(محمد رسول ﷺ (تنویر اللہ خان

292

خالقِ کائنات نے رحمت العالمین محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کونرم خُو قرار دیا، آپؐ انسانوں کو جوڑنے والے، قصور واروں کو معاف کرنے والے، غلطیوں پر درگزر کرنے والے، فتح پر بھی مفتوحین کو پناہ دینے والے، جان کے دشمنوں کو سینے سے لگانے والے تھے۔
آپؐ کی انسانوں سے محبت کا کیا ٹھکانہ! جس نے ساری زندگی آپؐ کو اذیت دی اُس کی بھی نمازِ جنازہ پڑھا دی، آپؐ کی اگر کفار سے دشمنی بھی تھی تو اُس کی وجہ بھی اللہ کا حکم تھا اور اُن سے خیر خواہی تھی، آپؐ سب کو اپنے ساتھ جنت میں لے کر جانا چاہتے تھے اسی لیے وہ انسانوں کو جنت کے مالک کی نافرمانی سے روکتے تھے۔
آپؐ بچوں کے بھی دوست تھے، جب کبھی آپؐ کے پاس موسم کا پہلا پھل آتا تو اسے بچوں میں تقسیم کردیتے تھے۔ آپؐ راستہ چلتے سامنے آنے والے مرد‘ عورت اور بچوں کو سلام کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپؐ اپنے نواسے حسنؓ کو محبت سے چوم رہے تھے اس موقع پر موجود ایک صحابیؓ نے حیران ہوکر کہا ’’یا رسولؐ اللہ میرے دس بچے ہیں لیکن میں تو کبھی اُن کو پیار نہیں کیا۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’جو رحم نہیں کرتا‘ اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
آپؐ خواتین کے بھی محسن تھے، تمام انسانوں پرآپؐ کے احسانات ہیں لیکن عورتوں کے لیے آپؐ کی ذات شجرِ سایہ دار کی سی ہے۔ آپؐ نے عورت کو اللہ کی طرف سے دیا جانے والا مقام اُنھیں دیا، یہودی عورت کو جنت سے نکلوانے کا الزام دیتے تھے، وہ عورت کو سببِ گناہ اور ترغیبِ گناہ کا ذریعہ قرار دیتے تھے۔ عیسائی بھی عورت کو شیطان کا آلۂ کار اور مصیبت کا دروازہ قرار دیتے تھے۔ عورت سے تعلق کو تقوٰی کے خلاف اور اُس سے دوری کو خدا ترسی سمجھتے تھے۔ یونانی، رومی، چینی، ہندو تہذیب میں عورت ہر قسم کے قانونی اور معاشرتی حقوق سے محروم تھی اور مرد کے تسلط میں زندگی گزارنے پر مجبور تھی۔ آپؐ نے عورت کو اعزاز اور اکرام سے نوازا اور حوالوں سے عورت کومرد سے بلند مقام عطا کیا۔ اسلام عورت اور مرد میں کوئی تفریق نہیں کرتا ’’جو بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔‘‘(القرآن)
آپؐ نے نکاح کے لیے عورت کو رضا مندی کا حق دیا۔ فرؐمایا ’’دنیا ساری کی ساری متاع ہے اور اس کی سب سے بہتر متاع صالح عورت ہے۔‘‘
یورپ نے عورت کو حق ملکیت، حق وراثت 17 ویں صدی میں دیا جب کہ اسلام نے عورت کو یہ حقوق 7 ویں صدی میں دے دیے تھے۔ آپؐ نے عورت کو معاشی ذمے داری سے آزاد کیا، باجماعت اور نماز جمعہ سے رخصت دی، عورت کوعبادات میں نرمی دی، فوج داری مقدمات میں خطرہ ہونے کی وجہ سے عورت کی گواہی کو محدود کیا۔ آپؐ اپنی رضاعی ماں سعدیہ حلیمہ کے احترام میں کھڑے ہوجاتے تھے اور اُن کے بیٹھنے کے لیے اپنی چادر بچھاتے تھے۔ آپؐ حضرت خدیجہؓ کے ایثارِ صدق کا ذکر کرتے تھے‘ اہم معاملات میں اُن سے مشورہ کرتے تھے، حضرت عائشہؓ کو عزیز رکھتے تھے، حضرت زینبؓ کی دین داری کی قدر کرتے تھے۔ آپؐ گھر کے کاموں میں اپنی ازواج کا ہاتھ بٹاتے تھے، آپؐ نے اپنی بیٹی فاطمہؓ کے بارے میں فرمایا ’’فاطمہ میرا ایک ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اُس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘ جب فاطمہؓ آتیں تو آپؐ کھڑے ہوکر اُن کا استقبال کرتے‘ اُنھیں بوسہ دیتے‘ ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنی نشست پر بیٹھاتے تھے، جب سفر کو جاتے تو سب سے آخر میں فاطمہؓ سے رخصت ہوتے اور واپسی پر سب سے پہلے اُن سے ملتے تھے۔
آپؐ جانوروں پر بھی مہربان تھے۔ چرندوں، پرندوں، درندوں، درختوں کے لیے آپؐ رحمت ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’سواریوں کو اپنا نشست گاہ نہ بنایا کرو کہ اُن کے اُوپر ہی بیٹھ کر باتیں کرتے رہو۔‘‘ ایک دفعہ رسولؐ گدھے پر سواری کررہے تھے۔ گدھے نے آپؐ کوگرا دیا آپؐ نے اُسے مارنے کے بجائے اُسے دلاسا دیا اور خوب مسکرائے۔ فرمایا ’’جانورں پر زیادہ بوجھ نہ لادو اور اُن کا حق ادا کرو، سفر میں اُنھیں بھی آرام کا موقع دو اور جب دورانِ سفر سبزہ آئے تو اُنھیں بھی چرنے چگنے کا موقع دیا کرو، جانوروں کو نشانہ بازی کی تربیت کے لیے ہدف نہ بناؤ، اُنھیں گرم لوہے سے نہ داغو، اُن کے چہرے پر نہ مارو۔
بارہ ربیع الاوّل خوشی کا عام دن نہیں ہے، اس دن محض چراغاں کرنے سے، جلوس نکالنے سے، لنگر بانٹنے سے اس عظیم دن کا حق ادا نہیں ہوگا، ضرور اُنؐ کی محبت میں چراغاں بھی کریں، اُنؐ سے عقیدت میں جلوس بھی نکالیں، اُنؐ کے ذکر کی محفلیں بھی برپا کریں لیکن صرف اتنے سے کام نہیں چلے گا، اتنی بڑی ذات سے محبت کا دعویٰ لیکن اس دعوے کے ثبوت میں بس اتنا سا، نہیں بالکل نہیں‘ یہ نا کافی ہے، ہمیں اپنی پوری کی پوری زندگی کو اُنؐ کے حکم کے مطابق بنانا ہوگا‘ وہ غلام ہی کیا جو کچھ کام آقا کی مرضی سے کرے اور کچھ کاموں میں اپنی مرضی چلائے۔ اصل میں اپنی اس مرضی کو ہی مارنا ہے، مرضی بغاوت ہے غلامی اور بغاوت ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں، وہ رحمت تھے اور اُنؐ کی ہدایت قیامت تک کے لیے ہمارے لیے رحمت ہی رحمت ہے، جو دل محبت سے خالی ہوجائے اُس دل میں اللہ اور اُس کے رسولؐ کا کیا کام؟
بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں دہرانا بھی دل پر بھاری پڑتا ہے‘ کسی کو بتانے کے لیے بھی دوبارہ کہنا گراں گُزرتا ہے، جنید جمشید کی شہادت پر بھی ایسی ہی باتیں گردش کرتی نظر آئیں، ہم اس طرح کیوں نہیں سوچتے کہ بعض بندوں کی نماز، کفن، دفن اللہ اپنے ذمے لے لیتا ہے۔ دو برس قبل نصراللہ شجیع کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا، نصراللہ کو جب اللہ نے اپنے ذمے لیا تو ہمیں اُن سے فارغ کردیا، انہیں نہ جانے کن کن اعلیٰ ہستیوں نے غسل دیا ہوگا، کن کن عظیم ہستیوں نے انہیں اللہ کے دربار میں پیش کرنے کے لیے سنوارا ہوگا۔ اس دُنیا کے بعد کی دُنیا تو ہمارے خیالوں‘ ہمارے اندازوں اور ہمارے ادراک سے دور ہے‘ یہ سب ہونا ممکن ہے، جنید جمشید کو بھی اللہ نے زمین کی قبر کے بجائے آسمانوں کی گود میں دے دیا، جنید جمشید کے بارے میں ہمارا میڈیا خوب بول اور دکھا رہا ہے لہٰذا میں جنید جِمشید پر بات نہیں کرنا چاہتا‘ میرے مخاطب وہ بھائی ہیں جو جنید جمشید کو اس دُنیا سے جانے کے بعد بھی معاف نہیں کررہے۔ دعویٰ محمدؐ رسول اللہ سے محبت کا اور اس قدر بے رحمی، جس کادل رحم سے اتنا بھرا ہوا تھا کہ بے رحمی کو تل برابر بھی جگہ نہیں ملی اُس سے محبت کرنے والے ایسے بے رحم نہیں ہوسکتے اور اب تو جنید جمشید کا کھاتہ بند ہوگیا‘ ان کا حساب اللہ کے ذمے ہوگیا لیکن یہ کیسے لوگ ہیں جو اللہ سے آگے بڑھ کر حساب اور احتساب کررہے ہیں، اللہ کی عدالت کے مقابلے میں اپنی اپنی عدالتیں لگا رہے ہیں، بھائیو! میں پھر دُھراتا ہوں آپؐ انسانوں کو جوڑنے کا مشن لے کر آئے تھے اور ہم مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے کے درپے ہیں‘ اسلام دشمن جو چاہتے ہیں ہم وہ کررہے ہیں، ایک دوسرے کو کافر‘ گستاخ بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔
ربیع الاوّل محبت کو عام کرنے کا دن ہے اور ہم گلی محلے نعت کی آڑ میں ’’گستاخ تیری خیر نہیں‘‘ جیسے جنگی ترانے بجا رہے ہیں۔ پاکستان کی یہی ایک صرف ایک خوبی ہے کہ یہ مسلمانوں کا ملک ہے یہ اسلام کو نافذ کرنے کے لیے حاصل کیا گیا ہے، لیکن ہم اسے مسلمانوں کے بجائے سُنی، شعیہ، دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث اور مہاجر، پٹھان پنجابی، بلوچ، سندھی، سرائیکی، ہندکو کا فساد کا گھر بنانا چاہتے ہیں، ایسی عزاداری، ایسا عشق رسول تو خود ناناؐ اور نواسےؓ کو مطلوب نہ تھا۔
یقیناً ہمارے آپؐ سے جوڑ میں کوئی چھوٹی یا بڑی کھوٹ ہے یہ کھوٹ جیسے جیسے کم ہوگی ہم پر طاری سیاہ رات بھی روشن صبح میں تبدیل ہوتی جائے گی، بلاشبہ وہؐ خود تو عظیم ہیں اور اُن سے جو بھی جُڑ جاتاہے وہ بھی عظیم ہوجاتا ہے۔

حصہ