پچھلے دنوں کی بات ہے، میں رات میں مٹرگشت کرتا ہوا باغ جناح تک آپہنچا۔ عام دنوں سے ہٹ کر آج مجھے یہاں لوگوں کی آمد و رفت زیادہ ہی دکھائی دی، کل تک جہاں دھول مٹی اُڑا کرتی اور رات کا ماحول خوف پھیلاتا، آج وہاں سیکڑوں روشنیاں اور ان روشنیوں میں جگمگاتی ہوئی عوام کی بڑی تعداد میرے لیے حیران کن تھی۔ اس پُرکشش منظر کو دیکھنے کے لیے میں باغِ جناح کے مرکزی دروازے سے جوں ہی اندر داخل ہوا، مجھے اپنے سامنے ایک دُنیا آباد نظر آئی، یہ کوئی طلسم کدہ نہ تھا، نہ ہی کوئی داستانِ ہوش رُبا۔ یہ تو جیتے جاگتے اُجلے کرداروں سے آباد جگمگاتی ہوئی دنیا تھی۔ مجھے مرکزی دروازے سے دائیں طرف استقبالیہ کیمپ، درجنوں اسٹال، فوڈ کورٹس، بائیں جانب ایک بڑا سا پنڈال اور ساتھ ہی عارضی رہائش گاہیں، سیکڑوں باتھ رومز اور مختلف کام سنبھالتے ہوئے روشن اور اُجلے چہروں والے نوجوانوں کی ٹولیاں نظر آئیں۔ میں جوں جوں آگے بڑھتا جاتا، نئے نئے خوب صورت مناظر میرا دل لُبھا رہے تھے۔ باہر سڑک کے ساتھ ہی ٹھیلے والوں نے اپنا بازار لگایا ہوا تھا، جب کہ باغ جناح کے اندر پھیری والے چائے فروخت کرتے دکھائی دیے۔
میدان کے چاروں طرف لگی قناتوں کے درمیان پُرسکون تعمیراتی ماحول مجھے اپنی جانب کھینچ رہا تھا، میرے سامنے اپنے اپنے کام میں مصروف نوجوانوں کا بڑے نظم و ضبط کے ساتھ ذمّے داریاں نبھانا ایک متاثرکن عمل تھا، باغ جناح کے چاروں طرف لگائے گئے سیکڑوں پرچم دل فریب نظارہ پیش کر رہے تھے جب کہ کچھ نوجوان ہاتھوں میں پرچم اٹھائے دکھائی دیے۔ ٹینٹ اور قناتوں سے بنائے گئے چھوٹے چھوٹے کمروں کی ترتیب دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا تھا، جیسے عارضی مکانوں کا ایک جہاں آباد ہو۔ دور تک روشنیاں ہی روشنیاں تھیں، ہر طرف گہما گہمی تھی، ایک طرف روشنیوں سے جگمگاتی یہ عارضی بستی، جو ابھی تعمیر کے مراحل میں تھی تو دوسری طرف بابائے قوم کا مزار، ایسا لگتا جیسے یہ علاقہ کسی ماہر ڈیزائنر کی ان تھک محنت کا نتیجہ ہو۔ یہ دل کش نظارہ دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ میری زندگی میں اس طرح سکون کے ماحول میں اتنا بڑا انتظام ہوجانا حیرت سے کم نہ تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ نہ جانے کب سے یہاں پر ہوتا اتنا بڑا انتظام، اتنی تیاریاں، اس کے باوجود قریبی علاقوں میں کوئی بے ترتیبی نہ ہونا اور زندگی کا معمول کے مطابق جاری رہنا بڑی خبر نہیں تو اور کیا ہے؟
میرے ذہن میں ماضی کے ان جلسے جلسوں کا منظر اُبھر رہا تھا، جب سائلینسر نکال کر مختلف سیاسی پارٹیوں کے سرپھرے نوجوان موٹر بائیکس شہر بھر میں دوڑاتے پھرتے اور رات رات بھر لوگوں کی نیندیں حرام کرتے۔ میرے ذہن میں بار بار آتاکہ رہنما کی غیرموجودگی میں نظم و ضبط، سلیقے سے کام انجام دینا جماعت اسلامی کے ان کارکنان کی تربیت کا منہ بولتا ثبوت ہے، جس میں ملک بھر کی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے سیکھنے کے لیے ایک سبق پوشیدہ ہے۔ خاص طور پر مجھ جیسے انسان کے لیے تو یہ ایک سبق ہی تھا، جس نے ایسے انتظامات پہلے کبھی کسی سیاسی پارٹی کے ہونے والے پروگرام میں نہیں دیکھے تھے۔ مجھے جماعت اسلامی کے کارکنان کی تربیت کا وہ ماحول دیکھنے کو ملا، جس سے معاشرے میں ہزاروں، لاکھوں تعمیری ذہن پیدا کیے جاسکتے ہیں۔
یہاں میں اُن نوجوانوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جن کا جوش وولولہ آسمان کو چُھو رہا تھا، انقلابی نعرے لگاتے یہ نوجوان پنڈال کی رونقوں میں اضافہ کررہے تھے۔ وہاں موجود ایک شخص نے مجھے بتایا کہ میں روزانہ صرف اس لیے باغ جناح آتا ہوں کہ مجھے جماعت اسلامی کا نظم اور پروگرام پسند ہے، میں باقاعدہ اس جماعت کا کارکن نہیں، لیکن جماعت کی سیاسی اور دینی خدمات سے بہت متاثر ہوں، میرے نزدیک پاکستان میں یہی وہ جماعت ہے جو معاشرے سے بُرائی، کرپشن اور لاقانونیت کا خاتمہ کرسکتی ہے، ملکی سیاست ہو یا بین الاقوامی طرز کی سیاست، اگر کسی جماعت کی ان دونوں پر نظر ہے تو میرے خیال میں وہ جماعت اسلامی ہی ہے۔ ایک نوجوان نے مجھے بتایا کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک اسی جماعت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے ایک کارکن سے لے کر حکومتی وزیر، مرکزی امیر سے علاقائی تنظیم تک، کسی پر ایک دھیلے کا بھی الزام نہیں، اس جماعت کے ایک ایک فرد کے ہاتھ صاف ہیں۔
پنڈال میں یہ دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہو رہی تھی کہ یہاں ہر کوئی جذبہ حب الوطنی سے سرشار تھا، خاص طور پر جماعت کے کارکنان کا ولولہ اور جوش وخروش دیکھنے کے لائق تھا۔ ان کی روشن آنکھوں میں مجھے توانا پاکستان دکھائی دے رہا تھا۔ مزارقائد کے سائے تلے ان نوجوانوں کی وطن سے محبت حقیقت پر مبنی تھی۔ پنڈال میں گھومتے گھماتے خاصی دیر ہوچکی تھی، وقت بڑی تیزی سے گزر رہا تھا، میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں ضرور اس کنونشن میں شرکت کروں گا۔ میں خود کلامی کرتا ہوا گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔ اب مجھے 26 نومبر کا انتظار تھا، میں چاہتا تھا کہ سندھ ورکرز کنونشن میں شریک ہوکر ان رہنماؤں کے خطبات سُنوں، جن کے انتہائی تربیت یافتہ اور روشن ضمیر نوجوانوں نے مجھے بے حد متاثر کیا تھا۔
یہی سوچتا سوچتا گھر چلا گیا اور بڑی بے چینی سے26 نومبر کے دن کا انتظار کرنے لگا۔ پہلے تو وقت کاٹے نہ کٹتا تھا، اب لگتا تھا جیسے ایک جگہ ٹھیرگیا ہو۔ آخر خدا خدا کرکے 26 نومبر کا دن آیا تو میں وقتِ مقررہ پر باغ جناح پہنچ گیا۔ سارے انتظامات مکمل تھے، پنڈال میں تاحدِّ نظرکرسیاں لوگوں سے بھری نظر آرہی تھیں، اسٹیج کی تیاری مکمل تھی، ساتھ ہی میڈیا کے لیے کشادہ اسٹیج بنایا گیا تھا، موبائل اسپتال بھی موجود تھا، لوگوں کے ازدحام کو دیکھ کر محسوس ہورہا تھا کہ قافلوں کی آمد رات سے ہی شروع ہوچکی ہے اور یوں معلوم ہورہا تھا، جیسے دوردراز علاقوں سے آئے ہوئے، مختلف بولیاں بولنے والے افراد یہاں کے مستقل رہائشی ہوں۔ جلسہ گاہ میں اندرون سندھ سے آئے قافلوں نے ایک الگ ہی رنگ جمایا ہوا تھا۔ سندھی ٹوپی اجرک پہنے کارکنان اور اندرونِ سندھ سے آئے ہوئے ہزاروں افراد سندھی ثقافت کے رنگ بکھیرتے الگ ہی نظر آرہے تھے۔ غرض کہ ہر رنگ ونسل کے افراد جلسہ گاہ میں موجود تھے، باغ جناح مکمل طور پر ایک ’’منی پاکستان‘‘ کا منظر پیش کررہا تھا۔ جلسہ گاہ عوام سے کھچا کھچ بھر چکی تھی اور مرکزی دروازے سے آمد اب بھی جاری تھی۔ سیکورٹی کے انتظامات انتہائی تسلی بخش تھے اور تربیت یافتہ نوجوان کارکنان بڑی مہارت اور سلیقے کے ساتھ عوام کو چیک کرتے اور اطمینان کرلینے کے بعد جلسہ گاہ میں جانے کی اجازت دے رہے تھے۔ ان نوجوانوں کا رویّہ ہر آنے والے مہمان کے ساتھ انتہائی شفقت اور رہنمائی کا تھا۔ جلسہ گاہ کا اسٹیج سادہ بنایا گیا تھا، لیکن خوب صورت منظر پیش کررہا تھا۔ اس وقت تک مقررین اسٹیج پر لگی کرسیوں پر براجمان ہوچکے تھے۔ میں بھی جلسہ گاہ میں جا بیٹھا۔ اسٹیج کی نظامت کے فرائض ممتاز سہتو صاحب انجام دے رہے تھے۔ کنونشن کے ابتدائیہ سے خطاب کرتے ہوئے ناظم کنونشن امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے جماعت اسلامی کراچی کی طرف سے تمام شرکا کو خوش آمدید کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ محبت اور اخوّت ہی ہمارا پیغام ہے اور جماعت اسلامی پوری امت کے یک جان ہونے کے نظریے اور عقیدے پر یقین رکھتی ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی محبت کے شاعر تھے اور یہی ہمارا پیغام ہے۔ امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ سندھ ورکر کنونشن تمام زبانیں بولنے والوں کا خوب صورت گل دستہ ہے۔ جماعت اسلامی ہی وہ واحد جماعت ہے جو سندھ سے نفرتوں اور دوریوں کا خاتمہ کرسکتی ہے۔ انہوں نے خطاب کرتے ہوئے سندھ میں بڑھتی کرپشن، لاقانونیت اور امن و امان کی ابتر صورت حال کا ذکر کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سندھ ورکرز کنونشن نے عوام کو نیا حوصلہ اور عزم دیا ہے اور مزار قائد کے سائے تلے جمع ہوکر عوام نے حب الوطنی اور یک جہتی کا جو مظاہرہ کیا ہے، وہ قابل تعریف ہے۔ سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے اپنے خطاب میں موجودہ صدی کو اسلامی تحریکوں کی پیش رفت کی صدی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی تحریکوں نے مغرب کا انتہا پسندی کا الزام غلط ثابت کردیا۔ سید منور حسن نے مزید کہا کہ یہ اسلام کی فطرت ہے کہ اسلام غالب ہونے کے لیے آیا ہے اور یہ بات مغرب اور اسلام دشمن اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں دنیا بھر میں جاری اسلامی تحریکوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ سندھ ورکرزکنونشن میں سیّد صلاح الدین، مولانا ظفر آزاد، عبدالغفار عزیز، نائب امیر جماعت اسلامی سندھ محمد حسین محنتی، پروفیسر نظام الدین میمن، مولانا عطااللہ رؤف اور سندھ بھر سے آئی ہوئی شخصیات کے علاوہ مختلف مسلم ممالک کی اسلامی تحریکوں کے قائدین نے بھی خطاب کیا، ان میں فلسطین کے خالد مشعل اور ترکی کے برہان قایہ نمایاں تھے۔ سندھ ورکرز کنونشن میں شریک عوام نے بڑی توجہ سے اپنے قائدین اور برادر ممالک کے رہنماؤں کو سُنا۔ میری بھی تمام تر توجہ ان مقررین کی جانب تھی جو بڑی علمی گفتگو فرما رہے تھے۔
اُس وقت جلسہ گاہ میں بڑے جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے، جب اسٹیج سے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ شرکاءِ کنونشن نے کھڑے ہوکر نعروں کی گونج میں اپنے قائد کو خوش آمدید کہا۔ نوجوانوں نے کافی دیر تک انقلابی نعرے لگا کر امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا۔ عوام کی خوشی قابل دید تھی۔ سینٹیر سراج الحق نے اسٹیج پر آکر عوام کے نعروں کا ہاتھ ہلاکر جواب دیا۔ انہوں نے عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے ہندوستانی وزیراعظم کو یوں للکارا: ’’مودی، سن لو اگر تم نے پاکستان کا پانی بند کیا تو ہم تمہاری سانسیں بند کردیں گے۔۔۔‘‘ امیر جماعت اسلامی نے جوں ہی انڈین وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے یہ پیغام دیا، پنڈال وطنِ عزیز کی محبت والے نعروں سے گونج اٹھا۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اپنے خطاب میں ایسا نظام اور معاشرہ قائم کرنے کی اہمیت پر زور دیا، جہاں ایک انسان دوسرے کا محتاج نہ ہو، جہاں غربت اور جہالت نہ ہو، جہاں ایک ہی خاندان، ایک ہی پارٹی دوسروں کا استحصال نہ کرے، جہاں بدعنوانی اور لاقانونیت عام نہ ہو۔ شہریوں کو روزگار ملے، انصاف ملے، جہاں امن و سکون ہو۔ انہوں نے کہا کہ سندھ پاکستان کا وہ صوبہ ہے جو باب الاسلام ہے، جہاں کے چپے چپے پر محمد بن قاسم کے نشانات ثبت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مودی کے ہاتھ میں وہ لکیر ہی نہیں کہ وہ پاکستان کا پانی بند کرسکے۔ مودی کو للکارتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تم پانی بند کرنے کی باتیں کرتے ہو، سُن لو وہ زمانہ گزرگیا، اب حالات تبدیل ہوگئے ہیں، میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری قوم کی ماؤں کی گود میں ایک نہیں کروڑوں محمود غزنوی اور احمد شاہ ابدالی جیسے بچّے موجود ہیں۔ ان شاء اللہ پاکستانیوں کی ٹکر سے تمہارا تکبّر اور غرور کا سومنات پاش پاش ہوجائے گا۔ سینیٹر سراج الحق نے اپنے خطاب کے دوران جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ اور نئے آرمی چیف کو ایک طریقے اور ضابطے کے تحت مقرر کیے جانے کے فیصلے کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس سلیقے اور طریقے کے ساتھ تبدیلی کو خوش آئند سمجھتے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی کے خطاب کو شرکا نے بڑی توجہ کے ساتھ سنا۔
خطاب کے اختتام پر کچھ دیر کے لیے وقفہ دیا گیا تاکہ شرکا کچھ کھا پی کر تازہ دم ہوجائیں۔ میں بھی جلسہ گاہ سے باہر فوڈ کورٹس کی جانب چل پڑا۔ سوچا کہ پیٹ پُوجا کے ساتھ ساتھ ذرا باہر اسٹالوں کا نظارہ بھی کرلوں۔ وہاں پہنچتے ہی مجھے ایک باقاعدہ بازار دیکھنے کو ملا۔ ایک اسٹال پر چکن کارن سوپ اور چائے دیکھ کر میں نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔ اسٹال پر کھڑے دو نوجوانوں نے مجھے بڑی محبت کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ میں اُن کے اسٹال کے قریب ہی جا بیٹھا۔ ان میں سے ایک نوجوان فیصل نے مجھے بتایا کہ چکن کورن سوپ اور چائے کا اسٹال لگانے کا مقصد کنونشن میں آنے والوں کی خدمت کے سوا کچھ نہیں، کنونشن میں آنے والے قافلوں کے لیے چکن کورن سوپ اور چائے ارزاں قیمت پر فروخت کی جارہی ہے۔ فیصل نے مزید بتایا کہ یہ سب صاف ستھری اشیا ہم نے گھر میں خود تیار کی ہیں۔ میں نے اسی اسٹال سے چکن کورن سُوپ کا ایک پیالہ صرف اس غرض سے لے لیا تاکہ کنونشن میں فروخت ہوتی کھانے پینے کی چیزوں کا معیار چیک کرسکوں۔ انتہائی لذیذ گرما گرم چکن کورن کھاتے ہی میرے اندر توانائی سی بھرگئی۔ خوش ذائقہ چکن کورن سُوپ فیصل کی محنت اور محبت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ اسٹالز پر صفائی کے بڑے اعلیٰ انتظامات تھے۔ فیصل کا یہ جملہ مجھے اب بھی یاد ہے ’’اگر پیسے نہیں تو کوئی بات نہیں، بس کھائیں، یہ مہمانوں کی مہمان نوازی ہے‘‘۔ فیصل کو اندرون سندھ سے آئے قافلوں کے شرکا سے بڑے پیار سے باتیں کرتا دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہورہی تھی۔ یہی صورت حال قریباً ہر اسٹال پر تھی۔ رات گہری ہوتی جا رہی تھی، لیکن باغ جناح میں دن کا سماں تھا۔ روشنیوں اور عوام کی گہما گہمی کی وجہ سے یہاں رات بیتنے کا احساس تک نہیں ہورہا تھا۔ اندرونِ سندھ سے آئے ہوئے عوام آرام کی غرض سے اپنی عارضی آرام گاہوں میں موجود تھے۔ ساری رات ایک میلے کا سماں مجھے دیکھنے کو ملا۔
صبح نمازِ فجر کے بعد سندھ ورکرز کنونشن اپنے شیڈول کے مطابق پھر شروع ہوا۔ یہ بروز اتوار27 نومبر تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سندھ ورکرز کنونشن بھی آگے بڑھتا جارہا تھا۔ رات کی نیند اور تھکاوٹ کے باوجود شرکا کے حوصلے بلند تھے۔ تمام پروگرام اپنے اپنے وقت کے مطابق ہورہے تھے۔ سندھ ورکرز کنونشن بڑی آب و تاب کے ساتھ اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا تھا۔ آج یہاں لوگوں کی تعداد میں مزید اضافہ دکھائی دیا۔ سارا دن مقررین کے خطابات کا سلسلہ جاری رہا۔ اب وہ گھڑی آن پہنچی تھی جب کراچی میں اس تاریخی سندھ ورکرز کنونشن سے امیر جماعت اسلامی پاکستان اختتامی خطاب فرماتے۔ اب وہ لمحہ آن پہنچا تھا جب ایک مرتبہ پھر امیر جماعت اسلامی پاکستان کو سندھ ورکرز کنونشن سے خطاب کی دعوت دی گئی۔ اپنے امیر کی تقریر سننے کے لیے پنڈال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ نعرے لگاتے نوجوان اپنے قائد کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ تمام حاضرین نے کھڑے ہوکر امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کو ایک مرتبہ پھر اپنے جذبات سے آگاہ کیا۔ سینیٹر سراج الحق نے آج اپنے خطاب میں زیادہ تر عوامی مسائل پر بات کی، انہوں نے اپنی تقریر میں غریب عوام کے مسائل کو اجاگر کیا، خاص کر کراچی کے حالات اور کرپشن پر بات کی۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان نے عوام کو یقین دلایا کہ کراچی کا مقدمہ جماعت اسلامی ہر جگہ لڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جنگ قاتلوں، لٹیروں، وڈیروں، جاگیرداروں اور شوگر مافیا کے خلاف ہے، ہم کسی سے نفرت نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس اور دبئی پراپرٹی لیکس کی صورت میں حکمرانوں کی کرپشن کے انبار کھلی آنکھ سے نظر آرہے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں مذہب کی تبدیلی کے قانون کو امیر جماعت اسلامی نے شریعت کے منافی قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب تھر میں ہزاروں بچے مررہے تھے، اُس وقت لاڑکانہ میں ایک ارب روپے کا جشن منایا جارہا تھا، اور غریب عوام کو پوچھنے والا کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے شرکا سے اپیل کی کہ وہ اس گلے سڑے نظام کی تبدیلی کے لیے جماعت اسلامی کا ساتھ دیں تاکہ ملک میں صحیح اسلامی جمہوری نظام کا آغاز ہوسکے اور پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کا روپ دھار سکے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بستی جو ہم نے بسائی ہے یہ محبتوں کی بستی ہے جہاں ہر قسم اور ہر رنگ کے پھول موجود ہیں۔ انہوں نے سندھ ورکرز کنونشن کو ایک خوبصورت گلدستہ قرار دیا۔ اختتامی خطاب کے بعد لوگوں نے ایک دوسرے کو سندھ ورکرز کنونشن کے کامیاب انعقاد پر مبارک باد دی۔ کارکنان ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے۔ اس طرح اب یہ سیاسی میلہ اپنے اختتام کی جانب بڑھنے لگا۔ لوگ قطاروں میں بڑے نظم و ضبط کے ساتھ مرکزی دروازے کی جانب جانے لگے۔ اتنے بڑے کنونشن کا پُرامن انعقاد اور اختتام جماعت اسلامی کے کارکنان اور انتظامیہ کے لیے عوام کی طرف سے خوش آئند تھا۔ لوگ بڑے آرام کے ساتھ مرکزی دروازے سے باہر نکل رہے تھے۔ سارا دن اس طرح کے الوداعی مناظر دیکھنے کو ملے۔ سندھ ورکرز کنونشن گو کہ اختتام پذیر ہوچکا ہے مگر ’’انقلاب انقلاب۔۔۔ اسلامی انقلاب‘‘ نعرے کی گونج میرے کانوں میں اب بھی سنائی دے رہی ہے۔ باغ جناح کے در و دیوار سے ایک عرصہ تک یہاں ہونے والے خطابات کی آوازیں آتی رہیں گی۔
nn