(اس طرح تو ہوتا ہے (شہلا عبدالجبار

208

رات کے کھانے پر شازیہ کی طویل خاموشی اور پیشانی پر پڑی ہلکی ہلکی شکنیں اس کی اندرونی کیفیت کا صاف پتا دے رہی تھیں۔
’’ارے بھئی کچھ تو بولیں۔۔۔ کیا چپ کا روزہ رکھ لیا ہے آج۔۔۔ نہ شکوے نہ شکایتیں۔۔۔ بات کیا ہے آخر۔۔۔؟‘‘ اسامہ نے شازیہ کو چھیڑتے ہوئے کہا۔
’’ابو! مما جب سے ندرت آنٹی کے گھر سے آئی ہیں ایسی ہی چڑچڑی ہورہی ہیں‘‘۔ دس سالہ مریم نے چپکے سے باپ کو بتایا۔
’’اوہو! اب سمجھا۔۔۔ خدا کے لیے اپنی اس سہیلی کے یہاں جانا چھوڑ دو، ورنہ وہاں سے آنے کے بعد کم از کم ایک ہفتے تک ہمیں اس خطرناک موڈ کو بھگتنا پڑتا ہے‘‘۔ اسامہ نے شازیہ کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
’’میں نے کچھ کہا آپ سے۔۔۔؟ بس آپ کھانا کھائیں‘‘۔ شازیہ نے ٹیبل پر سلاد رکھتے ہوئے کہا۔
’’ارے بھئی۔۔۔! اس ابر آلود موسم سے بہتر ہے کہ بارش کھل کر برس جائے۔ کم از کم اس حبس سے تو نجات ملے‘‘۔ اسامہ بھی اسے تنگ کرنے سے باز نہیں آرہا تھا۔
شازیہ اور ندرت دونوں بچپن کی سہیلیاں تھیں۔۔۔ دونوں مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی تھیں۔۔۔ گھر بھی قریب قریب تھے اور اسکول اور کالج میں بھی دونوں ساتھ ساتھ رہیں، مگر دونوں کی عادتوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔۔۔ شازیہ بہت سیدھی سادی تھی، اس میں ریا یا دکھاوا بالکل بھی نہ تھا، جب کہ ندرت مزاج کی تھوِڑی تیز اور اسے شو آف کرنے کی بھی بہت عادت تھی۔ کوئی بھی اچھی چیز اس کے پاس آتی تو جب تک دس لڑکیوں کو دکھا کر داد وصول نہ کرلیتی اسے چین نہ آتا تھا۔ پھر بھی دونوں کی دوستی چلتی رہی۔ انٹر کے بعد ندرت کی فیملی لاہور شفٹ ہوگئی۔ شروع شروع میں تو شازیہ نے اسے بہت مس کیا مگر آہستہ آہستہ اس کی اور سہیلیاں بن گئیں۔
بی اے کرنے کے بعد شازیہ کی شادی اس کے ابو کے دوست کے بیٹے اسامہ سے ہوگئی۔ وہ سلجھے ہوئے ذہن کا نیک اطوار اور تعلیم یافتہ نوجوان تھا۔ اس کا مختصر سا خاندان تھا۔ دو بہنیں تھیں جن کی شادی ہوچکی تھی۔ ماں بقیدِ حیات تھیں، والد کا انتقال ہوچکا تھا۔ شازیہ اپنے گھر میں بہت خوش تھی۔۔۔ گھر کا ماحول بہت خوش گوار تھا۔
دیکھتے دیکھتے چار سال گزر گئے۔ اس عرصے میں وہ دو بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ اسامہ کی ملازمت ایک ایسے محکمے میں تھی جہاں ’’اوپر کی آمدنی‘‘ کے بے شمار مواقع تھے، لیکن وہ ایک ایمان دار شخص تھا۔ وہ جانتا تھا کہ رزقِ حلال ہی میں برکت ہوتی ہے۔ اسے تعیش کی زندگی کی چاہ بھی نہیں تھی۔ دن بہت سبک رفتاری سے گزر رہے تھے۔
سردیوں کی آمد آمد تھی۔ شازیہ کو بچوں کے لیے کچھ گرم کپڑے لینا تھے، قریبی مال میں شاپنگ کرتے ہوئے اس کی اچانک ندرت سے ملاقات ہوگئی۔ دونوں سہیلیاں ایک دوسرے سے بہت گرم جوشی سے ملیں۔ ندرت نے بتایا کہ اس کی بھی شادی ہوچکی ہے اور وہ تقریباً ایک سال سے کراچی ہی میں مقیم ہے۔ اس کے شوہر کی ملازمت بھی اسی کمپنی میں تھی جہاں اسامہ کام کرتا تھا۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی معمولی نقش و نگار کی ندرت خاصی بدل چکی تھی۔ کسی مہنگے پرفیوم کی خوشبو میں بسی ہوئی، بیش قیمت لباس اور نازک سی خوب صورت جولیری نے اسے کافی پُرکشش بنا رکھا تھا۔۔۔ شاپنگ مال سے باہر نکلتے ہی شازیہ نے دیکھا کہ ندرت کی بڑی سی چمچماتی ہوئی گاڑی کھڑی تھی۔ باوردی ڈرائیور نے جھک کر گاڑی کا دروازہ کھولا۔ ندرت شازیہ سے اپنے گھر آنے کا وعدہ لے کر بڑی رعونت سے قدم اٹھاتی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ شازیہ تو جیسے پتھر کی ہوگئی تھی۔ اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ندرت کے اتنے ٹھاٹ باٹ ہوں گے۔
ندرت نے کئی دفعہ فون کرکے شازیہ کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ آخر ایک دن جاب پر جاتے ہوئے اسامہ نے شازیہ کو ندرت کے گھر چھوڑا۔ ڈیفنس میں اس کا خوبصورت بنگلہ دیکھ کر شازیہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ گیٹ پر بیٹھے چوکیدار نے شازیہ کا نام پوچھ کر اندر فون کیا، پھر اسے اندر آنے کی اجازت ملی۔ خوب صورت سے وسیع لان سے گزر کر وہ اندر داخل ہوئی۔ ندرت نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔ دونوں بہت دیر بیٹھی باتیں کرتی رہیں۔ پھر ندرت شازیہ کا ہاتھ تھامے اسے اپنی کوٹھی کا ایک ایک چپہ دکھاتی رہی اور وہ ندیدوں کی طرح ہر چیز کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتی رہی۔ محل کی طرح سجا ہوا ندرت کا خوب صورت بنگلہ واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ شازیہ تو جیسے سحر زدہ سی ہوکر رہ گئی تھی۔
’’دراصل کمال میری بہت سنتے ہیں، میں جو کہوں فوراً مان لیتے ہیں۔ کراچی آنے کے بعد جب میں نے کہا کہ مجھے ڈیفنس میں گھر لینا ہے تو وہ فوراً مان گئے۔ گھر کی ڈیکوریشن اور سجاوٹ میرا ہی شوق ہے‘‘۔ اس نے اپنی انگلی میں پڑی ہوئی خوب صورت سی ڈائمنڈ رِنگ کو گھماتے ہوئے کہا۔
واپس آنے کے بعد شازیہ کو اپنا یہ پیارا سا فلیٹ بہت معمولی اور چھوٹا چھوٹا سا لگ رہا تھا۔ کاش اس کے پاس بھی ایک اچھا سا گھر ہوتا۔ ندرت کے بنگلے کی طرح نہ سہی اس قابل تو ہوتا کہ وہ ندرت کو اپنے گھر بلا سکتی۔ اس نے حسرت سے سوچا۔ ہر ایک کے اپنے اپنے نصیب ہوتے ہیں، مجھے ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔ وہ بار بار اپنا سر جھٹک دیتی، مگر اس خوب صورت بنگلے کے تصور نے اس کے ذہن کو آکٹوپس کی طرح اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا تھا۔
رات جب وہ سونے کے لیے لیٹی تو اس نے اسامہ سے کہا: ’’کیوں ناں ہم اس فلیٹ کو بیچ کر کوئی مکان خرید لیں۔۔۔ چھوٹا ہی سہی۔۔۔ زمین تو اپنی ہوگی ناں۔‘‘
’’ارے تمہیں اچانک یہ خیال کہاں سے آگیا۔۔۔! اچھا تو ہے ہمارا فلیٹ۔۔۔ صاف ستھرا، روشن، ہوا دار، اور پھر قریب ہی پارک بھی تو ہے۔۔۔ کتنا خوش ہوتے ہیں بچے وہاں جاکر‘‘۔ اسامہ شازیہ کی فرمائش پر کچھ حیران سا تھا۔
’’آخر مکان خریدنے میں حرج ہی کیا ہے۔۔۔؟‘‘ وہ بات آگے بڑھانا چاہ رہی تھی۔
’’نہیں شازیہ، میں اتنا افورڈ نہیں کرسکتا۔ ان شاء اللہ کچھ عرصے میں میری پروموشن ہونے والی ہے، پھر خرید لیں گے ہم کوئی مکان۔۔۔‘‘ اسامہ نے اسے سمجھانا چاہا۔
’’نہیں ناں۔۔۔ ہمیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، میں اپنا سارا زیور بیچ دوں گی‘‘۔ شازیہ بہت جذباتی ہورہی تھی۔
’’خدا کیے لیے ہوش کی دوا کرو۔۔۔ کیا ہوگیا ہے تمہیں، کیا جادو کردیا ہے ندرت نے تم پر۔۔۔ تم ایسی تونہ تھیں۔۔۔ سب کچھ تو دے رکھا ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں۔۔۔ اس کی ناشکری نہ کرو، میں تمہیں شکر ادا کرنے کی ایک ترکیب بتاتا ہوں۔ ایک حدیث ہے ’’ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ تم سے مال و دولت اور دنیاوی جاہ و مرتبے میں کم ہیں ان کی طرف دیکھو (تو تمہارے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہوگا) اور ان لوگوں کی طرف نہ دیکھو جو تم سے مال و دولت اور دنیاوی ساز و سامان میں بڑھے ہوئے ہیں تاکہ جو نعمتیں تمہیں اس وقت ملی ہوئی ہیں وہ تمہاری نگاہ میں حقیر نہ ہوں (ورنہ خدا کی ناشکری کا جذبہ ابھر آئے گا)‘‘۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ ہمیں جس حال میں رکھے ہمیں اس میں خوش رہنا ہے اور اس پر قناعت کرنا ہے، اسی سے ہمیں یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔۔۔ مجھے پتا ہے شازیہ تم ایسی نہیں ہو، بس ندرت کے اونچے اسٹیٹس نے تمہیں متاثر کردیا ہے۔ چلو اب سب کچھ بھول جاؤ اور سونے کی تیاری کرو۔۔۔ بہت رات ہوچکی ہے۔۔۔‘‘ اسامہ نے لائٹ آف کی اور بستر پر لیٹ گیا۔ شازیہ کچھ شرمندہ سی ہوگئی تھی۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔۔۔ اس نے سوچا کہ صبح اٹھ جانے کے بعد وہ سب سے پہلے اسامہ سے معافی مانگ لے گی۔
آج اسامہ جلدی گھر آگیا تھا۔ شازیہ باورچی خانے میں تھی۔ ’’جلدی آؤ شازیہ دو بریکنگ نیوز ہیں میرے پاس۔۔۔ ایک خبر تو بہت افسوس ناک ہے اور دوسری خبر، خبر نہیں بلکہ خوش خبری ہے‘‘۔ اسامہ نے اپنا بریف کیس میز پر رکھتے ہوئے کہا۔’’کیا بات ہے جلدی بتایئے۔۔۔ مجھے گھبراہٹ ہورہی ہے‘‘۔ شازیہ فکرمند سی ہوگئی۔
’’پہلی خبر یہ کہ تمہاری سہیلی کے شوہر آج رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے، اس وقت پولیس کی حراست میں ہیں اور ان کا وہی بنگلہ جس کی آرائش و زیبائش اور شان و شوکت سے تم مرعوب ہوگئی تھیں، سیل کردیا گیا ہے۔ تمہیں پتا ہے حرام چیز کبھی پنپ نہیں سکتی، آج یا کل اس پر زوال ضرور آتا ہے، اور جس آدمی کی کمائی حرام ہو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول نہیں کرتا، اور ہاں دوسری خبر بلکہ خوش خبری یہ ہے کہ میری پروموشن ہوگئی ہے اور آفس کی طرف سے ہمیں گھر بھی ملا ہے‘‘۔ اسامہ نے اپنے ساتھ لایا ہوا مٹھائی کا ڈبہ کھولتے ہوئے کہا۔
شازیہ حیرت اور خوشی سے اسامہ کا منہ دیکھ رہی اور دل میں اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کر رہی تھی۔

حصہ