امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وزیراعظم نوازشریف سے ٹیلی فونک گفتگو کی گرد ابھی بیٹھی نہیں تھی کہ امریکی نائب صدر کا بھی بیان سامنے آگیا کہ امریکہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ یہی بات ٹرمپ نے بھی کہی تھی، جس پر بہت سے سوالات اٹھے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے امریکی نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو فون کیا تھا۔ ٹیلی فون پر ہونے والی اس گفتگو کی تفصیلات جاری ہونے پر ایک ہنگامہ اس لیے برپا ہوا ہے کہ کہا جارہا ہے وزیراعظم کی ناتجربہ کار میڈیا ٹیم انہیں ڈان لیکس کے بعد ٹرمپ لیکس میں پھنسا دے گی۔ لیکن معاملہ الٹ ثابت ہورہا ہے۔ امریکی نومنتخب صدر کی ٹیم اور دفتر خارجہ نے وزیراعظم ہاؤس سے جاری پریس ریلیز کو ایک درست سمت قرار دیا ہے اور واضح الفاظ میں کہا جارہا ہے کہ کچھ ایسا نہیں ہوا جسے سفارتی آداب کے منافی خیال کیا جائے، جو کچھ جاری ہوا اس پر ہر فریق راضی ہے۔ وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے اس گفتگو کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے امریکی نومنتخب صدر کی گفتگو کا حصہ ہی جاری کیا گیا، تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم نے اس پر کوئی سخت منفی ردعمل نہیں دیا، صرف اتنا کہا کہ ’’گفتگو کی تفصیلات لچھے دار بناکر پیش کی گئی ہیں‘‘۔
وزیراعظم نوازشریف کی امریکی نومنتخب صدر سے ہونے والی اس گفتگو کو دو سربراہوں کا رابطہ نہیں کہا جاسکتا۔ ایک جانب وزیراعظم پاکستان تھے تو دوسری جانب امریکی صدر نہیں، بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ تھے۔ یوں اسے وزیراعظم پاکستان کی ڈونلڈ ٹرمپ سے گفتگو کے سوا کوئی اور عنوان نہیں دیا جاسکتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے تک کچھ بھی کہہ سکتے ہیں اور کچھ بھی کرسکتے ہیں، اصل حیثیت اور اہمیت اُن کے امریکی صدر بن جانے کے بعد کی جانے والی گفتگو اور ان کے اعمال کی ہوگی، وہی پاکستان کے لیے امریکہ کا اصل چہرہ ہوگا، تاہم اس کا فائدہ یہ ہوا کہ بھارت میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان کی شرکت کے وقت بھارت کو اس ٹیلی فونک گفتگو کے ذریعے پیغام مل چکا ہے کہ جنوبی ایشیا میں اسے ایک ذمہ دار ملک بننا پڑے گا۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے دہلی جانے کا فیصلہ حکومت اور عسکری قیادت کی مشترکہ سوچ کے مطابق کیا تھا۔ وہ وزیراعظم نوازشریف اور ڈونلڈ ٹرمپ کے رابطوں کا تعویذ بھی اپنے گلے میں لٹکاکر دہلی پہنچے، جہاں ان کے ساتھ غیر سفارتی سلوک ہوا۔ جب کہ سرتاج عزیز کا مؤقف ہے کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر بھارت میں ان کے ساتھ بدسلوکی نہیں ہوئی۔ فرائیڈے اسپیشل کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ وہ بھارتی حصار میں تھے البتہ میڈیا کے نمائندوں سے دور رکھا گیا، گولڈن ٹیمپل میں بھی بھارتی میڈیا ان کا انتظار کرتا رہ گیا۔ اتوار کو وہاں بے پناہ رش کی وجہ سے بڑے پیمانے پر سیکورٹی انتظامات نہ ہونے پر انہیں بھارتی حکام نے وہاں نہیں جانے دیا۔ وہ بھارتی حصار میں نہیں تھے۔ امرتسر میں مکمل پروٹوکول ملا ہے، بدسلوکی کا تاثر درست نہیں ہے۔
بہرحال یہ تو سرتاج عزیز کا مؤقف ہے، لیکن پوری قوم نے ٹی وی اسکرین پر جو کچھ بھی دیکھا وہ ایک دوسری حقیقت تھی۔ مشیر خارجہ کے مؤقف سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی اور قوم کی لغت میں لفظ عزت اور بے عزتی کے معنی مختلف ہیں۔ جو کچھ سرتاج عزیز نے کہا وزارتِ خارجہ بھی وہی کچھ کہہ رہی ہے۔ بھارت کے اس دورے پر دفتر خارجہ کے ماہرین کا مؤقف ہے کہ یہ صورتِ حال عالمی سفارت کاری کے تناظر میں پاکستان کے حق میں رہی کہ روس جیسے ملک نے بھارتی حکومت کے اس رویّے کی مذمت کی۔ وزارتِ خارجہ کے جنوبی ایشیا ڈیسک کے ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں پاکستان کی شرکت ہر لحاظ سے ضروری تھی، اور اس کی وجہ سے لائن آف کنٹرول پر حالات پُرامن بنانے میں مدد مل سکتی ہے، اس کے باوجود بھارت کا رویہ اور فیصلہ کوئی دوسرا ہوا تو پھر پاکستان کے لیے جواب کا پورا پورا حق ہوگا۔ اگلے ہفتے امریکی فوج کے سربراہ جنرل نکلس کی اسلام آباد آمد متوقع ہے، وہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کریں گے جس میں پاک افغان سرحد، دہشت گردی، پاک بھارت تعلقات سمیت اہم امور پر بات چیت ہوگی۔ وزیراعظم نوازشریف کی ڈونلڈ ٹرمپ سے گفتگو، دہلی سے سرتاج عزیز کی واپسی اور وہاں سے ملنے والے پیغام کی روشنی میں جنرل قمر جاوید باجوہ امریکی جنرل نکلس سے ملاقات کریں گے۔ امکان یہی ہے کہ اس ملاقات میں پاکستان کی جانب سے جنرل نکلس کے سامنے معطل فوجی امداد کی بحالی کے لیے لازمی نکات اٹھائے جائیں گے۔ اس متوقع ملاقات کے حوالے سے سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید کا کہنا ہے: ’’اس وقت نئی تبدیلیوں اور خطہ کی صورت حال کے باعث دونوں فریق باہمی طور پر کسی بہتر مستقبل کے لیے پُرامید دکھائی دیتے ہیں‘‘۔ وہ اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ وزیراعظم نوازشریف نے اپنے لحاظ سے بہت اچھا پتّا کھیلا ہے۔ ان کی یہ رائے اور بات درست ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نوازشریف کے اس لیے بھی قریب سمجھے جاتے ہیں کہ پاکستان سے پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف دونوں اپنی لابیسٹ فرم کے ذریعے ہیلری کلنٹن پر سیاسی سرمایہ کاری کررہی تھیں۔ یہ دونوں جماعتیں امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج سے بہت مایوس ہوئی ہیں، جب کہ نوازشریف ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں امریکی صدارتی انتخابی مہم کے دوران امریکہ میں موجود پاکستانی بزنس لابی سے تعلق کے باعث ٹرمپ کی لابی کے بہت قریب تھے۔ دفتر خارجہ کے نہایت ذمہ دار ذرائع اس بات کی تصدیق بھی کرتے ہیں اور ان کے خیال میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے مثبت ردعمل کے بعد ہی وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی امریکہ روانہ ہوئے۔ پاکستان اس کوشش میں ہے کہ امریکیوں کو باور کرا سکے کہ اس خطہ میں نئے سیاسی اور سی پیک کی صورت میں اقتصادی منظر ابھرنے کے باوجود پاکستان عالمی برادری کے ساتھ برابری کی بنیاد پر سفارتی تعلقات کا خواہاں ہے اور بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات کا پُرامن حل چاہتا ہے۔ طارق فاطمی یہی ایجنڈا لے کر امریکہ گئے ہیں اور یہ پیغام بھی لے کر گئے ہیں کہ جنوری میں امریکہ کا صدر بن جانے کے بعد بھی ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے لیے آج جیسے ہی خیالات رکھیں بلکہ ان خیالات کو بڑھاوا دیا جائے۔ واشنگٹن سے طارق فاطمی جو بھی جواب لائیں، ہمیں پاکستان کے لیے ’’صدر ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ کے اصل چہرے کا انتظار رہے گا۔
امریکہ کے صدارتی انتخاب کے نتائج کے بعد تحریک انصاف تو دامن جھاڑ چکی ہے لیکن پیپلزپارٹی ہیلری کی شکست کی صورت میں واشنگٹن میں اپنا گھوڑا ہار جانے کے باوجود متحرک ہے اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے بڑھا رہی ہے، اس کی خواہش ہے کہ پنجاب میں اسے جنوبی پنجاب کے اضلاع میں اکثریت دلا دی جائے تو وہ سندھ، بلوچستان کے ساتھ جڑے ہوئے پنجاب کے ان اضلاع میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے میں مددگار بن سکتی ہے۔ یوسف رضا گیلانی کے ذریعے بلاول بھٹو کی متعدد ملاقاتیں بھی ہوچکی ہیں لیکن فی الحال پیپلزپارٹی کو کامیابی نہیں ملی ہے کیوں کہ تمام تر دعووں کے باوجود پارٹی میں فیصلوں کا اختیار ابھی تک آصف علی زرداری کے پاس ہے، اسی لیے دہشت گردی میں ملوث ملزموں کی سہولت کاری کے الزام میں گرفتار ڈاکٹر عاصم حسین کو تنظیمِ نو کے وقت پارٹی میں اہم انتظامی عہدہ دیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ فیصلوں کا اختیار تو آصف علی زرداری کے پاس ہی رہے، لیکن انہیں کچھ عرصہ پس منظر میں رکھ کر پارٹی کی سیاسی ساکھ بہتر بنائی جائے، لیکن اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات قبول نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کی سیاسی حکمت عملی اور اس کے تنظیمی فیصلوں کا جائزہ لیا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی بالکل اسی طرح مائنس زرداری کی جانب بڑھ رہی ہے جس طرح آصف علی زرداری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلق بڑھاتے ہوئے مائنس بے نظیر بھٹو کے لیے تیار ہوئے تھے۔ مائنس بے نظیر بھٹو کی منصوبہ بندی کا آغاز 2004ء میں اُس وقت ہوا جب وہ جلاوطن تھیں اور آصف علی زرداری جیل میں ہوتے ہوئے پرویزمشرف حکومت کے اہم کل پرزوں کے ساتھ رابطوں میں تھے۔ انہی رابطوں کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو تک دس نکاتی فارمولا پہنچایا گیا تھا جس میں بنیادی بات یہ تھی کہ پیپلزپارٹی کی اگلی حکومت مائنس بے نظیر بھٹو ہوگی اور آصف علی زرداری حکومت کے سربراہ ہوسکتے ہیں۔ آج یہی مطالبہ آصف علی زرداری کے حوالے سے کیا جارہا ہے کہ بلاول بھٹو، آصف علی زرداری کو مائنس کرکے پیپلزپارٹی کی قیادت کریں تو پارٹی اقتدار میں آسکتی ہے۔ اس حوالے سے بلاول بھٹو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ان رابطوں کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح کے رابطے ماضی میں بھی ہوئے تھے، لیکن اُس وقت بے نظیر بھٹو نے اس طرح کے رابطوں میں دیے جانے والے فارمولے کلی طور پر مسترد کردیے تھے، لیکن بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری کے سیاسی ترکش میں ہر قسم کے تیر موجود ہیں، لہٰذا بلاول بھٹو، آصف علی زرداری کی مرضی اور منشا کے مطابق ہی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں اور گاہے بگاہے دبئی جاکر رابطوں کے نتائج کی رپورٹ بھی دیتے رہتے ہیں۔ ممکن تھا کہ آصف علی زرداری ملک میں واپس آجاتے لیکن اب نئی تبدیلیوں کے تناظر میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی وطن واپسی میں کچھ تاخیر ہوگی، کیونکہ پیپلزپارٹی ان کی وطن واپسی کو کراچی میں نیشنل ایکشن پلان کے تناظر میں دیکھ رہی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان میں ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری پیپلزپارٹی کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں آصف علی زرداری پر ہاتھ ڈالنا مقصود تھا اور پیپلزپارٹی خوب سمجھتی ہے کہ جب تک ڈاکٹر عاصم حسین کا کیس ختم نہیں ہوجاتا اُس وقت تک اس کے لیے پریشان کن صورت حال موجود رہے گی۔
سپریم کورٹ میں پاناما کیس سمیت اس وقت تین اہم
(باقی صفحہ 41پر)
مقدمات زیر سماعت ہیں جن میں سپریم کورٹ کی جانب سے ازخود نوٹس کا مقدمہ بھی شامل ہے، جس میں عدالت نے حکومت سے ملک میں مردم شماری کرانے کے لیے شیڈول مانگ رکھا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کی ہدایت ہے کہ اسے مارچ سے مئی تک ملک میں مردم شماری کرانے کا شیڈول دیا جائے۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کے بیان کے بعد دکھائی دے رہا ہے کہ حکومت اگلے سال 15مارچ سے مردم شماری کے لیے تیار ہے اور اس حوالے سے صوبوں سے مشاورت بھی مکمل کرلی گئی ہے۔ مردم شماری15مئی کے بعد 2 ماہ میں مکمل ہوگی۔ ان کے مطابق مردم شماری کی سمری مشترکہ مفادات کونسل کو بھجوا دی گئی ہے۔ اسی فورم کو ملک میں مردم شماری کی منظوری دینی ہے۔
اور سب سے آخر میں یہ اطلاع کہ سپریم کورٹ 15 دسمبر تک پاناما کیس کا فیصلہ سنانے والی ہے۔ اسی روز چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس ہوگا۔ وہ 30 دسمبر کو ریٹائر ہوجائیں گے۔ پاناما کیس ان کی عدالتی زندگی کا آخری فیصلہ ہوگا۔ دیکھتے ہیں کہ جاتے جاتے حکمرانوں کو نامۂ اعمال کس ہاتھ میں تھما کر جاتے ہیں۔