ہمارے دوست مجید رحمانی جتنے اچھے معلم اور ناظم ہیں اُس سے بڑھ کر ایک مخلص اور ملنسار انسان ہیں۔ ان کی رگوں میں جو صالح خون دوڑ رہا ہے وہ ان کے بشرے پہ نمایاں ہے اور اس کی گرمی اور سچائی ان کی گفتگو سے عیاں۔ اُن کی بات نظر انداز کرنا ہمارے بس میں نہیں، ایک روز فرمایا کہ تاجیؔ صاحب آج پریس کلب کی ادبی کمیٹی نے ایک منفرد لہجے کا شاعر مدعو کیا ہے، آپ ضرور تشریف لائیں۔
ابراہیم جلیس ہال میں کتاب کی تقریبِ اجراء جاری تھی، اجمل سراج، زیب اذکار حسین اور خالد معین کے ساتھ ایک صاحب بیٹھے مسلسل ایک جانب نگاہ مرکوز کیے سوچوں میں گم تھے۔ پتا چلا کہ یہی آج کے صاحبِ کتاب عمران شمشاد ہیں۔
میری پیشانی دیکھنے والے
یہ لکیریں نہیں، وہ رستے ہیں
میں جہاں سے گزر کے آیا ہوں
عمرانؔ کہاں سے گزر کے آیا ہے اور کہاں جانے کا ارادہ رکھتا ہے، کو جاننے اور سمجھنے کے لیے اُس نے ہمیں اپنی کتاب ’’عمران کی شاعری‘‘ بڑی محبت سے عنایت کی، اور ایک جگہ وہ یوں گویا ہوا:
ذات اور کائنات میں دن رات
ڈھونڈیے روشنی کا دروازہ
ساعتِ وصل میں کھلا مجھ پر
گم شدہ زندگی کا دروازہ
روشنی اور گم شدہ زندگی کے دروازے کی تلاش میں نہ صرف عمرانؔ بلکہ ہم خود صدیوں سے سرگرداں ہیں اور اب اس سرگردی میں عمران کے ساتھ ہم بھی اُس کے ہم سفر ہوگئے ہیں:
یہ وحشتیں یہ اُداسی یہ بے کراں حیرت
یہ میرے من کا سفر ہے کہ میرے فن کا سفر
میں شہر شہر کی تہذیب ڈھونڈتا ہوں ابھی
ابھی تو کرنا ہے مجھ کو وطن وطن کا سفر
تغیرات کا مطلب ہے زندگی عمرانؔ
کبھی ہے صحرا نوردی کبھی چمن کا سفر
ابھی یہ سفر جاری ہے اور اس سفر میں سائرہ غلام نبی بھی یہ کہتے ہوئے شامل ہوتی ہیں ’’خدا کی طرح زندگی کے سجے سجائے اسٹیج پر تماش بینی کرنا اس کا بھی پسندیدہ مشغلہ ٹہرا ہے۔ آڑے، ترچھے، الٹے، سیدھے، ٹیڑھے، میڑھے، اونگے بونگے اپنی چال میں مست ناچتے، گاتے، رقص کرتے، شور مچاتے، روتے پیٹتے، واویلا کرتے، زندگی کا سوانگ بھرتے یہ کردار بہت لبھاتے ہیں جو تماشا گر کی ہلکی سی جنبش سے پلک جھپکنے میں جیتے اور مرجاتے ہیں۔‘‘
منظر منظر کھیل رہا ہوں
کھیل کے اندر کھیل رہا ہوں
اور اب ہم گھر، گلیوں، چوراہوں سے کھیلتے ہوئے سڑک پر آگئے ہیں۔ عمران سڑک کے کنارے لگے بوڑھے برگد کے درخت کے نیچے کھڑا ’’سڑک‘‘ کو دیکھ رہا ہے اور کہہ رہا ہے:
’’سڑک مسافت کی عجلتوں میں گھرے ہوئے سب مسافروں کو بہ غور فرصت سے دیکھتی ہے
کسی کے ماتھے پہ سرخ وحشت چمک رہی ہے
کسی کے چہرے سے زرد حیرت چھلک رہی ہے
کسی کی آنکھیں ہری بھری ہیں
کسی کی ہاتھی نما پراڈو
سڑک سے ایسے گزر رہی ہے
سوائے اس کے کہیں بھی جیسے کوئی نہیں ہو
کسی کے لب اور کسی کی آنکھیں سِلی ہوئی ہیں
کسی کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں
کسی کی پگڑی چمک رہی ہے
کسی کی رنگت کسی کی ٹوپی اُڑی ہوئی ہے
شریف نظریں اٹھا اٹھا کر
کمان جسموں پہ اپنی وحشت کے تیرکب سے چلا رہا ہے
نظیر نظریں چرا رہا ہے
پولیس کی گاڑی پکٹ لگا کر
سڑک پہ ترچھی کھڑی ہوئی ہے
اور ایک مزدور اپنا دامن اٹھائے بے بس کھڑا ہوا ہے
اور اک سپاہی کہ اس کے نیفے میں انگلیوں کو گھما رہا ہے
وہیں پہ شاہد سیاہ چشمہ لگائے خود کو چھپا رہا ہے
نیوز چینل کی چھوٹی گاڑی بڑی خبر کی تلاش میں ہے
ضیا اندھیرے میں جا رہا ہے
گلاب کچرا جلا رہا ہے
عظیم مکھی اڑا رہا ہے
سبق مساوات کا سکھانے
وزیر گاڑی میں جا رہا ہے
عجیب عجلت عجیب وحشت عجیب غفلت کا ماجرا ہے
کہوں میں کس سے یہ کیسی خلقت کا ماجرا ہے
کہ اپنی مستی میں مست ہو کر
یہ سب مسافر گزر رہے ہیں
نئے مسافر ابھر رہے ہیں
سڑک جہاں تھی وہیں کھڑی ہے
مگر حقیقت بہت بڑی ہے
سڑک پہ بلی مری پڑی ہے
’’اُردو کی شعری روایت کے تناظر میں عمران شمشاد کا اسلوبِ شعر پہلی نظر میں عامیانہ محسوس ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اس شاعری کو پڑھنے کی تہذیب وہ نہیں ہے جس سے ہم عام طور پر ہونے والی شاعری کو پڑھتے ہیں، بلکہ یہ شاعری ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم اسے کسی اور طرح سے پڑھیں اور اس کا تجزیہ بھی اور طرح سے کریں‘‘۔
ڈاکٹر ضیاء الحسن کی یہ درج بالا سطریں میری بھی آواز ہیں۔
تم نے یہ ماجرا سنا ہے کیا
جو بھی ہونا ہے ہو چکا ہے کیا
یہ جو تدبیر کر رہا ہوں میں
یہ بھی تقدیر میں لکھا ہے کیا
دل بدل جائے گھر بدل جائے
آدمی کا کوئی پتا ہے کیا
غور سے کون دیکھتا ہے یہاں
ان چراغوں میں جل رہا ہے کیا
کیوں وہ سر پر سوار ہے عمرانؔ
تیرے دل سے اتر گیا ہے کیا
جوں جوں ’’عمران کی شاعری‘‘ روح میں اترتی رہی وہ دل کا مکیں ہوتا گیا، اور سچی بات تو یہ ہے کہ
کتنا مجبور ہو گیا ہوں میں
کتنا محسوس ہو رہا ہے تُو
تقریب اجراء سے مجید رحمانی، سیمان نوید، علی زبیر، کامی شاہ، سائرہ غلام نبی، جہانگیر سید، زیب اذکار حسین، علا الدین خانزادہ، مہمان خصوصی خالد معین اور صدرِ محفل اجمل سراج نے خطاب کیا۔ خالد معین نے کہا کہ عمران کا روایت سے جڑا ہوا منفرد انداز ہے، دو مصرعوں میں ابہام ہوتا ہے مگر جب مصرعے جڑتے ہیں تو آپ اس سے سرسری نہیں گزر سکتے، یہ کڑی ریاضت سے گزرا ہے۔ وہ ایک ہی ذہن سے نظم اور غزل کہتا ہے جبکہ کچھ لوگ نظم جدید اور غزل قدیم رنگ میں کہتے ہیں۔ اجمل سراج نے صدارتی خطاب میں کہا کہ شاعری ایسی چیز نہیں کہ آٹھ دس آدمی اس پر بات کریں اور وہ بات ہوجائے۔ اگر بات ہوسکتی ہے تو وہ شاعری نہیں۔ شاعری لفظوں سے نہیں ہوتی۔ شاعر ہوگا تو شاعری ہوگی۔ عمران ایک حساس شخص ہے اور نئے جہان کی تلاش میں ہے، اس نے اپنی شاعری میں زمینی حقائق نظرانداز نہیں کیے، اس نے خود کو منوانے کے لیے دوسروں کی زمینیں چوری نہیں کیں بلکہ اپنی زمینیں خود ایجاد کی ہیں، ان کی کتاب گراں قدر اضافہ ہے۔ شارقؔ مرزا نے اپنے خوبصورت لحن میں عمران کی نظمیں سنائیں جبکہ نوجوان شاعر ہدایت سائرؔ نے خوبصورت نظامت کی۔ تقریب میں صاحبِِ کتاب کے دوستوں کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔ اختتام تقریب مجید رحمانی صاحب نے پوچھا :کیوں تاجیؔ صاحب آپ نے منفرد لہجہ محسوس کیا؟
پھول کو دھول کی ضرورت ہے
اس قدر دیکھ بھال ٹھیک نہیں
nn