ڈھا۔۔۔ڈھا ڈھا۔۔۔ڈھز۔۔۔بڑی آنکھ سے نکلتی سرخ روشنی سے انسان بے بس ہوکر گر گئے۔۔۔منا ڈرا سہما دیکھ رہا تھا۔ روز کی طرح کارٹون لگا کر مما مصروف تھیں۔
’’یہ کھا لو ناں۔۔۔‘‘ اسے ڈانٹ پڑی۔
’’مما گندی۔۔۔‘‘
پھر کارٹون میں شیر اور شیرنی گانا گانے لگے۔
آلو کا خشک چپس گلے میں پھنس رہا تھا، مگر آواز اچھی تھی۔
کڑ۔۔۔کڑ کڑ۔۔۔اس نے چپس چُورا کردیے۔
’’اُف! سارا قالین گندا کردیا‘‘۔
اس کے نرم گال پر ایک تھپڑ پڑا۔
ٹی وی دیکھتے ہوئے وہ بھوکا ہی سو گیا۔ ماموں آئے تو کرسمس کی کہانی چل رہی تھی۔
’’نہ جانے یہ بچے ان کارٹون فلموں سے کیا سیکھتے ہیں؟‘‘ وہ سر جھٹکتے ہوئے ٹی وی بند کررہے تھے، جب منا ڈر گیا۔ اسے خواب میں بھی ڈراؤنے کارٹون نظر آتے تھے۔
ماموں کی بات پر منے کے ابو ہنسنے لگے: ’’ارے ہم منا کیسے بن سکتے ہیں؟‘‘
ماموں بولے: ’’منے والے کام کرکے‘‘۔
آپا نے منہ بنایا: لو بھلا، منے کو کام ہی کیا ہے، سارا دن کارٹون دیکھنا۔‘‘
’’ہم بھی کارٹون دیکھیں گے، پتا تو چلے منا کیا دیکھتا ہے، کیا اثر لیتا ہے؟‘‘ ماموں ذرا رک کر بولے: ’’بچے وہی کچھ سیکھتے ہیں، جو وہ دیکھتے ہیں۔ مجھے وہ حدیثِ پاک یاد آرہی ہے کہ اللہ نے سب انسانوں کو اسلام کی فطرت پر پیدا کیا ہے، لیکن ماحول کے اثر سے وہ یہودی اور عیسائی بن جاتے ہیں۔‘‘
اب سب کارٹون دیکھ رہے تھے۔ کبھی انسان، کبھی بلا بن جانے والی مخلوق، مار دھاڑ، انسانی کم زوری، دیوتاؤں کی طاقت، جادو، شیطانی شکلیں، دجالی اشارے، ناچ گانے، نامناسب لباس، بے حیائی کی باتیں۔۔۔کون سی گندی چیز بچوں کے چینل پر نہیں تھی۔۔۔! سب چپ تھے، آخر آپا بے چینی سے بولیں: ’’حد ہوگئی، مجھے تو شرم آرہی ہے یہ سب دیکھ کر۔۔۔‘‘
ماموں اداسی سے کہنے لگے: ’’حیا کے بغیر ایمان نہیں، اور کارٹون بچوں کا ایمان خراب کررہے ہیں۔ یہ واہیات کارٹونز دیکھ کر بچوں کی شرم وحیا اُڑتی جارہی ہے‘‘۔
ابو بھی چپ نہ رہ سکے، بولے: ’’سارا دن ٹی وی لگا کر بچے کو چھوڑنا تو شیطان کو کھلی چھوٹ دینا ہے کہ لے جیسے تیرا دِل کرے تو اس بچے کو برباد کر۔۔۔‘‘
ماموں کہنے لگے: ’’آپ ٹھیک کہتے ہیں، یہ ہماری اپنی کوتاہی ہے، ورنہ اللہ پاک کا فرمان ہے کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔
ایک لمحے کو وہ خاموش ہوئے، پھر دوسرے ہی لمحے بولے: ’’موت پر اللہ کا اختیار ہے، اس لیے شیطان ہمیں مار نہیں سکتا، مگر کوشش کرتا ہے کہ انسانی زندگی برباد ہو۔ کارٹون لڑائی، جنگ اور غصے کا جذبہ پیدا کرتے ہیں تاکہ انسانی برداشت ختم ہوجائے اور انسان، انسان کو مار ڈالے۔ میں نے پڑھا تھا کہ کارٹون خاص تکنیک سے بنائے جاتے ہیں تاکہ بچے جلدی بڑے ہوجائیں۔‘‘
آپا فوراً بولیں: ’’یہ تو اچھا ہے ناں۔۔۔‘‘
’’میری بھولی آپا! انسان، جانور، پودے، جراثیم۔۔۔ سب کی زندگی کا لائف سائیکل (Life Cycle ) ہوتا ہے۔ مثلاً پیدا ہونا، بڑھنا وغیرہ۔ اگر یہ سائیکل تیز کردیا جائے تو۔۔۔‘‘
ماموں نے خلا میں دیکھتے ہوئے ایک گہرا سانس لیا، پھر دھیرے سے بولے: ’’لائف سائیکل تیزی سے ختم ہوگا اور مخلوق جلدی مرے گی۔‘‘
منے کے ابو بولے: ’’جی بھائی جان! جب بچپن ختم ہوگا تو انسانی عمر بھی کم ہوگی‘‘۔
’’اوہ! یہ تو انسانوں کے خلاف شیطانی سازش ہے۔۔۔‘‘ آپا نے پریشانی سے کہا۔ ماموں مسکرائے۔ وہ بات سمجھانے میں کامیاب ہوگئے تھے، لیکن آپا بہت سنجیدہ تھیں:
’’ہم اپنے منے کو پیارا سا بچپن دیں گے جیسا ہمارا تھا۔۔۔ قدرتی ماحول، سادہ کھانا، اللہ رسول کا ذکر اور کتنی بہت سی اچھی باتیں‘‘۔
تینوں بچپن یاد کرنے لگے۔ ابو نے بتایا کہ ایک دفعہ میں نے ایک کلو آلو مٹی میں ڈال دیے تھے۔۔۔ ‘‘
’’پھر تو پٹائی ہوئی ہوگی۔۔۔؟‘‘
’’ارے کہاں۔۔۔‘‘ دادی اماں بولیں: ’’کھیتی باڑی پیغمبروں نے بھی کی تھی، پھر بیٹے کے کھیت کے آلو پکائے اُس دن۔۔۔‘‘
’’ان کی یہی محبت ہے، اسی لیے تو ان کے پاؤں دبائے بغیر چین نہیں آتا‘‘ ابو نے بڑے پیار سے اپنی امّاں کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔
’’آپا، یاد ہے کہ ہم نے چاول پکائے تھے، مٹھی بھر نمک اور گڑ ڈال کر‘‘۔ ماموں کی بات سن کر سب ہنس پڑے۔
’’پھر تو ڈانٹ پڑی ہوگی؟‘‘
‘‘نہیں تو، امی نے بتایا کہ رزق خراب نہیں کرتے۔ اور پاس بٹھاکر پکانا سکھایا۔ ڈانٹ اور مار تو جھوٹ بولنے، گالی دینے یا چوری کرنے پر پڑتی تھی۔‘‘
یہ کہتے ہوئے انہیں منے کو بے بات ڈانٹنے پر دُکھ ہوا۔
‘‘بابا جان یٰسین شریف پڑھتے تھے اور میں ان کی گود میں سر رکھ کر سنتا تھا تو مجھے بھی وہ سورت یاد ہوگئی تھی۔ ان کی ہر بات میں نیکی کا درس تھا۔۔۔‘‘
’’کتنی محبت دی ہمیں ماں باپ نے‘‘۔
’’اسی لیے تو ہم بھی ان سے پیار کرتے ہیں‘‘۔
’’ہمارا منا بھی ہم سے بہت محبت کرے گا، ہم اس کی اچھی تربیت کریں گے ان شاء اللہ۔۔۔‘‘
’’بیٹے! بسم اللہ پڑھ کے کھاؤ۔۔۔‘‘
مما نے مزے دار چُوری کھلائی تو منا سوچنے لگا: ’’اللہ جی اچھے، مما اچھی‘‘۔
’’میرا بیٹا اللہ کی نعمت ہے۔ اللہ زندگی دے، ایمان سلامت رکھے۔۔۔‘‘
مما نے دُعا دی۔
آج مُنّا جب سوکر اُٹھا تو دنیا ہی بدل گئی تھی۔۔۔گندے کارٹون ’’گم‘‘ ہوگئے تھے، ابا چٍوزے لے آئے تھے اور منا ہنستا کھلکھلاتا صحن میں پھدکتے ننھے منے چوزوں پر لپک رہا تھا۔
پھول، تتلیاں، درختوں پر چہکتی چڑیاں، ہوا اور بادل۔۔۔اللہ نے انسان کے لیے بڑی پیاری سی دنیا بنائی ہے۔۔۔ منا اس پیاری سی دنیا کا حصہ بن کر بہت خوش تھا!!
nn