اسلام کا معجزہ ہے کہ، ہرگز خسارے میں نہیں ہے۔ یہ محبوب ہے، مقبول ہے، معلوم ہے، اور مکمل ہے۔ معتبر ذرائع اسے غیر معتبر نہیں بنا سکتے، مقبول طریقے اسے غیر مقبول نہیں بناسکتے، قابلِ قبول انداز اسے ناقابلِ قبول نہیں بنا سکتا، اور اخلاقی بنیادوں پر اس کی جڑیں اکھاڑی نہیں جاسکتیں۔ یہ خواہش، یہ خیال ہی سراسر خسارے میں ہے۔
انسان کا المیہ ہے کہ خسارے میں ہے۔ انسان کا نقصان یا خسارہ کس میں ہے؟ اسلام پر ایمان نہ لانے میں ہے یا ایمان لاکر عمل و صبر نہ کرنے میں ہے۔ سو، حال شاہد ہے۔ انسان نقصان میں ہے۔ مسلمان نقصان میں ہے۔ کافر نقصان میں ہے۔ راہِ عمل پھرکیا ہو؟ انسان اسلام سے ہم آہنگ ہوجائے۔ وہ کیسے؟ جواب ہی منشائے مضمون ہے۔ مگر محرک مضمون پر پہلے ایک نظر ہوجائے۔
محرک مضمون ایک خبر ہے۔ ملک سلوواکیہ کی پارلیمنٹ نے قرارداد منظور کی ہے کہ اسلام پر پابندی لگائی جائے، اور اسے سرکاری حیثیت حاصل کرنے سے بہرصورت روکا جائے۔ بائیں بازو کی آزاد خیال دنیا کے اس تنگ نظر ایوان نے قرارداد کے حق میں دوتہائی اکثریت سے ووٹ دیا۔ بائیں بازوکے وزیراعظم رابرٹ فیکو نے برملا فرمایا کہ اسلام کے لیے سلوواکیہ میں کوئی جگہ نہیں۔ سلوواکیہ سے فرانس، اور امریکہ سے برطانیہ تک مسلمانوں کی عددی صورت حال اور اسلام کی تہذیبی صورت حال ناقابل برداشت ہوچکی ہے۔ ظاہر ہے، عددی صورت حال یہاں بہانہ ہے، یہودی ہمیشہ سے عیسائی اکثریت پر حاوی و حاکم رہے ہیں۔ اصل مسئلہ اسلام کی تہذیبی صورت حال سے ہے۔ اسلام سے خوف نے مغرب کو جکڑ رکھا ہے۔ مغرب کی مجبوریاں ہیں کہ اسلام کی کردارکشی میں اعلیٰ قدروں کو سولی چڑھادے، رواداری اور انسانیت کے جھوٹے لبادے اتار پھینکے، انسانی حقوق کو مسلمانوں پر حرام کردے، اور باحیا باپردہ عورت کے چہرے سے نقاب نوچ پھینکے۔
سلوواکیہ تنہا نہیں۔ مسلمانوں سے دشمنی میں انگولا، ہنگری، میانمار، اور سموا بھی پیش پیش ہیں، اب امریکہ کی قیادت بھی میسر آگئی ہے۔ سال بھر سے کچھ پہلے ہنگرین وزیراعظم وکٹر اوربن نے جرمن اخبار میں کالم لکھا کہ مسلمانوں کو لازماً ملک سے باہر رکھا جائے گا تاکہ یورپ عیسائی رہ سکے۔ میانمار میں فوج اور بدھ بھکشوؤں کی دہشت گردی دنیا کے سامنے ہے، مسلمانوں کو یہاں نہ صرف یہ کہ شہریت نہیں دی جاتی بلکہ ہجرت کرجانے والوں کو کھلے سمندر میں دھکیلا جاتا ہے اور موقع بہ موقع روہنگیا آبادیوں پر شب خون مارا جاتا ہے۔ انگولا میں اسلام کی سرکاری حیثیت پر پابندی عائد ہے۔ دوسال کے دوران انگولا میں درجنوں مساجد شہید کی جاچکی ہیں، اور اس سے کہیں زیادہ مساجد پر تالے ڈال دیے گئے ہیں۔ سموا کی نیشنل کونسل آف چرچز نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ آئین میں مذہبی آزادی کے قوانین پر نظرثانی کریں، بالخصوص اسلام پرپابندی لگائیں۔ اسلام کے سوا کوئی بھی دوسرا بڑا یا معروف مذہب دنیا کے کسی ملک میں سرکاری طور پر غیرقانونی یا پابندی کا شکار نہیں۔ یہ اعزاز صرف اسلام کو حاصل ہورہا ہے۔
یہ پابندیاں محض اسلام سے خوف کی سرسری جھلکیاں ہیں۔ اسلام اور مغرب کا اصل تہذیبی تصادم گوانتانامو سے مصر کی جیلوں اور شہداء کی لالہ زار وادی کشمیر سے شام کی دھول میں اٹی گلیوں تک صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ تصادم امریکہ کے اخباروں سے یورپ کے جریدوں، اور ہالی وڈ کی فلموں سے ہندوستان کے ڈراموں تک ہر جگہ نظر آسکتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ سب بے سبب نہیں، اور نفرتِ عام کے سبب بھی نہیں۔ یہ وہی تصادم ہے، یہ وہی ایجنڈا ہے، جس کی حالیہ بنا عالم صہیون کے بڑوں برنارڈ لوئیس اورسیموئل ہن ٹگنٹن نے ڈالی۔
اب ہوگا کیا؟ وہی جو جھوٹے پروپیگنڈے کی کثافت میں ہوتا ہے۔ لوگوں کا اسلام سے خوف نفرت اور پھر تجسس میں ڈھل جائے گا۔ یہ تجسس تحقیق بن کر تسلیمات پر پہنچ جائے گا۔ مغرب مغلوب ہوجائے گا۔ اسلام غالب آجائے گا۔
حالات کی یہی وہ فطری ترتیب ہے، جو حال کو مستقبل کی جانب لے جارہی ہے۔ راستہ مگر مشکل ہے۔ وقت کا تعین بھی
(باقی صفحہ 41پر)
ممکن نہیں۔ انگولا کی شہید مساجد سے مصری قید خانوں تک ظلمتِ شب طاری ہے۔ یہ رات ڈھاکا کی جیلوں سے کشمیر کی لالہ زار وادیوں پرگزر رہی ہے۔ یہ اندھیر امریکہ کی عدالتوں سے یورپی یونین کے ایوانوں تک چھایا ہوا ہے۔ انسان کو ایمان تک کا صبر آزما سفر طے کرنا ہوگا۔ اہلِ ایمان کو پابندیوں اور قید وبند کی اندھیر کوٹھریوں میں صعوبتوں کی طویل شب کاٹنی ہوگی۔ اسلام کے سوا انسان کے لیے خسارے سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں۔