سانحہ حویلیاں یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

258

زندگی حادثوں سے ہی عبارت ہے، مگر کچھ حادثے قومی سوگ بن جاتے ہیں۔ تادم تحریر چوبیس گھنٹے ہوچکے ہیں PK661 طیارے کے حادثے کو۔ الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا۔۔۔ ہر جگہ ایک ہی چرچا ہے۔ اسی سانحے کی تصاویر، وڈیوز۔۔۔ دو لوگ آپس میں مل رہے ہیں، وہی ایک موضوع۔۔۔ گھر میں آنے والی ماسیاں تک آبدیدہ۔۔۔ وہ سینتالیس افراد کئی ہزار خاندانوں کے نورِنظر تھے۔ کیسی صفِ ماتم بچھی ہوئی ہوگی اس وقت۔۔۔ جہاز کی تباہی کے وقت کی تیس سیکنڈ کی ایک آڈیو ہے، بچے بری طرح رو رہے ہیں۔ اس شور میں ماں، ماں کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ کوئی با آوازِ بلند کلمہ پڑھ رہا ہے۔ خوف اور سراسیمگی سے نکلتی ہوئی چیخیں ہیں۔ موت تو برحق ہے، روڈ ایکسیڈنٹ سے بھی ہوسکتی ہے۔۔۔ دو گاڑیاں ٹکرا جاتی ہیں، ٹرینیں پٹریوں سے اتر جاتی ہیں، نوجوان موٹر بائیک سے گر پڑتے ہیں، عمارتوں میں آگ لگ جاتی ہے اور غریب غرباء کی بستیوں اور فلیٹوں میں ہی نہیں ’’فائیو اسٹار ہوٹلوں‘‘ میں، جہاں لاکھوں روپے میں کمرے بک ہوتے ہیں اور ہزاروں روپے کا ایک ناشتا ہوتا ہے۔ جہاں ایک فرد کی ایک وقت کی چائے غریب کے گھر کے دس افراد کے کھانے پر بھاری ہوتی ہے، جو غریبوں کی خیالی جنتیں ہیں۔ کل ہی کی تو بات ہے اخبار میں تصاویر تھیں، خبریں تھیں جب کراچی کے معروف پانچ ستارہ ہوٹل سے ماؤں نے بچوں کو کھڑکیوں سے نیچے پھینکا، کسی ماں بیٹی نے حوض میں چھلانگ لگا دی، کچھ نے کئی منزلوں سے بغیر سوچے سمجھے چھلانگ لگا دی کہ دم گھٹنے سے بہتر ہے کہ ایک بار رسک لے لیا جائے۔ درجنوں زخمی، درجن بھر سے زیادہ پوش طبقے کے افراد جلنے، جھلسنے، دم گھٹنے سے اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ابھی ان کے لواحقین کے صدمے اور نوحے ہی اخبار کی شہ سرخیوں کی زینت تھے کہ ایک اور دل دہلا دینے والا سانحہ۔۔۔
اُس منظر کا تصور ذہن میں آجاتا ہے جب انجن خراب ہوچکا ہے، پہلے پہل مسافروں سے چھپایا گیا ہوگا، جب سب تدبیریں ناکام ہوگئی ہوں گی پھر جہاز کے عملے اور مسافروں کو پتا چلا ہوگا، تب جہاز لڑکھڑانے لگا ہوگا۔ تب اوپر کی بند درازیں یکبارگی جھٹکے سے کھلنے سے منوں سامان مسافروں پر گرنا شروع ہوا ہوگا۔ لڑکھڑاتا ہوا جہاز زمین کی طرف آرہا ہوگا کئی ہزار فٹ کی بلندی سے۔ یقینی موت سب کے سامنے، ہر ذی شعور کے سامنے اگلا منظر۔۔۔!!! جہاز زمین سے ٹکرائے گا، کئی ہزار لیٹر فیول جب آگ پکڑے گا۔۔۔ اور تب وہی ہوا جو ہم نے دیکھا۔ آدھی رات کو جو تصاویر شیئر کی جا رہی تھیں اُن میں سیاہ پہاڑیوں کے درمیان ٹمٹماتی روشنیاں، کچھ ملگجا سا اندھیرا، فوجی جوان، گٹھریوں میں بند انسانی اعضاء، دور دور تک پھیلے جہاز کے مختلف حصے، اور اتنی ہی دور تک پھیلے انسانی وجود۔ اپنے پیاروں کا آخری دیدار بھی شاید ہی کسی کو نصیب ہو۔ اس وقت فضا نے سوگ کی چادر اوڑھی ہوئی ہے۔ اس دردناک سانحے کی کم سے کم شدت بھی بہت زیادہ ہے۔ ہر انسانی جان قیمتی، ہر پاکستانی کی دردناک شہادت ایک المیہ، اور اگر کوئی ایسا فرد بھی بچھڑ جائے جس کو قوم اپنا سرمایا سمجھتی ہو تو یہ درد ناقابلِ بیان ہوجاتا ہے۔ کل شام سے اب تک ہر چینل پر جنید جمشید کی یادیں، ان کی باتیں، ان کی نعتیں، ان کے دروس، ان کے ٹی وی پروگراموں کی ریکارڈنگ۔۔۔ آج صبح کی نشریات پر اسٹوڈیوز سوگ کی چادر اوڑھے ہوئے۔۔۔ کل سہ پہر چترال سے جو شخص ایئرپورٹ پر خوش باش جہاز کے عملے کے ساتھ تصاویر بنواکر جہاز میں سوار ہوا، آج اسٹوڈیو کے سیٹ پر اس کی بڑی بڑی تصاویر لگی ہوئی تھیں، اس کی قد آدم تصاویر، جو اس کی زندگی کی کہانی کو بیان کررہی تھیں۔ بڑے بڑے علماء اور مفتی ان کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔ ان کے ساتھی فن کار، اداکار سب نم آنکھوں سے ان کی زندگی کے مختلف ادوار سے پردہ اٹھا رہے ہیں۔ ان کی اپنی رقت میں ڈوبی ہوئی آواز میں پڑھی گئی نعتیں ماحول کو مزید سوگوار کررہی ہیں۔
یوں تو ہر بچھڑنے والا ہی عظیم ہوجاتا ہے لیکن کبھی کبھی سچ مچ عظیم لوگ بھی بچھڑ جاتے ہیں۔ ایک فقرہ مختلف زبانوں سے بار بار میری سماعتوں سے ٹکرایا کہ ’’وہ ہمارے لیے رول ماڈل تھے‘‘۔ ہر گلوکار رول ماڈل نہیں ہوتا، ہر نعت خواں کے لیے بھی یہ عقیدت نہیں ہوتی، ہر عالم دین بھی دلوں میں وہ مقام نہیں رکھتا، ہر ایک مقرر اور دانشور بھی فاتح زمانہ نہیں ہوتا!!! ہم خوش ہوتے ہیں جب کوئی غیر مسلم دائرۂ اسلام میں داخل ہوتا ہے۔۔۔ مگر اس سے بھی بڑی بات یہ ہے جب کوئی مسلمان شعوری اسلام قبول کرلے۔ اگر دنیا کے سوا ارب مسلمان آج شعوری مسلمان ہوتے تو بیت المقدس قبضۂ یہود میں نہ ہوتا، روہنگیا کے مسلمان یوں کشتیوں میں ڈوب کر نہ مرتے، شام کے مسلمان یوں بے سروپا ہجرت پر مجبور نہ ہوتے، مقبوضہ کشمیر یوں وادئ لہو رنگ نہ ہوتا۔۔۔ خود مسلمانوں کا مسلمان ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ ہم نے مسلمانوں کو مسلمان ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے کہ وہ سابقہ لہوو لعب کی زندگی سے توبہ کرلیتے ہیں، عبادت کے پابند ہوجاتے ہیں، غریبوں، معذوروں کے اداروں کی مدد کرنے لگتے ہیں، کسی این جی او سے وابستہ ہوکر دین کی تبلیغ کرنے لگتے ہیں۔ ایک بات آپ نے محسوس کی ہوگی کہ جو لوگ دائرۂ اسلام میں شعوری طور پر داخل ہوتے ہیں وہ اپنا داعیانہ کردار بہت نمایاں رکھتے ہیں بہ نسبت اُن لوگوں کے جو پیدائشی مسلمان ہیں۔ کیونکہ اکثر پیدائشی مسلمان اپنے اسلام کو ویسی نعمت شمار ہی نہیں کرتے جیسی وہ لوگ جو کسی دوسرے مذہب کو پریکٹس کرنے کے بعد اسلام کی نعمت سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ عام مشاہدہ یہی ہے کہ وہ زیادہ اچھے اور عملی مسلمان ہوتے ہیں۔ اور حسبِ مقدور تبلیغ کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔
اس وقت میڈیا پر ہر جگہ ان کے شعوری مسلمان ہونے کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے، سیکڑوں لوگ یہ سب کہہ رہے ہیں اور کروڑوں لوگ یہ سب سن رہے ہیں اور ان کو اپنا ہیرو گردان رہے ہیں اور ان کے لیے دعائیں کررہے ہیں، لیکن ان کی گفتگو کے وہ کلپ جو بار بار چل رہے ہیں، کتنے لوگ ہیں جو ان کو سمجھ رہے ہیں، اور ان کی حادثاتی موت نے کتنوں کو ان کی وارفتگی میں اتنا شدید کردیا کہ وہ ان کے نقشِ قدم پر چلنے کو تیار ہوں؟ ان کی نعت ’’میرا دل بدل دے‘‘ کی ہر چینل پر بازگشت ہے، مگر کتنے دلوں نے بدلنے کی تیاری کی؟ بدلنا کیا ہے، کسی نے سوچا؟ کیا بدلنے کا یہ عمل ہر ایک کو پکار رہا ہے یا واقعی اپنی جگہ میں تو درست ہوں ضرورت ہے کہ باقی لوگ اپنا دل بھی بدلیں، دماغ بھی بدلیں، رہن سہن بھی بدلیں اور رویّے بھی بدلیں۔ تبدیلی ہم سب چاہتے ہیں مگر دوسروں کے اندر، سماج کے اندر، پارلیمنٹ اور عدلیہ کے اندر، حکمرانوں اور سیاست دانوں کے اندر، مگر اپنا آپ ’’جو ہے اور جیسا بھی ہے‘‘ ہمیں بہت عزیز ہے۔ ہمارا طرزِ زندگی جیسا بھی ہے ’’اوروں‘‘ سے بہتر ہے۔ ہماری اخلاقیات اور رویّے جیسے بھی ہیں اس گئے گزرے معاشرے میں دوسروں سے غنیمت ہی ہیں۔ فکر کا یہ انداز ہمیں اسی مقام پر کھڑا رکھتا ہے جس مقام پر ہم اب ہیں۔ ’’میرا دل بدل دے‘‘ مرحوم جنید جمشید کی آواز میں اس وقت ہر گھر میں سنی جا رہی ہے بشمول ان کی دوسری نعتوں کے، اور ان کے دنیا سے جانے کے بعد اس کی تاثیر ہر آنکھ کو نم کررہی ہے، مگر ہر دل کو بدلنے کا عندیہ پھر بھی نہیں دے رہی۔ یوں بھی سیرت کے جلسے، نعتوں کی محفلیں، میلاد کی تقریبات ہمارے روحانی سرور کے لیے ہی ہوتی ہیں۔
ایک چینل نے کچھ ماہ پیشتر ان سے کہا کہ ’’دل دل پاکستان‘‘ ایک بار پھر سنا دیں۔ تو اس مصرعے پر کہ ’’ایسی زمیں اور آسماں‘‘ کہہ کر وہ بے تحاشہ روتے رہے اور ان سے مصرع مکمل نہ ہوسکا۔ بلاشبہ اس لا الہٰ کے نام پر حاصل کی ہوئی زمین پر ہم نے کیا کچھ نہ کیا اور کیا کسر چھوڑ دی! جو شعوری طور پر اس مٹی سے اپنے رشتے کو سمجھتا ہے وہ یونہی آبدیدہ ہوجاتا ہے کہ قوم کے حکمران طبقے ملکی دولت کو لوٹ لوٹ کر آف شور کمپنیاں بنا رہے ہیں، وہ ہر قانون، ضابطے اور اخلاق سے بالاتر سمجھتے ہیں خود کو۔۔۔ وہ دولت سے انصاف، قانون، وفاداریاں، اثر رسوخ غرض ہر چیز خرید سکتے ہیں۔ ہر دردمند دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ اسی لوٹ کھسوٹ، دھوکا دہی اور لاقانونیت نے عام شہری کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ عدالتوں سے لے کر سڑکوں تک پر جو لاقانونیت ہے اس کی مثال دنیا میں ملنا مشکل ہے۔ قانون، اخلاق اور اصولوں کی پامالی ہمارے احساسِ برتری کے لیے وجۂ تسکین بنتی ہے۔ ہم ہوٹلوں کے کھانوں اور دوائیوں سے لے کر دودھ اور پانی تک ہر چیز میں ملاوٹ دیکھ رہے ہیں۔ فرائض سے غفلت، کرپشن اور قانون شکنی ہمارا قومی مزاج اور کردار بن چکے ہیں، مگر اس زمین کو فساد سے بھر کر پھر بھی ہم آسمانوں سے رحمتوں کے برسنے کی آس لگاتے ہیں۔ مگر وہ بندۂ خدا جو چترال سے سوار ہوکر اسلام آباد پہنچنے کے بجائے جنت کو سدھارا (ان شاء اللہ) وہ بلک بلک کر رو رہا ہے، اور ’’ایسی زمیں اور آسماں‘‘ کہہ کر دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا رہا ہے۔ اگر آج ملک کے چپے چپے پر لوگ اس شخص کی جدائی کو اپنا ذاتی نقصان سمجھ رہے ہیں تو یہ وہ گلوکار نہیں جو ’’تیرا تو رنگ گورا ہے‘‘ گا کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچا تھا۔ جس کے ہاتھ میں گٹار ہوتا تھا اور نوجوان تھرکنے لگتے تھے۔ بلکہ ہر شخص مبلغ دین جنید جمشید کی جدائی پر مغموم ہے، جس نے جب صداقت کو پہچانا تو اپنی زندگی، اپنی دولت، اپنی شہرت کسی چیز کی پروا نہ کی۔ اور اس راستے میں ساری کشتیاں جلا کر آیا اور قوم کے نوجوانوں کو یہ عظیم درس دیا کہ اللہ کے راستے میں سب کچھ لٹا دینے سے بھی خسارہ نہیں ہوتا، بلکہ جو شہرت اور دولت ہاتھ آتی ہے اس پر زمانہ رشک کرتا ہے۔ خود کو بدل کر وہ جنت تک پہنچنے کے لیے کسی ٹھنڈی سڑک کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ حق و باطل کے معرکے میں مجاہدانہ کردار ادا کرکے ایک مسلمان کے مقصدِ زندگی کی عملاً تشریح کرتے ہیں۔ یہ کسی شخص کے کردار کی کتنی لازوال گواہی ہے کہ ان کے ساتھی فنکار، گلوکار ان کے کردار کی عظمت کی گواہی دے رہے ہیں۔ دوسری طرف علماء کرام اس خواہش کا اظہار کررہے ہیں کہ ہمیں بھی ان کی جیسی موت نصیب ہو۔ وہ ایک تبلیغی دورے پر تھے۔ ملک اور بیرونِ ملک رات دن اسلام کی تبلیغ میں مصروف۔۔۔ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پرستی کو ختم کرنا ان کی زندگی کا بڑا مشن۔۔۔ اس کے لیے عملی کوششوں میں ہمہ وقت سرگرمِ عمل۔
بات اتنی سی تو نہیں کہ جو اچھے لوگ ہمارے درمیان سے رخصت ہوں ہم انہیں خراج تحسین پیش کرکے اپنی بڑائی کا ثبوت دے دیں یا ان کے احسانوں کا حق ادا کردیں۔ سوال تو یہ ہے کہ جو جانے والے نے کیا وہ رہ جانے والے کیوں نہیں کرسکتے؟ جو لوگ انہیں صبح سے شام تک خراج تحسین پیش کررہے ہیں اُن میں کتنے ہیں جنہوں نے لہو و لعب سے سچی توبہ کی ٹھان لی ہو۔۔۔ جو ان کو ہیرو قرار دے رہے ہیں ان میں سے کتنے ہیں جو ان کی طرح اقامتِ دین کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا عزم کررہے ہوں۔۔۔ جو ان کی محبت میں اس راستے کا انتخاب کررہے ہوں جس راستے کا انہوں نے شعوری انتخاب کیا۔۔۔ یقیناًسینتالیس جانوں کا ضیاع قومی سانحہ ہے، مگر کیا حادثہ ہمیں یہ سبق نہیں دے کر گیا کہ اگلے دن کا سورج کسے نصیب ہوگا یہ کسی کو نہیں پتا۔۔۔ سب خوابوں کو تعبیریں ملتی کسی نے نہیں دیکھیں۔۔۔ موت کے لیے یہ لمبی عمر شرط ہے نہ طویل بیماری۔ جو سورج طلوع ہوتے دیکھا ہے ضروری نہیں کہ اس کا غروب بھی ہماری آنکھوں کو دیکھنا نصیب ہو۔ زندگی کا طیارہ کسی بھی بیماری کی پہاڑی سے ٹکرا کر پاش پاش ہوسکتا ہے! کسی بھی معذوری کا جزیرہ اس جہاز کو گہری کھائی میں دھکیل سکتا ہے۔ اس لیے جو زندگی ہے اس کے ہر لمحے کی قدر اور توبہ میں غفلت نہ کرنا۔۔۔ اور آج کے اچھے کاموں کو کل پر مؤخر نہ کرنا کہ چترال کا سفر اسلام آباد پر ختم نہیں ہوتا، بیچ میں حویلیاں بھی آتا ہے۔۔۔ جو راستے میں روک لیتا ہے اور وہیں زندگی کی شام ہوجاتی ہے۔ سورج غروب ہونے سے پہلے کتنی خوش باش زندگیوں کے سورج غروب ہوگئے۔۔۔ اسلام ہمیں غموں کو قوت بنانے کا حکم دیتا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت فاطمہؓ کو اپنے وقتِ آخر کی خبر دیتے ہیں تو وہ غم سے نڈھال ہوجاتی ہیں، مگر جب کان میں سرگوشی کرتے ہیں کہ جنت میں مجھے سب سے پہلے تم ملو گی تو وہ آنسو پونچھ کر مسکرانے لگتی ہیں۔۔۔ جانے والے یہ سبق چھوڑ کر جاتے ہیں کہ رب کو راضی کرنے کے جو جتن کرسکتے ہو، کر گزرو۔۔۔ تاکہ ہمیشہ کی جنت میں اپنے پیاروں کا ساتھ نصیب ہو۔
ربیع الاوّل کا مہینہ اس یاددہانی کا مہینہ ہے کہ عشقِ رسولؐ گواہی کا طالب ہے۔ جو سچی گواہیاں پیش کرتے ہیں ان کے کردار کو زمانہ خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ اس کی جناب میں قولی گواہی معتبر نہیں۔ ہر حادثہ پلٹنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ یہ دنیا عبرت کدہ ہے۔
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

حصہ