(مقصد حیات کرن (نعمان

261

بامقصد زندگی کی مثال سپرایکسپریس ٹرین سے دی جاسکتی ہے جو کہ چھوٹے چھوٹے اسٹیشن پر رکے بغیر صرف اپنی منزل پر اور اپنے طے شدہ وقت پر پہنچتی ہے۔ اس کے راستے میں دل فریب مناظر کا ایک طویل سلسلہ ہے‘ پر تیز دوڑتی ٹرین کو ان خوش نما مناظر سے کوئی دل چسپی نہیں اور بلندی‘ خشکی اور پانی اس کی رفتار میں کوئی فرق پیدا نہیں کرتے۔ وہ اسی طرح بھاگی چلی جاتی ہے گویا اسے کہیں ٹھیرنا ہی نہیں ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسے افراد کی کمی ہے جو اپنی زندگی میں کسی مقصد کا تعین کرتے ہیں اور پھر اپنی زندگی کو اس مقصد کو پانے کے لیے فعال بناتے ہیں۔
اکثر و بیشتر اس دنیا میں آنے والے انسان یہ جان ہی نہیں پاتے کہ انہیں دنیامیں بھیجا کیوں گیا ہے۔ کھانا پینا‘ سونا جاگنا‘ تفریح کرنا اور اپنے بڑھاپے کو سہل کرنے کے لیے بہتر کمانا ہی ان کا مقصدِ حیات بن کر رہ جاتا ہے۔ کچھ انسان کمانے کے عمل میں بڑھاپے سے پہلے ہی گزر جاتے ہیں اور کچھ جو بڑھاپے کو پہنچتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ ہمیں جو اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا گیا ہے تو اس کا صرف یہی مقصد نہیں ہوسکتا یقیناًکوئی بڑا مقصد تھا جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھیجا تھا پر اس وقت تک انسان اپنی طاقت اور رعنائیاں کھو چکا ہوتا ہے ایسے وقت میں مایوس اور ناامیدی اس کے دامن گیر ہوجاتی ہے اور وہ اپنی خامیوں اور کمی کو پردے میں لپیٹ کر ان کا ذمے دار کبھی والدین اور کبھی معاشرے میں ساتھ رہنے والے دوسرے‘ تیسرے افراد کو ٹھیراتا ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ایسے انسانوں کے اندر سے ان مایوسیوں اور ناامیدی کو باہر نکال پھینکا جائے‘ انہیں اس بات کا احساس دلایا جائے کہ ان کی زندگی کا ہر لمحہ قیمتی ہے اور اہم ہے اگر وہ حیات ہیں تو پھر خواہ وہ کسی عمر میں بھی ہوں اپنا مقصدِ حیات متعین کرسکتے ہیں۔
زندگی کو بامعنی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے سامنے ایک سوچا ہوا نشان ہو جس کی صداقت پر اس کا ذہن مطمئن ہو پوری عمر انسان کا اور انسان کی چھپی ہوئی محفوظ قوتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد عظیم نفسیات دان الفریڈ ایڈلر نے اعلان کیا کہ ’’انسانی شخصیت کی خصوصیات میں سے ایک حیرت ناک خصوصیت اس کی یہ صلاحیت ہے کہ وہ ایک نہیں کو ایک ہے میں تبدیل کرسکتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کو انتہائی غیر معمولی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے ان صلاحیتوں کی آخری حد یہ ہے کہ انسان تاریکی میں بھی روشنی کا پہلو دیکھ لیتا ہے۔ وہ ناموافق حالات کو موافق حالات میں تبدیل کرسکتا ہے جب اس کی بازی کھو گئی ہو اس وقت وہ دوبارہ اپنے لیے نیا میدان تلاش کر لیتا ہے یہ ضروری ہے کہ انسان کا مقصد اللہ کے بنائے ہوئے مقصد سے ہم آہنگ ہو۔ ہمارا ذاتی مقصد زندگی کی آسودگی ہوسکتا ہے لیکن اجتماعی مقصد ذاتی سفر کی کامیابی کے علاوہ ایک ملی سفر کے سرانجام دینے کا نام بھی ہے اگر ذاتی مقصد ملی مقصد سے متصادم ہو تو بھی بے معنی اور دینی مقصد سے مختلف ہو تو بھی بے مقصد۔
لہٰذا زندگی کا مقصد تجویز کرنے سے پہلے فکر اور تدبر سے کام لینا ضروری ہے ورنہ ذاتی کامیابیاں ہی اجتماعی ناکامی کا باعث ہوسکتی ہیں۔ خالی ترقی ایک ایسے جہاز کی طرح ہے جو پانی پر تیرتا ہے لیکن اسے یہ معلوم نہیں کہ جانا کہاں ہے۔۔۔ بے سمت ترقی بے معنی سفر ہے۔ مقصد کا انتخاب کرتے وقت صرف یہی نہیں دیکھنا کہ پیسہ کیسے بنایا جائے بلکہ یہ بھی سوچنا ہے کہ اس ملک و قوم کی خدمت کیسے کی جائے اور اس چند روزہ زندگی میں اپنے مالک کو کس طرح خوش رکھا جائے ۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے رہبانیت پر اجتماعیت کو ترجیح دی اور لوگوں تک خوشی پہنچانے اور ان کی فلاح و بہبود کے کاموں کو اپنی خوشی قرار دیا ہے تو بس ایسی زندگی گزارنی چاہیے کہ ہم بھی خوش رہیں ملک کو بھی عروج حاصل ہو اور ہمارا رب بھی راضی رہے۔ درحقیقت رضائے الٰہی ہی عظیم مقصدِ حیات ہے۔

حصہ