(ریجنٹ پلازہ میں آتشزدگی کا واقعہ (محمد انور

217

ناگہانی حادثات کا رونما ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہوتی، بلکہ انوکھی بلکہ شرمناک بات یہ کہلاتی ہے کہ ایسے سانحات کے باوجود اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی اقدامات نہ کیے جائیں۔ جب ذمے داروں کی طرف سے ایسے واقعات کے نتیجے میں بیان بازی کے بعد خاموشی اختیار کرلی جائے تو کراچی کے ریجنٹ پلازہ میں لگنے والی آگ جیسا واقعہ رونما ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
5 دسمبر کو شارع فیصل اور رفیقی شہید روڈ پر واقع ریجنٹ پلازہ ہوٹل میں آگ لگنے کے واقعے میں جھلسنے اور دم گھٹنے سے خواتین و بچوں سمیت 12 افراد ہلاک ہوگئے۔ اس بارے میں بھی وزیراعلیٰ نے نوٹس لیا اور نوٹس لے کر رپورٹ طلب کی، جو وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو پیش کردی گئی۔ یہ تحقیقاتی رپورٹ سیکریٹری داخلہ نے وزیراعلیٰ سندھ کو پیش کی جس میں حادثے کے حوالے سے اہم معلومات شامل کی گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہوٹل میں آتشزدگی کا واقعہ رات گئے پیش آیا تھا، آگ ہوٹل کے گراؤنڈ فلور پر واقع کچن میں لگی تھی، جس نے آہستہ آہستہ ہوٹل کی 6 منزلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہوٹل میں مقیم سیکڑوں افراد محصور ہوگئے۔آگ لگنے کے بعد ہوٹل میں قیام پذیر متعدد افراد نے کھڑکیوں سے چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی۔ چیف فائر آفیسرکی حیثیت سے تعینات گریڈ 17کے اسٹیشن آفیسر کے مطابق ہوٹل میں سنٹرل ایئرکنڈیشنڈ سسٹم چلنے اور دھواں جمع ہونے کے باعث دم گھٹنے کی وجہ سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ تاہم ہوٹل ریجنٹ پلازہ کے حکام کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ آتشزدگی کے واقعے کی اطلاع کے بعد فائر بریگیڈ نے پہنچنے میں تاخیر کی، اور جب تک آگ بجھانے کا سامان موقع پر پہنچا، آگ لگے ایک گھنٹہ گزر چکا تھا۔ ہوٹل انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ہوٹل میں قانون کے مطابق آگ سے بچاؤ کے تمام انتظامات موجود تھے۔
مذکورہ ہوٹل کے حوالے سے الیکٹریکل انسپکٹر پاکستان (ای آئی پی) جو ایک نجی ادارہ اور کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے پینل پر ہے، نے کے سی سی آئی سے ملحقہ اداروں کے معائنہ کے حوالے سے اپنی ایک سال پرانی رپورٹ میں ہوٹل مینجمنٹ میں سنگین خرابیوں کی نشاندہی کی تھی۔ ای آئی پی کے انجینئر ولی محمد کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال ہم نے 2 ہوٹلوں کا معائنہ کیا تھا جن میں سے ایک ریجنٹ پلازہ ہوٹل جبکہ دوسرا وزیراعلیٰ ہاؤس کے نزدیک واقع ہوٹل ہے، اور ان کا کہنا تھا کہ دونوں ہی ہوٹلوں کا برقی نظام خستہ حالی کا شکار تھا۔
کے سی سی اے کی اپنی دلچسپی اور ذمے داری کے باعث نجی ادارے کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ، حکومتِ سندھ کی رپورٹ سے ملتی جلتی ہونے کی وجہ سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ایک سال گزرنے کے باوجود ہوٹل انتظامیہ نے فائر سیفٹی رولز کو نظرانداز کیا اور ہوٹل کے مہمانوں کی جانوں کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرنے سے گریز کیا۔ لیکن دلچسپ بات تو یہ بھی ہے کہ ذمے دار سرکاری اداروں کو ہوٹلوں سمیت مختلف عمارتوں میں فائر سیفٹی نظام کے بارے میں توجہ دینے کا خیال ہی نہیں آیا، جس کی وجہ سے ان اداروں کے بارے میں شہری سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ یہ ادارے کیوں قائم ہیں؟ قائم ہیں تو کیا کرتے ہیں؟
ہوٹل ریجنٹ پلازہ میں آتشزدگی کے حوالے سے روزنامہ جسارت 6 دسمبر کی اشاعت میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق شہری ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ شہر کی کسی بھی عمارت میں بین الاقوامی معیار کا فائر سیفٹی نظام موجود نہیں ہے۔ شارع فیصل سمیت شہر کے مختلف علاقوں میں موجود ہوٹلوں، شاپنگ سینٹرز اور دیگر بلند عمارتوں میں سے کسی میں بھی بین الاقوامی معیار کا فائر سیفٹی انتظام نہیں ہے۔ جبکہ ایک ماہر تعمیرات اور سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی و سابق چیف کنٹرولر کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی رؤف اختر فاروقی کا کہنا ہے کہ جن عمارتوں میں یہ اور مقامی سطح کا نظام موجود ہے اس کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ بھی غیر فعال ہے ۔ ان کا کہنا تھاکہ ریجنٹ پلازہ کی تعمیر بین الاقوامی اصولوں کے مطابق کی گئی تھی۔ اس عمارت میں ہر طرح کی سیفٹی کا انتظام رکھا گیا تھا۔ رؤف فاروقی کا کہنا ہے کہ 1980ء سے پہلے تعمیر کی گئی عمارتوں میں فائر سیفٹی کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔ تاہم 1980ء کے بعد بلڈنگز قوانین تبدیل کرکے بنائے گئے قوانین کے تحت ہر عمارت میں فائرسیفٹی کے ساتھ پارکنگ وغیرہ کا نظام وضع کرنا لازمی قرار دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ عمارتیں تو مذکورہ قوانین کے مطابق تعمیر کرلی جاتی ہیں لیکن نہ تو پارکنگ کی جگہوں کو فعال کیا جاتا ہے اور نہ ہی ہنگامی راستوں کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے۔ رؤف اختر فاروقی کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت فائر سیفٹی کے حوالے سے عمارتوں میں نہ صرف علیحدہ ٹینک تعمیر کیے جاتے ہیں بلکہ خصوصی کنکشن ہر عمارت کے ہر حصے تک پہنچائے جاتے ہیں تاکہ آتشزدگی کی صورت میں پانی کی مدد سے آگ بجھائی جاسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے شبہ ہے کہ جن عمارتوں میں یہ انتظامات موجود ہیں وہاں بھی یہ نظام فعال نہیں ہوگا، جس کی وجہ سے کسی بھی عمارت میں آگ لگنے کی صورت میں اس پر فوری قابو پانا ناممکن ہے۔ سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی کا کہنا تھا کہ عمارتوں میں فائر سیفٹی اور دیگر حفاظتی انتظامات کو یقینی طور پر فعال کرانا سول ڈیفنس اتھارٹی کا کام ہے، لیکن بدقسمتی سے مذکورہ اتھارٹی ملک کے سب سے بڑے شہر میں ہی کہیں نظر نہیں آتی۔ شہری اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پرانی عمارتوں کو ڈیزائن ہی اس طرح کیا جاتا تھا کہ ان میں آگ سمیت تمام ناگہانی حادثات سے بچاؤ کے انتظامات کیے جاتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ بلند نہیں ہوا کرتی تھیں، اور جو بلند ہوتی تھیں اُن میں خاصا اوپن ایریا ہوا کرتا تھا۔ ایسی عمارتیں اب بھی شہر کے آئی آئی چندریگر روڈ، ایم اے جناح روڈ اور دیگر علاقوں میں موجود ہیں۔ شہر میں آتشزدگی کے خطرناک واقعات کے تناظر میں ماہرین کو تشویش ہے کہ بلدیہ کراچی کا فائرفائٹنگ نظام بھی مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں ہے۔ چیف فائر آفیسر سمیت بیشتر اسٹیشنوں کے افسر مطلوبہ تعلیمی قابلیت اور اہلیت بھی نہیں رکھتے، جبکہ بلدیہ کا شعبہ فائر بریگیڈ بین الاقوامی قوانین کے برعکس آزادانہ طور پر کام نہیں کرتا بلکہ وہ ایک ایسے محکمے کی زیر نگرانی کام کرتا ہے جس کے تمام شعبوں کی تعداد سات ہے جبکہ اس محکمے کا سربراہ کینیڈین شہری ہے جو ہر چھ ماہ بعد ملک سے باہر اپنے نئے ملک چلا جاتا ہے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ پورے محکمہ فائر بریگیڈ کو قوانین کے خلاف چلایا جارہا ہے۔ افرادی قوت کی کمی کی شکایت کے باوجود ہر اسٹیشن سے تین سے زائد فائرمینوں کو نصف تنخواہ پر حاضری سے مستثنیٰ بھی کیا ہوا ہے جبکہ بھینس کالونی اسٹیشن وہ اسٹیشن ہے جو رات کو بند ہوجایا کرتا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کو چاہیے کہ تجربہ کار ماہرین کی مدد سے کے ایم سی کے فائراسٹیشن سمیت دیگر اداروں کو معیاری بنانے کے لیے ہنگامی اقدامات کرے، جبکہ شہر کی تمام عمارتوں میں حفاطتی انتظامات کا دوبارہ جائزہ لے کر انہیں فعال بھی کیا جائے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ہوٹل میں لگنے والی آتشزدگی کا تو نوٹس لیا لیکن ضرورت اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ شہر کی تمام عمارتوں کا جائزہ لے کر یہ معلوم کیا جائے کہ کیا یہ تمام عمارتیں بلڈنگ کنٹرول رولز و ریگولیشن کے مطابق ہیں؟ کیا ان عمارتوں کے ہنگامی راستے درست حالت میں موجود ہیں؟ ریجنٹ پلازہ کی آتشزدگی میں بارہ افراد کی ہلاکت کراچی انتظامیہ کے لیے سوالیہ نشان چھوڑگئی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ زیادہ ہلاکتیں دھویں سے ہوئی ہیں کیونکہ آگ سے زیادہ دھواں پھیلا تھا۔ چونکہ پوری ائرکنڈیشنڈ عمارت میں دھویں کے اخراج کے لیے کوئی نظام ہی موجود نہیں تھا جبکہ سنٹرلائز ایئرکنڈیشنڈ سسٹم کے ڈک سے کولنگ کے ساتھ دھواں بھی گزرکر ہوٹل کے تمام کمروں میں پہنچ گیا تھا۔ وزیراعلیٰ کے حکم پر کی جانے والی تحقیقات کی رپورٹ کے بعد متعلقہ ذمے دار افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات کرلیے جائیں۔
nn

حصہ