عامر نے جب فرزانہ کو ملازمت ملنے کی خوشخبری سنائی تو خوشی سے اُس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ ’’اے رب العزت تیرا کرم ہے، بے شک تُو ہی رزق دینے والا ہے، تیرے مجھ پر لاتعداد احسانات ہیں۔ عامر آپ بھی شکرانے کے نفل پڑھیے گا، میں نے تو اُس دن بھی پڑھے تھے جس دن آپ کو انٹرویو کے لیے بلایا گیا تھا۔‘‘
عامر: ’’ہاں یار! اللہ کا شکر ہے، مجھے تو امید ہی نہیں تھی۔‘‘
فرزانہ: ’’اللہ سے ناامیدی کفر ہے، مجھے تو اپنے رب پر پورا توکل تھا۔ اب یہی دیکھو، ملازمت نہ تھی لیکن ہم کبھی بھوکے تو نہیں سوئے، جیسے تیسے دال روٹی چل رہی تھی۔ بچوں کی فیس بھی نکل رہی تھی۔ کسبِ حلال میں بڑی برکتیں ہیں۔‘‘
عامر: ’’ہوں۔۔۔ مجھے تو خود بھی بڑا تعجب ہے، دو سال سے اسی طرح ہماری گزربسر ہورہی تھی۔‘‘
فرزانہ: ’’ہاں اللہ کا شکر ہے، کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہیں آئی۔ اور ہاں اس خوشخبری میں، مَیں یہ تو آپ کو بتانا بھول ہی گئی کہ جس اسکول میں مَیں نے اپلائی کیا تھا انہوں نے پیر کے دن بلایا ہے، دعا کرو کامیابی ہو۔‘‘
عامر: ’’اب تمہیں ملازمت کی کیا ضرورت ہے؟ اچھی ملازمت ہے میری، اللہ مالک ہے۔‘‘
فرزانہ: ’’بے شک اللہ مالک ہے، لیکن آگے بچوں کی اعلیٰ تعلیم؟ اور پھر اب اگست میں چھوٹی کا بھی تو ایڈمیشن ہوگا۔‘‘
عامر: ’’اس ملازمت میں کمائی کے مواقع۔۔۔۔۔۔‘‘
فرزانہ: ’’نہیں عامر، ایسی کوئی غلط بات مت کیجیے گا (فرزانہ شوہر کا مطلب سمجھ گئی) رزقِ حلال حاصل کرنے کے احکامات اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں پر پہنچائے ہیں۔‘‘
عامر: ’’اوہو۔۔۔ کیسی دقیانوسی باتیں کرنے لگیں تم۔۔۔ لگتا ہی نہیں ہے تم پڑھی لکھی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان سے ہو۔‘‘
فرزانہ: ’’عامر! یہ آگہی مجھے میری تعلیم نے ہی دی ہے، ’’دینی تعلیم‘‘ نے۔۔۔‘‘
عامر: ’’تو کیا ہم اس روکھی پھیکی تنخواہ میں سسک سسک کر جئیں گے؟ اور ہمارے بچے۔۔۔ ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ آج کل تو سبھی یہ کررہے ہیں اور ہر جگہ ایسا ہی چل رہا ہے۔ یہ بڑی بڑی کوٹھیاں، گاڑیاں، کارخانے، عیش و عشرت کیا حلال کی کمائی سے ممکن ہیں؟‘‘
فرزانہ: ’’عامر! مجھے آپ کی بات سن کر نہایت افسوس ہورہا ہے۔ بے شک ہمارے چاروں طرف یہی کچھ ہورہا ہے، لیکن آپ اُن 40 ،45 فیصد لوگوں کی تقلید کیوں نہیں کررہے جو کسب حلال کے لیے کوشاں ہیں، اور ان میں سے اکثر خوشحالی کی بھی زندگی گزار رہے ہیں۔ کسب حلال میں ہی برکت ہے، سکون ہے اور دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔ آپ۔۔۔ آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ اس گھر میں ایک پیسہ بھی حرام نہیں لائیں گے۔ ان شاء اللہ میری ملازمت بھی لگ جائے گی، اللہ برکت دے گا، دیکھیے گا کہ اللہ آپ کو کیسے انعامات سے نوازے گا۔‘‘
عامر: ’’اچھا اچھا دیکھا جائے گا، خود بھی مشکل میں زندگی گزارو گی اور میں بھی۔ اچھی خاصی مایا کو دھتکارو گی۔ ملازمت، گھرداری، بچوں کی پرورش۔۔۔ دیکھنا خود ہی بیزار ہوجاؤ گی، تھک جاؤ گی۔‘‘
فرزانہ: ’’نہیں۔۔۔ آپ نے ان پانچ چھے سالوں میں مجھے نہیں پہچانا۔ میں روکھی سوکھی کھا کر خدا کا شکر بجا لانے والوں میں سے ہوں۔ نہ کھا کر بھی کبھی آپ سے شکوہ نہ کیا۔ آپ بتائیں ان پانچ چھ سالوں میں آپ سے ایک لپ اسٹک کی بھی فرمائش کی؟ نہ میں اُن عورتوں میں سے ہوں جو دنیا میں ڈھنڈورا پیٹتی ہیں اور شوہر کے بارے میں شکوہ کرتی پھرتی ہیں۔ ایسی عورتیں اللہ کی ناراضی مول لیتی ہیں۔ میں تو اللہ کی رضا میں راضی رہنے والوں میں سے ہوں اور اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ اللہ نے صحت، تندرستی، عقل، ذہن اور سمجھدار اولاد سے نوازا۔۔۔ شوہر کی وجہ سے معاشرے میں تحفظ اور عزت فراہم کی۔۔۔ سر چھپانے کے لیے ٹھکانہ دیا۔ ہر چیز سے تو مالامال کردیا ہے اس رب نے مجھے۔‘‘
عامر: (مسکراتے ہوئے) ’’یہ تو بات ہے تم میں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔
فرزانہ کو گرچہ ملازمت کرنے سے سخت محنت کا سامنا کرنا پڑرہا تھا مگر وہ خوش تھی کہ اس طرح آمدنی میں اضافہ بھی ہوگیا ہے اور اسے سکون بھی تھا کہ عامر سے وہ اپنی پہلی فرمائش (رزقِ حلال) پوری کروانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ لیکن اکثر عامر کسی عزیز، رشتہ دار کے بہکاوے میں آجاتا اور فرزانہ پر ناراضی کا اظہار کرتا رہتا تھا۔ لیکن فرزانہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو ایشو بنانے والوں میں سے نہ تھی، بلکہ ہر طرح سمجھوتا کرنے والی خاتون تھی۔
۔۔۔۔۔۔
فرزانہ: ’’یہ لیجیے کسبِ حلال کا پہلا انعام۔‘‘
عامر: ’’یہ ۔۔۔ یہ کیا ہے؟‘‘
فرزانہ: ’’آج دونوں بچوں کا رزلٹ تھا۔ عمر کی اپنی کلاس میں پوزیشن آئی ہے، اس لیے اسے اسکالرشپ دی گئی ہے، اس کی فیس معاف کردی گئی ہے۔‘‘
عامر: ’’واہ۔۔۔ زبردست۔۔۔ یعنی دہری خوشی‘‘ (بیٹے کو بلا کر چمکارتے ہوئے پیار کیا)۔
فرزانہ: ’’یہ تو میرے رب کا وعدہ ہے، وہ کسب حلال میں برکتیں دیتا ہے۔ آیا آپ کو یقین!‘‘
عامر: ’’بے شک۔۔۔ بے شک۔‘‘
آنے والے وقت میں عامر نے خود دیکھا کہ اللہ بہانے بہانے سے انہیں نوازتا جا رہا ہے۔ کبھی عامر کی پروموشن، تو کبھی فرزانہ کی ترقی۔۔۔ آمدنی میں اضافہ ہوتا گیا۔
فرزانہ: ’’اکرام بھائی! یہ لیجیے چائے۔ شامی کباب بھی لیجیے ناں۔‘‘
اکرام بھائی: ’’اور کیسی چل رہی ہے آپ کی ملازمت؟‘‘
فرزانہ: ’’زبردست، الحمدللہ۔‘‘
اکرام بھائی: ’’ویسے بھابھی برا مت مانیے گا، عامر بھائی کی ’’اتنی اچھی، زبردست‘‘ ملازمت ہے، لوگ ایسی ملازمت اور ’’موقعوں‘‘ کے لیے ترستے ہیں، آپ خود بھی خوار ہورہی ہیں اور عامر بھائی۔۔۔‘‘
فرزانہ: (ہنس کر) ’’اکرام بھائی! رزقِ حلال حاصل کرنا ’’خواری‘‘ نہیں ’’عبادت‘‘ ہے۔‘‘
اکرام بھائی: ’’آپ خود دیکھیں آپ کو کیا حاصل ہے؟ آپ کا دل نہیں چاہتا گھر بیٹھ کر آرام سے عیش کریں، کھائیں، پئیں، گاڑی میں گھومیں، اچھا سا بڑا گھر ہو۔‘‘
فرزانہ: ’’میرے لیے یہی کافی ہے کہ میرا رب مجھ سے راضی رہے اور میرے دل کو سکون حاصل رہے۔‘‘
اکرام بھائی: ’’سکون؟ سارا دن مغز ماری، کولہو کے بیل کی طرح کام۔۔۔ یہ سکون ہے! اور مجھے تو عامر بھائی پر حیرانی ہوتی ہے۔ آپ کو پتا ہے عامر بھائی وہ ہمارا پڑوسی شوکت۔۔۔ وہ بھی آپ کے محکمے میں ہے۔ دو دوگاڑیاں، بنگلہ۔۔۔ کیا کچھ اس نے نہیں بنایا!‘‘
عامر: (جو خاصی دیر سے اپنے کزن کی باتیں سن رہا تھا، گویا ہوا) ’’یار کیا باتیں لے کر بیٹھ گئے ہو۔ فرزانہ خوش ہے، اللہ کا شکر ہے، بہت سوں سے اچھی زندگی گزر رہی ہے۔‘‘
فرزانہ: ’’ہاں اکرام بھائی! ہم بہت سکون سے ہیں، ویسے بھی نفس کے غلام ہوکر جینا اور اپنی خواہشات کو بے لگام چھوڑنا ایسی خصلتیں ہیں جن کی بدولت انسان بے سکون ہی رہتا ہے۔ وہ نہ آس پاس کے رشتوں سے مطمئن رہتا ہے اور نہ ہی اپنے رب سے۔ خوب سے خوب ترکی تلاش میں دنیا و آخرت گنوا بیٹھتا ہے، پھر وہ صرف نفس کا غلام ہی بن کر جیتا ہے۔ اس لیے ہم اپنے نفس کو رب العالمین کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اللہ نے بھی اپنا وعدہ پورا کیا ہے، آخرت میں بھی اس کا اجر دے گا۔‘‘
اکرام بھائی: (بڑے طنزیہ انداز میں) ’’آپ نے لگتا ہے۔۔۔ کہیں دینی مدرسہ تو جوائن نہیں کرلیا!‘‘
غرض کہ شیطان نے انہیں مختلف طریقوں سے گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ دنیا کی چمک دمک، آس پاس رہنے والوں کی پُرآسائش زندگیاں، جنہیں دیکھ کر انہیں اپنے نفس پر جبر کرنا پڑتا۔ بچوں کو بھی فرزانہ نے یہی تعلیم دی۔ الحمدللہ بچے بھی لائق اور صبر و شکر کرنے والے ہوگئے اور والدین کے ساتھ بخوشی تعاون کرنے لگے۔ اس رزقِ حلال میں سے فرزانہ باقاعدگی سے حسب حال ضرورت مندوں کا حصہ بھی نکالتی۔ بے شک جو بندہ اللہ کی رضا کی خاطر اللہ کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی ڈھالتا ہے، رب بھی اس کو بیچ منجدھار میں ڈوبنے کے لیے نہیں چھوڑتا۔ اس کے راستوں کے کانٹوں کو اس سے دور کرتا ہے، اسے سکونِ قلب و صحت سے نوازتا ہے، اس کی دعائیں قبول کرتا ہے، اس کی اولاد کو نیک، صالح اور فرماں بردار کرتا ہے، اولاد کو اس کے لیے آئندہ زندگی کے لیے صدقۂ جاریہ بناتا ہے۔
انہی تمام انعامات سے اللہ تعالیٰ نے اس خاندان کو بھی نوازا۔
رب العزت کے حکم کے مطابق حلال روزی حاصل کرنا نیکی ہے۔ یعنی روزی حاصل کرنے کے لیے ایسے ذرائع استعمال کرنا جن میں کوئی کام شریعت کے خلاف نہ ہو مثلاً رشوت، سود یا کسی کا حق مار کر مال جمع کرنا، یا ناپ تول میں کمی کرنا، جھوٹ بول کر مالِ تجارت بیچنا وغیرہ۔ غرض کہ رزق اور روزی کے لیے کوئی بھی ذریعہ استعمال کریں، اس میں دیانت داری لازمی ہے۔ اور ہر قدم پر اپنے رب کو راضی رکھنا لازمی ہے۔ پھر اپنی عبادتوں سے بھی غافل نہیں ہونا۔ اور جو رزق کمایا جا رہا ہے اس کو بھی رب کے احکامات کے مطابق خرچ کرنا ضروری ہے۔
حضرت عمرؓ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایمان دار، حلال پیشہ کرنے والے سے محبت کرتا ہے۔
ایک دوسری حدیث کا مفہوم ہے کہ اللہ کی عبادت فرض ہے، اس کے بعد حلال کمائی کی طلب فرض ہے۔
ترمذی شریف کی حدیث مبارکہ ہے کہ آپؐ نے فرمایا: تاجر سچا، امانت والا قیامت کے دن صدیقوں، پیغمبروں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔
حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: قیامت کے روز کسی شخص کے قدم (مقامِِ حساب سے) ہٹنے نہیں پائیں گے جب تک اس سے پانچ باتیں نہ پوچھ لی جائیں گی۔ ان پانچ میں سے دو یہ ہیں:
(1) کہاں سے کمایا (2) کہاں خرچ کیا (مشکوٰۃ شریف)۔ اسی طرح صحیح مسلم شریف میں ہے، آپؐ نے جب اس شخص کا ذکر کیا کہ ’’لمبا اور طویل سفر کرتا ہے۔ بال پراگندہ اور جسم غبار آلود ہوتا ہے، ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے، یارب، یارب پکارتا ہے لیکن اس کا کھانا حرام کا اور اس کا پینا حرام کا، اور اس کا لباس حرام کا، اور اس نے پرورش پائی حرام سے، تو اب کیسے اس کی دعا کو قبولیت کا شرف حاصل ہو!‘‘ اسی طرح حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ میں نے آپؐ سے کہا کہ آپؐ میرے لیے دعا فرمائیں کہ میری ہر دعا اللہ کے یہاں مقبول ہو، تو آپؐ نے فرمایا: ’’انس اپنی کمائی کو پاکیزہ بنا، پھر تیری دعائیں قبول ہوں گی‘‘۔ آپؐ نے فرمایا ’’جنت میں داخل نہ ہوگا وہ جسم جس نے پرورش پائی حرام سے‘‘۔
مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں رزقِ حلال کی فضلیت واضح ہے۔
دنیا میں بھی اس کا اجر اور آخرت میں بھی اجرِ عظیم ہے۔
nn