’’کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘‘۔۔۔ پنجاب میں جمہوریت کی اساس کہلانے والے منتخب بلدیاتی اداروں کی بحالی کے ضمن میں ’’روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں‘‘۔ ملک میں سب سے زیادہ عرصۂ اقتدار میں رہنے والی دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے قائدین محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نوازشریف نے خود اختیار کردہ جلاوطنی کے آخری دنوں میں 2007ء میں جب لندن میں ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کے نام سے ایک یادداشت پر دستخط کیے تو اس میں مقامی حکومتوں کے نظام کی ضرورت و اہمیت کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی قوم سے وعدہ کیا کہ وہ اقتدار میں آنے کے تین ماہ میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات کروا کر مقامی سطح پر منتخب نمائندوں کی حکومتوں کے قیام کو یقینی بنائیں گے۔ مگر ہمارے حکمرانوں کے ہاں تو پہلے ہی سے یہ طے ہوتا ہے کہ ’’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا‘‘۔۔۔ اور اپنے دورِ اقتدار میں جناب آصف علی زرداری نے تو کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر برملا اعلان بھی کیا تھا کہ وعدہ تو بس وعدہ ہوتا ہے، کوئی قرآن و سنت نہیں کہ اس کی پابندی ضروری ہو۔۔۔ یہ سوال الگ ہے کہ ہمارے حکمران بڑے پکے مسلمان ہونے کے باوجود قرآن و سنت کی پابندی کا کس قدر اہتمام کرتے ہیں جو اُن سے وعدے پورے کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔ ورنہ وعدہ ایفا کرنے کا حکم بھی تو اللہ تعالیٰ ہی نے دیا ہے اور قرآن و سنت ہی کا تقاضا ہے۔
اپنی روایات کے عین مطابق پیپلزپارٹی اور نواز لیگ دونوں نے 2008ء میں اقتدار ملنے کے بعد ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ میں اپنے عہد کو طاقِ نسیاں پر رکھتے ہوئے پہلا وار آمر جنرل پرویزمشرف کے قائم کردہ بلدیاتی اداروں پر ہی کیا، اور 2005ء میں انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والے بلدیاتی نظام، جس میں مقامی حکومتوں کے سربراہ کو ناظم کا نام دیا گیا تھا اور اس نظام کے ذریعے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کو بھی خاصی حد تک ممکن بنایا گیا تھا، کو تمام صوبوں میں ختم کردیا گیا۔ اگرچہ ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے تین ماہ کے اندر مقامی حکومتوں کے انتخابات کو یقینی بنایا جائے گا مگر یکم جنوری 2010ء سے آج تک پیپلز پارٹی اور نواز لیگ دونوں نے اپنا پورا زور لگایا کہ ان اداروں کے قیام کو جس طرح بھی ہوسکے روکا جائے۔ بلوچستان نے سب سے پہلے مقامی حکومتوں کے انتخابات کروا دیئے، یہ ایک الگ بحث ہے کہ وہاں بھی بلدیاتی ادارے قائم تو ہوگئے مگر انہیں اختیارات کی منتقلی کے لیے کشمکش ابھی تک جاری ہے۔ صوبہ خیبر پختون خوا میں، جہاں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت ہے، مئی جون 2015ء میں انتخابات کے بعد یہ نظام فعال ہوگیا، مگر سندھ جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور پنجاب جہاں نوازلیگ گزشتہ آٹھ سال سے برسراقتدار ہے، اور یہ دونوں ہی جماعتیں ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کو اپنا کارنامہ قرار دیتے نہیں تھکتیں، ان دونوں جماعتوں کی حکومتوں نے اپنے اپنے صوبوں میں آخری دم تک بلدیاتی نظام کے قیام کی بھرپور مزاحمت کی۔2005ء میں منتخب ہونے والے ادارے قبل از وقت توڑے جانے کے بعد گزشتہ سات سال کے دوران عدالت ہائے عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ نے بار بار صوبائی حکومتوں کو بلدیات کے انتخابات کرانے کی ہدایات جاری کیں مگر سندھ اور پنجاب کی حکومتیں مختلف حیلوں بہانوں سے ٹالتی رہیں۔ آخر جب عدالتِ عظمیٰ نے دوٹوک انداز میں سخت اور حتمی احکام جاری کیے تو مجبوراً ان دونوں صوبوں نے بھی بلدیاتی انتخابات کروا دیئے۔ مگر چونکہ یہ دونوں حکومتیں دل سے ان اداروں کو فعال دیکھنے کی خواہاں نہیں، اس لیے انتخابات گزشتہ سال 5 دسمبر کو مکمل ہوجانے کے باوجود ’’خوئے بدرا بہانہ بسیار‘‘ کے مصداق ان اداروں کی مخصوص نشستوں پر انتخابات کو معرضِ التوا میں رکھا گیا۔ سندھ میں ابھی چند ہفتے قبل ان کے سربراہوں کے انتخابات کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد اگرچہ صوبے کے ساتھ اختیارات کی جنگ جاری ہے مگر یہ ادارے کام شروع کرچکے ہیں۔
پنجاب میں عدالتِ عظمیٰ کے سخت حکم کے جبر کے پیش نظر گزشتہ برس تین مراحل میں بارہ بارہ اضلاع میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کروائے گئے۔ پہلا مرحلہ 31 اکتوبر، دوسرا مرحلہ 19 نومبر اور تیسرا مرحلہ 5 دسمبر کو مکمل ہوا، مگر ایک سال سے زائد گزرنے کے باوجود صوبائی حکومت ان کا راستہ روکے کھڑی ہے۔ حکومت کی اس پالیسی کے نتیجے میں ایک سال قبل منتخب ہونے والے کونسلروں اور یونین کونسلوں کے چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں میں جب مایوسی انتہا کو چھونے لگی تو کچھوے سے بھی زیادہ سست رفتار سے آگے بڑھتے ان اداروں میں خواتین، ٹیکنوکریٹس، محنت کشوں اور اقلیتوں وغیرہ کی نشستوں پر بالواسطہ انتخابات کا ڈول ڈالا گیا۔ چنانچہ بلدیہ عظمیٰ لاہور اور 35 اضلاع میں میونسپل کارپوریشنوں اور ضلع کونسلوں کی مخصوص نشستوں کے انتخابات 15 نومبر کو کروائے گئے۔ میونسپل کمیٹیوں میں 17 نومبر اور یونین کونسلوں کی مخصوص نشستوں کے نمائندوں کا انتخاب 19 نومبر کو مکمل ہوا۔ مگر ان نشستوں پر منتخب نمائندوں کی حلف برداری کی نوبت تاحال نہیں آسکی تھی۔ اب ان نمائندوں سے ہفتہ 3 دسمبر کے روز حلف لے لیا گیا ہے جس کے بعد ان نمائندوں کو اپنے اپنے اداروں کے سربراہوں کا انتخاب کرنا ہے۔
قدرت کو دن رات محنت، گھر گھر جاکر ووٹوں کی بھیک مانگنے اور زرِکثیر خرچ کرکے ایک سال قبل منتخب ہونے والوں کی حالت پر شاید اب رحم آگیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب میں میئروں، ڈپٹی میئروں، چیئرمینوں اور وائس چیئرمینوں کے انتخاب کے لیے شیڈول جاری کردیا ہے، جس کے مطابق ان عہدوں کے لیے امیدواروں نے 6 دسمبر کو اپنے اپنے اضلاع کے ریٹرننگ افسران سے کاغذاتِ نامزدگی حاصل کیے اور پھر یہ کاغذاتِ نامزدگی 9 اور 10 دسمبر کو جمع کرائے گئے۔ 11 اور 12 دسمبر کو ان کاغذات کی جانچ پڑتال ہوگی جس کے بعد کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیلیں اور ان کی سماعت ہوگی۔ 15 دسمبر کو امیدوار اپنے کاغذات واپس لے سکیں گے جب کہ 16 دسمبر کو امیدواروں کی حتمی فہرستیں جاری کی جائیں گی اور ان امیدواروں کو انتخابی نشانات الاٹ کیے جائیں گے۔ پولنگ 22 دسمبر جمعرات کو ہوگی، 23 دسمبر کو غیر سرکاری نتائج کا اعلان کیا جائے گا، جب کہ باقاعدہ سرکاری نتائج یعنی کامیاب امیدواروں کے ناموں کا حتمی نوٹیفکیشن 28 دسمبر کو جاری ہوگا۔ یہ تمام مراحل بخیر و خوبی مکمل ہوگئے اور حکمرانوں کے مزاج بھی بخیر رہے تو 31 دسمبر کو نومنتخب میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین اور وائس چیئرمین اپنے عہدوں کا حلف اٹھائیں گے۔ یوں چودہ، پندرہ ماہ کی سخت ریاضت کے بعد یکم جنوری 2017ء سے پنجاب میں سات سال کے طویل وقفے کے بعد مقامی حکومتوں کے نظام کی بحالی کا قوی امکان ہے۔ تاہم حتمی اور یقینی بات اب بھی نہیں کہی جا سکتی، کیونکہ ابھی چائے کے کپ کے ہونٹوں تک پہنچنے میں کئی مراحل باقی ہیں اور کون جانے کہ کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔
جہاں تک انتخابی شیڈول کے اجراء کا تعلق ہے تو اس کو یقین کی اساس اس لیے نہیں ٹھیرایا جا سکتا کہ پچھلے سات سال کے دوران اس طرح کے کئی شیڈول جاری، مؤخراور منسوخ ہوچکے ہیں، حتیٰ کہ کاغذاتِ نامزدگی جمع کرلینے کے بعد بھی سارا انتخابی عمل معطل کیا جا چکا ہے۔
تاہم اب چونکہ عام انتخابات کا مرحلہ بھی کچھ بہت زیادہ دور نہیں اور اگر موجودہ حکومت کو اپنے پانچ سال مکمل کرنے کا موقع مل جائے تب بھی یہ انتخابات اب محض ڈیڑھ برس کی دوری پر ہیں، اور عام انتخابات میں کامیابی کے بہت سے دیگر عوامل کے ساتھ بلدیاتی ادارے بھی بہرحال ایک اہم عامل ہے، جس کو حکمران جماعت اپنے حق میں استعمال کرنے کا موقع یقیناًضائع نہیں کرے گی۔ یوں بھی گزشتہ ماہ کابینہ میں کی جانے والی توسیع کے بعد صوبے کو ایک کُل وقتی صوبائی وزیر بلدیات میسر آگئے ہیں، اس سے بھی اس امکان کو تقویت ملتی ہے کہ حکومت شاید اب بلدیاتی اداروں کی بحالی میں سنجیدہ ہے۔
بلدیاتی اداروں کے آئندہ مرحلہ میں پنجاب میں صوبائی دارالحکومت لاہور کی بلدیہ عظمیٰ سمیت بارہ میونسپل کارپوریشنوں کے بارہ میئروں، 24 ڈپٹی میئروں، 35 ضلع کونسلوں کے 35 چیئرمینوں، 67 وائس چیئرمینوں اور 182 میونسپل کمیٹیوں کے 182 چیئرمینوں اور اتنے ہی وائس چیئرمینوں کا انتخاب ہوگا۔ جہاں تک جماعتی سیاست کا تعلق ہے تو صوبے کے 36 اضلاع میں سے ایک آدھ کے سوا تمام اضلاع میں حکمران نواز لیگ کو اکثریت حاصل ہے۔ ابھی گزشتہ ماہ ہونے والے مخصوص نشستوں کے انتخابات نے یہ بات واضح کردی ہے کہ بارہ میونسپل کارپوریشنوں، 33 ضلع کونسلوں اور 168 میونسپل کمیٹیوں میں حکمران لیگ کی برتری واضح ہے، چنانچہ ان بلدیاتی اداروں کی سربراہی حکمران مسلم لیگ ہی کے حصے میں آنے کے امکانات روشن ہیں۔۔۔ بلکہ زیادہ درست بات یہ ہوگی کہ اکثر اضلاع میں جیتنے اور ہارنے والے دونوں ہی گروپوں کا تعلق حکمران نواز لیگ سے ہوگا، کیونکہ سیاسی مبصرین کے مطابق بلدیاتی اداروں کے اب تک فعال نہ ہونے کا جہاں سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ شریف خاندان تمام تر اختیارات اپنی ذات یا زیادہ سے زیادہ خاندان تک مرتکز رکھنے کا عادی ہے اور اپنی اس فطری کمزوری کے باعث وہ اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنے میں زبردست ہچکچاہٹ کا شکار تھا، وہیں دوسری بڑی رکاوٹ ضلعی حکومتوں کے قیام میں یہی تھی کہ کم و بیش ہر ضلع بلکہ یونین کونسل تک کی سطح پر مسلم لیگی شدید گروہ بندی کا شکار ہیں اور ہر جگہ دھڑوں میں تقسیم ہیں۔ ایک دھڑے کی سرپرستی اگر اس علاقے سے تعلق رکھنے والا وفاقی یا صوبائی وزیر کررہا ہے تو دوسرے دھڑے کو اسی علاقے کے کسی دوسرے وزیر یا رکن قومی یا صوبائی اسمبلی کی تائید و حمایت حاصل ہے۔ اس گروہ بندی کا اظہار تو وفاقی و صوبائی کابیناؤں میں بھی اکثر دیکھنے میں آتا ہے جن کے ارکان کے بارے میں یہ باتیں زبان زدِ عام ہیں کہ وہ باہم ایک دوسرے سے بول چال تک کے روادار نہیں۔ ہر سطح پر جاری مسلم لیگ (ن) کی اندرونی چپقلش اور محاذ آرائی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ فیصل آباد جیسے اہم اور بڑے ضلع کے بلدیاتی انتخاب میں کوئی بھی امیدوار اس لیے پارٹی کے انتخابی نشان ’’شیر‘‘ کے نشان پر امیدوار نہیں بن سکا کہ دونوں مدمقابل گروپوں میں سے ایک کی قیادت وفاقی وزیر مملکت اور شریف خاندان کے قریبی عزیز عابد شیر علی اور ان کے والد شیر علی کررہے ہیں، جب کہ دوسرے گروپ کے سربراہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کی ناک کے بال صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ ہیں، اور محاذ آرائی کی شدت اس حد تک پہنچی ہوئی ہے کہ شیر علی صاحب اپنے مخالف رانا ثناء اللہ پر بھرے جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں بار بار کھلے عام بائیس افراد کو قتل کرنے کا سنگین الزام عائد کرچکے ہیں، جس کے جواب میں رانا ثناء اللہ کی طرف سے ایسے ہی شدید نوعیت کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں، مگر اس کے باوجود دونوں حکمران لیگ کے ممتاز قائد اور حکمرانوں کے نورِ نظر ہیں۔
صوبے بھر میں اسی نوعیت کے شدید اندرونی اختلافات کے باعث وزیراعظم نے ذاتی طور پر بلدیاتی اداروں کے سربراہی انتخابات میں مداخلت کرنے کا فیصلہ کیا، چنانچہ دو روز تک مسلسل وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں جناب وزیراعظم نوازشریف کی زیرصدارت پارٹی قیادت کا اجلاس جاری رہا جس میں صوبے کے 36 اضلاع میں بلدیاتی سربراہوں کے ناموں پر غور کیا گیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے میاں نوازشریف نے اعتراف کیا کہ بلدیاتی اداروں کے بہتر طور پر کام کیے بغیر ملک میں جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی، کیونکہ قومی قیادت کے لیے بلدیاتی ادارے نرسری کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بلدیاتی اداروں کو مقامی سطح کے عوامی مسائل حل کرنے کے لیے اختیارات دیئے جانے بھی ضروری ہیں اور حکومت انہیں یہ اختیارات دے گی۔ وزیراعظم کا یہ اعلان خوش آئند اور ایک بنیادی حقیقت کا اعتراف ہے، مگر سوال یہ ہے کہ وزیراعظم کے اس اعلان پر عمل درآمد کب ہوگا اور بلدیاتی ادارے کب عملاً بااختیار بنائے جائیں گے؟ کیونکہ جس قانونی ڈھانچے کے تحت موجودہ بلدیاتی اداروں کو وجود میں لایا جارہا ہے اس میں تو انہیں عوام کے نچلی سطح کے مسائل کے حل کے لیے درکار اختیار سے ممکنہ حد تک دور ہی رکھا گیا ہے۔
جہاں تک اعلانات کا تعلق ہے، ان پر یقین اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں پانامہ کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم کے وکیل نے میاں نوازشریف کے کیس کے ضمن میں کیے گئے قومی اسمبلی اور قوم سے خطابات میں کیے گئے دعووں اور عدالت میں پیش کردہ دستاویزات میں تضاد سے متعلق نہایت ڈھٹائی سے یہ صفائی پیش کی ہے کہ وہ تو سیاسی تقاریر تھیں۔ گویا سیاسی تقاریر میں سچ بولنا ضروری نہیں، اور سیاست دان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عوام کو دھوکا دینے کے لیے جتنا چاہے جھوٹ بولتا چلا جائے۔۔۔!
اسی طرح موجودہ بلدیاتی انتخابی عمل کے آغاز میں اعلیٰ نواز لیگی قیادت نے اس پارٹی پالیسی کا اعلان کیا تھا کہ کسی وزیر یا رکن قومی و صوبائی اسمبلی کے بھائی، بیٹے یا قریبی عزیز وغیرہ کو بلدیاتی اداروں کی سربراہی کے لیے پارٹی ٹکٹ نہیں دیئے جائیں گے۔ مگر اب جب ٹکٹ دینے کا مرحلہ آیا تو خود وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں اس پہلے سے اعلان کردہ پالیسی کی دھجیاں بکھیر دی گئیں اور اپنے تمام تر اختیارات کے باوجود جناب وزیراعظم نے اپنی کابینہ اور پارٹی کے ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے، اور اگرچہ پارٹی کی شدید ترین اندرونی چپقلش کے باعث دو روز تک مسلسل بحث مباحثے اور غور و فکر کے باوجود بہت سے اضلاع کے بارے میں پارٹی کے امیدواروں کا فیصلہ نہیں کیا جا سکا اور مجبوراً اسے زیرالتوا رکھا گیا ہے، جب کہ بعض اضلاع میں ٹکٹ جاری کرنے کے بجائے انتخابی امیدواروں کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے کہ باہم سر پھٹول، محاذ آرائی اور اپنی ہی پارٹی کے مدمقابل امیدواروں کے خلاف ہر قسم کی الزام تراشی کے بعد ان میں سے جو گروپ بھی جیتے گا وہ ہمارا ہوگا۔ یوں یہ تسلیم کرلیا گیا ہے کہ قیادت پارٹی کے اندر نظم و ضبط اور ڈسپلن قائم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔
جن اضلاع میں پارٹی امیدواروں کے جو نام سامنے آئے ہیں، وہ کم و بیش سو فیصد کابینہ یا اسمبلیوں کے ارکان کے بھائی، بیٹے، بھتیجے یا دوسرے قریبی عزیز ہی ہیں۔۔۔ اور یوں اعلان شدہ پالیسی کہ ’’موروثی سیاست کی حوصلہ شکنی اور پارٹی کے عام کارکنوں کی حوصلہ افزائی کے لیے کسی وزیر یا رکن اسمبلی کے کسی عزیز کو بلدیاتی اداروں کی سربراہی کے لیے پارٹی ٹکٹ جاری نہیں کیا جائے گا‘‘۔۔۔ دھری کی دھری رہ گئی ہے اور اعلیٰ ترین سطح پر کیے گئے فیصلے پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت کے اعلانات کا منہ چڑا رہے ہیں۔