(پاکستانیوں بیرون ملک جانے سے پہلے سوچ لو(عارف رمضان جتوئی

262

حارث کی کال آئی ہوئی تھی۔ حارث اپنے والدین کا جس قدر اکلوتا تھا اس قدر بیرون ملک جاکر اکیلا ہے۔ جب بھی کال آئے تو اس امید سے بات کی جاتی ہے کہ شاید اب کے وہ اپنی جاب پر سٹیل ہوگیا ہوگا مگر ہر بار حارث بھائی کا ایک ہی جواب ’’بس بھائی کیا پوچھتے ہیں، دیکھیں بہت جلد کچھ ہوگا‘‘(انشاء اللہ)۔ وغیرہ وغیرہ۔ اداسی اداسی بالآخر مایوسی میں بدلنے لگتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کا فرمان یاد آجاتا کہ ’’خبردار مایوسی کفر ہے‘‘۔
بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل ایک عرصے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ امسال بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور پھر اس کے بعد بیرون ممالک پاکستانیوں اوورسیز پاکستانیز کمیشن فعال دکھائی دیا۔ پنجاب میں اس پر کچھ مزید پیش رفت بھی ہوئی اور اضلاع کی سطح تک کمیٹیاں قائم کی گئیں‘ جنہیں ہزار وں کی تعداد میں شکایات موصول ہوئیں۔ کمشنر اوورسیز پاکستانیز کمیشن پنجاب نے دعویٰ بھی کیا کہ اب تک بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی 4 ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئی ہیں، جن میں سے 50 فیصد حل کی جاچکی ہیں۔ مسائل کے حل کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے بھرپور استفادہ کیا جارہا ہے ۔
گزشتہ روز ایک رپورٹ نظروں سے گزری ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا ، آسٹریلیا، عراق، ایران، بھارت ،افغانستان سمیت 86 ممالک کی جیلوں میں 21 ہزار 790 پاکستانی قید ہیں۔ جن میں سے بی کیٹیگری کے کیسز میں 10ہزار 127پاکستانی بند ہیں۔ اس کے علاقہ بھارت سمیت کئی ممالک میں تو بغیر کسی الزام کے بھی متعدد پاکستانی جیلوں میں بند ہیں۔ بیرون ملک جیلوں میں بند پاکستانیوں کے ورثا سالوں سے وزارت داخلہ، وزارت خارجہ اور دیگر دفاتر کے چکر لگا لگا کر تھک گئے لیکن کوئی نوید نہ ملی۔ متعلقہ سفارتخانوں نے بھی اس سلسلہ میں کوئی کردار ادا نہ کیا۔ میڈیا کی تحقیقات میں سامنے آیا کہ مشرق وسطیٰ اور یورپ میں کئی پاکستانی معمولی جرائم کی پاداش میں کئی کئی برسوں سے جیلوں میں قید ہیں۔ بھارت سمیت چند ممالک میں موجود پاکستانی قیدیوں کو سزائیں پوری ہونے کے باوجودرہائی نہیں دی گئی۔جاری رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے اس مسئلہ پرموجودہ دورِ حکومت میں 3 مرتبہ رپورٹس مانگیں، جس پر متعلقہ حکام نے تفصیلی بریفنگ بھی دی لیکن پھرکوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ دوسری جانب محکمہ خارجہ کے حکام کا دعویٰ ہے کہ مختلف ممالک میں قید پاکستانیوں کی رہائی کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں جبکہ یہ بات بھی درست ہے کہ ان میں سے بعض کے پاس دستاویزات مکمل نہیں تھیں جبکہ اکثر معمولی جرائم پر کئی کئی برس سے قید کاٹ رہے ہیں۔
بیرون ممالک پاکستان کی مشکلات کے لیے پاکستان کو پہلے سے کہیں بہتر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حارث میرا دوست ہے۔ وہ بھی ایک سال قبل کچھ سعودی عرب میں رزق حلال کی تلاش گیا ہوا ہے۔ تاہم وہاں پر انہیں بھی کچھ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان میں رہنے والے یہ سوچتے ہیں کہ شاید بیرون ممالک جا کر وہ بہت اچھے سے زندگی بسر کریں گے۔ مگر حارث زبیر کی باتیں سن کر شاید مجھے یہ محسوس ہوا کہ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ حارث کے جاتے وقت میں نے انہیں الوداع کیا تھا۔ اس وقت حیدرآباد سے ان کا پورا خاندان انہیں الوداع کرنے کے لیے کراچی آیا ہوا تھا۔ اس وقت کے مناظر کیسے ہوں گے، جب جانا بھی تھا مگر دل بھی نہیں چاہتا تھا۔ حارث کو رخصت کر کے اپنے دل پر بھی ایک بوجھ سا محسوس ہوا تھا۔ اپنے وطن میں کہیں بھی ہوں مگر ہوتے تو اپنے وطن میں ہی ہیں۔ کسی اور کے دیس میں جاکر کیا ہوتا ہے یہ وہاں جا کر ہی پتا چلتا ہے۔
حارث بھائی کو رخصت کرتے وقت ایک بات کا احساس تھا کہ واپسی کے لیے آنا ان کے اپنے بس کی بات نہیں ہے۔ صرف جانا اپنے بس میں ہے۔ یہ بات تکلیف دہ ہے جس پر جتنے آنسو بہائے جاسکیں کم ہیں۔ کچھ روز قبل بیرون ملک سے واپس آئے ایک شخص نے بتایا کہ وہ جس مقصد کے لیے گیا تھا وہ تو کہیں رہ گیا اس کے علاوہ انہیں بہت سے کام کرنے پڑتے تھے۔ حقوق حقوق کی باتیں کرنے والے خود کس طرح نسل پرستی ، حقوق شکن ہوتے ہیں اس بات کا اندازہ حماد سعید سے کی باتوں سے باخوبی لگایاجاسکتا ہے۔ وہ کہنے لگے وہاں کی مقامی پولیس اور مقامی باشندے تو گویا ان کی مقدس گائے ہیں۔ آپ کو وہ کچھ بھی بولیں، ماریں ، آپ کا استحصال کریں کوئی فرق نہیں پڑتا اگر آپ نے ہلکی سی آواز بلند کی تو اس کی سزا وہاں پر مار کھانی پڑے گی، اور اس کے بعد بچی کھچی وہاں کی پولیس پوری کردے گی۔ اپنے حق میں آواز بلند کرنے کا ایک ہی صلہ ملتا ہے اور وہ ہے قصور وار ٹھہرایا جانا اور پھر کچھ دن تک جیل کی ہوا۔
وہ بتانے لگے کہ وہاں پر جاتے ہی ان کے ضروری کاغذات لے کر اپنے پاس رکھ لیے گئے۔ پھر اس وقت تک نہیں دیے گئے جب کہ جیل کی ہوا کھانے کے بعد انہیں ملک کے لیے واپس زبردستی کے انداز میں بھیج دیا گیا۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ جتنا کمایا تھا اتنا ہی لگ گیا، واجبات بھی نہیں ملے اور جان کے لالے پڑنے کے بعد جان بچی سو لاکھوں پائے کے مصداق لوٹ کے بدھو گھر کو آیا۔
ایک دوست عبداللہ بھی کچھ دن قبل ہی لوٹے۔ اچانک غائب ہوئے اور کچھ دن بعد ان کا میسج موصول ہوا کہ مقامی حضرت سے الجھ بیٹھے تھے۔ جس کا خمیازہ انہیں کئی روز جیل میں گزارنے کی صورت میں ملا اور اس کے بعد اب انہیں ٹھیک ٹھاک بے عزت کر کے ملک واپس بھیجا جارہا ہے اور ایک دو دن میں قانونی کارروائی کے بعد عزت سے روزی روٹی کمانے کے لیے جانے والے عبداللہ سمیت کئی ایسے عبداللہ ہیں جنہیں ملک سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔
پچھلے دنوں سعودی عرب میں ایک معاملے زور شور سے رہا کہ ایک کمپنی نے پاکستان سمیت اشیا بھر کے کام کرنے والے مزدوروں کے واجبات روکے رکھے اور انہیں غیر معیاری سہولیات دی جاتی رہیں۔ ایک سعودی عرب تو دور کی بات پوری دنیا میں پاکستانیوں کے ساتھ نہ جانے کس قسم کا سلوک رکھا جاتا ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اورسیز پاکستانیز نے 25اکتوبر 2016 ء کو اس معاملے پر اجلاس طلب کرچکی ہے اور بیرون ممالک پاکستانیوں کی قید کے حوالے سے غور کیا گیا ہے تاہم ضرورت ان اجلاسوں کی نہیں ہے بلکہ ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کبھی سوچا کہ جن کے لال بیرون ممالک قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ غیروں کے رحم وکرم پر ہیں ان کے گھر والوں کی راتیں اور دن کیسے کٹتے ہوں گے۔ ہم وہ قوم ہیں کہ جن کاانگ انگ اپنے رشتوں کے ساتھ ایسے جڑا ہوا کہ درد کہیں ہو تو تکلیف دوسری جانب بھی محسوس ہوتی ہے۔ ایک بہن اپنے بھائی کی لاڈ میں ، ایک ماں اپنے بیٹے کی ممتا میں ، ایک بھائی اپنے بھائی کے پیار میں اور ایک خونی رشتہ اپنے خونی رشتے کی تکلیف میں ویسے ہی یہاں تڑپتے ہیں جیسے وہاں ان کے لال غیروں کی جیلوں میں تڑپتے ہیں۔
جانے والوں کو بھی سوچ سمجھ کر جانا چاہے کہ دور کے ڈھول بہت سہانے ہوتے ہیں پیارے۔ قریب جاکر اس ڈھول کی کان پھٹی آواز سے جتنا درد اور تکلیف ہوتی ہے اس کا ازالہ کبھی ممکن بھی نہیں رہتا۔ یہ اپنا دیس، اپنا ملک اور اپنا وطن ہے۔ جیسا بھی ہے جس طرح کا بھی ہے مگر اپنا ملک ہے۔ مگر یاد رکھیں کراچی، لاہور، اسلام آباد، ملتان، پشاور، کوئٹہ، بلوچستان، سندھ، خیبرپختونخواہ، پنجاب اور پاکستان جیسا دوسرا کہیں نہیں ہے۔ یہاں کی مٹی اور اس میں بسی اپنوں کی اپنائیت دنیا کے کسی کونے میں کبھی بھی نہیں ملے گی۔ دو چار روپے تو مل جائیں گے مگر ماں کبھی نہیں ملے گی۔ عزت و شہرت کے بعد رسوائی تو مل جائے گی مگر بھائی ، بہن اور دوست احباب کبھی نہیں ملیں گے۔ اس لیے اپنوں کو روتا چھوڑ کر جانے کے بجائے ضد کو چھوڑنے کی کوشش کریں۔ یہ ملک بہت کچھ دے رہا ہے۔ یہیں رہ کر اسے کچھ دیں اور پھر اس سے کچھ لیں۔

حصہ