3159حافظ کی بات سن کر حافظ جان نے کہا: ’’رشید صاحب سے بات کراؤ‘‘۔
ایک محافظ نے رشید صاحب سے رابطہ کیا اور کچھ دیر کی گفتگو کے بعد حافظ جان سے کہا:
’’ٹھیک ہے، آپ جاسکتے ہیں‘‘۔
حافظ جان دو قدم آگے بڑھے، مگر رُک گئے اور بولے: ’’سعید، میرا کوٹ تو لے آؤ، لگتا ہے باہر بہت سردی ہے‘‘۔
سعید کوٹ لینے چلا گیا۔
n۔۔۔n۔۔۔n
قمرو، رشید کی ہدایت پر کمرے کا پہرہ دے رہا تھا۔ اس کمرے کے دروازے کے ساتھ ہی بالکونی پر رشید کا کوٹ لٹک رہا تھا اور قمرو اس کے اردگرد موجود تھا، اس کے ذہن میں ایک نئی شرارت آرہی تھی۔ دراصل قمرو قاصد کی حیثیت سے کام کرتا تھا، مگر کوئی بھی اس کی خدمات سے فائدہ نہیں اُٹھاتا تھا، زیادہ تر اسے ڈانٹ ڈپٹ ہی کا سامنا رہتا۔ وہ زیادہ تر بے کار ہی گھومتا رہتا، چناں چہ وہ اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے شرارتیں کرتا رہتا تھا، مثلاً چیزوں کو ایسی جگہ رکھتا، جہاں سے وہ مل جائیں اور کسی دوسرے کے ہاتھ نہ لگیں۔
اب رشید کا کوٹ دیکھ کر اس کے ذہن میں نیا خیال آیا۔ اس نے چابیوں کا گچھا نکالا اور اُسے کوٹ کی ایک جیب میں ڈال دیا۔ اس طرح قمرو یہ سوچ کر مطمئن ہوگیا کہ اس نے شرارت سے چابیوں کا گچھا چھپایا تو سہی، لیکن چیز اس کے اصل مالک یعنی رشید کے پاس ہی واپس پہنچ جائے گی۔
جیسے ہی قمرو کسی کام سے اِدھر اُدھر ہوا، پیچھے ہی سعید کوٹ لینے آگیا۔ اس نے رشید کا کوٹ دیکھا تو سوچا:
’’اب اتنی اوپر کوٹ لینے کون جائے، یہی کوٹ لیے چلتا ہوں۔ حافظ صاحب کا کوٹ بھی تو ایسا ہی ہے‘‘۔
سعید نے رشید کا کوٹ لیا اور حافظ جان کی طرف چل پڑا۔
n۔۔۔n۔۔۔n
حافظ جان کی گاڑی سڑک پر فراٹے بھررہی تھی، سعید آگے بیٹھا ہوا ایک نقشے کی مدد سے راستوں کی نشان دہی کررہا تھا، فرید پیچھے بیٹھا ہوا تھا اور حافظ جان اسٹیئرنگ سنبھالے ہوئے تھے۔
جوں ہی گاڑی ایک موڑ پر پہنچی، آگے سے ایک گاڑی موڑ کاٹ کر ان کے پیچھے آئی، کچھ دیر پیچھے چلی پھر آگے بڑھ گئی، لیکن اس کی رفتار حافظ جان کی گاڑی سے بس کچھ ہی زیادہ ہوگی۔
’’ہائیں! اس سنسان علاقے میں اس گاڑی کا کیا کام؟‘‘ فرید کا لہجہ خاصا حیرت انگیز تھا۔
حافظ جان نے کچھ دیر کی ڈرائیو کے بعد اندازہ لگایا کہ آگے والی گاڑی اسی راستے پر دوڑ رہی ہے، جس پر وہ گاڑی دوڑا رہے ہیں۔
فرید نے کہا:
’’لگتا ہے، یہ گاڑی ہمارا پیچھا کررہی ہے‘‘۔
’’بے وقوف شخص، یہ گاڑی ہمارے آگے ہے۔ یہ ہمارا پیچھا نہیں کررہی‘‘۔ حافظ جان نے ہونٹ بھینچتے ہوئے کہا۔
اچانک ہی انہوں نے بریک لگائے اور ان تینوں کو جھٹکا لگا۔ اگر حافظ جان بروقت بریک نہ لگاتے تو ان کی گاڑی آگے والی گاڑی سے جا ٹکراتی، جو اب رُک گئی تھی۔
حافظ جان نے دیکھا کہ آگے والی گاڑی میں سے تین آدمی اُترے اور حافظ جان کی گاڑی کی طرف آئے۔
ایک آدمی حافظ جان کی طرف آیا اور پستول دکھاکر گرج دار لہجے میں بولا:
’’باہر نکلو تینوں‘‘۔
’’کتنے کا خریدا یہ کھلونا؟‘‘ حافظ جان نے پستول کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
’’مذاق کا وقت نہیں، باہر نکلو‘‘۔
’’سردی بہت ہورہی ہے۔ کوئی چائے وائے پلانی ہے کیا؟‘‘ حافظ جان ابھی تک مذاق کے موڈ میں تھے۔
’’میں کہتا ہوں باہر نکلو فوراً‘‘۔
’’ابھی نکلتے ہیں‘‘۔ حافظ جان نے حکم کی تعمیل کی۔
انہوں نے ایک جھٹکے سے دروازہ کھولا اور مخالف کے منہ پر ایک زور دار مکّا رسید کیا۔
ادھر فرید اور سعید نے بھی گاڑی سے اُترتے ہی حملہ آوروں پر دھاوا بول دیا۔ وہ تینوں تھے تو نہتے، مگر اپنے مسلح دشمنوں پر بڑھ چڑھ کر حملے کررہے تھے۔
(باقی آئندہ)