم نہیں، جو اپنے دو سال کے ننھے منے بچوں کو بھی پڑھائی کے نام پر اجنبی ماحول میں بھیج کر ان کا بچپن خراب کررہے ہیں۔ اسکول سسٹم کے یقیناًکچھ فائدے ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ ایک کلاس میں ایک ہی عمر کے بچوں میں بھی ذہنی تفاوت ناگزیر ہے، اس میں سب سے زیادہ نقصان اُن بچوں کا ہوتا ہے، جو بہت ذہین ہوتے ہیں یا پھر بہت کند ذہن۔ ان دونوں گروہوں کے بچے بسا اوقات کلاس کا ساتھ نہیں دے پاتے اور اساتذہ، والدین دونوں کے لیے مسئلہ بن جاتے ہیں۔
بچے کو جو انفرادی توجہ اس کی خامیوں، خوبیوں اور کم زوریوں کو نظر میں رکھ کر ماں یا باپ دے سکتا ہے، وہ اسکول کا کوئی ٹیچر چاہے، وہ کتنا ہی مخلص کیوں نہ ہو، نہیں دے سکتا۔ بچپن میں شہر کے ایک بہترین اسکول کی طالبہ ہونے کے حوالے سے ہمارا ذاتی تجربہ ہے کہ اسکول کے فرنشڈ کلاس رومز، کھیل کے بڑے میدان، خوب صورت لباس میں ملبوس بنی سنوری خوش اخلاق ٹیچرز کی موجودگی کا خوش گوار تصور اپنی جگہ، مگر ہمیں پچیس، تیس اسٹوڈنٹس کی کلاس میں بیٹھ کو جو کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے، اس کے مقابلے میں ماں باپ کی بتائی ہوئی چھوٹی چھوٹی باتیں آج تک زیادہ مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔آج بھی ریاضی کے وہی تصورات زیادہ واضح ہیں، جو والدہ نے اپنے ہزار کاموں سے وقت نکال کر ہمیں سمجھائے۔
اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت آپ کی اپنی ذمے داری ہے، اسے کبھی بھی اسکول پر نہ چھوڑیں۔ کم پڑھے لکھے ماں باپ کی توجہ سے بھی جو بنیاد بنتی ہے وہ تمام عمر ساتھ دیتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ بچہ کس معیارکے اسکول میں جاتا ہے، یا جاتا بھی ہے یا نہیں، بعض لوگ امتحانات اور مقابلے کی فضا کو بچے کی ذہنی نشو و نما کے لیے بہت ضروری سمجھتے ہیں، جو عموماً گھر میں ممکن نہیں ہوتی۔ حالاں کہ ابتدائی سالوں میں یہ محض ایک دباؤ کے سوا کچھ نہیں۔
عام طور سمجھا جاتا ہے کہ بچے کو گھر میں پڑھانے میں وقت زیادہ لگتا ہے۔ مگر یہ بھی دیکھا جائے کہ بچے کو اسکول لانے، لے جانے، یونیفارم، جوتوں کی تیاری، صبح کے وقت اسے اور اس کا لنچ تیار کرنے میں جو وقت لگتا ہے، اسے آپ کسی ایسی سرگرمی میں صرف کرسکتے ہیں، جو اس کی تعلیم و تربیت کے لیے ضروری ہے۔ اس میں سے ایک آپ کی اپنی اَپ گریڈنگ ہے، جو زندگی کے کسی اسٹیج پر آپ کی پروفیشنل ڈویلپمنٹ کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ ہوم اسکولنگ کے نتیجے میں ملنے والی بچت سے آپ کی فیملی کوئی تفریحی سرگرمی بھی سرانجام دے سکتی ہے، جو بذاتِ خود آپ کے بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ ہم عموماً اسے نظرانداز کرتے ہیں۔
یقیناًہوم اسکولنگ میں اسکول سسٹم کی طرح پابندی نہیں ہوتی، مگر درحقیقت اس کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ ہماری ایک رشتے دار فیملی نے کینیڈا آمد کے بعد کچھ عرصے تک بچوں کو گھر ہی میں پڑھانے کو ترجیح دی، بعدازاں بچوں کو ہائی اسکول بھیجا جہاں ان کی بچی نے پورے اسکول میں ٹاپ کیا۔ یہی بچی یونیورسٹی کی بہت مہنگی تعلیم کے لیے فل اسکالر شپ کی مستحق قرار پائی۔ ہم نے کچھ عرصے پہلے ان کی بیگم سے پوچھا کہ گھر میں بچوں کی پڑھائی میں وہ پابندی نہیں ہوتی، جو اسکول میں ہوتی ہے، آپ اس سلسلے میں کیا کرتی تھیں؟ ان کا کہنا تھا کہ بچہ مہینہ بھر بھی نظرانداز رہے، مگر ماں باپ اسے ہفتہ بھر بھی بھرپور وقت دے دیں تو یہ اسکول کی سال بھر کی پڑھائی سے بہتر نتائج لاتا ہے۔ ہمارا ذاتی تجربہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہوم اسکولنگ اختیار کرنے والے، اس طریقِ تعلیم کے لامحدود فوائد گنواتے ہیں ،لیکن کچھ نقصانات بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لیے اسے اختیار کرنے سے پہلے اپنے ذاتی حالات کا اچھی طرح تجزیہ اور اس کی روشنی میں مناسب ہوم ورک ضروری ہے، مثلاً کیا آپ یا آپ کے شریکِ حیات اس سلسلے میں سنجیدہ ہیں اور مطلوبہ وقت بچوں کے ساتھ گزار سکتے ہیں؟ ہمارا مشورہ ہے کہ والدین میں سے کسی ایک کا گھر میں رہنا ضروری ہے تاکہ بچوں کی رہ نمائی کے لیے مناسب وقت نکالا جاسکے۔ بسا اوقات بچوں کو پڑھانے کے لیے اپنے آپ کو بھی اَپ گریڈ کرنا ہوتا ہے۔ ہم نے متعدد بار بچوں کو پڑھانے سے پہلے ان کی کتابیں مکمل پڑھی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ بچوں کورہ نمائی دینے والا پہلے ہی سے بہت عالم فاضل ہو۔ ہاں اسے سیکھنے اور سکھانے سے دلچسپی ضرور ہونی چاہیے۔
بعض اوقات بہت پڑھے لکھے ماں باپ کو اپنے بچوں کو تعلیم دینے سے دلچسپی نہیں ہوتی اور مزید کچھ سیکھنے کو وہ زندگی کے اس اسٹیج پر ناممکن خیال کرتے ہیں۔ ایسے والدین کو ہم ہرگز ہوم اسکولنگ کا مشورہ نہیں دیں گے۔ بعض اوقات کسی مشکل مضمون کے لیے ٹیوٹر بھی رکھا جاسکتا ہے ، مگر تعلیم کی اصل نگرانی اور ذمّے داری والدین ہی پر عائد ہوتی ہے، خصوصاً ابتدائی مرحلوں میں جب آپ اپنی توجہ سے ایک دفعہ بچے میں مطالعے کا شوق پیدا کردیں اور اس کی بنیاد بنادیں تو آپ کا کام بہت آسان ہوجاتا ہے۔ ہوم اسکولنگ کو ماضی اور حال میں بہت سی سطحوں پر کام یابی کے ساتھ اپنایا گیا ہے، مگر اس کے لیے استقامت، سنجیدگی اور ماں باپ کی بھرپور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے بغیر یہ منفی نتائج بھی دے سکتی ہے۔