پاکستان کی سیاست کا اہم موڑ وہ تھا جب ون یونٹ کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا اور ون یونٹ کے نتیجے میں پاکستان کا بایاں بازو، سیکولر اور قوم پرست طبقہ ایک پارٹی تشکیل دینے میں کامیاب ہوگیا۔ دراصل یہ پنجاب کی بالادستی کے خلاف محاذ تھا جسے سیاسی شکل دے دی گئی اور اس کا نام نیشنل عوامی پارٹی رکھا گیا۔ اس میں سندھ، پنجاب، سرحد، بلوچستان اور مشرقی پاکستان کی تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں نے شمولیت اختیار کرلی اور اپنے اپنے وجود کو ختم کرکے ایک بڑے دائرے میں داخل ہوگئیں۔ یوں پاکستان کو دو ناموں میں تقسیم کردیا گیا یعنی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان۔ مشرقی پاکستان میں بنگالی قوم کی اکثریت تھی جبکہ مغربی پاکستان میں پشتون، بلوچ، سندھی اور پنجابی قومیں آباد تھیں۔ ان کا کلچر، تمدن اور زبانیں ایک دوسرے سے مختلف تھیں اور قومیتیں بھی جدا جدا تھیں۔ آج ہم غور کرتے ہیں تو ون یونٹ کے پس منظر میں خوف کا عنصر زیادہ طاقتور نظر آتا ہے۔ مغربی پاکستان آبادی کے اعتبار سے چار صوبوں کو ملا کر بھی مشرقی پاکستان کے برابر نہ تھا۔ اس امر نے پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ کو خوفزدہ کردیا، اور اسی خوف نے ون یونٹ بنانے میں سب سے بڑا کردار ادا کیا۔ ون یونٹ مشرقی پاکستان کی عددی برتری کو ایک منصوبے کے تحت ختم کردیا گیااور طے ہوگیا کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان ووٹ کے حوالے سے برابر ہوں گے۔ قومی اسمبلی میں ان کے نمائندے برابر تھے۔ اس پر چھوٹے صوبوں میں شدید ردعمل پیدا ہونا فطری عمل تھا، اور 1955ء کے بعد سے نیشنل عوامی پارٹی سیاست میں پنجاب کے ردعمل میں متحرک تھی اور ایوب خان کے آخری دورِ حکومت میں شدید ردعمل پیدا ہوا اور عوامی ابھار کے نتیجے میں جنرل یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ انہوں نے سیاسی پارٹیوں کے مطالبے پر ون یونٹ ختم کردیا اور ’ایک فرد ایک ووٹ‘ کا فارمولا انتخابات کے لیے طے ہوگیا، اور تاریخ میں پہلی بار بلوچستان کے نام سے علیحدہ صوبہ تشکیل دے دیا گیا۔ بلوچستان میں خان عبدالصمد خان اور نیپ کی بلوچ لیڈرشپ کے درمیان صوبے کی تشکیل کے حوالے سے شدید اختلافات پیدا ہوگئے۔ عبدالصمد خان کا مؤقف تھا کہ بلوچ ریاستوں کا دائرہ کار بلوچ حصوں تک محدود تھا اس لیے بلوچستان کے نام سے جو صوبہ تشکیل دیا جارہا ہے اس میں برٹش بلوچستان کو شامل نہ کیا جائے۔ برٹش بلوچستان کا نام تاج برطانیہ نے اختیار کیا تھا۔ اس حصے میں پشتون آباد تھے اور کچھ حصے بلوچوں کے شامل تھے۔ برطانوی ہند کو علم تھا کہ خان قلات اور بلوچ سرداروں کے درمیان ایک کشمکش موجود ہے، اس لیے اُس نے خان قلات کو زک پہنچانے کے لیے شاہی جرگہ تشکیل دیا، اس جرگہ میں بلوچ سردار اور نواب صاحبان شامل تھے اور پشتون خان، نواب اور سردار بھی اس کا حصہ تھے۔ خان کو انگریزوں کی سازش کا علم تھا۔ شاہی جرگہ اور خان دو مختلف قوتیں تھیں جو ایک دوسرے کے خلاف متحرک تھیں۔ خان نے جب جنرل یحییٰ سے ملاقات کی تو انہوں نے نیپ کے قائدین سے ہٹ کر علیحدہ ملاقات کی۔ اور بلوچوں کے خان اور نیپ کے سرداروں کا جن میں نواب بگٹی، سردار عطا اللہ مینگل، نواب خیر بخش خان مری اور غوث بخش بزنجو شامل تھے، مطالبہ صوبہ بلوچستان کے قیام اور ون یونٹ سے علیحدگی کا تھا۔
خان عبدالصمد خان کا مؤقف تھا کہ اس بلوچستان میں پشتونوں کو شامل نہ کیا جائے، ان کو صوبہ سرحد میں شامل کیا جائے یا علیحدہ حیثیت دی جائے اور اس صوبہ کو پشتونستان کا نام دیا جائے۔ نیپ کے مرکزی صدر ولی خان تھے، ان کی رائے بلوچ سرداروں کے حق میں تھی، وہ عبدالصمد خان کے مؤقف کے حامی نہ تھے۔ خان ولی خان نے خان عبدالصمد خان سے کہا کہ آپ بلوچوں کے ساتھ رہیں تو بہتر ہوگا۔ اور انہوں نے اس خطے کے پشتونوں کو اپنے ساتھ ملانے سے گریز کیا۔ عبدالصمد خان نے ولی خان اور نیپ کے جنرل سیکریٹری محمود علی قصوری کو خط لکھے جن میں اپنا مؤقف بیان کیا، لیکن نیپ کی مرکزی قیادت نے عبدالصمد خان کے مؤقف کو تسلیم نہیں کیا۔ سابق کمشنر ہاؤس اور موجودہ گورنر ہاؤس میں جنرل یحییٰ خان سے ملاقات کے بعد ولی خان اور عبدالصمد خان شہید کے راستے ریل کی پٹری کی طرح جدا ہوگئے۔
یوں عبدالصمد خان اور ولی خان دو مختلف سمتوں میں محوِ سفر ہوگئے۔ عبدالصمد خان نے پشتون خوا نیشنل عوامی پارٹی کے نام سے نئے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور 1970ء کے انتخابات میں بلوچستان کے پشتون علاقوں کی صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر انتخاب لڑا۔ خان صاحب کی پارٹی نے قومی اسمبلی کی تمام نشستوں پر شکست کھائی۔ خان عبدالصمد خان مولانا عبدالحق سے شکست کھا گئے۔ مولانا کا تعلق ژوب سے تھا۔ یوں دسمبر 1970ئکے انتخابات میں پشتون خوا اور نیپ مدمقابل تھے۔ صوبائی نشستوں پر بھی پشتون خوا کے امیدوار کھڑے کیے لیکن تمام نشستوں پر شکست کھائی۔ صرف ایک نشست قلعہ عبداللہ کی تھی جو عبدالصمد خان نے جیت لی اور اسمبلی میں اُن کا جھکاؤ پیپلز پارٹی کی طرف ہوگیا۔ نیپ کے مقابلے پر خان صاحب کو یہی راستہ نظر آیا۔ یوں اسمبلی میں پیپلز پارٹی کو نیپ کے مقابل ایک طاقتور شخصیت کا تعاون حاصل ہوگیا، اور نیپ نے جمعیت علماء اسلام سے مل کر مخلوط حکومت تشکیل دے دی۔ جمعیت علماء اسلام نے نیپ کے مقابل انتخابات میں اسلام اور سوشلزم کے نعرے کو استعمال کیا اور پشتون علاقوں میں نیپ کے خلاف زبردست مہم چلائی کہ یہ سوشلسٹ ہیں، ان کو ووٹ دینا حرام ہے، اور جس نے ووٹ دیا اس کی بیوی کو طلاق ہوجائے گی۔ یہ مہم دراصل پشتون خوا کے خلاف پشتون علاقوں میں، اور بلوچ علاقوں میں نیپ کے سرداروں کے خلاف تھی۔ ولی خان جلسوں میں مولانا مفتی محمود پر شدید تنقید کرتے تھے۔لیکن اس کے بعد صوبہ سرحد میں ولی خان نے مفتی محمود کو وزیراعلیٰ تسلیم کرلیا اور بلوچستان میں جمعیت نے نیپ کے سردار عطا اللہ مینگل کو وزیراعلیٰ تسلیم کرلیا۔ اقتدار نے روس نوازوں اور اسلام نوازوں کو ایک دستر خوان پر جمع کردیا۔ نہ نیپ کو اپنی مہم یاد رہی اور نہ جمعیت علماء اسلام کو سوشلزم کے خلاف کفر کے فتوے یاد رہے ۔ بلوچستان میں خان عبدالصمد خان شہید اور پیپلزپارٹی حکومت کے لیے حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرتے رہے اور بھٹو کی حکومت مسلسل صوبائی حکومت کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بُنتی رہی، اور بالآخر بھٹو نے نیپ اور جمعیت کی مخلوط حکومت کا دھڑن تختہ کردیا۔ اس کھیل میں امریکہ کو شاہ ایران کی خوشنودی مطلوب تھی، اس لیے کہ ایران کی سرحد کے قریب روس نواز حکومت کو وہ اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے، اور امریکہ کو بھی یہ پسند نہ تھا کہ ایران جو امریکہ نواز شہنشاہیت تھی، مضطرب رہے۔ افغانستان میں 1973ء میں ظاہر شاہ کا تختہ بھی الٹ دیاگیا تھا، افغانستان پر امریکی سی آئی اے کی نظر تھی۔ اسے اندرونی اختلافات کا اندازہ تھا، اس لیے بلوچستان سے روس نواز حکومت کا خاتمہ اس کی اولین ترجیح تھی، بھٹو بھی اس کام کے لیے استعمال ہوا اور اس کا نام نہاد سوشلسٹ کا چہرہ بھی بے نقاب ہوگیا اور ظاہر ہوگیا کہ وہ اندر سے امریکہ نواز تھا۔ جب نیپ کی حکومت ختم کردی گئی، نواب بگٹی گورنر بن گئے اور بلوچستان پر گورنر راج نافذ ہوگیا تو بھٹو کی خواہش تھی کہ نواب بگٹی اپنی کابینہ میں سیف اللہ پراچہ اور خان عبدالصمد خان کو شامل کرلیں، لیکن نواب بگٹی دونوں کے لیے نرم گوشہ نہیں رکھتے تھے، اس لیے انہوں نے بھٹو کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ کوئٹہ کے مقامی اخبارات میں یہ خبر شائع ہوگئی تھی کہ خان عبدالصمد خان اور سیف اللہ پراچہ صوبائی وزیر کی حیثیت سے گورنر ہاؤس میں حلف اٹھائیں گے۔ نواب بگٹی نے بھٹو کے اصرار کو رد کردیا اور حلف نہیں لیا، حالانکہ اس حوالے سے خان صاحب نے نواب بگٹی سے گورنر ہاؤس میں ملاقات کی۔ اس کی تفصیل نواب بگٹی نے مجھے بتائی۔
اس کو صرفِ نظر کرتے ہوئے خان عبدالصمد اور نیپ کی کشمکش کے بارے میں اپنے تجزیے کی طرف لوٹتے ہیں۔
اب نیپ کے بعد عبدالصمد خان اور بگٹی میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ دوسری طرف نواب بگٹی اور نیپ کی بلوچ لیڈرشپ کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوگئے، اس لیے کہ 1970ء کے انتخابات میں نواب بگٹی کا سرمایہ اور سیاست نیپ کے لیے استعمال ہوئی۔ نواب کو انتخابات کے بعد توقع تھی کہ گورنری کا عہدہ انہیں دیا جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بھٹو نے نیپ کے اندرونی اختلافات کو استعمال کیا، انہوں نے نواب بگٹی کو اپنا ہمنوا بنا لیا اور نیپ کے خلاف نواب بگٹی کی قوت کو استعمال کیا۔ یوں نواب بگٹی اور نیپ کی بلوچ لیڈرشپ کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہوگئی۔ نواب کی شہادت نے ہی اس خلیج کو پاٹا اور بلوچوں نے نواب کی دلیرانہ محاذ آرائی کو پسند کیا اور ان کے خون نے نیپ سے کشمکش کو نظرانداز کردیا، وہ ایک ہیرو کی طرح بلوچ قوم کی تاریخ کا حصہ بن گئے۔ ہم خان عبدالصمد خان اور نیپ کی کشمکش اور بعد میں بگٹی کے ساتھ کشمکش کا تجزیہ کررہے ہیں۔ نواب بگٹی کے حلف لینے سے انکار نے خان عبدالصمد خان اور نواب بگٹی کے درمیان اختلافات کی خلیج وسیع کردی، اور اس کشمکش کے دوران دسمبر کی ایک یخ بستہ رات کو خان سورہے تھے کہ روشن دان سے ایک بم اُن کی طرف پھینکا گیا اور عبدالصمد خان نیند سے ابدی نیند کی طرف چلے گئے۔ ایک حلقے کا خیال تھا کہ اس واردات میں نواب بگٹی کا ہاتھ ہے، لیکن نواب نے خان کے بیٹوں سے ملاقات کی اورکہاکہ اس میں میرا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ نواب بگٹی نے ہم سے ایک نشست میں کہا کہ قتل کی اس واردات میں بھٹو کا ہاتھ تھا اور ان دنوں سعید احمد خان کوئٹہ میں موجود تھے جو قتل کے بعد کوئٹہ سے چلے گئے۔ پاکستان میں اُس زمانے میں جتنے بھی سیاسی لیڈر قتل ہوئے ان تمام وارداتوں میں بھٹو کا ہاتھ شامل تھا۔ ڈاکٹر نذیر شہید، خواجہ رفیق، شمس الدین شہید (جمعیت علماء اسلام سے تعلق تھا اور بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر تھے) علی محمد مینگل (گوریلا لیڈر) کے قتل میں بھی بھٹو کا ہاتھ تھا، وہ خضدار کے علاقہ میں ایف ایس ایف سے مقابلہ کرتے ہوئے مارے گئے۔ گل خان نصیر کے بڑے بھائی لونگ جان کو مارنے میں بھی بھٹو کا ہاتھ تھا۔ اور بلوچستان میں نیپ کی حکومت ختم ہونے کے بعد فوجی آپریشن میں بلوچوں کا قتل عام ہوا، یہ بھی بھٹو دور کا المناک واقعہ ہے۔ اور پھر بھٹو صاحب بھی ایک فوجی جنرل کے ہاتھوں تختۂ دار پر پہنچادیے گئے۔ یہ سب پاکستان کی تاریخ کا ایک خونچکاں باب ہے جسے کبھی کبھی یاد کرلینا چاہیے۔
nn
بلوچستان