(ہمارا جسم رب کی کاری گری سبحان اللہ (محمد شبیر احمد خان

278

 ہمارا ڈھانچہ قدرت کا ایک شاہ کار ہے۔ اس سے ہمارے جسم کو اچھی شکل و صورت ملتی ہے اور یہ اُن تمام نرم و نازک اور حسّاس اعضاکی حفاظت کرتا ہے جو قدرت نے اس کے اندر محفوظ کردیے ہیں۔ اس ڈھانچے میں کئی جوڑ ایسے ہیں، جن کے ذریعے سے ہم اپنے ہاتھ، پیر اور دوسرے اعضا کو حرکت دے سکتے ہیں۔ ڈھانچے میں ہماری کھوپڑی، جسم کا درمیانی حصّہ اور ہمارے ہاتھ پیر شامل ہیں۔
ہماری کھوپڑی 22 جداگانہ ہڈیوں سے مل کر بنی ہے، جنہوں نے مل کر یہ مضبوط پیالہ بنایا ہے جس میں ہمارا دماغ محفوظ ہے۔ اسی کھوپڑی میں ہماری آنکھیں، کان، ناک اور ہمارا منہ ہے۔ کھوپڑی کا ایک ہی حصّہ ایسا ہے، جسے ہم حرکت دے سکتے ہیں اور وہ ہے ہمارا نچلا جبڑا۔ وہ اس طرح لگا ہے کہ ہم آسانی سے اپنا منہ کھول اور بند کرسکتے ہیں۔
ہمارے جسم کے درمیانی حصّے میں ہماری ریڑھ کی ہڈی، سینے کی ہڈی اور پسلیاں شامل ہیں۔ ریڑھ میں 33 مہرے نما ہڈیاں ہوتی ہیں، اور ان مہروں کے درمیان کری ہڈیاں بالکل اس طرح پیوست ہیں، جیسے لوہے کی کسی مشین کے درمیان واشر رکھ دیے گئے ہوں۔ انہی کی وجہ سے ہم اپنی کمر کو حرکت دے سکتے اور موڑ سکتے ہیں۔ کوئی جھٹکا لگے تو اسے بھی ہڈیاں ہی برداشت کرتی ہیں۔
ریڑھ کے ساتھ 12 جوڑ پسلیاں جُڑی ہوئی ہیں۔ ان میں سے 10 خم کھاکر سینے کی ہڈی سے مل گئی ہیں۔ پسلیاں اور یہ ہڈی مل کر ہمارا سینہ بناتی ہیں، جس میں ہمارا دل اور پھیپھڑے محفوظ ہیں۔
آپ کے بازو اور ٹانگیں چند جوڑوں کے ذریعے سے آپ کے ڈھانچے سے جڑے ہیں۔ آپ کے بازو کی ہڈی کے اوپر ایک گیند جیسی ہڈی ہے جو کاندھے کے بلیڈ کے آخر میں لگے ہوئے ایک ساکٹ یا خانے میں فٹ ہوجاتی ہے۔ اسی کی بدولت آپ اپنے بازو کو کسی بھی سمت میں آسانی سے حرکت دے سکتے ہیں۔ اسی طرح آپ کی ران کے اوپر ایک گیند نما ہڈی ہے، جو پیڑو کے ایک گہرے ساکٹ میں فِٹ ہے۔ ان جوڑوں پر بڑی مضبوط ڈوریاں بندھی ہیں جو رباط کہلاتی ہیں۔ کچھ اور جوڑ بھی ہیں، مثلاً آپ کا ٹخنہ۔ اسے آپ صرف اوپر نیچے حرکت دے سکتے ہیں۔
ہم صرف اُن اعضا کو آسانی سے کسی بھی سمت میں حرکت دے سکتے ہیں، جن میں بہت سے جوڑ ہیں، مثلاً آپ کے بازو میں ایک جوڑ آپ کے کندھے پر ہے، کہنی پر ہے، کلائی پر ہے اور انگلیوں پر کئی جوڑ ہیں۔ اسی طرح آپ کی ٹانگوں پر پہلے اوپر ایک جوڑ ہے، جہاں سے ٹانگ شروع ہوتی ہے، پھر گھٹنے پر ہے، ٹخنے پر، پیر پر اور پیر کی انگلیوں پر۔ جوڑوں کی مدد سے ہی آپ اپنے سر کو اِدھر اُدھر حرکت دے سکتے ہیں اور اپنی کمر کو موڑ سکتے ہیں۔ کرکٹ کی گیند پھینکتے وقت جسم کے کتنے ہی جوڑ استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ جوڑوں کی ہڈیوں کی سطح پر رباط ہیں جو ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ مشین کے پُرزوں کی طرح اِن جوڑوں کو چکنا چُور رکھنے کا انتظام بھی ہے۔
آپ کے جسم کا ہر جوڑ پٹھوں کے ذریعے سے کام کرتا ہے، جو باریک ریشوں کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ وہ لمبے، پتلے خلیوں پر مشتمل ہوتے ہیں، جنہیں فائبر کہتے ہیں۔ وہ جوڑوں کے ساتھ مضبوط ڈوریوں سے بندھے ہوتے ہیں، جو ہماری نسیں ہیں۔
پٹھے تہ دار ہوتے ہیں۔ ایک تہ دوسری تہ پر چڑھی ہوتی ہے۔ یہ انتظام اتنا عمدہ ہے کہ ہر جوڑ اپنی جگہ نہایت مستعدی سے کام کرتا ہے۔ دراصل حرکت پیدا ہی ان پٹھوں کو کھولنے یا سکیڑنے سے ہوتی ہے۔ جب آپ اپنی کہنی بند کرتے ہیں تو بازو پر گوشت اکٹھا ہوجاتا ہے جسے ’’ڈنڈ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ دراصل پٹھے ہی ہوتے ہیں جو اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ ہمارے جسم کے تمام اعضا پٹھوں سے قوت حاصل کرتے ہیں۔ آپ کے پٹھے جتنے مضبوط ہوں گے، آپ بھی اتنے ہی زیادہ مضبوط ہوں گے۔
آپ جب بھی اپنے بازو کو حرکت دیتے ہیں تو گویا آپ اپنے بازو کے پٹھے استعمال کرتے ہیں۔ آپ اُس وقت بھی اپنے پٹھے استعمال کرتے ہیں جب آپ چلتے ہیں، دوڑتے ہیں، اپنا سر گھماتے ہیں، نیچے جھکتے ہیں یا کوئی اور حرکت کرتے ہیں۔ آپ کے چہرے میں بھی پٹھے ہیں، انہی کی مدد سے آپ منہ بناتے ہیں اور اپنے چہرے پر طرح طرح کے تاثرات پیدا کرتے ہیں مثلاً ہنسنا، منہ چڑانا، چلّانا، پلکیں جھپکانا یا ناک سکیڑنا۔ کچھ کھاتے یا بولتے وقت آپ اپنے جبڑوں کو حرکت دیتے ہیں۔ یہ کام بھی مضبوط پٹھوں ہی کا ہے۔
بعض پٹھے ایسے ہیں کہ جب وہ کام کرتے ہیں تو آپ کو پتا بھی نہیں چلتا، مثلاً جب آپ سوجاتے ہیں تو وہ آپ کے سانس لینے، ہاضمے اور قلب کی حرکت کو کنٹرول کرتے ہیں۔
سائنسی زبان میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری کھال ہمارے جسم کا سب سے بڑا عضو ہے۔ وہ ہمارے جسم کے تمام حصوں کو ڈھکے ہوئے ہے اور ان سب کی حفاظت کرتی ہے۔ کھال کی موٹائی سب جگہ یکساں نہیں ہے، بلکہ کم زیادہ ہے۔ مثلاً آنکھ کے پپوٹوں کی کھال بہت پتلی ہے۔ پشت کی کھال موٹی ہے اور ہتھیلیوں اور پیروں کے تلووں کی کھال موٹی ہے۔ آپ کی ایک نہیں، بلکہ دو کھالیں ہیں اور ہر ایک کئی تہوں پر مشتمل ہے۔ بیرونی کھال کو ’’خارجی جلد‘‘ کہتے ہیں اور اندرونی کھال ’’جلدِ حقیقی‘‘ کہلاتی ہے۔ اس کھال میں خون کی رگوں کا جال پھیلا ہوا ہے۔ ان کے علاوہ اس میں پسینے کے غدود واقع ہوتے ہیں اور ہمارے بالوں کی جڑیں بھی۔
کھال آپ کے جسم کا درجۂ حرارت ٹھیک اور معمول پر رکھنے میں بہت مدد دیتی ہے۔ جب آپ کا جسم گرم ہوتا ہے تو آپ کی جلد کے مسام خودبخود کھل جاتے ہیں۔ ان میں سے پسینہ خارج ہوتا ہے جسے ہوا اڑاتی ہے تو آپ کو خنکی کا احساس ہوتا ہے اور آپ کا ٹمپریچر معمول پر آجاتا ہے۔ ہماری جلد سے ہر وقت کچھ پسینہ اور فالتو اجزا خارج ہوتے رہتے ہیں، اس لیے نہانا اور جلد کو صاف رکھنا ضروری ہے۔
سردی زیادہ ہو تو ہماری جلد خودبخود سکڑ جاتی ہے اور اس پر اُگے ہوئے بال کھڑے ہوجاتے ہیں تاکہ جلد کو گرمی پہنچے۔ سمور دار جانوروں کے سمور بھی سخت سردی کے موسم میں پُھول جاتے ہیں اور انہیں زیادہ گرم رکھتے ہیں۔
ہمارے پورے جسم پر بال اُگے ہوئے ہیں سوائے ہماری ہتھیلیوں اور پیروں کے تلووں کے۔ ان بالوں کی لمبائی اور موٹائی البتہ مختلف ہے، مثلاً سر کے بال لمبے اور گھنے ہوتے ہیں۔ پلکوں کے بال موٹے اور ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں اور باقی جلد پر چھوٹے بال ہوتے ہیں، جو ایک دوسرے سے ذرا دور ہوتے ہیں۔
آپ کے جسم کے مرکزی نظامِ اعصاب میں آپ کا دماغ اور ریڑھ کی ہڈی بھی شامل ہیں۔ آپ کا دماغ سرمئی اور سفید مغز کا ایک پیچیدہ مجموعہ ہے، جو نسیجوں کی تین تہوں میں محفوظ ہے، جنہیں سحایا کہتے ہیں۔ ہماری سخت کھوپڑی ہمارے دماغ کی حفاظت کرتی ہے۔ دماغ اچھا خاصا بڑا عضو ہے۔ ایک بالغ انسان کے دماغ کا وزن تین پونڈ سے زیادہ ہوتا ہے۔ 7 برس کے بچّے کا دماغ بھی اس سے کچھ زیادہ چھوٹا نہیں ہوتا۔ آپ اپنے دماغ سے سوچتے ہیں، یاد رکھتے ہیں، محسوس کرتے ہیں اور اپنے جسم کی حرکات و سکنات کو قابو میں رکھتے ہیں۔
آپ کے دماغ کے دو بڑے حصّے ہیں۔ ایک مخ یا بڑا دماغ، جو کھوپڑی کے سامنے والے حصّے میں اوپر کی طرف ہوتا ہے، اور چھوٹا دماغ جو کھوپڑی کے پیچھے نچلے حصّے میں محفوظ ہوتا ہے۔ ایک گہری جھری ان دونوں حصّوں کو دائیں اور بائیں نصف حصّوں میں تقسیم کرتی ہے۔ بڑے دماغ کی سطح پر سلوٹیں پڑی ہوتی ہیں۔
ریڑھ کی ہڈی دماغ کے تسلسل سے اسی کا بڑھا ہوا حصہ ہے جو نیچے تک چلا گیا ہے۔ ریڑھ کا آخری تہائی حصّہ پتلا ہوتا چلا جاتا ہے اور ڈھڈی پر ختم ہوجاتا ہے۔ ریڑھ کے مہروں کے درمیان سے دونوں طرف چمک دار سفید رگیں نکلی ہوئی ہیں۔ یہ رگیں جسم کے ہر حصّے تک پہنچتی ہیں۔ یہی رگیں ریڑھ میں سے ہوتی ہوئی ہمارے دماغ تک پہنچتی ہیں جو ہمارے جسم میں ہیڈ کوارٹر کا درجہ رکھتا ہے۔
nn

حصہ