(انڈونیشیا ادب میں ترجمنے کی صورت حال (رشید بٹ

258

انڈونیشیا، ڈوبتے اُبھرتے چھوٹے بڑے، رنگ برنگ خیالی وصوّری منظر اُجالتے 17ہزار جزیروں پر مشتمل وسیع و عریض ملک ہے۔ اِس مجمع الجزائر کے جزیرے دو چار کم یا زیادہ بھی ہوسکتے ہیں، کیوں کہ وسیع و بے کنار سمندر، بحرِ ہند، بحرالکاہل اس سے جُڑے دیگر سمندروں میں بکھرے اِن جزیروں کو ایک ایک کرکے گننا شاید ممکن نہیں۔ کچھ ملک دنیامیں ایسے بھی ہیں جن کا رقبہ وسیع اور آبادی ثقافتی اعتبار سے بوقلمون ہے۔ اور انڈونیشیا کا شمار بھی ایسے ہی ملکوں میں ہوتا ہے۔ اسے کسی صورت بھی چھوٹا یا یک ثقافتی ملک نہیں کہا جاسکتا کہ وہاں آباد لوگ خفا ہوجاتے ہیں۔
لُوسی ڈفٹی برطانیہ کی ایک معروف صحافی، ناول نگار اور مبصّر ہے۔ وہ ڈیلی ٹیلی گراف ایسے اخبارات میں لکھتی ہے۔ اُس کے پاؤں میں شاید بِلّی بندھی ہوئی ہے کہ ملکوں ملکوں گھومتی پھرتی ہے۔لیڈز یونیورسٹی المنائی سے تعلق ہے۔ نسلی لحاظ سے جپسی، کہ یورپ میں اِس نسل کو رومانی بھی کہا جاتا ہے۔ پچھلے برس گھومتی گھامتی انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتا جاپہنچی۔ جکارتا کے فتح اللہ چوک میں کیفے بٹاویا ہے۔ ایک دوست کے ساتھ کیفے بٹاویا جا بیٹھی اور باتیں شروع کردیں۔ اُس کا بنیادی موضوع یہ تھا کہ ، انڈونیشیائی ادب کے انگریزی ترجمے کیوں نہیں مِلتے؟ ’’ دوست جواباً آئیں بائیں شائیں کررہا تھا۔ لُوسی کی سوئی اِس بات پہ اٹکی ہوئی تھی کہ ایک ناول نگار کسی ملک کے خیروشر کے بارے میں اپنے ایسے قارئین کو کیوں کر تفصیل سے بتا سکتا ہے جو اُس ملک یا سر زمین کے متعلق کچھ جانتے ہی نہیں؟ ساتھ ہی ساتھ اس کی نظریں کیفے کی دیواروں کو کھنگال رہی تھیں جہاں انڈونیشیائی سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ہالی ووڈ کے فلمی ستاروں کی تصویریں بھی آویزاں تھیں۔ چھت پر لٹکے پنکھے اپنا راگ الاپ رہے تھے۔ پھر وہ کیفے کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ آسمان ابر آلود۔ سامنے ہی جکارتا کا عجائب خان�ۂ تاریخ، جس کے گیٹ پر طلبا کا ایک ہجوم اندر جانے کے لیے دھکم پیل میں مصروف تھا۔ یہ عجائب خانہ1710ء میں و لندیزی ( ڈچ) نو آبادیاتی حکومت نے تعمیر کیا تھا۔ تب یہاں ڈچ نو آبادیاتی گورنر جنرل رہتا تھا۔ اور اب اس میں جکارتا کی تاریخ شیشے کی الماریوں میں بند یا شیلفوں پر رکھی تھی۔ لُوسی کو تاریخ کا ایک حوالہ یاد آگیا کہ جکارتا کی بنیادیں 1527ء میں رکھی گئی تھیں اور گورنر جنرل کی روانگی کے بعد اِس شہر کی تاریخ یہاں ’’ رکھی‘‘ جاتی رہی تھی۔۔۔
لُوسی پلٹی اور پھر اپنے دوست سے انڈونیشیائی ادب کے انگریزوں ترجموں کی عدم دستیابی کے سوال پر الجھ گئی۔ وہ یہ نہیں سوچ رہی تھی کہ زمانہ 2015ء پر ہی جامد نہیں تھا۔اس کے پیچھے صدیوں پر محیط مقامی مملکتوں، اُن کے انحطاط کے نتیجے میں ایشیائی بحری راستوں سے آنے والے بھارتی، عرب اور مسلمان تاجروں کی قائم کردہ حکومتوں اور پھر یورپی نوآبادیاتی تسلط کی تاریخ بکھری پڑی تھی۔ اس سارے عرصے میں شعری اور نثری ادب نے بھی جنم لیا اور پروان چڑھا تھا۔ اِن کم و بیش 17ہزار جزیروں میں ایک بڑا جزیرہ جاوا ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے اِسے دنیا کا تیرہواں اور انڈونیشیا کا چوتھا بڑا جزیرہ کہا جاتا ہے۔ دوسری جانب جاوا، انڈونیشیا کی نصف سے زیادہ آبادی پر مشتمل ہی نہیں بلکہ سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے اہم و غالب حیثیت رکھتا ہے۔ جاوا میں نسلِ انسانی کے جو آثار مِلے ہیں، انہیں عالمی نسلی اور تہذیبی بڑھوتری میں آج کے انسان کا ’’بڑا بھائی‘‘ کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہوگا۔ 1891ء کی بات ہے۔ علمِ بشریات کے ڈچ محقق یوجین ڈیو بوئس نے جاوا کے آتش فشاں پہاڑوں کے اِرد گرد بکھرے غاروں اور دریائے سولوکے کنارے سے جو انسانی ہڈیاں، خصوصاً کھوپڑیوں اور رانوں کی حجری ہڈیاں دریافت کیں، اُن کی عمر سات سے دس لاکھ سال تک پہنچتی ہے۔ سائنسی تجزیات اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بشری اعضاکی یہی ہڈیاں گلنے سڑنے میں طویل ترین عرصہ لیتی ہیں۔ ڈیو بوئس نے ابتداً اسے ’’ بن مانس یا چمپینزی‘‘ کا نام دیا کہ اس سے کم وبیش تیرہ برس قبل1878ء میں بھارت کے کوہ شوالک میں کھدائی کے دوران جو حجری دانت دریافت ہوئے، جاوا سے مِلنے والے یہ دانت اُن سے مِلتے جلتے تھے۔ لیکن اگلے ہی برس(1892ء) ڈیوبوئس کی ٹیم نے یہاں سے جو حجری اعضا دریافت کیے، انہوں نے اُسے اپنی رائے بدلنے پر مجبور کردیا کہ وہ ایسے نوعِ بشر کے قویٰ تھے جو سیدھا کھڑا ہوسکتا تھا یا یہ کہ انسان تھا! اِس دریافت نے دنیا بھر میں تہلکہ مچادیا۔ اس موضوع پر لگ بھگ80 تحقیقی کتابیں لکھی گئیں۔ اہم بات یہ رہی کہ زمانہ وہ تھا جب پورے انڈونیشیائی جزائر پر ڈچ نوآبادیاتی حکمرانی تھی۔ لہٰذا نہیں کہا جاسکتا کہ اُن میں کچھ کتابیں انگریزی زبان میں بھی تھیں یا کم از کم انگریزی میں اُن کاترجمہ ہوا۔انگریزی میں کچھ تحقیقی مواد مِلتا بھی ہے تو اس کا آغاز صرف پچاس ساٹھ برس پہلے نظر آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ’’ اصل آثار‘‘ آج بھی ہالینڈ کے نیچو رالِس( لیڈن) عجائب گھر میں محفوظ ہیں۔ ہاں یہ سائنسی تجزیات بھی سامنے آئے کہ یہ سیدھا کھڑا ہونے اور چلنے والا بشر گوشت خور تھا اور گوشت کاٹنے کے لیے سیپیوں سے اوزار اور آلات بناتا تھا۔ یوں جنوب مشرقی ایشیا کو انسانی وجود کا گہوارہ بھی کہا جاتا ہے حالانکہ تضاد و اختلافِ رائے یہاں بھی موجود ہے کہ چارلس ڈارون کے نظریئے کے مطابق انسانی وجود کا آغاز افریقہ سے ہوتا ہے ، جہاں اس وجود کے آثار28 لاکھ برس تک چلے جاتے ہیں۔ وہاں سے جب انسانی وجود نکل کر جاوا کے اس دریائی علاقے میں پہنچتا ہے تو لگ بھگ18لاکھ برس کی عمر پاتا ہے اور کھدائی میں سامنے آتا ہے تو تقریباً10لاکھ برس کا ہوتا ہے ! اس خطے میں جو پھل پھول اورپیٹرمِلتے ہیں، ان کا تعلق برکھا جنگلوں سے ہے۔ابھی اس تہلکے کا شور تھمانہ تھا کہ 1923ء میں پیکنگ (چین) کے نزدیک چو کھو تھئین کے مقام پر ایک گپھاسے انسانی حجری آثار دریافت ہوئے۔ یہاں کھدائی کا آغاز سویڈن کے ماہرِارضیات جوہان گنا راینڈرسن اور امریکا کے محقق والٹر گرینجر نے کیا۔ یہاں سے جو حجری آثار مِلے اُن کی عمر کا تعین کم و بیش ساڑھے سات لاکھ برس کیا گیا۔ اِن آثار کو ’’پیکنگ مین‘‘کانام دیا گیا۔بعدازاں اس کھدائی اور تلاش میں آسٹریا، کینیڈا اور چین کے ماہرین بھی شامِل ہوگئے۔ اس کے لیے مالی تعاون راک فیلر فاؤنڈیشن نے کیا۔ بعض ماہرین نے اِن انسانی آثار کی عمر کا اندازہ 5سے3لاکھ برس لگایاگیا ہے۔ یوں ’’ پیکنگ مین‘‘ کو آج کے انسان کا ’’ منجھلا بھائی‘‘ کہا جاسکتا ہے۔تاہم اُس زمانے میں چین خانہ جنگی اور نیم نوآبادی ہونے کے سبب بیرونی حملوں کی وجہ سے شدید اکھاڑ پچھاڑ کا شکار تھا لہٰذا،1941ء میں ’’ اصل آثار‘‘ اچانک ’’لاپتا‘‘ ہوگئے۔ اور اب اصل سے عین مشابہ آثار چوکھو تھیئن میں نمائش کے لیے رکھے ہیں۔
لُوسی یقیناًاِس ساری صورتِ حال سے آشنا ہوگی، پھر بھی اُس کا ذہن تو انڈونیشیائی ادب اور تحریروں کے انگریزی ترجموں میں الجھا ہوا تھا۔۔۔
(جاری ہے)

لُوسی کے دوست کے ہونٹوں پر تلخ اور طنزیہ سی مسکراہٹ ابھری اور وہ مختصر سا جواب دے کر چپ ہوگیا۔ ’’ یہ سوال سبھی کے سامنے رہتا ہے اور کوئی جواب نہیں دے پاتا۔ مَیں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ انڈونیشیائی کوئی ایک قوم نہیں ہیں۔ یہ تو بس متنوع ثقافتوں کے حامِل لوگوں کا ایک ہجوم ہے۔ ایک ’’فریبِ نظر‘‘ ہے۔‘‘
جیسا کہ ہم نے شروع میں کہا، ’’ کچھ ملک دنیا میں ایسے بھی ہیں جن کا رقبہ وسیع اور آبادی ثقافتی اعتبار سے بوقلمون ہے۔۔۔ اور انڈونیشیا کا شمار بھی ایسے ہی ملکوں میں ہوتا ہے۔ اُسے کسی صورت بھی چھوٹا یا یک ثقافتی ملک نہیں کہا جاسکتا کہ وہاں کے لوگ خفا ہوجاتے ہیں۔۔۔‘‘ اس کی ایک مثال لُوسی کو مِل گئی تھی۔
انڈونیشیا کے ٹاپوؤں کے جھنڈ میں پھیلی آبادی اب26کروڑ تک پہنچ رہی ہے۔ اور اِس اعتبار سے یہ دنیا کا چوتھا گنجان آباد ملک ہے۔پچھلے برس (اکتوبر2015ء) میں انڈونیشیا نے فرینکفرٹ کے بین الاقوامی کتاب میلے میں شرکت کی تو اپنے اسٹال کو۔۔۔ ’’17000 تصوّراتی جزائر۔۔۔ شکریہ انڈونیشیا! کا نام(Motto)دیا گیا۔ انڈونیشیا کو اِس کتاب میلے میں ’’مہمانِ خصوصی‘‘ کا اعزاز حاصل تھا۔ اِس میں انڈونیشیائی ادب سے منتخب850 تراجم پیش کیے گئے، جو180پبلشروں نے شائع کیے تھے۔ وہاں انڈونیشیائی پبلشر وں کے علاوہ 75ادیب اور قلم کار بھی موجود تھے۔ جرمن زبان میں انڈونیشیائی ادب کے کم و بیش 142 ترجمے موجود تھے جو71 انڈونیشیائی پبلشروں نے شائع کیے تھے۔ اِن میں تقریباً 53 ترجمے فکشن کے تھے۔ انڈونیشیائی اسٹال پر طنز و مزاح، بچوں کے لیے تخلیقات، ادب و فن ، قدیم مسوّدات کے ساتھ ساتھ جدید آن لائن کتب، یہاں تک کہ کھانے پکانے کی تراکیب پر مشتمل کتابیں بھی موجودتھیں۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ انڈونیشیا اگر جغرافیائی لحاظ سے وسیع عریض آبی رقبے اور خشکی پر پھیلا ہوا ملک ہے تو اپنے دامن میں متنوع انسانی اور لسانی تہذیبیں اور ثقافتیں بھی سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں بہت سی زبانیں بولی جاتی ہیں اور ہندو، عیسائی، بودھ اور دیگر بہت سے مذاہب و مسالک کے ماننے والے آباد ہیں۔ تاہم کثیر آبادی مسلمانوں کی ہے، جسے دنیا بھر میں مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ لیکن دوسری جانب دیکھا جائے تو انڈونیشیا کے متنوع ادب کا سب سے کم ترجمہ انگریزی میں ہوا ہے حالانکہ عالمی نو آبادیاتی دور کے آٹھ نو سو برس سامنے رکھے جائیں تو انگریزی کو عمومی یا عام لوگوں میں بولی جانے والی زبان(Lingua Franca) کا درجہ حاصل ہوچکا ہے۔ خود انگریزوں نے اپنی نو آبادیات کی زبانوں کے ذخیر�ۂالفاظ میں سے بہت سے الفاظ انگریزی زبان کا جزو بنا کر اسے اتنی وسعت دی کہ آج وہ ایک بین الاقوامی زبان کا روپ دھار چکی ہے۔
ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ خصوصاً نو آبادیاتی حکمرانی کا دور لگ بھگ بارہ سو برس پر محیط ہے۔ انیسویں صدی عیسوی کے اوآخر تک نوآبادیاتی حکمران اپنی بھرپور فوجی اور مادّی قوت کے ساتھ پسماندہ ملکوں پر زورِحاکمیت جتاتے رہے اور پھر بیسویں صدی کے پہلے پچاس برسوں نے انہیں اس طرح باہم دست و گریباں دیکھا کہ خود اُن کی سرزمین یکے بعد دیگرے دو عالمی جنگوں کا اکھاڑہ بنی۔ یہ ایسی عالمگیر جنگیں تھیں جن میں انہوں نے اپنی فوجی قوّتوں اور عوام ہی کو نہیں بلکہ اپنی اپنی نو آبادیاتی فوجوں اور ’’رعایا‘‘کو بھی کُشت وخون کے اِس کھیل میں جھونک دیا۔ کُشت وخون کے اِس کھیل میں ایک طرف، وہ اندر سے کمزور ہوتی جارہی تھیں تو دوسری جانب ایک دوسرے کی نوآبادیات ہتھیانے کے لیے ریشہ دوانیوں کے جال بچھارہی تھیں۔ اِسی پر بس نہیں بلکہ اپنی اپنی نوآبادیات کے بچے کھچے وسائل کی لوٹ مار میں بھی سرگرداں تھیں۔ تین بڑی نوآبادیات اور نیم نو آبادیات، برِصغیر ہندو پاکستان، جزائرِ انڈونیشیا اور چین کو انہوں نے جی بھر کے لوٹا۔ برِصغیر پر برطانیہ بلا شرکت غیرے حکمراں تھا لہٰذا یہاں کے مادّی وسائل کے ساتھ ساتھ علمی اور ادبی خزانہ بھی باندھ کے ساتھ لے گیا۔ ہاں، اِس خزانے کا کچھ حصّہ یہاں پر ہی ترجمہ ہوا اور بہت سا آج بھی انڈیاآفس لائبریری میں پڑا ہے۔ یہاں حکمرانی کا ایک طویل المیعاد منصوبہ اس کے مدِنظر تھا، اِس لیے مقامی زبانوں یا ذرائع علم، خصوصاً فارسی کو دیس نکالا دے کر اُس نے سرکاری اور مشنری تعلیمی ادارے قائم کیے۔ مقصد ’’رعایا‘‘ میں منتخب افراد کو انگریزی تعلیم سے آراستہ کرکے حکمرانوں کا ماتحت بنانا اور اُن کے توسط سے محکوموں پر حکمرانی جتانا تھا۔ بہر حال، بہت سے تعلیم یافتہ لوگ اپنی راہیں الگ نکالنے میں کامیاب بھی رہے۔ انہوں نے غیر ملکی ادب اور پھر سائنسی علوم کا برِصغیر کی مقامی زبانوں میں نہ صرف ترجمہ کیا بلکہ مقامی زبانوں کے بڑے علمی خزانے کو انگریزی زبان میں بھی ڈھالا، جب انگریز حکمرانوں کو اِس کی افادیت کا اندازہ ہوا تو انہوں نے اِس سے استفادہ بھی کیا۔ اور آج ہمیں برِصغیر کے نادر علمی مخطوطات بڑی تعداد میں انگریزی زبان میں ڈھلے ہوئے مِلتے ہیں۔ ایک مثبت پہلو یہ بھی رہا کہ برِصغیر کے پڑھے لکھے لوگ دنیا بھر میں پھیلے اور متنوع علوم میں دسترس حاصل کی۔
چین، استعماری طاقتوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود پوری طرح نوآبادی نہ بن سکا، اس لیے کہ جغرافیائی اعتبار سے ایک بڑے علاقے پر ترقی پسندوں / کمیونسٹوں کا تسلط قائم ہورہا تھا جبکہ یورپی طاقتوں نے، اور بعدازاں امریکا کے ساتھ مِل کر، چین کے اُن علاقوں پر قبضہ جمایا جہاں حکومتِ وقت، یورپی طاقتوں اور امریکا کی زیر دست تھی یا رہی۔ اُدھر،جاپان نے چین کے اُن صوبوں پر مکمل حاکمیت قائم کرلی جو بحری راستوں سے اُسے قریب پڑتے تھے۔ جہاں تک یورپ اور امریکا کا تعلق ہے انہوں نے چینی علاقوں پر قبضہ تو جمایا لیکن یہ قبضہ بڑا ہی محدود رہا۔ آخر آخر میں تو انہوں نے بڑے شہروں میں ایسے ’’ مراعاتی علاقوں، بلکہ محلّوں‘‘ پر قناعت کرلی جہاں اُن کے اپنے ملکوں کا قانون چلتا تھا۔۔۔ چینی قانون کی کوئی عمل داری نہ تھی۔ دلچسپ بات یہ جانئے کہ یہ ’’مراعاتی علاقے‘‘جوں جوں وقت بیتتا چلا گیا، کمیونسٹوں کی’’خفیہ پناہ گاہیں‘‘ بھی بنتے چلے گئے، کہ اُن علاقوں میں وہ چینی قوانین کے تحت پکڑ دھکڑ سے بچ نکلتے تھے۔ مَیں نے شنگھائی، تھیئن چن اور کچھ دوسرے شہروں میں ایسی ہی خوبصورت غیر ملکی آبادیاں دیکھیں۔ شنگھائی کی فرانسیسی مراعاتی آبادی میں ایک چھوٹا سا خوبصورت مکان تھا۔ پتا چلا کہ وہ آزادی سے پہلے چواین لائی کا ’’ بوقتِ ضرورت‘‘ خفیہ ٹھکانا ہوا کرتا تھا۔ اور یہیں کمیونسٹ پارٹی کے خفیہ اجلاس بھی ہوا کرتے تھے۔
تاریخ پر آپ کی نظر ہو یا نوآبادیاتی، نیم نوآبادیاتی حکمرانوں کے چُنگل سے کسی سرزمین کی آزادی کے بعد وہاں رہیں بسیں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ ایسے حکمران اپنے ساتھ اپنے وقت کی جدید ٹیکنالوجی اور علوم و فنون بھی لاتے ہیں۔ چین میں بھی ایسا ہی ہوا اور چینیوں نے اُن سے سیکھا بھی۔ چینی علوم و ادبیات کے انگریزی میں اور انگریزی ، ڈچ، بیلیجئن، پُرتگالی، فرانسیسی علوم کے چینی میں تراجم ہوئے۔ برطانوی نوآبادیات کا پھیلاؤ چوں کہ زیادہ تھا اس لیے چینی سے انگریزی میں ہونے والے علوم و ادبیات کے تراجم کو بھی وہی پھیلاؤ حاصل ہوا۔ تاہم ہر نوآبادیاتی حکمران کی نگاہ یا زاویۂ نظر ایسے نہ تھے۔
متعدد نوآبادیاتی حکمرانوں میں سے دو تین کا انتخاب کرتے ہوئے ہم بحرِ ہند میں پھیلے ہزاروں جزائر تک آتے ہیں،جنہوں نے آزادی کے بعد انڈونیشیا کا روپ دھارا تو اندازہ ہوا کہ وہاں کے نو آبادیاتی حکمرانوں کو اُن جزائر کے مادّی، معدنی اور زرعی وسائل سے ہی دلچسپی تھی۔ یہ جزائر لگ بھگ چار سو برس ڈچ نوآبادی کی شکل میں رہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ نوآبادیاتی حکمران وہاں سے صرف لے کرہی گئے، انہیں دیا کچھ نہیں۔ ہزار ہا برسوں سے آباد یہ کئی ہزار جزیرے علم و ادب کے معاملے میں بانجھ تو نہ رہے ہوں گے؟ لیکن ڈچ( ولندیزی) ذخیرۂ ادب کو کھنگالا جائے تو ہمیں ان جزائر یا انڈونیشیا میں جنم لینے اور پروان چڑھنے والے علم و ادب کے معدودے چند تراجم مِلتے ہیں اوروہ بھی ڈچ زبان میں جس کا پھیلاؤ، بہر حال، انگریزی کے برابر نہ تھا۔اورشاید یہی ایک وجہ ہے کہ لُوسی اور اُس جیسے بہت سے لوگ سوال کرتے پھررہے تھے اور کرتے پھررہے ہیں کہ انڈونیشیائی ادب کے تراجم انگریزی میں کیوں نہیں مِلتے؟ اور مِلتے بھی ہیں تو اِتنے کم کیوں؟
ایک برطانوی خاتون الزبتھ لِپسانی ہیں۔ لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ وبائی امراض کی روک تھام میں مہارت بھی رکھتی ہیں۔ برسوں سے انڈونیشیا میں مقیم ہیں۔ اُن کے پاس انڈونیشیائی علم و ادب کے پھیلاؤ کے حوالے سے ایک ہی مختصر سا جواب ہے: بے خبری یا ناواقفیت! اِس مختصر سے جواب کی نیم مختصر وضاحت تو ہم اوپر کرچکے ہیں لیکن برطانوی نو آبادیاتی تاریخ کے حوالے سے دیکھا جائے تو بات کچھ دل کو لگتی نہیں کہ برطانوی نو آبادیاتی حکمران اِن جزائر میں پروان چڑھنے والے دیومالائی قصّے کہانیوں اور علم وادب سے بے خبر رہے ہوں۔ افغانستان بھلے سے کبھی بھی برطانیہ کے براہِ راست تسلط میں نہ رہا ہو، لیکن وہ وہاں کے علمی اور ادبی خزینوں اور دفینوں سے بے خبر نہیں رہا۔ آج ہم افغانستان کے قدیم ادب اور وہاں کی تاریخ کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں وہ برطانوی اور فرانسیسی محققین اور موّرخین ہی کی کھوج اور چھان بین کا نتیجہ اور انگریزی تراجم کا حصّہ ہے۔ الزبتھ لپِسانی ببانگِ دہل کہتی ، اور شاید ٹھیک ہی کہتی ہیں کہ برطانیہ نے انڈونیشیائی جزائر کے بارے میں شاید کبھی سوچا ہی نہیں۔ یہ خِطہ یا جزیرے نہ تو کبھی برطانیہ کی نوآبادی رہے اور نہ یہاں کے لوگ برطانوی نوآبادیوں میں پھیلے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ برطانیہ، انڈونیشیائی جزائر کی رنگ برنگی ثقافتوں سے آشنا ہی نہیں ہوا۔ اور تاریخی اعتبار سے جب کوئی رابطہ ہی نہ تھا تو وہاں کا علم وادب بھی خواب وخیال سے زیادہ کیا رہا ہوگا؟
ہاں، اِن جزائر کو برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں نے اُس وقت کچھ اہمیت دینا شروع کی جب دوسری جنگِ عظیم کے دوران یورپی طاقتیں نہ صرف خود کمزور ہوتی جارہی تھیں بلکہ نو آبادیات پر بھی اُن کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی تھی۔ ڈچ، اس بحری خطے اور جزائر سے نکلنا شروع ہوئے تو جاپان نے بجھتے چراغ کی آخری بھڑکتی لَو کی مانند یہاں ڈیرا جمانا شروع کیا اور 1940ء کے عشرے میں برطانیہ کو بھی یہاں قبضے کی اپج ہوئی۔ لیکن تب تک پلوں تلے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔ اِن جزائر میں نوآبادیاتی تسلط سے رہائی اور آزادی کی تحریکیں زور پکڑنے لگی تھیں۔ اوپر کہیں یہ ذِکر آچکا ہے کہ صدیوں پر محیط وقت کے ساتھ ساتھ ایشیائی خصوصاً چینی کسانوں اور تاجروں ، عربی اور ایرانی مسلمانوں اور بھارتی تارکینِ وطن کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری رہا تھا۔ چوں کہ تاریخ بھی آبِ رواں کی مانند چلتی رہی، اس لیے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اِن جزائر میں، بوجۂ قربت، بھارتی دیو مالائی داستانیں اور علم و ادب ابتداہی سے اپنے قدم جماتے رہے۔ تیرھویں اور چودھویں صدی کے دوران اِن جزائر میں جو علم و ادب پروان چڑھایا ماقبل کی داستانیں سامنے آئیں اُن پر بھارتی دیومالائی علم و ادب اور داستانوں کا بہت زیادہ اثر دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً مہا بھارت اور رامائن معمولی علاقائی ثقافتی تغیرّ و تبدّل کے ساتھ یہاں اپنالی گئیں۔ اِسی طرح اور بھی بہت سی بھارتی داستانیں اور لوک کہانیاں یہاں مِلتی ہیں۔ ممکن ہے کمزور پڑتے انگریز عالموں، محققوں اور مترجموں نے اس بنیاد پر یہاں کے علم و ادب کی جانب توجہ نہ کی ہو! بالی کا جزیرہ بھارتی علم و ادب اور مندروں کے حوالے سے اِس کی ایک بڑی مثال ہے۔ دلچسپ بات یہ جانئے کہ صدیوں قبل جب مسلمانوں کی آمد کا آغاز ہوا تو انہوں نے بھی دھیرے دھیرے اُسی علمی اور ادبی انداز کو اپنا لیا۔
اِن جزائر میں آزادی کی تحریکوں نے جنم لیا تو چینی تارکینِ وطن اُن پر چھائے ہوئے تھے۔ تاہم مقامی زبانوں پر ڈچ اور بھارتی انداز بہت حد تک حاوی تھا۔بیسویں صدی کے اوائل میں سابق روس اور اس وقت کے سوویت یونین اور پھر چین میں کمیونزم کے اثرات یہاں سب سے زیادہ چینی تارکینِ وطن ( آباد کاروں) نے قبول کیے اور کہا جاتا ہے کہ 1965ء تک پوری دنیا میں سوویت یونین اور چین کے بعد سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی جزائرِ انڈونیشیا میں تھی اور اس کے ارکان کی سب سے زیادہ تعداد اُن ہی چینی آبادکاروں پر مشتمل تھی۔ لیکن ہمیں یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ اِن ہزاروں جزیروں میں مسلمان، ہندو، بودھ، عیسائی سب ہی آباد تھے لیکن اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ ابھی ہم نے لسانی اثرات کا تذکرہ کیاتو یہ بھی بتاتے چلیں کہ قومی زبان کا نام تک ’’بھاشاانڈونیشیا ‘‘ ہے۔
1945ء سے اب تک کے دور کا جائزہ لیا جائے تو دیکھنے میں آتا ہے کہ تحریکِ آزادی، عبوری حکومتوں اور پھر مرکزی حکومت کے تمام ادوارسیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور اُتھل پُتھل کے مناظر پیش کرتے ہیں۔ ایسے میں حکومتیں زبان یازبانوں کے فروغ اور غیر ملکی زبانوں خصوصاً انگریزی زبان میں ملکی تخلیقات کے تراجم کا اہتمام کیوں کر کرتیں؟ یہ ستّر بہتّر برس ہمیں ویسے ہی نظر آتے ہیں جن سے ہمارے ہاں کے لوگ گزرے اور گزررہے ہیں۔ حکمرانوں کو باہمی آویزشوں، تختے الٹنے ،قتل و غارت گری اور مال بنانے سے ہی فرصت نہ مِلتی تھی، وہ لسانی، ثقافتی اور تعلیمی ترقی پر کیا توجہ دیتے؟ اِس تمام تراذیّت آمیز صورتِ حال کے باوجود لکھاری یا قلم کار کا قلم نہیں رُکتا۔ وہ جو کچھ دیکھتا ہے، لکھ دیتا ہے، بھلے سے اُسے اپنے حکمرانوں کے ہاتھوں، اپنے ہاتھ کٹوانے پڑیں۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنی سرزمین پر جو ہاتھ کاٹ دیئے جاتے ہیں، اُن ہی ہاتھوں کو اپنے اور باہر کے باضمیر لوگ نشانِ سپاس سے نواز دیتے ہیں۔ انڈونیشیا میں1960ء کے عشرے میں جو قتل و غارت دیکھنے میں آئی، اُسے کسی ملکی لکھاری نے تو قلم بند نہ کیا کہ اُن میں سے بیشتر ممتاز لکھاری پابندِ سلاسل تھے یا خون میں نہلا دیئے گئے، تاہم ایک آسٹریلوی قلم کارCJ Koch نے1978ء میں”The Year of Living Dangerously”کے عنوان سے شائع کیا، بعدازاں اس پرفلم بھی بنی۔ یہاں سے انڈونیشیا کے بارے میں ملکی اور غیرملکی ( انگریزی) زبانوں میں تحریریں منظرِ عام پر آنے کا عملاً آغاز ہوتا ہے۔
جیناون محمد انڈونیشیا کے ایک ممتاز دانشور اور جریدہTempo کے بانی ہیں۔ اُن کا یہ جریدہ سوہارتو دورِ حکومت میں کچھ عرصہ بندش کا بھی شکاررہا۔انہوں نے ایک بار بڑے تلخ لہجے میں کہا، ’’ایشیائی ادیبوں کی تحریریں اُس وقت نگاہ میں آتی یا اہمیت پاتی ہیں جب وہاں کوئی عذاب آجائے، تباہی مچے، ایسی طویل جنگ چھڑ جائے جس میں امریکا ملّوث ہو، نسل کُشی ہو، یا سونامی آجائے۔ یہ ساری باتیں اوّلاً تو ذرائع ابلاغ دبوچ لیتے ہیں، اُس کے بعد، اگرگنجائش نکل آئے تو ادبی حوالے یا ادبی شعبے میں جگہ پاتی ہیں۔‘‘
ایسے ہی ایک اور ناموَر دانش ور کا تذکرہ کیے بغیر بات آگے نہیں بڑھتی۔ اُس کا نام پر مود آنند توئر ہے۔ اُسے 1947ء سے اب تک تین بارلمبی اور کٹھن جیل یا ترا بھگتنی پڑی۔ علم و دانش اور وقار میں انڈونیشیا کا نیلسن منڈیلا! ایّامِ اسیری میں وہ بیماری، فاقہ کشی اور بدسلوکیوں کی اکاس بیل سے گزرا۔ اُس کی تیسری ، اور چودہ برس کی طویل اسیری کا زمانہ جزیرہ بورو کے بدنامِ زمانہ زندان میں گزرا۔ اُس نے زندان میں رہتے ہوئے 1950ء میں اپنا پہلا ناول ’’ مفرور‘‘ (Fugitive) لکھا۔ پاکستان نژاد برطانوی دانشور، صحافی اور ادیب طارق علی نے پرمود کے ناولFugitive اور البرٹ کامیو کے ناولL’Etranger کاتقابلی جائزہ لیتے ہوئے رائے دی کہ پرمود نوبیل انعام کا حق دار تھا جو اُسے2006ء میں اِس بزمِ جہاں سے رخصتی کے وقت تک نہ مِل پایا۔
اِسی طرح لیلیٰ چودھری ایک معروف مصنّفہ ہیں۔ اُن کے ایک ناول ’’ گھر‘‘ کا ترجمہ جان میک گلین نے”Home” کے نام سے کیا۔ یوں انڈونیشیائی ادب اب دھیرے دھیرے عالمی سطح پر جڑیں پکڑ رہا ہے لیکن ادبی تراجم کی رفتار بہت سست ہے۔ ہم پہلے ذِکر کرچکے ہیں کہ حکومتِ وقت، جو کوئی بھی رہی، اُس نے انڈونیشیائی ادب کے پھیلاؤ اور اُس کے تراجم میں معاونت ، خصوصاً مالی معاونت سے ہمیشہ پہلو تہی کی۔ جرمنی میں کتابوں کا جو عالمی میلہ ہر سال لگتا ہے، اس کے منتظمین نے انڈونیشیائی ادیبوں اور اُن کی تخلیقات کو اپنی جانب راغب کرنے کی برسوں کوشش کی لیکن راہ میں بہت سی رکاوٹیں آتی رہیں۔ یہ بھی پتا چلا کہ ادبی تراجم کے جو ادارے انڈونیشیا میں کام کررہے ہیں، انہیں حکومت کی طر ف سے مالی معاونت نہ مِلنے پر کام میں بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فرینکفرٹ کتب میلے کے منتظمین نے انڈونیشیا کی حکومت تک رسائی حاصل کی اور بڑی تگ و دو کے بعد بالآخر اِس مد میں سالانہ ایک لاکھ ڈالر کی معاونت حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے۔
امریکا کی ایک غیر سرکاری تنظیم (NGO) نے برسوں سے جکارتا میں اپنا دفتراِسی مقصد کے تحت قائم کررکھا ہے ۔ میک گلین اُس کے سربراہ ہیں۔ لیکن انہیں بھی اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ تراجم کے معاملے میں مالی دشواریاں راہ میں حائل رہتی ہیں۔ اُدھر پر مود آنند کا کہنا ہے کہ ’’ایک ترجمہ شدہ کتاب، دوسرے ملک میں تعینات سفیر سے زیادہ اہم ہوتی ہے، کہ وہ عام لوگوں تک پہنچتی ہے اور وہ اُس ملک کے بارے میں حالات و واقعات سے آگاہ ہوتے ہیں۔‘‘
یہ بات بھی نہیں کہ انڈونیشیا میں ادیبوں، محققوں، موّرخوں یا لکھاریوں کا توڑا ہو۔ وہاں ایک سے ایک بڑا ادیب پڑا ہے۔ ایک دلچسپ واقعہ سننے میں آیا۔ 1986ء کی بات ہے۔ تھائی لینڈ کے بادشاہ نے انڈونیشیا کے شاعر سپردی جو کو دامونو کو انڈونیشیائی ادب کی خدمت کے حوالے سے ایوارڈ دیا۔ اِس موقع پر دامونو کو بنکاک مدعو کیا گیا۔ اب دامونو اِس اعزاز کے حوالے سے اپنی کچھ نظمیں شاہ تھائی لینڈ کی نذر کرنا چاہتے تھے۔ اور تب انہیں احساس ہوا کہ اُن کے کلام کا کوئی بھی حصّہ کسی دوسری زبان میں ترجمہ نہیں ہوپایا تھا! اِس موقع پر اُن کے دوست میک گلین کام آئے اور انہوں نے دامونو کی فرمائش یادرخواست پراُن کے منتخب کلام کا انگریزی میں ترجمہ کردیا جو ظاہر ہے جنوب مشرقی ایشیا میں عوامی رابطے کی زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ پرمود آنند کے ساتھ ساتھ ڈبلیو ایس رندھیر، اکھدیات مہاراجہ، دیس علوی، سلطان شہریار، روشن انور، شیرل انور، احمد توہاری، مختار اوبیس، فرح باسو کی، دیولستاری،لکشمی پامنتک، انڈونیشیائی ادب، نثر و شاعری، ڈرامے اور ناول نگاری میں چند معروف انڈونیشیائی نام ہیں۔ اِن میں سے کئی لکھاری ایسے ہیں جنہوں نے 1950ء کے بعد کے مختلف ادوار میں قیدو بند کی صعوبتیں سہیں اور اُن کی تحریریں بھی سرکاری بندش کی زد میں آئیں۔ یہ محض چند ایک نام ہیں جو انڈونیشیاکے آسمانِ ادب پر چمکے۔ گم نام یا غیر معروف لکھاریوں کا کوئی شمار نہیں کہ انڈونیشیا کو دنیا کی تیسری بڑی ’’جمہوریت‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔
اپریل، مئی2016ء میں تیسرے آسیان ادبی میلے کے جکارتا میں انعقاد کا فیصلہ ہوا تو پولیس نے بڑی بے یقینی کی کیفیت میں اِس کا اجازت نامہ جاری کیا۔ پتا نہیں انہیں کس بات کا خوف تھا؟ اِس سال انڈونیشیا کے ایک اور ادیب اکا کوریناون کوُ بکرانٹرنیشنل پرائز کے لیے بھی نامزد کیا گیا ہے۔ اس کے لیے اُن کا ناول”Man Tiger” منتخب کیا گیا جس کا ترجمہ لالودلی سیمبرنگ نے کیا ہے۔
ادیب جینا وان محمد جن کا تذکرہ پہلے بھی آچکا ہے، کہتے ہیں کہ’’ ادیب یا لکھاری بھی اِسی دنیا یا معاشرے سے جُڑے ہوتے ہیں۔ اِسی کا ایک حصّہ ہوتے ہیں۔ مَیں ستّر برس سے انڈونیشیا میں رہ رہا ہوں اور ایک انڈونیشیائی لکھاری ہوں۔ مَیں نہیں جانتا کہ جو کچھ میرے دل میں ہے، وہ دنیا تک پہنچا سکا ہوں یا نہیں۔‘‘
لُوسی نے، جنہیں انگریزی میں انڈونیشیائی ادب کے تراجم کی کمی کی شکایت رہتی ہے، خود بھی انڈونیشیا ہی کے موضوع پر اپنا آٹھواں ناول ’’ بلیک واٹر‘‘(Black Water) کے عنوان سے لکھا ہے۔
انڈونیشی ادب کے انگریزی تراجم کی کمی کے بارے میں اور کیا کہا جاسکتا ہے؟
(مرکزی خیال ’’ دی گارجیئن‘‘ سے لیا گیا)
***

بقیہ :تحریک خلافت ’’جان بیٹا خلافت پہ دے دو‘‘/نجیب ایوبی
مہاتماگاندھی اس اعلان کے ساتھ تحریک خلافت میں شریک ہوئے تھے کہ یہ مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے، اور جب ہمارے مسلمان بھائی بے چین ہیں تو ہم کیسے خاموش رہ سکتے ہیں! گاندھی جی نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں بار بار کہا کہ تحریک خلافت کو مسلمانوں کا ایک مقدس معاملہ سمجھ کر اس میں شریک ہوا ہوں۔ عزل خلافت کے بعد مہاتما گاندھی نے کہا کہ اگر میں ایک نجومی یا غیب داں ہوتا اور مجھے معلوم ہوتا کہ ترکی میں خلافت توڑی جائے گی تب بھی میں اس میں اسی عزم و حوصلے کے ساتھ شرکت کرتا۔ ہندوستان کے تمام بڑے بڑے لیڈر پنڈت موتی لال نہرو، سی آرداس، بپن چندر پال، لالہ لاجپت رائے، پنڈت مدن موہن مالوی وغیرہ اسی مؤقف کے حامی تھے۔ مسلمانوں میں ہر طبقۂ خیال اور نقطہ نظر کے علماء و لیڈران ’’خلافت‘‘ کو خالص مذہبی معاملہ سمجھتے اور اسی کے مطابق استدلال کرتے تھے۔ شاید کسی ایک مسئلے پر علمائے ہندوستان کبھی اس طرح متفق نہیں ہوئے۔ ان رہنماؤں میں حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسرت موہانی، رہبرانِ علیگڑھ اور لیڈر انِ مسلم لیگ سب مضطرب و بے چین اور خلافت تحریک،اور اسلامی مقاماتِ مقدسہ کے تحفظ کے لیے انگاروں پر لوٹ رہے تھے۔ تحریک خلافت ہی کے زمانے میں جمعیت العلماء کا قیام عمل میں آچکا تھا۔
عثمانی خلافت کے بعد ہندوستان میں خلافت کمیٹیاں قائم رہیں اور یہ منصوبے بنتے رہے کہ حکومت انگورہ کو مشورہ دیا جائے۔ وہاں وفد روانہ کیا جائے کہ وہ خلافت قائم کریں۔ لیکن یہ منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔
مولانا محمد علی جوہر نے علی گڑھ کی انتظامیہ سے سرکاری امداد نہ لینے کی اپیل کی۔ مگر فرنگی امداد اور ان کی رضا مندی سے چلنے والے علی گڑھ کالج کی انتظامیہ نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا، جس کے نتیجے میں مولانا محمد علی جوہر نے بہت سے طلبہ کو اپنے ساتھ ملا کر جامعہ ملیہ کی بنیاد رکھی۔ یہ ادارہ 1925ء میں دہلی منتقل کردیا گیا۔
اسی تحریک ترکِ موالات کے درمیان ایک ایسا موقع آیا جب 5 فروری 1922ء کو تحریکِ خلافت کی حمایت میں لوگوں نے مشتعل ہوکر اترپردیش کے ایک گاؤں چوراچوری میں ایک تھانے کو آگ لگا دی جس میں 22 سپاہی جل کر ہلاک ہوگئے۔ اس واقعے کو بنیاد بناکر گاندھی نے اعلان کردیا کہ چونکہ یہ تحریک عدم تشدد پر کاربند نہیں رہی اس لیے اسے ختم کیا جاتا ہے۔
مالابار کے ساحل پر مسلمانوں کی موپلہ بغاوت بھی اس تحریک میں بہت اہم مقام رکھتی ہے۔ اس علاقے کے موپلہ مسلمانوں نے تحریک خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جس کو روکنے کے لیے ان پر شدید تشدد کیا گیا، جس کے نتیجے میں 1925ء میں موپلہ مسلمانوں نے بغاوت کردی۔ حکومت نے اس بغاوت کو سختی سے کچل دیا اور ہزاروں موپلی مسلمانوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔
تحریک کو سبوتاژ کرنے اور اس کی عوامی مقبولیت کو کم کرنے کے لیے شدھی اور سنگٹھن تحریک شروع کی گئی۔ یہ سب سامراجی حکومت کی جانب سے’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ پالیسی کے عین مطابق ہورہا تھا۔
(جاری ہے )

حصہ