(نحوستیں ساتھ لے کے وار ہوئی ہے شام سقوط ڈھاکہ (مریم رب نواز

266

’’بابا جانی! کب فارغ ہوں گے آپ؟ جلدی کریں نا‘‘۔۔۔ ہانیہ نے کھانے کے بعد بھی بابا کو کتابوں میں غرق دیکھ کر رونی صورت بنا کر کہا۔
’’ارے نہیں پرنسس! میں آپ کا ہی انتظار کررہا تھا بیٹا۔۔۔ آئیں بیٹھیں‘‘۔ بابا جان محبت میں اسے یونہی مخاطب کرتے۔ انہوں نے اپنی کتابیں سمیٹ کر ہانیہ کے لیے جگہ بنائی۔
ہانیہ جب سے اسکول سے آئی تھی، بابا جان کا دماغ کھا رہی تھی۔ اس کے اسکول میں 16 دسمبر کے حوالے سے Speak Forum کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں طلبہ و طالبات کو مختلف عنوانات پر مدلل انداز میں اپنی بات ثابت کرنا تھی۔ ہانیہ کو ’’سقوطِ ڈھاکا۔۔۔ اور ہمارا کردار‘‘ کے عنوان پر بات کرنا تھی، اسی کے لیے عبدالصمد صاحب کتب بینی میں مصروف تھے۔ انہیں تاریخ سے بے انتہا دلچسپی تھی، اور جب تاریخ کی کوئی کتاب اُن کے ہاتھ لگ جاتی تو بس جب تک مکمل نہ کرلیتے انہیں چین نہ آتا۔ کل رات ان کے ایک پرانے شاگرد چند تاریخی کتابیں ان کو بطور تحفہ دے گئے، اسی لیے آج صبح ہی سے وہ ان کتابوں کی ورق گردانی میں مصروف تھے اور ہانیہ اس بات سے بہت چڑی ہوئی تھی، کیونکہ اس کو کل اپنی Speach فائنل کرکے ٹیچر کو دکھانی تھی۔
عبدالصمد خان نیازی صاحب تقسیم سے قبل ہندوستان کے ایک چھوٹے سے قصبے میں اپنے گھر والوں کے ساتھ مقیم تھے۔ ان کی پانچ بہنیں اور سات بھائی تھے۔ تقسیمِ برصغیر کے وقت ہجرت میں ان لوگوں نے بڑی مشقتوں کا سامنا کیا اور پاکستان صرف عبدالصمد اور ان کی دو بہنیں ہی لٹی پٹی حالت میں پہنچ سکیں۔ عبدالصمد صاحب کے ایک بڑے بھائی عبدالاحد اور ان کی فیملی پہلے ہی پشاور میں مقیم تھے، ہجرت کے بعد یہ لوگ ان کے پاس ہی ٹھیر گئے۔
وقت سرکتے سرکتے ان کے زخموں پر مرہم رکھتا گیا۔۔۔ لیکن یہ انہی قربانیوں کا نتیجہ تھا کہ ان کی حب الوطنی بے مثال تھی۔۔۔ آج بھی کوئی ان کے سامنے قیامِ پاکستان یا ہجرت کے حوالے سے کوئی بات کرتا تو ان کی آنکھیں نمناک ہوجاتیں۔۔۔ عبدالصمد صاحب اور ان کے بھائی عبدالاحد دونوں ایک ہی گھر میں الگ الگ پورشن میں رہتے۔ عبدالاحد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹے عثمان اور بیٹی سبینہ سے نوازا تھا۔ جبکہ عبدالصمد صاحب کے دو بیٹے عفان، عرفان اور بیٹی ہانیہ تھی۔
عثمان ماس کمیونی کیشن میں ماسٹرز کے بعد اب ملازمت کررہا تھا۔ عفان MSC کے فائنل ائیر میں تھا، جبکہ عرفان نے اپنے لیے کیمیکل انجینئرنگ کی فیلڈ کو منتخب کیا تھا۔ سبینہ BSC کررہی تھی، اور گھر بھر کی لاڈلی ہانیہ آرمی پبلک اسکول میں ابھی میٹرک میں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس میدانِ کارزار میں جہاں مغربی پاکستان کے عوام تماشائی بن کر کھڑے تھے، وہاں سب کے سامنے جنرل نیازی نے پاکستانی عوام کے جذبات کو روندتے ہوئے پاکستان اور پاکستانی عوام کا سر شرم سے جھکا دیا اور دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ یہ خبر پاکستان کے عوام پر بجلی بن کر گری تھی۔ لوگوں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ خود اس میدان میں کود پڑیں۔۔۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان کی محبت میں ہجرت کرکے آئے تھے۔۔۔ جن کے اپنے عزیز ان سے بچھڑ گئے تھے۔۔۔ جن کی بہنوں کو اُن کی آنکھوں کے سامنے غنڈے لے جاتے اور وہ کچھ کرنے کے قابل نہ ہوتے۔۔۔ جنہوں نے اپنے ماں باپ کی آخری سانسیں بہت قریب سے سنی تھیں، جنہوں نے اپنی اولاد کو اپنی آنکھوں کے سامنے کٹ کر گرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس سب کے باوجود جب لٹی پٹی حالت میں پاکستان کی سرزمین پر انہوں نے قدم رکھا تو۔۔۔ کیونکہ انہوں نے اپنی منزلِ مقصود کو پالیا تھا جس کے لیے انہوں نے یہ قربانیاں دی تھیں، مگر پاکستان بننے کے فقط 24 برس بعد مشرقی پاکستان کا علیحدہ ہونا۔۔۔ لوگ اس صدمے کو برداشت نہ کر پا رہے تھے، ان کا دایاں بازو کاٹ کر الگ کردیا گیا تھا اور انہیں کسی پل چین نہ آرہا تھا۔۔۔
عبدالصمد صاحب کی آواز بھرا رہی تھی، کسی غیر مرئی نقطے پر نگاہیں جمائے گویا وہ 45 سال پیچھے چلے گئے تھے اور اپنی آنکھوں سے سب دیکھ رہے تھے۔۔۔ ہانیہ ٹھوڑی پر ہتھیلی رکھے توجہ سے عبدالصمد صاحب کو اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کی کوشش کرتے دیکھ رہی تھیں۔
ہماری پستی بھی حد سے گزری، بھڑک اٹھا ہے غضب خدا کا
تمام خطے کے کونے کونے میں ایک منظر ہے کر بلا کا
خود اپنے گھر میں بگاڑ ہو جب، عدو سے آخر کوئی گلہ کیا
نحوستیں ساتھ لے کر وارد ہوئی ہے شامِ سقوطِ ڈھاکا!
16 دسمبر 1971ء سے آج یعنی 16 دسمبر 2016ء تک کا عرصہ۔۔۔ درمیان میں 45 سال گزر گئے، لیکن یہ زخم آج تک مندمل نہ ہوسکا۔
ہانیہ پُراعتماد انداز میں اپنی تقریر کا آغاز کرچکی تھی۔ پورے ہال پر سکوت طاری تھا:
’’وہاں ڈھاکا کے پلٹن میدان میں شکست کے معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے تھے بلکہ قوم کی عزت و وقار کو بیچ دیا گیا تھا۔ جنرل نیازی کا شکست کی طرف بڑھتا ہر قدم جذبات کو روندتا جارہا تھا۔ یہ سانحہ اُس قوم کے لیے ناقابلِ برداشت تھا جو اتنی قربانیوں کے بعد پاک وطن کے حصول میں کامیاب ہوسکی تھی۔ وطن عزیز کی تقسیم قوم کو گوارا نہ تھی، اس وقت قوم کے اندر آہ وفغاں اور سوگ کا وہ عالم تھا کہ۔۔۔‘‘
ہانیہ کی آواز بھرّا رہی تھی۔ بمشکل خود پر قابو پاتے ہوئے اس نے سلسلۂ کلام کو وہیں سے جوڑا: ’’1971ء گزر گیا، مگر یہ ہماری قوم کا المیہ ہے کہ ہم نے اس سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے اس باب کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔ تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرا رہی ہے، یہ حقیقت ہے کہ آج کا بنگلہ دیش اسی سقوطِ ڈھاکا سے گزر رہا ہے جس سے کبھی مشرقی پاکستان گزرا تھا۔ جسے سقوطِ ڈھاکا سمجھنا ہے وہ آج کے حالات سے 1971ء کی صورت حال کا موازنہ کرلے۔ سقوطِ ڈھاکا محض 1971ء میں پیش آنے والا سانحہ نہیں، بلکہ قوم پرستی کا ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ پر وہ حملہ ہے، جس نے سقوطِ غرناطہ کے امیر عبداللہ سے سقوطِ بغداد اور پھر سقوطِ ڈھاکا کے امیر نیازی تک امتِ مسلمہ کا شیرازہ بکھیرا ہے۔
آج حسینہ واجد اسی سقوطِ ڈھاکا کو بنگلا دیش میں جاری رکھے ہوئے ہے اور بنگالیوں پر مظالم ڈھاتے ہوئے یہ پیغام دے رہی ہے کہ سقوطِ ڈھاکا ابھی تمام نہیں ہوا۔ یہ جاری ہے اور بنگلہ دیش کی سرزمین پر اسلام کا نام لینے والے ہر فرد کا پیچھا کرے گا!‘‘
ہانیہ پل بھر کو سانس لینے کے لیے رکی، سامعین اس گفتگو سے کافی متاثر نظر آرہے تھے۔ ہانیہ کو ان کی آنکھوں میں کچھ کرگزرنے کا عزم اور جذبہ ہمکتا نظر آرہا تھا۔ وہ گویا ہوئی:’’عزیزانِ محترم! ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان تمام تاریخی سانحات سے سبق لیں۔ آج پاکستان اپنی تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ ہمیں من حیث القوم اس کو بچانا ہے اور اس کے لیے تبدیلی کا سفر اپنی ذات سے شروع کرنا ہوگا۔‘‘
ہانیہ ابھی اختتامی کلمات ادا کررہی تھی کہ اچانک آڈیٹوریم کے دروازے پر کچھ دھماکا سا محسوس ہوا۔ ہانیہ کی گھبرائی نگاہیں اوپر کو اٹھیں لیکن وہ کچھ سمجھ نہ پائی۔ شور، چیخ و پکار، گولیوں کی تڑتڑ، بھاری بوٹوں کی آوازیں۔ ہر طرف ہاہاکار مچی تھی۔ لمحوں میں آڈیٹوریم کی حالت بدل گئی۔
اچانک ہانیہ کو اپنے شانے کے قریب گرم لوہے کی سیخ چبھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ دماغ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔ اس نے ڈائس پر اپنے خون کو گرتے دیکھا تھا۔ کندھے کے قریب بہت تکلیف محسوس ہورہی تھی۔ اچانک اسے اپنے دائیں جانب سے آواز آئی۔۔۔ بہت مانوس سی، شاید بابا جانی کی، ہاں بابا جانی اسے پکار رہے تھے ’’ہنی پرنسس‘‘۔ وہی محبت بھرا انداز!
یہ آخری آواز اس نے سنی تھی، پھر اس پر تاریکیاں حاوی ہوتی چلی گئیں۔
عبدالصمد خان صاحب اور عبدالاحد خان اپنے بیٹوں کے ساتھ آرمی پبلک اسکول کے آڈیٹوریم میں کھڑے تھے، ہر طرف خون کی مہک پھیلی ہوئی تھی، کرسیاں اوندھی پڑی تھیں۔
چلتے چلتے وہ ڈائس تک پہنچ گئے تھے، انہیں بتایا گیا تھا کہ ان کی لاڈلی پرنسس یہیں ڈائس پر کھڑی تھی جب۔۔۔
آج صبح ہی کی تو بات ہے، فقط 6 گھنٹے پہلے کی، جب نکلتے وقت اس نے بابا جانی کا ہاتھ چوم کر اپنی کامیابی کی دعا کے لیے کہا تھا، اور جب انہوں نے اسے تنگ کرنے کے لیے دعا سے منع کردیا تھا تو کتنے وثوق سے کہنے لگی تھی:
’’میں جانتی ہوں بابا جانی! آپ کی دعائیں میرے ساتھ ہیں‘‘۔
اور وہ مسکرا اٹھے تھے۔
اسے کیا معلوم تھا کہ کامیابی تو اس کے لیے لکھی جا چکی ہے، ابدی زندگی کی کامیابی۔ عبدالصمد صاحب نے اپنی آنکھوں کو صاف کیا اور آگے عبدالاحد خان کی جانب چل پڑے جو ہانیہ کی چیزوں کو تحویل میں لے رہے تھے۔
nn

حصہ