فیروز ناطق خسرو، سینئر شاعر ہیں ان کے والد صاحبِ دیوان شاعر تھے جب کہ ان کی والدہ بھی شعر کہتی تھیں فیروز ناطق خسرو، ایک علمی و ادبی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں ان کا سارا خاندان پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہے تاہم ان کے تمام بہن بھائیوں میں فیروز ناطق خسرو شاعری کر رہے ہیں جن کی شاعری کے بارے میں پروفیسر جاذب قریشی نے لکھا ہے کہ خسرو کا تخلیقی سفر زندگی کے مختلف اور متنوع تجربوں سے لبریز ہے ان کے ذاتی تجربوں میں جن رویوں کا اظہار ملتا ہے ان میں سماجی اور معاشرتی رشتے، ریاستی ظلم و ستم، تعصب کے نقصانات اور آشوبِ شہر شامل ہیں۔ وہ نہایت حوصلہ مندی اور جرأت کے ساتھ سچائیاں رقم کررہے ہیں انہوں نے یزید وقت کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی بلکہ وہ حسینی راستے پر گامزن ہیں انہوں نے اپنی غزلوں میں ہر تجربے کو لکھا ہے لیکن غزل کی بُنت، نظم سے مختلف ہوتی ہے غزل کا داخلی وجود، نازک، مہذب اور خوبصورت روح کی طرح ہے جو سنگ و آہن کی چوٹ سے زخمی ہو سکتا ہے اسی تناظر میں خسرو کی غزل میں طنزیہ اظہار کے استعارے ملتے ہیں۔ خسرو نے بڑی سچائی کے ساتھ محبتوں کے ادھورے پن کا اظہار کر دیا ہے محبتوں میں ایسا بے باک اور بے خوف بیان کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ ان کی شاعری میں انسانی روایات اور تمدنی اقدار کی پاس داریاں نظر آتی ہیں وہ فنی اعتبار سے کلاسیکی انداز کے ساتھ ساتھ جدید زندگی تک آئے ہیں انہوں نے کسی کا اسلوب نہیں چرایا بلکہ اپنا لب و لہجہ سب سے الگ رکھا ہے۔ ان تعارفی کلمات کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ فیروز ناطق خسرو کے مجموعۂ غزل ’’طلسم مٹی کا‘‘ ابھی حال ہی میں شائع ہوا ہے جس کی تقریبِ اجراء، 29 نومبر 2016ء، منگل کے دن، آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی لائبریری کمیٹی کے زیر اہتمام کراچی آرٹس کونسل میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب کے صدر پروفیسر سحر نصاری تھے۔ ڈاکٹر شاداب احسانی، مہمانِ اعزازی تھے جب کہ مقررین میں پروفیسر ہارون رشید، انجم عثمان، علی خرم پاشا اور نوخیز انور صدیقی شامل تھے سہیل غازی پوری، اختر سعیدی، محمد علی گوہر، اور ضیاء شہزاد نے فیروز ناطق خسرو کے منظوم خراجِ تحسین پیش کیا، حافظ محمد نعمان طاہر نے تلاوتِ کلامِ مجید اور نعتِ رسول پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ فیروز ناطق خسرو کے بارے میں کہا کہ وہ گزشتہ 50 برسوں سے شعر کہہ رہے ہیں ان کا سارا خاندان، ادب نواز ہے وہ فطری طور پر موزوں طبع ہیں یعنی پیدائشی شاعر ہیں شاعری ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے کیونکہ ان کے والدین بھی شعر کہتے تھے ان کی شاعری ان کے دلی کیفیات کی عکاس ہے انہوں نے عصری معاشرت کے نشیب و فراز کی زبوں حالی کا نقشہ کھینچا ہے انہوں نے اپنے عہد کی سچائیوں کی ترجمانی کی ہے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی لائبریری کمیٹی کے چیئرمین سہیل احمد نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ 11 سال سے آرٹس کونسل کی گورننگ باڈی کے رکن ہیں ہمارے لیڈر احمد شاہ ہیں وہ میر کارواں ہیں ہم ان کی سربراہی میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے معروفِ عمل ہیں آج لائبریری کمیٹی کے زیرِ اہتمام 74 ویں ادبی تقریب منعقد کی جارہی ہے ہم قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ فیروز ناطق خسرو کی شاعری ظلمتِ شب میں روشن چراغ ہے انہوں نے تمام معاشرتی مناظز اپنی شاعری میں پینٹ کر دیے ہیں مجھے امید ہے کہ ان کا یہ مجموعۂ کلام اردو ادب میں ایک گراں قدر، اضافہ ہے ان کے خطبۂ استقبالیہ کے بعد صاحبِ کتاب کو پھولوں کے تحفے، تحائف پیش کیے گئے۔
صاحبِ صدر، پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی اس شہر کی رونقوں میں اضافہ کر رہی ہے اس ادارے کے زیرِ اہتمام مختلف شعراء کی کتابوں کی تقاریبِ اجراء کا سلسلہ جاری ہے آج اس حوالے سے فیروز ناطق خسرو کی کتاب کی تقریب ہے اس کتاب کے خالق ہمارے شہر کی مشہور ادبی شخصیات میں شامل ہیں ہم ان کے کلام کو مختلف محفلوں میں سنتے رہتے ہیں یہ بہت وضع دار انسان ہے ایک طویل عرصے سے میدانِ سخن میں نام کما رہے ہیں ان کی غزلوں کی یہ پہلی کتاب ہے اس پر کچھ لکھنے کے لیے انہوں نے اپنا مسودہ مجھے بھجوا دیا تھا میں نے ان کے اشعار بہ غور پڑھے ہیں جس کے نتیجے میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ ان کی شاعری میں انسانیت کے رویوں کو برتا گیا ہے ان کی غزلیں جدیدیت اور کلاسیکیت سے ہم آہنگ ہیں انہوں نے سنگلاخ ردیفوں میں خوبصورت اشعار نکالے ہیں اس سے ان کے فن کی مشاقی کا اظہار ہوتا ہے انہوں نے مثبت استعارے بنائے ہیں پروفیسر سحر انصاری نے مزید کہا کہ فیروز ناطق خسرو نے زندگی کے مختلف رویوں کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور معاشرتی ناہمواریوں، نا انصافیوں پر خاموش نہیں رہے بلکہ یہ بانگِ دُہل معاشرے کے غارت گردں کو للکارا ہے لوگوں کے ذہنوں کو جھنجھوڑا ہے انہیں خوابِ غفلت سے بیدار کیا ہے انہوں نے ادب کے کینوس ایسے رنگ بکھیرے ہیں کہ جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں یہ ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ اردو کے فروغ میں پیش پیش ہے یہ بزمِ ناطق بدایوں کے پلیٹ فارم سے اکثر و بیشتر مشاعرے کراتے رہتے ہیں۔
اپنی صدارتی تقریر کے بعد پروفیسر سحر انصاری اس تقریب سے رخصت ہوئے اور منصبِ صدارت پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی کو تفویض کی گئی جب کہ پروفیسر ہارون رشید، مہمانِ خصوصی کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے، سلمان صدیقی نے پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے فیروز ناطق خسرو کے صاحب زادے علی خرم پاشا کو اسٹیج پر بلایا جنہوں نے کہا کہ وہ اپنے والد سے بہت متاثر ہیں کیونکہ انہوں نے ہماری تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی انہوں نے اپنی محدود آمدنی میں سے ایک بڑا حصہ ہماری تعلیم پر خرچ کیا خدا کا شکر ہے کہ آج میرے تمام بہن بھائی خوش حال ہیں ہمارے گھریلو حالات بہت اچھے ہیں ہمارے والد نفیس انسان ہیں وہ ہم سب سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے انہوں نے ہماری غلطیوں پر ہمیں مارا پیٹا نہیں بلکہ آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا ان کی شاعری کے بارے میں تو ناقدان علم و فن فیصلہ کریں گے لیکن یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ آج ہم اپنے ابو کے حوالے سے ایک شان دار تقریب میں موجود ہیں اور ہمارے بہت سے رشتے دار یہاں آئے ہیں میں ان تمام کا مشکور ہوں اور آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی لائبریری کمیٹی کے چیئرمین سہیل احمد کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ پروفیسر انجم عثمان نے کہا کہ فیروز ناطق خسرو کی شاعری میں جمالیاتی اظہار ہے ان کے اشعار میں باطنی بالیدگی، سحر انگیزی اور فکر انگیزی پائی جاتی ہے فیروز ناطق خسرو، شاعری کا ایک معتبر حوالہ ہیں انہوں نے عصری دکھوں اور معاشرتی کرب کو ہم آہنگ کرکے لوگوں تک پہنچایا ہے یہ غالب اور میر کے معتقد ہیں ان کے یہاں ان دونوں کے طرزِ سخن کے نمونے نظر آتے ہیں انہوں نے آئینے کا استعارہ، مختلف انداز سے نظم کرکے آئینے کو ایک نیا مضمون دیا ہے یہ پوری قوت اور توانائی سے شعر کہہ رہے ہیں ان کے بہت سے اشعار حالتِ سفر میں ہیں یہ اپنے گھرانے کی تہذیبی اور ثقافتی اقدار کے آئینہ بردار بھی ہیں شاعری ان کے لہو میں شامل ہیں یہ فی البدیہ اشعار کہنے میں بھی مشہور ہوتے جا رہے ہیں اپنی تقریر کے اختتام سے پہلے انجم عثمان نے فیروز ناطق خسرو کے لیے چند اشعار بھی سنائے۔ نوخیر انور صدیقی نے فیروز ناطق خسرو کے بارے میں کہا کہ وہ معتبر قلم کار ہیں بہت سادہ زبان میں بہت اچھے اشعار کہتے ہیں انہوں نے اپنی غزلوں میں ہجرت، تہذیبی اقدار کی پائمالی، مردہ ضمیری، بے حسی، طبقاتی کش مکش، دہشت گردی، رشتوں سے لا تعلقی، جبر و استبداد اور معاشرے کے دیگر رویوں کو بہت خوبصورتی سے اپنے اشعار میں ڈھالا ہے ان کی یہ تخلیق ان کے وار دات قلبی کی آئینہ دار ہے۔ صاحبِ اعزاز فیروز ناظق خسرو نے اپنے اشعار سنانے سے قبل آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کا شکریہ ادا کیا کہ جنہوں نے ان کے لیے یہ تقریب سجائی اس موقع پر فیروز ناطق نے اپنی کئی غزلیں سنا کر سامعین سے داد وصول کی۔
تقریب کے مہمانِ خصوصی پروفیسر ہارون رشید نے کہا کہ فیروز ناطق خسرو، قادر الکلام شاعر ہونے کے علاوہ ایک نفیس انسان ہیں ان کی شاعری انسانی رویوں کی مظہر ہے انہیں الفاظ کے دروبست پر دسترس حاصل ہے انہوں نے شاعری کے ذریعے اصلاحِ معاشرہ کا کام کیا ہے یہ بہت پڑھے لکھے انسان ہیں ان کے یہاں خوبصورت شعری تراکیب نظر آتی ہیں۔ قائم مقام صدرِ تقریب پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ فیروز ناطق خسرو نے اپنے کلام میں تصوف کے مسائل بھی Discuss کیے ہیں انہوں نے عشقِ رسولؐ میں ڈوبی ہوئی نعتیں بھی کہی ہیں یہ ہمہ جہت اور ہمہ صفات انسان ہیں انہوں نے بہ حیثیت اسکور ڈن لیڈر، ایئرفورس میں ملازمت کی لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنی P.R کو، اپنی شاعری کی ترویج و اشاعت کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ یہ اپنی قوت سخن کے سہارے ادبی منظرنامے میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں اب یہ Unknow نہیں ہیں سارا زمانہ انہیں جانتا ہے کہ یہ بہت اچھی شاعری کررہی ہیں یہ نرم و ملایم لہجے میں اپنی بات کرتے ہیں ان کا اسلوب شائستہ اور تہذیبی اقدار کا محور ہے یہ ایک خوش فکر شاعر ہیں اور کھلے دل کے انسان ہیں ان کی شاعری پڑھ کر ہمارے ذہن کے دریچے کھل جاتے ہیں اور ہم بہت سی نئی معلومات حاصل کر لیتے ہیں ان کا یہ شعری مجموعہ ادبی دنیا میں خوش گوار اضافہ ہے۔
***
ممتاز شاعر ظفر محمد خاں ظفر نے کہا ہے کہ موسیقی اور شاعری ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں یہ ایک ہی شاخ کے دو پھول ہیں۔ فنونِ لطیفہ میں ان دونوں کے نام سے تروتازگی ہے ان خیالات کا انہوں نے نیشنل میوزیم میں فن کار فورم کراچی کی جانب سے شاعرہ اور محفلِ موسیقی میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا انہوں نے مزید کہا کہ آج کی تقریب کے دونوں حصے بہت کامیاب رہے ہر شاعر نے اپنی منتخب غزل پڑھی اور فن کاروں نے بہت عمدہ پرفارمنس کی۔ آغا شیرازی اور ڈاکٹر نزہت عباسی نے نظامت کے فرائض انجام دیے، شکیل بھئی، عابد حسین اور قدیر خاں اس پروگرام میں مہمانانِ خصوصی تھے۔ ساجد علی خان نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔ ظفر محمد خاں ظفر، پروفیسر سحر انصاری، رونق حیات، غلام علی وفا، اختر سعیدی، پروین حیدر، رشید خاں رشید، محمد علی گوہر، ڈاکٹر نزہت عباسی، سہیل احمد، حمیدہ کشش، اسد لکھنوی، وقار زیدی، روشن تبسم اور الحاج نجمی نے اپنے اشعار نذرِ سامعین کیے اس موقع پر ڈاکٹر عابد حسین مرزا نے کہا کہ ہم شاعری اور موسیقی کے ذریعے معاشرے کو امن و امان کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ قدیر احمد خاں نے کہا کہ معاشرے کے لیے اس قسم کی محفلوں کا انعقاد بہت ضروری ہے ہم شاعری اور موسیقی سے بہت کچھ سیکھتے ہیں یہ دونوں روح کی غذا ہیں جب ہمیں غذا نہ ملے تو ہم زندہ نہیں رہ سکتے۔
***
استاد قمر جلالوی اپنے زمانے کے بہت بڑے شاعر تھے ان کے شاگردوں میں اعجاز رحمانی بھی شامل ہیں جو کہ خود بھی ایک معتبر شخصیت ہیں انہوں نے اپنے استاد کے حوالے سے بزمِ قمر جلالوی تشکیل دی ہے جس کے جنرل سیکرٹری عبدالوحید تاج ہیں یہ ادبی تنظیم نوزائیدہ ہونے کے باوجود، بہت عمدہ پروگرام ترتیب دے رہی ہے اس ادارے کے تحت ہر ماہ ایک شعری نشست سجائی جاتی ہے گزشتہ ہفتے اس سلسلے کی ایک نشست اعجاز رحمانی کی رہائش گاہ میں منعقد ہوئی۔ وکیل صابر نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت پیش کی۔ عبدالوحید تاج نے نظامت کے فرائض کی ادائیگی کے علاوہ خطبۂ استقبالیہ پیش کیا ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے حالات جیسے جیسے بہتر ہو رہے ہیں ویسے ویسے ادبی پروگرام فروغ پا رہے ہیں اب روزانہ کہیں نہ کہیں کوئی مشاعرہ یا مذاکرہ ہو رہا ہے آرٹس کونسل میں اور کراچی پریس کلب میں ادبی محافل کا تسلسل جاری ہے ہم نے بھی اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈال دیا ہے اور ہم نا مساعد حالات کے باوصف، اردو کے فروغ کے لیے مصروفِ عمل ہیں انہوں نے مزید کہا کہ مشاعرے منعقد کرنا بہت اہم کام ہے کیونکہ ہم اس ادارے کے تحت اپنی تہذیبی اقدار، اپنی نئی نسل تک منتقل کررہے ہیں ہر زمانے میں قلم کاروں نے اپنے عصری مسائل اجاگر کیے ہیں کیونکہ اربابِ سخن، عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ حساس ہوتے ہیں وہ کسی بھی منظر کو سرسری طور پر بھی نہیں دیکھتے بلکہ وہ زندگی کے رویوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ جو لوگ ادب برائے زندگی پر عمل کرتے ہیں وہ کامیاب شاعر کہلاتے ہیں یہ زمانہ ’’گل و بلبل‘‘ کے افسانوں کا نہیں ہے بلکہ ہمیں اپنے اشعار میں معاشرتی اصلاح کا پہلو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔
اعجازی رحمانی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ شاعری خدا کی دین ہے ہر شخص شاعری نہیں کرسکتا لہٰذا شاعروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو سچی اور زمینی حقائق پر مشتمل شاعری سنائیں، شاعری کرتے وقت ہمارے ذہن میں یہ بات بھی ہونی چاہیے کہ ہمیں اپنی شاعری سے لوگوں کومثبت پیغام دینا ہے انہوں نے مزید کہا کہ آج کل کراچی میں ادبی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں خدا ہمارے شہر میں امن و امان قائم رکھے، دنیا کے بدلتے ہوئے منظرنامے میں بحیثیت قوم ہم کہاں کھڑے ہیں یہ بات ہم سب کو سوچنی چاہیے ہمیں زندگی کے ہر میدان میں ترقی کرنی ہوگی اور ترقی کرنے کے لیے آپس میں محبتوں کو فروغ دینا ہوگا۔ اس مشاعرے میں اعجاز رحمانی، عبدالوحید تاج، سید فیاض علی، عبدالمجید محور، رحمت اللہ جری، سراج الدین سراج، علی اوسط جعفری، حامد علی سید، شاعر علی شاعر، رضی عظیم آبادی، احمد سعید خان، عتیق الرحمن، سجاد ہاشمی، زاہد علی سید، شبینہ گل انصاری، فخر اللہ شاد، آصف علی آصف اور ڈاکٹر وکیل صابر نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔
nn