کڑے سفر کا تھا مسافر….. تھکا ہے ایسا کہ سو گیا ہے
خود اپنی آنکھیں تو بند کرلیں….. ہر ایک چشم لیکن بھگو گیا ہے
سابق امیر جماعت اسلامی محترم قاضی حسین احمدؒ کو ہم سے بچھڑے تین برس کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن ابھی تک یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے وہ یہیں کہیں ہمارے آس پاس موجود ہیں۔ قاضی حسین احمدؒ کی وفات نہ صرف جماعت اسلامی بلکہ پوری پاکستانی قوم، دُنیا بھر کی اسلامی تحریکوں خصوصاً اہلِ کشمیر کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔
قاضی حسین احمدؒ نے کارکن سے قائد تک کا کام یاب سفر طے کیا، ایک قائد کو جن خوبیوں سے آراستہ ہونا چاہیے وہ بدرجہ اتم ان کے اندر موجود تھیں۔ مثلاً نرمی، رافت و رحمت، تقویٰ، حلیم، تدبر و حکمت، شجاعت و جاں فشانی، جفا کشی جیسی خوبیاں ان کی فطرت میں شامل تھے۔ وہ سراپا محبت تھے، اجتماعات میں بچوں سے خطاب، میرے جگر گوشو! اور بڑوں سے میرے عزیزو! کہہ کر بات کرنا گویا محبتوں کی تقسیم تھی۔ قاضی صاحب نے اُمت کی راہنمائی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ افغانستان ہو یا کشمیر، عراق ہو یا فلسطین، چیچینا ہو یا برما، بوسنیا وہرزیگونیا ہو یا فلپائن، وہ ہر جہاد کے روح رواں تھے۔ انہوں نے ہر جہادی تحریک میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ظالم اور ظلم کو للکارنا قاضی صاحب کے خون میں شامل تھا، ان کی غیرت گوارا نہیں کرتی تھی کہ مظلوم کو بے یارومددگار چھوڑا جائے۔ وہ اپنی ذات میں خود مجاہد تھے، باطل کے خلاف جہاد کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھا اور شہادت کی تڑپ انہیں بے چین کیے رکھتی تھی۔ ان کا بس چلتا تو وہ خود بھی ہتھیار بدست ہو کر دشمن سے جا بھڑتے اور اپنے سینے پر تمغہ شہادت سجالیتے، لیکن قدرت نے انہیں سیاسی و سفارتی محاذ کے لیے چُنا تھا اور اس محاذ پر انہوں نے اپنی تمام صلاحیتیں لگادیں۔ انہوں نے اپنے دور امارت میں جو کاروان دعوت و محبت چلایا تھا، اس نے ملک بھر میں لسانی و نسلی اور سیاسی و مذہبی نفرتوں کے مقابلے میں اسلامی اخوت و محبت کا پرچار کیا۔
زمانہ طالب علمی میں قاضی صاحب اپنے بھائی ڈاکٹر عتیق الرحمٰن کے پاس جایا کرتے تھے، جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں زیر تعلیم اور کالج کے ہوسٹل میں رہائش پذیر تھے۔ اسی عرصے میں مرکز جماعت اچھرہ میں مولانا مودودیؒ سے ان کی براہِ راست ملاقاتیں ہوئیں اور مولانا مودودیؒ کی شخصیت کو دیکھتے ہی وہ ان کے گرویدہ ہوگئے۔ کون جانتا تھا کہ صوبہ سرحد کا ایک عام سا طالب علم مولانا مودودیؒ کی اس تحریک کا بہت بڑا اثاثہ ثابت ہوگا، نہ صرف جماعت کی اگلی صفوں میں کام کرے گا بلکہ مولانا مودودیؒ کی جاں فشانی اور جماعت کے قیادت کی ذمّے داری بھی اللہ ان سے لے گا۔ اس میدان میں اللہ کے یہ نیک بندے امارت و قیادت کے مقام پر فائز ہوئے تو سیّد مودودیؒ کی طرح سر پر کفن باندھ کر گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی پیچھے کی طرف دیکھنے کے بجائے آگے ہی آگے بڑھتے رہے۔
قاضی صاحب کی راہنمائی میں متعدد جہاد کشمیر کانفرنس منعقد ہوئیں، پاکستان میں بھی اور آزاد کشمیر میں بھی۔ ان کانفرنسوں میں قاضی صاحب کا کلیدی خطاب ہوا کرتا تھا، جسے سُننے کے لیے نوجوان چاروں طرف سے اُمڈ آتے تھے اور قاضی صاحب کے حق میں نہایت پُرجوش نعرے لگاتے تے۔ قاضی حسین احمدؒ کی زندگی جہد مسلسل اور عمل پیہم سے عبارت تھی اور ان کی رحلت ایک عالم کو اُداس کرگئی۔
وہ شخص اب یاں نہیں ملے گا
وہ شخص اب ایک سحر کی صورت
جہاں میں پھیلا ہوا ملے گا
راہِ خدا کے سپاہیوں کی
دُعاؤں میں وہ رچا ملے گا
ستیزہ گاہوں میں جاں لڑاؤ
وہاں وہ خود تم سے آملے گا
وہ شخص اب یاں نہیں ملے گا
اکتوبر 2008 میں مینار پاکستان پر ہونے والا اجتماع عام ان کی امارت کے دور کا آخری اجتماع عام تھا۔ ان کا اختتامی خطاب ان کی زندگی کا آخری خطاب بن چکا ہے، جہاں انہوں نے رندھی ہوئی آواز میں فرمایا تھا:
’’میرے عزیزوں آپ سے جدا ہونے کو جی نہیں چاہتا۔ آپ کا بھی نہیں چاہتا، میرا بھی نہیں چاہتا، لیکن اب اللہ کی رحمت کے سائے میں جنت میں ملیں گے اور جنت میں ملنے والی بات انہوں نے دو مرتبہ دہرائی۔ کسے معلوم تھا کہ یہ واقعی ان کا آخری اجتماع عام ثابت ہوگا۔
قاضی حسین احمدؒ نہایت بااخلاق، شفیق اور بے حد محبت کرنے والے انسان تھے۔ اپنی دل کش مسکراہٹ کے سبب نہ صرف جماعت اسلامی کے اندر بلکہ باہر بھی ہر عمر کے افراد میں یکساں طور پر مقبول تھے۔ ایک زمانے میں بچوں میں ’’ظالمو! قاضی آرہا ہے‘‘۔ کا نعرہ بہت مقبول ہوا، شاید یہی وجہ تھی کہ ان کے وفات کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور دُنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے رہنماؤں نے ان کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ ان کی نماز جنازہ میں ملک کے گوشے گوشے سے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ حرم شریف اور پاکستان کے بہت سے شہروں میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ اللہ سے دُعا ہے کہ وہ انہیں جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے،آمین!