در دلِ مسلم مقامِ مصطفی است
آبروئے ما زنام مصطفی است
(ایک مسلمان کا دل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام گاہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی ہی ہمارے لیے عزت و آبرو کا سرمایہ ہے۔)
خاتم الانبیاء، سرورِعالم، محسنِ انسانیت، سرکارِ دوجہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت تاریخِ انسانی کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔
ہر سال ماہ ربیع الاول اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا دن آتا ہے اور مصطفوی امت کو یاد دلانے کے لیے آتا ہے کہ وہ وارثِ نبی ہے۔ ملتِ اسلامیہ کو اقوام عالم میں جو منفرد حیثیت حاصل ہے، اس کی بنیاد ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت ہے۔ اللہ کے آخری نبیؐ کے وارث ہونے کی حیثیت سے اس کردار کو انجام دے جس کے لیے محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی تمام قوتوں کو بیک وقت چیلنج کیا اور تمام دنیاوی خداؤں کا انکار کرکے ایک اور واحد رب الناس، ملک الناس اور الہ الناس کی بندگی کی دعوت دی اور اعلان کیا کہ اللہ کے سوا کسی کو انسانوں کا حکمراں، آقا ، خدا بننے کا حق حاصل نہیں ہے۔ روئے ارضِ ظلم، فساد اور خوں ریزی سے اسی لیے بھر گئی ہے کہ انسانوں نے خدا کی بندگی کو چھوڑ کر اپنے ہی جیسے انسانوں کی غلامی کو اختیار کرلیا ہے۔ اعلانِ توحید کے انقلابی کلمے نے سب سے پہلے ان ہی لوگوں کو اپنا دشمن بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاہنے والے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ جبر و ظلم اور تعذیب و تشدد کے ہر حربے کو آزمایا جس کا تصور کرکے آج بھی انسان پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ کلمۂ توحید کی دعوت کو چھوڑ دینے کے لیے اُس وقت کے ظالمانہ اور استحصالی نظام کے اربابِ اقتدار نے جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاخونیں رشتہ بھی تھا، اقتدار کی پیش کش بھی کی، مال و دولت کا لالچ بھی دیا، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور اسوۂ حسنہ کا کلیدی پیغام یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کفر اور ظلم سے کسی بھی صورت میں مفاہمت کرنے سے انکار کردیا اور صاف اعلان کیا اور اپنے محبوب چچا کے واسطے سے کھلا پیغام دیا کہ اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی لاکر رکھ دیں اور یہ چاہیں کہ میں اس کام سے باز آجاؤں تو ایسا ممکن ہی نہیں۔ تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہیں آؤں گا، یا تو خدا اس کام کو پورا کرے گا یا میں خود اس پر نثار ہوجاؤں گا۔
جبر و تشدد کے ان تیرہ برسوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو حق سے موڑنے اور اسلام کی انقلابی دعوت سے باز آنے کے لیے ظلم و ستم کا ہرحربہ آزمایا گیا، جسمانی تشدد کیا گیا، معاشی و سماجی مقاطعہ کیا گیا، گھروں سے نکالا گیا، گالیوں اور طنز و طعنوں کے تیروں سے چھلنی کیا گیا، کوشش یہ کی گئی کہ کہیں بھی کوئی جائے پناہ میسر نہ آئے، اور کوئی جائے پناہ ملے بھی تو وہاں سے نکلنے پر مجبور کردیا جائے۔ ہجرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک چھوٹی سی حکومت قائم ہوئی تو اس کو مٹانے کے لیے تمام طاقتوں نے مل کر مسلسل فوجی اور عسکری چڑھائی کرڈالی، لیکن اللہ کا وعدہ پورا ہوا، اس نے اپنے نبی کی مدد کی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح نصیب ہوئی اور انسانی تاریخ کا وہ دور آیا جس سے بہتر دور آج تک نیلے آسمان نے نہیں دیکھا۔ یہ فتح ایمان باللہ، صبر و استقامت اور جہاد و شہادت کے نتیجے میں نصرتِ الٰہی کی صورت میں عطا ہوئی۔
آج جب کہ ہم ایک بار پھر ولادتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن منارہے ہیں، آج کے حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اکیسویں صدی میں امتِ مسلمہ کی آبادی ایک ارب سے زائد ہوچکی ہے۔ عالمِ اسلام 50 سے زائد آزاد مملکتوں