(حضورر ﷺ سے محبت کا سوال (ذاہد عباس

212
دفتر سے چھٹی کے بعد میرا یہ معمول ہے کہ بازار سے ہوتے ہوئے گھر جاؤں اور کوئی نہ کوئی چیز بچوں کے لیے لے جاؤں تاکہ ان کو خوشی مل سکے۔ کبھی کوئی کھلونا، یا کبھی ٹافیاں دے کر گھر کے بچوں سے محبت کا اظہار میرے لیے خوشی کا باعث ہوتا ہے۔ ہر شام اس طرح گھومتے گھماتے جب میں گھر پہنچتا ہوں تو رات کے اندھیرا خاصا گہرا ہوچکا ہوتا ہے۔ میرے اس معمول کو مدنظر رکھتے ہوئے آج بچوں نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں جلد گھر آکر انہیں باہر لے کر چلوں۔ ان کی ضد تھی کہ وہ بارہ ربیع الاول کے موقع پر سجائے گئے شہر کو دیکھیں گے۔ گلیوں، محلوں اور سڑکوں کی چمک دمک، عید میلاد النبیؐکے جلوسوں کے ساتھ چلتے ٹرکوں پر لگی لائٹیں دیکھنے کا شوق ہر بچے کی آنکھوں سے نمایاں ہورہا تھا، وہ چاہتے تھے کہ رات کے اندھیرے میں موٹر بائیک پر اس چراغاں کا نظارہ کیا جائے، جو ولادتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہے۔ بات بھی ٹھیک تھی، عید میلادالنبیؐ ہو، تاحدِّ نگاہ روشنیاں ہی روشنیاں ہوں، لوگ جوق در جوق سڑکوں پر ہوں، ایسی صورت حال میں بھلا کون گھر بیٹھ سکتا ہے! میں نے بھی بات مان لی اور جلد گھر آنے کی ہامی بھرلی۔ بچوں کی خواہش کے مطابق مَیں دیے گئے وقت پر گھر پہنچ گیا، مجھے دیکھتے ہی سب نے تیاری کرنا شروع کردی، کوئی سپاری لایا تو کسی نے چِپس لیے۔ پکنک کا پورا ماحول بناکر گھر کے بچے اب جانے کے لیے بالکل تیار تھے۔ ان کی سوچ تھی کہ کب میں اشارہ کروں اور وہ نعرے مارتے ہوئے میرے ساتھ نکل پڑیں۔ میرا دھیان رات کے گہرے ہونے پر تھا تاکہ اندھیرے میں روشنیوں کی چمک دمک زیادہ دل فریب دکھائی دے۔ اندھیرے کی چادر نے جب پورے شہر کو تاریکی سے ڈھک دیا تو میں بچّوں کو لے کر اُجالوں کے سفر پر نکل پڑا۔ ہماری موٹر بائیک پہلے محلّے سے نکلی۔ محلّے کی سجاوٹ دیکھتے ہی میری بیٹی نے مجھے بتایا کہ میری سہیلی کل رات اپنے ابو کے ساتھ عید میلاد النبیؐ کی روشنیاں دیکھ کر آئی ہے، وہ بتارہی تھی کہ ہمارے محلّے میں تو کچھ بھی روشنی نہیں، شہر بھر میں تو مرکزی سڑکوں اور بڑی بڑی عمارتوں پر اس قدر روشنی کی گئی ہے جیسے دن نکل آیا ہو۔ میری سہیلیاں روز اپنے ابو اور بھائی کے ساتھ مختلف علاقوں میں عید میلادالنبیؐ پر کی گئی سجاوٹ دیکھنے ضرور جاتی ہیں۔ اور واقعی ایسا ہی تھا، جیسے جیسے میں آگے بڑھ رہا تھا، روشنیوں سے جگمگاتے ٹرک، رکشے، اونٹ گاڑیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ سڑک کے دونوں اطراف بنی عمارتوں، فٹ پاتھوں پر رنگ برنگے قمقموں کی تاحدِّ نظر لڑیاں بہت خوب صورت منظر پیش کررہی تھیں۔ کئی مقامات پر سبز و سفید بلبوں سے نکلتی روشنیاں دیکھ کر بچے خوشی سے جھوم اٹھے۔ قریب سے گزرتے ہر دوسرے ٹرک پر نوجوان نعتوں کی سی ڈی لگائے اونچی آواز میں دھمال ڈالتے نظر آئے۔ یہ نوجوان لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرکے سڑک پر ایک میلہ کا سماں بنائے ہوئے تھے۔ سبزپرچم، بیجز، جھنڈیاں اور سبز کپڑوں کی فروخت عروج پر تھی۔ ایک عارضی بازار کا منظر پیش کرتی سڑک پر لوگوں کا رش قابل دید تھا۔ لوگ گھروں سے کھانے پینے کی اشیا بھی ساتھ لائے تھے۔ کئی مقامات پر لنگر کی تقسیم بھی جاری تھی۔ اس تقسیم کو دیکھ کر مجھے اُس وقت بڑی حیرت ہوئی، جب دھکم پیل کی وجہ سے بریانی کی تھیلیاں زمین پر لوگوں کے پیروں تلے روندی گئیں۔ اللہ کا رزق اور اس کی یہ بے حُرمتی۔۔۔ مجھے بہت افسوس ہورہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ لنگر لُٹانے والے صاحب کو کچھ کہوں۔۔۔لیکن دوسرے ہی لمحے عوام کی چیخ و پُکار۔۔۔ ہمیں بھی دو۔۔۔ مجھے بھی دو۔۔۔ مجھے نہیں ملا۔۔۔ یہ شور شرابا دیکھ کر چپ رہنے ہی میں عافیت جانی اور وہاں سے ہٹ گیا۔ زوردار آواز میں بجتے ڈیک اور لنگر پر ٹوٹتے لوگوں کی چیخ و پُکار نے مل کر ایک ایسا بے ہنگم شور پیدا کردیا تھا کہ اگر میں کچھ بولتا بھی تو میری آواز نقّارخانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ جاتی، اور وہاں تو رزق کی حُرمت کا معاملہ ہی نہیں تھا۔ یہ سب کرنے والے بڑے سمجھ دار لوگ تھے۔۔۔ پکے، سچّے مسلمان۔۔۔ تھوڑی دیر وہاں گھمانے کے بعد میں نے بچوں سے کہا کہ میرے دفتر کے رستے میں ایک علاقہ ایسا آتا ہے جہاں اس سے بھی زیادہ چراغاں کیا گیا ہے، چلیے آپ سب کو اب میں وہاں لے جاتا ہوں۔ سب نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور ہمارا قافلہ وہاں سے روانہ ہوگیا۔ میں اب شاہ فیصل کالونی کی طرف جارہا تھا۔ یہ کراچی کا وہ واحد علاقہ ہے، جو میرے نزدیک عید میلاد النبیؐ پر سب سے زیادہ سجایا جاتا ہے۔
میں بچّوں کے ساتھ باتیں کرتا ہوا کالونی گیٹ پل سے گورنمنٹ کالج آن پہنچا۔ راستے بھر میں بچوں کو رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ سناتا رہا تاکہ انہیں آپؐ کی سنتوں کے بارے میں آگاہی بھی حاصل ہوسکے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بچے بڑی توجہ کے ساتھ سنتے اور مجھ سے سوالات بھی کرتے۔ میرے بڑے بیٹے نے سوال کیا کہ ہم مسلمان ہیں، اس لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نبی ہوئے، توکیا دوسرے مذہب والوں کے نبی آپؐ نہیں؟
اس پر میں نے بتایا کہ نہیں ایسا نہیں ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے محبوب نبی ہیں، آپؐ پوری کائنات کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی بنا کر دین مکمل کردیا، لہٰذا اب قیامت تک آنے والی نسلوں کے ایک ایک فرد کا آپؐ پر ایمان لانا لازمی ہے، جو ایمان لائے گا وہ ہمارا بھائی ہوگا اور جو ایمان نہیں لائے گا وہ ہمارا اور دینِ اسلام دونوں کا دشمن ہوگا، اس لیے اب کسی مذہب اور کسی گروہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ بچوں سے دینی باتیں کرنے کا مقصد اتنا ہی تھا کہ سڑکو ں کی رونقوں اور آنکھوں کو چندھیا دینے والی روشنیوں کو دیکھ کر اُن کا ذہن کسی تہوار پر علاقے میں ہونے والی سجاوٹ پر نہ چلا جائے۔ میں یہ چاہتا تھا کہ بچوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق، اُس محبت کا درس دوں، جس کا مفہوم پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق یہ ہے کہ تمہارا دین اُس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں تمہارے لیے سب سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔۔۔ اور ہمارا ایمان اسی صورت میں مکمل ہوگا جب ہم یقین کے ساتھ دنیا میں سب سے زیادہ محبت آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی کریں اور اپنے ہر عمل سے اس محبت کو ثابت بھی کریں۔ ہم میں سے ہر مسلمان کو ایسا عاشقِ رسول بننا ہوگا، جس کی ایک ایک سانس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ورد کرتی ہو۔
بچوں سے باتیں کرتے کرتے میں رنگ ونور کے اُجالے کے قریب ہوتا جارہا تھا۔ شاہ فیصل کالونی کی سجاوٹ دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ واقعی اس علاقے نے سب کو پیچھے چھوڑدیا۔ نئے انداز میں لگائے گئے بلب، گلیوں میں لٹکتے فانوس، چھتری نما چائنا لائٹوں سے بنائی گئی جھونپڑیاں اس طرح دکھائی دے رہی تھیں جیسے آپ کے سروں پر روشن کپڑوں سے بنی کوئی چھت ہو۔ رہائشی علاقوں کے ساتھ بنی چورنگیوں کو بھی بڑی محنت اور خوب صورتی کے ساتھ سجایا گیا تھا، وہاں بھی سی ڈیز پر تیز آوا ز میں نعتیں سنائی دے رہی تھیں۔ رات کے اندھیرے میں اتنا زیادہ چراغاں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے سورج نے آنکھ کھول لی ہو۔ نوجوان موٹر سائیکلوں پر ’’ہوہا‘‘ کرتے گزر رہے تھے۔ عوام کا جم غفیر شاہ فیصل کالونی کی مرکزی سڑک پر جمع تھا اور لوگوں کے رش کی وجہ سے پورا علاقہ جیسے جام ہوکر رہ گیا تھا۔ شمع شاپنگ سینٹر والا روڈ اس قدر جام تھا کہ مجھے وہاں سے نکلنے میں گھنٹوں لگ گئے۔ رات گہری ہوتی جارہی تھی، میں نے سوچا کہ اب جلدی سے اس رش سے کسی طرح نکلا جائے۔ میں ابھی جانے کا سو چ ہی رہا تھا کہ قریب سے گزرنے والی گاڑی سے میرے پرانے دوست نے آواز لگائی۔ بہت عرصہ بعد دوست سے ملاقات پر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ باتوں باتوں میں مجھے اس نے بتایا کہ بارہ ربیع الاول والے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی غرض سے وہ ہر سال کیک کاٹتا ہے۔ اس سال کیک کاٹنے کی تقریب میں مجھے شرکت کی دعوت دیتے ہوئے اس نے کہا کہ آپ اس تقریب میں ضرور شریک ہوں۔ وہ مختلف لوگوں کو دعوتیں دیتا آرہا تھا، کیک کاٹنے کی تقریب پر سوال کرتے ہوئے میرے بیٹے نے مجھ سے کہا کہ ابو کیا جیسے میری سال گرہ ہوتی ہے، اسی طرح یہ سال گرہ بھی ہوگی؟ کیوں کہ میری سالگرہ پر کیک کاٹا جاتا ہے۔
اس کے سوال پر میں لاجواب ہوگیا اور خاموش رہا۔
اس طرح بچوں کو روشنیاں دکھاتے گھر آن پہنچا۔ محلّے میں قریباً تمام ہی لوگ جاگ رہے تھے۔ گھر پہنچتے ہی بچوں نے دادی کو ساری باتیں بتائیں۔ میرا بڑا بیٹا اب اس قابل ہوچکا ہے کہ وہ بہت سی باتیں یاد رکھتا ہے۔ اس نے دادی کو بتایا کہ جشن آمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر خوب رونق تھی۔ پھر اس نے اچانک اپنی دادی سے سوال کیا: ’’دادی جان، کیا آپ کے زمانے میں بھی اسی طرح جشن آمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم منایا جاتا تھا؟‘‘
میری والدہ کا جواب سن کر وہ سکتے میں آگیا، جب انہوں نے اُسے بتایا کہ ہمارے زمانے میں تو اس دن کو بارہ وفات کہا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ نام تبدیل ہوا اور آج اس دن کو ایک میلے کی شکل دے دی گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت کی جگہ دکھاوے اور سجاوٹ نے لے لی ہے۔ یہ جواب اس کے لیے انتہائی پریشان کن تھا۔ ابھی وہ جو کچھ بھی دیکھ کر آیا تھا، اُس پر اس کے ذہن میں سوالات کا جنم لینا فطری عمل تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ وہ کس کی مانے اور کس کی نہ مانے۔ اس دن کے نام نے اسے کشمکش میں مبتلا کرڈالا، فوراً مجھے مخاطب کرتے ہوئے بولا: ’’دادی کچھ کہہ رہی ہیں اور شہر میں کچھ اور ہورہا ہے، اصل معاملہ کیا ہے؟‘‘
اس کا ذہن الجھتا جارہا تھا، میرے پاس بھی اس کے کسی سوال کا کوئی جواب نہ تھا، اگر کچھ تھا تو صرف یہ کہ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے محبوب اور آخری نبی ہیں، ہم آپؐ کے اُمتی ہیں، یہ اللہ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا کیا، اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں، یہ تو صرف اللہ ہی کا کر م ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے ماں باپ، بہن بھائی، یہاں تک کہ اپنی جان و مال سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ ہم آپؐ پر قربان، آپؐ خاتم النبیین ہیں، قیامت کے روز آپؐ ہماری شفاعت فرمائیں گے۔ میں نے اپنے بیٹے کو بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اسی صورت میں کی جاسکتی ہے، جب دنیا کی ہر شے سے زیادہ عزیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوں۔ آپؐ سے محبت کا تقاضا ہے کہ آپؐ کی بتائی گئی ایک ایک بات پر مکمل؂ عمل کیا جائے، قرآن وسنت کے مطابق زندگی کے سفر کو آگے بڑھایا جائے۔ یہ محبت ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کی جائے تو انسان دنیا و آخرت میں سرخرو ہوگا ، ورنہ گھاٹے کے سوا کچھ نہیں۔
میری علمائے حق سے اپیل ہے کہ وہ اس مسئلے پر قو م کی اجتماعیت کے لیے ایسے اقدامات کریں، جن سے مسلمانوں کے درمیان دوریاں کم سے کم ہوسکیں۔ اجتہاد اس مسئلے کا حل ہے۔ دورِ خلافت میں ہر شخص اپنی اپنی سوچ و مفہوم کے مطابق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرلیتا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو خلافتِ علیٰ منہاج نبوت قائم ہوئی تھی اس میں پوچھا جاتا تھا کہ فلاں معاملے میں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کس طرح کی جائے؟ جو فیصلہ وہاں سے ملتا، اسے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سمجھا جاتا۔ اسی سے وحدتِ امت قائم تھی۔ جب خلافت باقی نہ رہی تو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت انفرادی طور پر ہونے لگی، اس سے امت میں افتراق پیدا ہوا۔ امت میں دوبارہ وحدت پیدا کرنے کے لیے پھر سے علمائے کرام کو اس طرح کی کوئی کمیٹی یا کمیشن بنانے کی ضرورت ہے، جو امتِ محمدیہ کو ایک امت بنادے۔ حکم خداوندی ہے:
’’اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو‘‘۔
امت حجۃ الوداع پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے گئے خطبے کے مطابق ایک قوم بن سکتی ہے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

 

حصہ