(سید احمد شاہ پطرس بخاری (محمد فاروق اختر

443

پاکستان میں مزاحیہ ادب کے حوالے سے جائزہ لیں تو چند نامور مزاح نگاروں کی فہرست میں سید احمد شاہ پطرس بخاری کا نام نمایاں نظر آتا ہے۔ آپ یکم اکتوبر 1898ء کو پشاور میں پیدا ہوئے‘ ابتدائی تعلیم پشاور میں حاصل کرنے کے بعد 1916ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا جہاں سے آپ نے 1922ء میں انگریزی میں ایم اے کیا اور پھر اسی کالج میں لیکچرار کی حیثیت سے ملازمت اختیار کرلی جو 1925ء تک جاری رہی۔
1925ء میں انگریزی ادب کی اعلیٰ تعلیم کے لیے آپ برطانیہ چلے گئے اور وہاں کی کیمبرج یونیورسٹی سے نمایاں حیثیت میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1927ء میں دوبارہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے لگے اور یہ سلسلہ تقریباً1939ء تک جاری رہا۔ اسی سال آل انڈیا ریڈیو میں ایک اعلیٰ عہدے پر شمولیت اختیار کی۔ 1941ء میں آپ کو آل انڈیا ریڈیو کا ڈائریکٹر جنرل بنا دیا گیا۔ (واضح رہے کہ پطرس بخاری کے بھائی جناب زیڈ اے بخاری پاکستان میں ریڈیو کے حوالے سے ایک اعلیٰ پائے کی شخصیت تھے) 1947ء میں قیام پاکستان سے کچھ عرصے قبل آپ پھر سے گورنمنٹ کالج لاہور میں آگئے اور اس دفعہ آپ کی تعیناتی بطور پرنسپل کے ہوئی۔
پطرس گورنمنٹ کالج لاہور میں جب لیکچرار کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے‘ اسی دوران کالج کے ادبی مجلہ ’’راوی‘‘ کے مدیر بھی رہے اور ایک مستند ادیب کی حیثیت سے منظر عام پر آئے۔ اپنے شاہکار مضامین بھی اسی دوران لکھے جو 1927ء میں ’’پطرس کے مضامین‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے جنہوں نے آپ کا نام مزاح نگار کی حیثیت سے اونچے مقام پر پہنچا دیاؤ اس کلتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1927ء سے لے کر اب تک اس کتاب کے درجنوں ایڈیشن پاکستان اور انڈیا میں شائع ہوچکے ہیں۔ ان کی چند ایک مضامین کو حکومت پاکستان نے طلبہ کی نصابی کتب میں بھی شامل کیا ہے۔ آپ پنجاب کی ٹیکسٹ بک کمیٹی میں بھی شامل رہے ہیں۔ اردو ادب کے علاوہ آپ نے انگریزی ادب بھی تخلیق کیا ہے جس کی تصفیل اس مختصر مضمون میں شامل نہیں کی گئی ہے۔
آپ نے اپنے پرائمری اسکول پشاور کے ہیڈ ماسٹر پیٹر واٹکنس (Peter Watkins) کے احترام میں انگریزی ادب میں اپنا تخلص ’’پیٹر‘‘ رکھا اور اردو ادب میں ’’پطرس‘‘ (Patras) جو کہ یونان کے ایک تاریخی شہر کا نام بھی ہے۔
آپ کی شادی 1923ء میں کشمیری گھرانے کی ایک خاتون ساتھ ہوئی جس سے ان کی تین اولادین ہوئیں‘ ایک لڑکی اور دو لڑکے۔
قارئین کے لیے یہ بات دل چسپی سے خالی نہ ہوگی کہ ڈاکٹر علامہ اقبال نے پطرس بخاری کی شخصیت کے بارے میں ایک نظم بعنوان ’’ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام‘‘ لکھی تھی جو ان کے مشہور زمانہ مجموعہ کلام ’’ضربِ کلیم‘‘ میں شامل ہے۔ یہ نظم اس دور میں لکھی گئی جب پطرس کیمبرج یونیورسٹی سے انگریزی ادب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1927ء میں متحدہ ہندوستان واپس آئے۔
جناب پطرس بخاری نے حکومت پاکستان کے لیے اہم خدمات انجام دی ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم جناب لیاقت علی خان شہید نے جب 1950ء میں امریکا کا دورہ کیا تو ان کے وفد میں پطرس بخاری بھی شامل تھے۔ آپ 1951ء سے 1954ء تک اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل مندوب رہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل مسٹر ڈاگ ھیمر شولڈ جناب پطرس بخاری کی غیر معمولی فراست اور اعلیٰ کارکردگی سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ انہوں نے 1954ء میں جناب پطرس کو اقوام متحدہ کے شعبۂ اطلاعات کا سیکرٹری جنرل منتخب کروایا۔ ان کی یہ ذمے داریاں 1959ء میں ختم ہونی تھیں اور اس کے بعد ان کو کولمبیا یونیورسٹی کی آفر کے تحت (جس کی منظوری بھی وہ دے چکے تھے) انگریزی ادب کے پروفیسر کی حیثیت سے ان کی زندگی نے ان کے ساتھ وفا نہ کی اور وہ 5 دسمبر 1958ء کو نیویارک میں داعی اجل کو لبیک کہہ کر اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ پاکستان کی یہ عظیم ہستی نیویارک کے ایک قبرستان میں محو استراحت ہے۔
پطرس کی زندگی اور ان کے کارناموں پر بہت کچھ لکھا گیا ہے جس میں سے چند ایک کتابوں کے نام یہ ہیں:
-1 پطرس حیات اور کارنامے (مصنفہ: میمونہ وحید)
-2 پطرس کے نثری افکار (مصنفہ: شیبا مجید)
-3 On this Earth Together
(مصنف: انوردل)

حصہ