کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے چیئرمین زیب اذکار، محبتوں کے سفیر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک علم دوست شخصیت ہیں۔ وہ صحافی ہیں افسانہ نگار ہیں اور شاعر بھی ہیں۔ وہ اپنی گو ناں گوں مصروفیت کے باوجود کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے زیرِ اہتمام پروگرام کراتے رہتے ہیں اور ہر پروگرام میں شروع سے آخر تک موجود رہتے ہیں۔ کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی اور جنرل سیکرٹری علاء الدین خانزادہ بھی زیب اذکار کی ادبی خدمات کے معترف ہیں۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز شاعر، اختر عبدالرزاق نے کراچی پریس کلب میں منعقدہ مشاعرے کے موقع پر، اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ اس محفلِ مشاعرے کے مہمان خصوصی عمران عامی تھے، جو راول پنڈی سے تشریف لائے تھے اور ظہیر مشتاق بھی مہمانِ خصوصی تھے، جو کہ کویت سے آئے تھے۔ اس پروگرام کی نظامت، مجید رحمانی اور ہدایت سائر نے کی۔ جن شعرا و شاعرات نے اس موقعے پر کلام سنایا، ان میں اختر عبدالرزاق، عمران عامی، ظہیر مشتاق، زیب اذکار، علاء الدین خان زادہ، احمد سعید فیض آبادی، حامد علی سیّد، شبیر نازش، انجم عثمان، راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) صفدر علی انشاء، زاہد حیدر، شوکت اللہ جو ہر، الحاج نجمی، ثانی سیّد، حمیرہ ثروت، مہتاب شاہ، آزاد حسین آزاد، فیصل احمد، عبدالرحمٰن مومن، ناصر مصطفےٰ، اُسامہ امیر، شبیر احرام، حِرا سیّد اور ناظم مشاعرہ ہدایت سائر شامل ہیں۔ کراچی پریس کلب کے جنرل سکریٹری نے اپنے اشعار سنانے سے قبل کہا کہ کراچی پریس کلب ایک تربیت گاہ ہے اور نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہمارے منشور کا حصہ ہے اور ہم کراچی کے رہنے والوں کے ساتھ ساتھ بیرونِ ملک اور بیرونِ شہر سے آنے والے مہمان شعرا وشاعرات کے اعزاز میں تقریبِ پزیرائی کی محفلیں بھی سجاتے ہیں۔ آج ہمارے درمیان دو مہمان شعرا موجود ہیں۔ یہ دونوں صاحبان بہت اچھا لکھ رہے ہیں، ان کے اشعار میں غزل کے تمام رنگ نظر آتے ہیں، ہم نے ان دونوں کو دل بھر کے سُنا ہے آیندہ بھی جب یہ کراچی آئیں گے تو ہم انہیں خوش آمدید کہیں گے۔ علاء الدین خانزادہ نے مزید کہا کہ زیب اذکار، ہمارے منشور کے مطابق زبان و ادب کے فروغ میں مصروفِ عمل ہیں۔ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے چیئرمین زیب اذکار نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کی نشست بہت کام یاب رہی، آج بہت اچھا کلام سامنے آیا، تمام حاضرین نے ہر اچھے شعر پر خوب داد دی اور ہر شاعر کو بہت توجہ سے سماعت کیا، مجید رحمانی اور ہدایت سائر نے عمدہ نظامت کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری انسان کے اندر جنم لیتی ہے، ہم اپنی داخلی کیفیات کو خوب صورت الفاظ الفاظ میں بیان کر دیتے ہیں ،تاہم ہر شاعر بیرونی ماحول کا اثر بھی لیتا ہے، یعنی وہ جو کچھ دیکھتا ہے، لکھ دیتا ہے تاکہ دوسروں کو بھی معلوم ہو کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ شاعر ایک حسّاس انسان ہوتا ہے، وہ ہر منظرِ حیات کو اپنی گہری نظر سے دیکھتا ہے، اسے محسوس کرتا ہے اور پھر شاعری میں ڈھال کر عوام الناس کے سامنے پیش کردیتا ہے۔ ہر قوم ہر ملک میں شعرا کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، کیوں کہ یہ وہ طبقہ ہے، جو لوگوں کو خواب دکھاتا ہے اور خوابوں کی تعبیر بھی بتاتا ہے، یہ ماضی، حال اور مستقبل کے تجزیے کرتا اور لوگوں کو خوابِ غفلت سے جگاتا ہے۔ صاحبِ صدر نے کہا کہ آج کراچی شہر میں ادبی پروگرام اپنے عروج پر ہیں، اس کی وجہ امن و امان کی بہتری ہے۔ ہر ادیب اور شاعر، امن و امان کا پیغام بر ہے، محبت و اخوّت کا درس دینا شاعری کا اہم جُز ہے، یعنی ادب کو برائے زندگی ہونا چاہیے، اب گل و بلبل کے قصے سُنانے کا دور نہیں ہیں، اب زمینی حقائق بیان کیجیے، زندگی کے مسائل پر لکھیے۔ عمران عامی اور ظہیر مشتاق نے کہا کہ ہم اہلِ کراچی کے بہت ممنون و مشکور ہیں کہ انہوں نے ہمیں عزّت دی اور کراچی پریس کلب نے ان کے اعزاز میں تقریبِ پزیرائی منعقد کی، ہم ان کے بھی احسان مند ہیں۔ کراچی محبت کرنے والوں کا شہر ہے کراچی علم و ادب کا گہوارہ ہے، اس شہر نے اُردو زبان و ادب کو کئی ممتاز قلم کار دیے ہیں۔ یہاں کے شعرا بہت اچھا کہہ رہے ہیں اور کراچی کی نوجوان نسل بھی ادب سے جڑی ہوئی ہے، اس وقت بھی کراچی کے کئی نوجوان شعرا بہت تیزی سے ادبی منظرنامے میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔
***
ممتاز شاعر و صحافی سرور جاوید، ایک طویل عرصے سے آزاد خیال ادبی فورم کے تحت آفیسرز کلب، کشمیر روڈ کراچی میں مذاکرے اور مشاعرے کا اہتمام کر رہے ہیں۔ گزشتہ منگل کو، راقم الحروف بھی اس مشاعرے میں شریک ہوا، میرے نزدیک یہ ایک اچھی نشست تھی‘ حسبِ روایت حیات رضوی امروہوی کو منصبِ صدارت تفویض کی گئی، کیوں کہ اس وقت محفل میں ان سے سینئر کوئی اور نہیں تھا۔ افضل جنجوعہ، مہمانِ خصوصی تھے، ڈاکٹر ندیم نقوی، مہمانِ اعزازی تھے، سرور جاوید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس مذاکرے کا موضوع تھا: ’’شاعری میں صنفی پابندیاں اور ابلاغ کا مسئلہ‘‘ اس موضوع پر، سرور جاوید نے اپنے مقالے میں کہا کہ جدیدیوں کا مؤقف یہ ہے کہ کسی بھی صنفِ سخن میں صنفی پابندیاں لگانے سے تخلیق کا حسن ماند پڑ جاتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ شاعری صرف اظہار کا نام نہیں ہے بلکہ شاعری ایک فن ہے اور اس میں اصول وضوابط کی پابندیاں ضروری ہیں، ردیف، قافیہ، بحر، غزل کے لیے ضروری ہے، نظم میں دوسری صنفی پابندیاں موجود ہیں، پابند نظم کی شکلیں آہستہ آہستہ ناپید ہوتی جارہی ہیں، لیکن پابند نظم موجود ہے، اس کے ساتھ ساتھ آزاد و نظم بھی لکھی جارہی ہے۔ آزاد نظم میں ہم ایک موضوع پر مصرعے لکھتے چلے جاتے ہیں، لیکن آزاد نظم میں بحر کی پابندی ہے۔ آزاد نظم میں جب قافیہ آتا ہے تو وہ نظم کو خوب صورت بناتا ہے، نظم مصریٰ میں ردیف قافیہ کی پابندی نہیں ہے بلکہ بحر کی پابندی ہے، اس کا ہر شعر مطلع ہوتا ہے، لیکن اس میں روانی ہونی لازمی ہے۔ غزل میں ردیف قافیہ ضروری ہوتا ہے، اس کے بغیر غزل نہیں ہوتی۔
مطلع کے علاوہ غزل کا کوئی شعر، ردیف، قافیے کو ظاہر نہیں کرتا، غزل میں شعری اظہار کا تسلسل رہتا ہے، ردیف اور قافیہ، غزل کو خوش گوار بناتا ہے، اگر آپ صنفی پابندیاں نہیں کرتے تو آپ کا کلام بے ڈھنگا ہو جائے گا۔ ردیف اور قافیے سے شاعری میں جمالیاتی حُسن پیدا ہوتا ہے۔ عام آدمی اگر آپ کے کلام میں دل چسپی نہیں لے رہا تو، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے کلام میں جمالیاتی حُسن نہیں ہے۔ ردیف قافیہ اور بحر کی پابندی سے کلام کو اچھا بنایا جاسکتا ہے۔ اچھا کلام قاری کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ نظم میں خیال بہت مضبوط ہونا چاہیے، آزاد نظم کی تمام چاشنی، بحر کی وجہ سے ہے، نثری نظم میں حُسن نہیں ہوتا، نثری نظم میں عنایت اور موسیقیت نہیں ہوتی۔ نثری نظم کو آپ فن پارہ کہہ سکتے ہیں، نظم نہیں کہہ سکتے، نثری نظم میں اگر کوئی بڑا انکشاف نہیں ہے تو نثری نظم بے جان رہے گی، اگر آپ صنفی پابندیاں ہٹالیں گے تو ابلاغ کا مسئلہ پیدا ہوگا۔ ابلاغ کی پہلی شرط یہ ہے کہ آپ کا دل چاہے کہ آپ کلام پڑھیں، اگر آپ کے اشعار میں جان ہوگی تو آپ کے اشعار کا ابلاغ ہوگا۔ نیز، آپ کا کلام عام فہم زبان میں ہو تو زیادہ ابلاغ ہوتا ہے، کیوں کہ کہ قارئین کی بہت سی اقسام ہیں، ہر قاری آپ کی بات نہیں سمجھ پاتا۔ غالب کے تمام اشعار کا ابلاغ نہیں ہو پاتا، البتہ ان کے 60% اشعار کا ابلاغ ہر شخص پر ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر عبدالمختار کے سوال کے جواب میں سرور جاوید نے مزید کہا کہ فیض کی نظم ’’تنہائی‘‘کے بعد نظم مصریٰ کو معتبر سمجھا گیا۔ میرا جی، ن۔م۔ راشد نثری نظم کے بڑے نام ہیں۔ اس تقریب کے دوسرے حصے میں مشاعرہ ہوا، جس میں صاحبِ صدر، مہمانِ اعزازی اور ناظمِ مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے اپنا تازہ کلام پیش کیا، ان میں قیوم واثق، سیف الرحمان سیفی، ضیاء شہزاد، عمر برناوی، سحرتاب رومانی، جمیل ادیب سیّد، نصیر سومرو، ب۔ پ عدیل، ڈاکٹر مختار، تنویر سخن، تاج علی رانا، اختر رعنا، گلِِ انور، شیخ عارف، محسن سلیم، عباس ممتاز، اختر رضا، قاضی دانش اور دیگر شامل تھے۔ صاحبِ صدر نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ صنفی پابندیوں کے باعث ہمارے کلام میں نکھار آتا ہے، دنیا میں جتنے بھی فنون رائج ہیں ان تمام کے اصول و ضوابط طے کر دیے گئے ہیں، ہر فن کار کو ان قواعد کی پابندیاں کرنی ہوتی ہیں، اسی طرح شاعری میں علم عروض بھی بہت اہم ہے۔ یہ وہ علم ہے، جو ہمارے اشعار کو معتبر بناتا ہے۔
***
پروفیسر منظر ایوبی کی صدارت میں بزمِ جہانِ حمد کراچی نے ہیرو فاؤنڈیشن کے تعاون سے شیخ راشد عالم کی رہائش گاہ پر نعتیہ مشاعرے کا اہتمام کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی، مہمانِ خصوصی تھے۔ شعیب ناصر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ شیخ راشد عالم نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مشاعرے ہماری تہذیبی روایات کا حصّہ ہیں، جب کہ نعتیہ مشاعرے ایمان افروز ہوتے ہیں۔ میری دلی خواہش تھی کہ میں اپنے مکان پر نعتیہ مشاعرہ کراؤں، اللہ کا شکر ہے کہ آج ہم سب اس با برکت محفل کا حصّہ ہیں، جہاں جہاں ذکرِ رسول ہوتا ہے، وہاں وہاں رحمتوں کا نزول ہوتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ نعتیہ شاعری کے لیے سیرتِ رسول کا مطالعہ بہت ضروری ہے، کیوں کہ نعت میں غلو کی گنجائش نہیں ہے۔ نعت لکھتے وقت انتہائی محتاط رہنا ہوتا ہے، ذرا سی غلطی سے انسان ایمان سے خارج ہوجاتا ہے۔ جو لوگ نعت کہہ رہے ہیں، وہ نیک کام کررہے ہیں۔ نعت لکھنا، نعت پڑھنا اور نعت سماعت کرنا عین عبادت ہے۔ صاحبِ صدر پروفیسر منظر ایوبی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ماضی کے مقابلے میں آج کل نعتیہ شاعری زیادہ ہو رہی ہے، نعتیہ مجموعے تواتر کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں، نعت پر مطالعاتی اور تحقیقی کام ہو رہا ہے، نعت پر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جا رہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ سیرتِ رسول کی روشنی ہمارے قلب و نظر کو منوّر کررہی ہے، جس کی بنیاد پر نعتیہ اشعار پوری توانائی کے ساتھ منظر عام پر آرہے ہیں۔ نعت کے ادبی منطر نامے پر بے شمار نعت گو شاعروں کے نام نظر آتے ہیں، ہر دور میں نعت کا بول بالا رہے گا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے خود حضرت محمد مصطفےٰؐ کا ذکر بَلند کرنے کا ذمّہ لیا ہے۔ نعتیہ شاعری میں شمائلِ رسول اور سیرت رسول کا تذکرہ ہوتا ہے، لیکن نعت میں ذاتی وارداتِ قلبی بھی رقم ہوتی ہے، امتِ مُسلمہ کا احوال بھی لکھا جاتا ہے اور تبلیغ اسلام کے مضامین بھی نعت کا حصّہ بن سکتے ہیں۔ پروفیسر منظر ایوبی نے مزید کہا کہ نعت میں حفظِ مراتب سے تجاوز کرنا جُرم ہے، عبد و معبود کا فرق لازمی ہے، حمد ونعت کے مضامین الگ الگ ہیں، ان کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اس مشاعرے میں صاحبِ صدر، مہمانِ خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعراء نے نعتیہ کلام پیش کیا، ان میں محسن اعظم ملیح آبادی، پروفیسر جاذب قریشی، قمر وارثی، فراست رضوی، لیاقت علی عاصم، راشد نور، صفدر صدیق رضی، رونق حیات، ڈاکٹر جمال نقوی، اختر سعیدی، صفدر علی انشاء اور طاہر سلطانی شامل ہیں۔
***
لیاقت علی پراچہ ادبی و علمی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں، ادب نواز شخصیت ہیں اور شاعروں، ادیبوں کی عزّت کرتے ہیں۔ ان کی رہائش گاہ، جاوید بحریہ سوسائٹی ماری پور روڈ پر واقع ہے، جہاں ہر سال نعتیہ مشاعرہ ہوتا ہے۔ اس مہینے 11ربیع الاول اتوار کے دن ایک شان دار محفلِ مشاعرہ کا اہتمام ہوا۔ یہ مشاعرہ بزمِ جہانِ حمد کے زیرِ اہتمام ترتیب دیا گیا تھا۔ اس موقعے پر بزمِ جہانِ حمد کے روحِ رواں طاہر سلطانی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ بزمِ جہانِ حمد، ہر مہینے ایک طرحی حمدیہ مشاعرہ کراتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم نعتیہ مشاعروں کا اہتمام بھی کرتے ہیں، یہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ آج ہم لیاقت علی پراچہ صاحب کی رہائش گاہ پر جمع ہوکر بار گاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں نذرانہِ نعت پیش کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نعت کی محفلیں سجانا کارِ ثواب ہے، اب پورے ملک میں یومِ ولادتِ رسول پاک کے حوالے سے جشن میلاد النبی منایا جارہا ہے۔ صاحبِ خانہ لیاقت علی پراچہ نے اظہارِ تشکّر کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک غریب آدمی ہوں، لیکن میرا دل حبِ رسولؐ سے مالا مال ہے۔ نعتیہ ادب کے فروغ کے لیے میں اپنا کردار ادا کررہا ہوں اور جہاں تک میری گنجایش ہے، میں وہاں تک نعتیہ ادب کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہوں، میں تمام شعرائے کرام اور سامعین کا ممنون و مشکور ہوں کہ وہ اپنی مصروفیت میں سے وقت نکال کر، میرے گھر تشریف لائے۔ صاحبِ صدر، پروفیسر منظر ایوبی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ نعت نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ غلویا اغراق کا کوئی پہلو اپنے اشعار میں شامل نہ کرے، کیوں کہ ضائع بدایع، شاعری کی دیگر اصناف کا زیور ضرور ہیں، لیکن نعت کہتے وقت انتہائی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآتِ نعت کے دوران لہجے کی مٹھاس، زبان کی چاشنی اور دیگر فنی لوازم کا رچاؤ، قارئینِ نعت پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتا ہے، آج کے نعتیہ مشاعرے میں ہم اسی کیفیت سے گزرے ہیں، ہر شاعر نے اپنا منتخب کلام سنایا۔ اس مشاعرے کی نظامت رشید خان رشید نے کی، محفل کا آغاز تلاوتِ کلام مجید سے ہوا، تلاوت کی سعادت حافظ محمد نعمان طاہر نے حاصل کی، انہوں نے انتہائی سحر انگیز آواز میں نعتیں بھی سنائیں۔ اس موقعے پر جاوید بحریہ سوسائٹی کے ممتاز نعت خواں نعمان بغدادی نے بھی نعتیہ کلام پیش کیا۔ اس نعتیہ مشاعرے میں محسن اعظم ملیح آبادی، مہمانِ خصوصی تھے، جب کہ سیّد فراست رضوی اور رونق حیات بھی اسٹیج پر رونق افروز تھے۔ صاحبِ صدر مہمانِ خصوصی اور ناظمِ مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے نعتیہ کلام پیش کیا، ان میں سیّد فراست رضوی، رونق حیات، اختر سعیدی، یامین وارثی، محمد علی گوہر، راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) نعیم انصاری، حامد علی سیّد، شارق رشید، طاہر سلطانی اور نصراللہ غالب شامل تھے۔ محفل کے اختتام پر صلوۃ وسلام پڑھا گیا اور قوم و ملک کی سلامتی کے لیے دُعائیں مانگی گئیں۔ مشاعرے میں سامعین کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ صاحبِ خانہ کی جانب سے ہر شاعر کے لیے آمد ورفت کا بندوبست کیا گیا تھا اور ہر شاعر کو تحائف سے نوازا گیا۔
***
نعت رسول مقبولؐ اظہار عقیدت کا بہترین ذریعہ ہے۔ بزم تقدیس ادب (پاکستان) کے زیر اہتمام نعتیہ مشاعرہ میں اچھی نعتیں سُننے کو ملیں، جو قابل ستایش ہے۔ یہ بات معروف شاعر جناب قمر وارثی نے بزم تقدیس ادب (پاکستان) کے زیر اہتمام منعقدہ نعتیہ مشاعرہ میں صدارتی خطاب میں کہی۔ مشاعرے کے مہمان خصوصی شہزاد زیدی تھے۔ مشاعرے کا آغاز احمد سعد خان نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ جن شعرائے کرام نے اپنا نعتیہ کلام سُنایا، ان میں مسند نشینوں کے علاوہ سیّد آصف رضا رضوی، چمن زیدی، فیاض علی فیاض، احمد سعید خان، کشور عدیل جعفری، صدیق راز ایڈووکیٹ، عامر شیخ، ابراہیم خلیل، چاند علی، حاجی یوسف اسماعیل، آغا ذیشان، ظفر بن نیّر مدنی، اکرم رازی، زاہد علی سیّد، مشرق صدیقی، آسی سلطانی، علی اظہار زیدی، عبدالمجید محور، ابرار حسن، حامد علی سید، نسیم الحسن زیدی، جمال احمد جمال، رضی عظیم آبادی اوسط جعفری و دیگر شامل ہیں۔ نظامت کے فرائض جناب احمد سعید خان نے انجام دیے اور مشاعرے کے اختتام پر حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔
nn