(مھک (ابر سعدی

282

حضورِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں
گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامۂ زمانہ ہُوا
جہاں سے باندھ کے رختِ سفر روانہ ہوا
قیودِ شام و سحر میں بسر تو کی لیکن
نظامِ کہنۂ عالم سے آشنا نہ ہوا
فرشتے بزمِ رسالتؐ میں لے گئے مجھ کو
حضورِ آیۂ رحمتؐ میں لے گئے مجھ کو
کہا حضورؐ نے، اے عندلیبِ باغِ حجاز!
کلی کلی ہے تری گرمیِ نوا سے گداز
ہمیشہ سرخوشِ جامِ وِلا ہے دل تیرا
فتادگی ہے تری غیرتِ سجودِ نیاز
اُڑا جو پستیِ دنیا سے تُو سوئے گردوں
سکھائی تجھ کو ملائک نے رفعتِ پرواز
نکل کے باغِ جہاں سے برنگِ بُو آیا
ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تُو آیا؟
حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملتی
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی
ہزاروں لالہ و گُل ہیں ریاضِ ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بُو، وہ کلی نہیں ملتی
مگر میں نذر کو اِک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے، جنت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے تری اُمت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اِس میں
گراں: بھاری۔ ہنگامۂ زمانہ: زمانے کی تکالیف، علامہ نے یہ نظم 1911ء میں جنگِ بلقان کے موقع پر بادشاہی مسجد لاہور میں پڑھی تھی۔ رختِ سفر: سفر کا سامان، زادِ راہ۔ قیودِشام و سحر: صبح و شام کی قید۔ نظام کہنہ عالم: دنیا کا پرانا نظم و نسق۔ حضور آیۂ رحمتؐ: رحمت کی نشانی حضور پاکؐ کی خدمت میں۔ عندلیب: بلبل، شاعر۔ باغِ حجاز: عرب کا باغ، اسلام کاباغ۔ گرمیِ نوا: عشق کی حرارت سے بھری شاعری۔ گداز: نرم۔ سرخوش: بہت خوشی۔ جامِ ولا: محبت کا پیالہ (حضور اکرمؐ کی محبت)۔ فتادگی: عاجزی۔ سوئے گردوں: آسمان کی طرف۔ رفعتِ پرواز: پرواز کی بلندی، بلند اڑنا، شاعری کا تخیل پرواز۔ دہر: زمانہ، دنیا۔ آسودگی: آرام۔ لالہ و گل: لالہ اور گلاب کے پھول، انسان۔ ریاضِ ہستی: کائنات کے باغ میں، دنیا میں۔ وفا کی: عہد نبھانے کی۔ بو: خوشبو۔ کلی: انسان۔ آبگینہ: شیشہ، آئینہ۔ آبرو: عزت۔ طرابلس: 1911ء میں اٹلی نے ترکی پر حملہ کردیا تھا اور بے شمار ترک باشندے شہید ہوگئے تھے۔
(سابق ہندوستانی سیکریٹری خارجہ جے این ڈکشٹ کی کتاب سے ایک اقتباس، جو انھوں نے جولائی 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اپنے اوّلین دورے کے بارے میں تحریر کیا تھا۔ ڈاکٹر جنید احمد نے یہ اقتباس اپنی کتاب Creation of Bangladesh: Myths Exploded میں اپنے تمہیدی کلمات سے پہلے نقل کیا ہے۔ اس کتاب کی تقریب رونمائی آج 16 دسمبر کو میریٹ ہوٹل کراچی میں ہورہی ہے۔)
4جولائی 1974ء کو بھٹو ڈھاکا پہنچے۔ سڑکوں کے دونوں طرف کھڑے ہوئے جم غفیر کے درمیان سے مَیں سڑک سے ہوتا ہوا ڈھاکا ایئرپورٹ کی طرف جارہا تھا۔ مجمع بنگلہ دیش پاکستان میتر (دوستی) زندہ باد اور ذوالفقار علی بھٹو زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا۔ تمام سفارت خانوں کے سربراہان ان کے استقبال کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ بھٹو پاک فضائیہ کے ایک خصوصی ہوائی جہاز میں ڈھاکا پہنچے تھے۔ استقبالیہ قطار میں صدر بھٹو جب میرے پاس پہنچے تو میرا اُن سے تعارف کرایا گیا۔ مجھ سے مصافحہ کرتے ہوئے وہ شیخ مجیب الرحمن کی طرف مڑے اور کہا: ’’تو یہ صاحب اس ملک کی نمائندگی کررہے ہیں جس نے 1971 ء میں برصغیر کے نقشے کو دوبارہ تبدیل کیا ہے‘‘۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے انھوں نے کہا: ’’ہوسکتا ہے کہ آپ مسئلہ کشمیر کو حل کرکے جو ایک طویل مدت سے التوا میں پڑا ہوا ہے، برصغیر کے نقشے کو ایک مرتبہ پھر تبدیل کرنے میں ہماری مدد کریں۔‘‘
ہوائی اڈے سے واپسی کا سفر میرے لیے سیاسی اور جذباتی طور پر ایک تکلیف دہ تجربہ تھا۔ موٹر گاڑیوں کا جلوس جوں جوں آگے بڑھ رہا تھا سڑکوں کے دونوں طرف کھڑے ہوئے ہجوم کے جوش و جذبے میں تیزی آتی جارہی تھی، اور وہ بھٹو اور پاکستان کی حمایت میں زوردار نعرے لگا رہے تھے۔ مجھے بعد میں بتایا گیا کہ لوگوں نے ایوانِ صدر جاتے ہوئے واپسی پر شیخ مجیب الرحمن کی کار پر جوتوں کے ہار بھی پھینکے، بھارتی جھنڈا بردار میری کار کو بھی ہجوم نے نقصان پہنچایا اور بھارتی پرچم کی بے حرمتی کی، بھارتی ہائی کمیشن اور بھارتی حکومت کے خلاف نعرے بھی لگائے گئے۔
میں اعتراف کرنے پر مجبور ہوں کہ جب میں اپنے دفتر واپس پہنچا اور آج کی بھٹو کی استقبالیہ تقریب کے بارے میں اپنی حکومت کو تار روانہ کرنے کے لیے رپورٹ لکھنے بیٹھا تو میری آنکھوں میں بے بسی اور غصے کے آنسو تھے۔
ترجمہ و انتخاب: محمود عالم صدیقی

حصہ