(سیرت طیبہ ﷺ قول وفعل کے آئینے میں (سید تاثیر مصطفی

258

ابتدائے آفرینش سے آج تک اس روئے زمین پر نہ معلوم کتنے فلسفی، نکتہ دان، نکتہ شناس، مصلحین، قائدین اور مختلف علوم و فنون کے ماہرین پیدا ہوئے۔ ان میں سے بعض گزرتے ہوئے وقت کی ریت تلے ایسے دبے کہ تاریخ میں اُن کا وجود اور عدم وجود یکساں ہی رہا۔ البتہ کچھ کو تاریخ نے اپنے ماتھے کا جھومر اور وقت نے اپنے زمانے کا ذہین و فہیم انسان تسلیم کیا۔ ایسے افراد جو اپنے اپنے زمانوں میں بھی ذہانت و فراست کے اعتبار سے افضل و ممتاز مانے گئے اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ زمانہ بھی جن کی قابلیتوں کا معترف ہوتا چلا گیا، جن کی صلاحیتوں نے اپنی اپنی قوموں کی تقدیریں بدل دیں اور جن کی انتھک محنت نے مُردہ قوموں میں زندگی کی نئی روح پھونک دی، وہ تعداد میں بہت زیادہ نہیں ہیں مگر تاریخ میں انمٹ حیثیت کے حامل ہیں۔ انھیں قوموں کی کشتی کے کھیون ہار، ملّتوں کے قائدین اور ملکوں کے ہیروز کہا جاتا ہے، لیکن شاید ان معدودے چند قائدین اور ہیروز میں جنہوں نے قوموں کو نظریے اور فلسفے دیے اور اُن کے اس احسان کی اُن کی اپنی اقوام اور دیگر عالمی برادری قدر بھی کرتی ہے، انبیاء علیہم السلام کے سوا کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر نہ آئے جو خود اپنے ہی دیے ہوئے نظریے، فلسفے اور اصولوں پر عمر بھر کاربند رہا ہو۔ آج کی جدید اور مہذب دنیا جن افراد کو محسنینِ انسانیت، حقوقِ انسانی کے نگہبان اور امن و خوشحالی کی علامت قرار دیتی ہے، ان سب کی نجی زندگیاں تضاد کا شکار ہیں۔ ان اصحاب کی خلوتوں اور جلوتوں کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو واضح دورنگی نظر آتی ہے، اور ان کی پرائیویٹ لائف ان کی پبلک لائف کی قلعی کھول دیتی ہے۔
قول وفعل میں تضاد اور عمل سے فرار کی اس گھٹا ٹوپ تاریکی میں عظمتِ کردار کی ایک ایسی قندیل نشانِ راہ کے طور پر ہمیں نظر آتی ہے جس کی ضوپاشیوں سے عرب کے جاہل بدو تھوڑے ہی عرصے میں کردار کے غازی بن گئے۔ گلہ بانوں کو سلطانی و حکمرانی گھر کی لونڈی کی طرح عطا ہوئی۔ مُردہ انسانیت کی مضمحل شریانوں میں حیاتِ تازہ کی زرتاب چنگاریاں درخشندہ ہوگئیں۔ آدمیت کی مشتِ خاک ذلت و مسکنت کے تحت الثریٰ سے اٹھ کر ہمدوشِ ثریا اور ہمسرِ مہ و پرویں ہوئی۔ عرب کے بے آب و گیاہ صحراؤں کو لالہ زاروں کا روپ اور فردوسِ بریں کا رنگ بخشا گیا۔ قطرے دریا، ذرّے درشہوار اور اندھیارے نور آفریں سورج کی صورت اختیار کرگئے۔ یوں کائنات کو ایک عظیم انقلابِ انسانیت نصیب ہوا اور رہوارِ انسانیت کو ایک نئی اور عملی جہت کی طرف اذنِ سفر ملا۔
یہاں سیرت و کردار کے اس اعلیٰ ترینمرقع کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی ذاتی اور معاشرتی زندگی کھلی کتاب کی طرح آج کے انسان کے سامنے ہے۔
کائنات کی اس عظیم ترین اور جلیل القدر شخصیت کی ذاتی زندگی کے ایک ایک لمحے کا مطالعہ کرلیجیے اور اجتماعی زندگی کے ایک ایک موڑ پر نظر ڈال لیجیے، عرب کے اس درِ یتیم کی کتابِ زندگی کے ایک ایک ورق کو پلٹ جایئے اور 63 سالہ تسبیح حیات میں لیل ونہار کے دانے دانے کو گن جایئے، آپ کو پوری زندگی میں قول وفعل کے تضاد کی کوئی ایک مثال بھی نہ مل سکے گی۔
اگر ایک عام قاری آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے نہیں بلکہ محمد بن عبداللہ کی حیثیت سے مطالعہ کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آمنہ کی گود میں، ابوطالب کی انگلی پکڑے ہوئے، عبدالمطلب کے کندھے پر سوار، مکہ کی گلیوں میں ذہین بچے کی شکل میں، شام کے بازاروں میں دیانت دار تاجر کے روپ میں، عرب کے صحراؤں میں متین اور پاکیزہ نوجوان کی صورت میں، غارِ حرا میں زاہدِ شب زندہ دار کے قالب میں، عائشہؓ کے حجرے میں ایک نامدار شوہر کے انداز میں، فاران کی چوٹیوں پر بے باک مبلغ کے تیور لیے ہوئے، شعبِ ابی طالب میں اسیر بے نوا کے طور پر، ہجرت کے وقت غریب الدیار بے وطن کی طرح، طائف کی وادی میں صبر و استقامت کے پیکر کی مانند، بدر کے میدان میں حوصلہ مند سپہ سالار کی حیثیت میں، صلح حدیبیہ کے وقت امن پسند مصلح عالم کے رنگ میں، فتح مکہ کے موقع پر خدا ترس فاتح اعظم کی شان میں، مسجد نبویؐ کے صحن میں معلمِ کائنات کی پوشاک میں، بیت اللہ کے سائے میں مدبر سیاست دان کی قبا میں، یثرب کی ریاست میں ایک عادل حکمران کی مسند پر، زیدؓ و بلالؓ کے ساتھ خلیق و مہربان آقا کا تبسم لیے ہوئے، صدیقؓ و عمرؓ کے ساتھ مشورہ کرتے ہوئے، اور فاطمہؓ کے سر پر شفقت کا سایہ بنتے ہوئے دیکھے اور کسی ایک حیثیت میں بھی آپ کو قول کا کچا، کردار کا ناپختہ نہ پائے تو صحنِ حرم کی طرح پاکیزہ کردار کے مالک بنی ہاشم کے نوجوان محمد بن عبداللہ کی سیرت و کردار کو سلام عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔
دنیا کی تاریخ اس بات پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے کہ آج تک اس کائنات میں جتنے بھی انقلابات نے جنم لے کر فکر و نظر کے افق کو وسیع کیا، ان میں سترہویں صدی میں روسو کی فکری بنیادوں پر جنم لینے والا انقلابِ حریت یعنی انقلابِ فرانس ہو، یا انیسویں صدی میں سرمایہ داروں کی حویلیوں میں زلزلہ پیدا کردینے والی مزدوروں کی صدائے کربناک کی کوکھ سے پیدا ہونے والا انقلابِ روس، غلامی کی زنجیروں کو توڑنے، ذلت کی بیڑیوں کو پگھلانے اور مصائب کے زندانوں کو مسمار کرنے کے لیے امریکی سیاہ فاموں کی کامیاب جدوجہد ہو یا فرنگیت کے محل پر گرنے والی آسمانی بجلی کی صورت میں افریقی اور ایشیائی باشندوں کی تگ و تاز۔۔۔ ان سب میں فکر اور نظریہ کسی اور کا تھا اور انقلاب کے لیے کام کرنے والے ہاتھ کسی اور کے۔ پھر ہر ایسے وقتی، جذباتی اور علاقائی انقلاب کی داستان لاکھوں انسانوں کے خون سے رنگین ہے۔
انقلابات کے خداؤں نے ہڈیوں پر محل بنائے ہیں
زندگی کی رگوں سے خون لے کر موت کے بام و در سجائے ہیں
لیکن محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا برپا کردہ عقلی، دائمی، آفاقی اور ہمہ گیر انقلابِ انسانیت ایسا ہے جس میں فکر و نظریہ بھی سرور کائنات کا ہے، اور جو تکمیل تک بھی فخرِ دوجہاں ہی کے دستِ مبارک سے پہنچا۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ اگرچہ صحابہ کرام کی زندگیاں بھی ایثار و قربانی کے کبھی ختم نہ ہونے والے باب ہیں، لیکن اس دائمی انقلاب کے برپا کرنے میں جس قدر قربانی اور محنت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اتنا حصہ کسی اور کا نہیں۔
آیئے! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نجی اور معاشرتی زندگی میں قول و فعل کا حسین امتزاج اور گفتار و کردار کا خوب صورت عکس دیکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی وحدانیت اور حاکمیت کا برملا اعلان فرماتے ہیں کہ صرف وہی لائقِ عبادت و پرستش ہے اور انسان کا سر صرف اسی کے حضور جھک سکتا ہے، تو پوری زندگی وقت کے فرعونوں کے سامنے آپؐ کا سر نہیں جھکتا۔ایک موقع پر فرماتے ہیں: اگر میرے ایک ہاتھ میں چاند اور دوسرے پر سورج بھی رکھ دیا جائے تب بھی میں تبلیغِ حق سے باز نہ آؤں گا، تو آپؐ مکہ کے سرداروں کے نمائندہ عتبہ بن ربیعہ کی یہ کھلی دعوت ردکردیتے ہیں کہ اے محمد! کیا چاہتے ہو مکہ کی حکومت، بڑے گھرانے میں شادی یا زر وجواہر کے ڈھیر۔ غلاموں کے ساتھ بہتر سلوک کا ارشاد ہوتا ہے تو اپنے غلام زید بن حارثہ کے ساتھ ایسا سلوک فرماتے ہیں کہ وہ باپ کے ساتھ جانے سے انکار کرکے آغوشِ رسالت میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تمام تر انسانیت کو اولادِ آدم قرار دے کر ان کے درمیان موجود خاندانی جاہ و حشمت اور اونچ نیچ کی تمیز کو بے معنی ٹھیراتے ہیں تو خود ایک قدم آگے بڑھ کر اپنی پھوپھی زاد حضرت زینبؓ کو اپنے غلام حضرت زیدؓ کے نکاح میں دے دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ فتح مکہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ پر آپؐ کے پیچھے حضرت زیدؓ کے بیٹے اسامہؓ بیٹھے نظر آتے ہیں۔ عام مسلمانوں کو جہاد فی سبیل اللہ کا حکم دیتے ہیں تو خود میدان میں ایسی جرأت و بہادری سے موجود رہتے ہیں کہ بڑے بڑے جری صحابہؓ آپؐ کے سائے میں پناہ تلاش کرتے ہیں۔ مدینہ میں مسجد بنانے کا حکم دیتے ہیں تو عام مزدوروں کی طرح تعمیر مسجد میں شریک ہوتے ہیں۔ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر وزن سے دہری ہورہی ہے لیکن عصرِ جدید کے مزدوروں کے سرمایہ دار حامیوں کے لیے آنے والے لمحوں میں حرکت و عمل کا درس رقم کررہے ہیں۔ لوگوں کو ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم ’’اللہ کے نزدیک معزز وہ ہے جو تقویٰ والا ہے‘‘کا درس دیتے ہیں تو اپنے دربار میں حبشہ کے کالے غلام حضرت بلالؓ کو تقویٰ کی بنیاد پر وہ مقام عطا کرتے ہیں کہ مکہ کے بڑے بڑے سرداروں ابوجہل، ابولہب اور عتبہ کی بھی وہ توقیر نہیں۔ خطبہ حجتہ الوداع میں سود کو حرام قرار دیا تو سب سے پہلے اپنے خاندان کے ابن عباس کا سود معاف فرمایا۔ دورِ جاہلیت کے تمام خون معاف کیے تو سب سے پہلے اپنے خاندان کے ربیعہ بن الحارث کے دودھ پیتے بچے کا خون معاف کیا جسے بنو ہذیل نے قتل کردیا تھا۔ جنگِ خندق کے موقع پر حضرت سلمانؓ فارسی کی رائے پر عجمی طریقۂ جنگ کے مطابق خندق کھودنے کا حکم دیتے ہیں تو خود بھی عام سپاہیوں کی طرح کھدائی میں مصروف ہیں۔ ایک صحابی تکان اور بھوک سے نڈھال ہوکر اپنے پیٹ سے بندھا ہوا ایک پتھر دکھاتے ہیں تو دامنِ نبوت اٹھتا ہے اور چشمِ فلک یہ نظارہ کرتی اور آسمان پر فرشتے جس کی تقدیس کے ترانے گاتے ہیں زمین پر اس کے پیٹ سے دو پتھر بندھے ہوئے ہیں۔ چور کے ہاتھ کاٹنے کا اعلان اس اضافے کے ساتھ فرماتے ہیں کہ اگر فاطمہ بنتِ محمد بھی چوری کرے تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیے جائیں۔ غفو و درگزر کی تلقین فرماتے ہیں تو خود ایسی عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اپنے عزیز چچا حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبانے والی ہندہ کو بھی معاف فرمادیتے ہیں۔ لوگوں کو غرور و تکبر سے منع کرتے ہیں تو اپنا یہ حال ہے کہ مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے تو عجز و انکسار سے آپؐ کا سر بارگاہِ ایزدی میں اس قدر جھکا ہوا ہوتا ہے کہ بار بار کجاوے کی لکڑی سے ٹکراتا ہے۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر آپؐ قریش کے سردار سہیل بن عمرو کے ساتھ معاہدے کی شرائط طے فرما رہے ہیں۔ ایک شرط یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مکہ سے مدینہ آجائے تو واپس کرنا ہوگا جبکہ مدینہ سے مکہ آنے والے شخص کو واپس نہیں کیا جائے گا۔ ابھی معاہدہ تکمیل کو نہ پہنچا تھا کہ سہیل کا مسلمان بیٹا ابوجندل زخمی جسم اور نڈھال جان لے کر پابہ زنجیر مکے سے بھاگ کر وہاں پہنچ گیا اور مسلمانوں سے پناہ چاہی، سہیل نے کہا: محمد! معاہدے کی تکمیل کا پہلا موقع ہے۔ ابوجندل کو ہمارے حوالے کردو۔ چنانچہ قول و قرار کے پکے نبیؐ نے دل پر پتھر رکھ کر ابوجندل کو قریش کے حوالے کردیا۔ لوگوں کو ’’وتواصوابالصبر‘‘ کی تلقین کرتے ہیں تو خود طائف کی وادی میں لہولہان ہوکر بھی ظالموں کے لیے بددعا کا ایک لفظ نہیں کہتے۔ لوگوں کو خونریزی سے منع فرماتے ہیں تو انسانی خون کی قدرومنزلت اس قدر پیش نظر رکھتے ہیں کہ قریشِ مکہ جنہوں نے ابتدائی دور میں مسلمانوں پر ستم کے اتنے پہاڑ توڑے کہ وہ ہجرت پر مجبور ہوگئے لیکن فتح مکہ کے موقع پر ان کے بھی قتلِ عام سے پرہیز فرمایا۔ اس موقع پر حضرت خالدؓ کے دستہ کے دو افراد کو قریش نے شہید کردیا تو جواباً مسلمانوں نے قریش کے تیرہ افرادکو قتل کیا۔ اس کے سوا کسی شخص کی نکسیر بھی نہیں پھوٹی۔ دستور زمانہ ہے کہ جب کوئی فاتح قوم مفتوحہ علاقے میں داخل ہوتی ہے تو لاکھوں بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیل کر جشن فتح منایا جاتا ہے۔ عصمتوں کو پامال کیا جاتا ہے۔ جائدادوں کو تباہ اور فصلوں کو برباد کیا جاتا ہے۔ مفتوحہ قوم کی قبروں پر اپنی برتری کے تاج محل تعمیر کیے جاتے ہیں۔ لیکن پوری تاریخ انسانی میں صرف فتح مکہ ایسا پُرامن واقعہ ہے کہ جس میں کل تیرہ جانوں کے اتلاف کے بعد عام معافی کا اعلان کرکے ہر قسم کی خونریزی اور افراتفری کا دروازہ بند کردیا گیا، اوریوں لوٹ مار یا عصمت دری کا کوئی ایک واقعہ بھی پیش نہ آیا۔ اسلام کے بزور تلوار پھیلنے کا طعنہ دینے والے اور انسانی خون کی ارزانی کا رونا رونے والے انسانیت کے نام نہاد علَم برداروں کے لیے چودہ سو برس قبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امن پسندی اور عالی ظرفی کا ایک ایسا نمونہ چھوڑا جسے انسانیت کی پیشانی پر سنہرے حروف سے لکھا جانا چاہیے۔
صرف یہی نہیں بلکہ احترام آدمیت کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عملی اقدام کیے، انھیں یکجا کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے۔ اسیروں کے ساتھ بہترین سلوک کرنے کے لیے کہا گیا تو عملاً ایسا ہی کیا گیا۔ جنگِ بدر میں سہیل نامی ایک شخص قید ہوا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہت زہر اگلا کرتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اجازت چاہی کہ اس کے دو نچلے دانت نکال دیے جائیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمادیا۔ اسیروں کو فدیہ دینے یا دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے پر رہا کردیا گیا۔ انصاف کے تقاضوں کو پورا فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پر پانی پلادیا۔
ان واقعات کے علاوہ سرورِ کائنات کی حیاتِ طیبہ میں ایسے ہزاروں واقعات موجود ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں یکسانیت کے مظہر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ والئ عرب و عجم کی پوری زندگی میں کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیاکہ آپؐ نے جس بات کی تلقین دوسروں کو کی ہو خود اس پر عمل کرکے نہ دکھایا ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ اقدس سے جو کچھ نکلا عملی زندگی میں اس کی واضح جھلک نظر آتی ہے۔ اسی لیے اُم المؤمنین حضرت عائشہؓ صدیقہ نے ایک موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کسی کے استفسار کرنے پر فرمایا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم
(باقی صفحہ 41پر)

کی زندگی چلتا پھرتا قرآن ہے۔ گویا قرآن کے ایک ایک فرمان پر عمل کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی لوگوں کے سامنے نمونہ کے طور پر پیش کردی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عملی اور مثالی زندگی کے اتباع میں انسانوں کی فلاح ہے۔ قرآن کا بجا ارشاد ہے:
ترجمہ:’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! لوگوں سے کہہ دو کہ ’’اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔‘‘
nn

حصہ