(ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کا دورہ پاکستان (ڈاکٹر محمد اقبال خلیل

324

ترکی دنیا کا غالباً واحد اسلامی ملک ہے جہاں پاکستان کے لیے محبت و الفت کے جذبات عوامی سطح پر پائے جاتے ہیں۔ ایک عام ترکی باشندے سے جب آپ کا تعارف بحیثیت پاکستانی ہوجائے تو اس کا رویہ آپ کے ساتھ یکدم بدل جاتا ہے اور وہ پیارو محبت کا اظہار کرنے لگتا ہے ۔ اس پر حیرت بھی ہوتی ہے اور خوشی بھی ۔میں جب بھی ترکی گیاہوں جگہ جگہ اس کیفیت کا خوشگوار تجربہ ہوا ہے ۔ چاہے کوئی ترک افسر ہو یا دوکاندار وہ ایک احسانمندی کے جذبے سے لبریز آپ سے ملے گا اور وہ آپ کو اس کی وجہ بھی بتائے گا۔ حج یا عمرے پر جانے والے پاکستانیوں کا بھی یہ تجربہ ہے کہ جہاں ان کا ترک باشندوں سے واسطہ پڑا انہوں نے اخلاص ومحبت کا اظہار کیا ۔ اس کی وجہ 20صدی کے اوائل میں خلافت عثمانیہ کے حق میں چلائی جانیوالی عظیم الشان تحریک خلافت ہے جس نے ایک عرصہ تک برصغیر ہندوپاک کے مسلمانوں کو اپنے سحر میں گرفتار رکھاتھا۔ جوہر برادران کی قیادت میں چلنے والی اس تحریک نے جہاں مسلمانان ہند کی سیاسی بیداری اور تربیت میں ایک اہم کردار ادا کیا وہاں ترکی کے مسلمانوں کے ساتھ ایک ایسا لازوال رشتہ قائم کر دیا جو ایک صدی گزرنے کے بعد بھی تروتازہ ہے ۔ ترکی کی ہر نسل نے اپنی اولاد کو یہ محبت منتقل کی ہے اور اسی لئے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے جب پاکستان کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اس تاریخی ورثے اور رشتے کا ذکر کیا تو کسی کے لیے بھی یہ کوئی انہونی بات نہ تھی ۔ ترک وزیر اعظم رجب طیب اردگان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے تیسری مرتبہ پاکستان کی پارلیمنٹ سے خطاب حاصل کیا ۔ کسی بھی دوسرے ملک کے سربراہ کا یہ ریکارڈ ہے کہ وہ 3بار پاکستانی پارلیمنٹ سے مخاطب ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی پارٹی نے مسلسل 5بار ملکی انتخابات جیتے ہیں اور اس طرح وہ گزشتہ 16برس سے ترکی میں برسر اقتدار ہیں۔ ان کی قیادت میں ترکی نے بے پناہ ترقی کی ہے ۔ ان سے پہلے ترکی بھی پاکستان کی طرح غیر ملکی قرضوں تلے دبا ہوا تھا اور اقتصادی طور پر دیوالیہ ہو چکا تھا ۔ سیاسی محاذ پر بھی مسلسل فوجی مداخلت نے ترکی میں پارلیمانی جمہوری روایات کو پنپنے نہیں دیا تھا اور سیاسی قیادت سخت زبوں حالی سے دو چار تھی ۔ رجب طیب اردگان جو ملکی سیاست میں آنے سے پہلے استنبول کے شہر کے مےئر منتخب ہو کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منو ا چکے تھے انہوں نے ان دونوں محاذوں میں ڈٹ کر کام کیا اور ترک عوام کی بھر پور حمایت سے بے پناہ کامیابیاں سمیٹیں ۔ انہوں نے اقتصادی محاذ پر اپنی پالیسیوں اور دیانتدارانہ قیادت کے ذریعے ترکی کے تن مردہ میں جان ڈال دی اور نہ صرف اس کو غیر ملکی قرضوں سے نجات دلائی بلکہ اقوام عالم میں ایک بڑے اقتصادی پارٹنر کے طور پر متعارف کرادیا ۔ ملکی صنعتوں کو مراعات کے ذریعہ ترقی کے راستے پر ڈالا اور برآمدات میں کمی کرتے ہوئے درآمدات میں کئی گنا اضافہ کیا ۔ اسی طرح انہوں نے سیاسی معاملات میں فوج کے کردار کو بتدریج کم کرتے ہوئے ایک بہترین حکمت عملی اختیار کی اور فوج کے اعتماد اور تعاون کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے آئینی کردار کو محدود کر دیا اور ا س کے مقابلے میں سویلین کردار کو غالب کر کے ملک میں ایک مسلسل جمہوری نظام کو جاری و ساری کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ ایسا نہیں تھا کہ ا س پورے کام میں ان کو مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا ۔ 2مرتبہ ان کے خلاف فوجی بغاوتیں ہوئیں لیکن دونوں بار ناکام ہوئیں اور عوام الناس کی حمایت سے وہ جمہوری نظام کو بچانے میں کامیا ب رہے ۔ پاکستان کا دورہ ایسے موقع پر ہوا کہ چند ماہ قبل ہی وہ ایک بڑے فوجی انقلاب کا قلع قمع کرنے میں کامیاب رہے تھے ۔ اس بغاوت سرخیل فوجی جرنیل نہ تھے بلکہ مشہور عالم ترک دانشور اور اسلامی مفکر فتح گولین تھے جو ایک عرصے سے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کیے ہوئے پنسلوانیہ امریکہ میں رہائش پذیر ہے اور وہاں سے انھوں نے ترکی میں بالخصوص پوری دنیا میں بالعموم ایک بڑے تعلیمی نیٹ ورک کو قائم کیا ہوا ہے ۔
شروع میں فتح اللہ گولین رجب طیب اردگان کے حامی تھے اور ابتدائی انتخابات میں ان کے تحریک کے ارکان ان کے حق میں ووٹ ڈالتے رہے لیکن پھر ان کے منصوبے تبدیل ہو گئے اور بڑے پیمانے پر ترکی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے متحریک ہوگئے ۔ ان کی تنظیم نے خفیہ طور پر تمام حکومتی اداروں میں نفوذ کیا حتیٰ کے ترک فوج میں بھی افسران اور نوجوانوں کی ایک تعداد کو اپنا ہمنوا بنا لیا انہوں نے بیورکریسی ، عدلیہ ، تعلیم صحت سماجی بہبود، میڈیا عرض یہ کہ ہر اہم ادارے میں اپنے سیل قائم کر کے ایک منظم منصوبے کے تحت قبضے جمائے اور ریاست کے اندر ایک ریاست قائم کر ڈالی جس کی بھاگ دوڑ فتح اللہ گولین کے ہاتھ میں تھی ۔ گزشتہ سال ترکی کی سب سے مقبول جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ کی قیادت نے ان کے ارادوں کو پھانپ لیا تھا اور ایسے اقدامات کرنا شروع کر دیے تھے جس سے ان کی انتظامیہ پر گرفت پر کو کمزور کیا جا سکے جس کے نتیجے میں فتح اللہ گولین ناراض ہو گئے اور انہوں نے طیب اردگان کی حکومت کے خاتمے کے لیے ایک خوفناک منصوبہ تیار کر لیا ۔16جولائی 2016کی رات ترکی کی تاریخ کی ایک لحاظ سے سیاخ ترین رات تھی ۔ جس میں ترک افواج کے ایک حصہ نے جمہوری حکومت کی بساط اولٹنے کی کوشش کی اس سازش میں ترک افواج کے ایک جرنیل سمیت بیسیوں اعلیٰ افسران اور ہزاروں فوجی اہلکار اور فضائیہ کے افسران بھی شامل تھے ۔ چیف آف آرمی سٹاف کو یر غمال بنا لیا گیا اور فوجی دستے ترکی کی بڑے شہروں میں اہم مقامات پر نکل آئے انہوں نے ترک پارلیمنٹ کا گھیراؤ کر لیا اور سرکاری ٹی وی پر قبضہ کر کے فوجی انقلاب کی خبر چلادی لیکن اللہ کی قدرت سے اور ترکی عوام کی استقامت نے اس پورے منصوبے کو ناکام بنا دیا ۔ ترک صدر رجب طیب اردگان اس وقت بحیرہ روم کے ایک سیاحتی مقام میں موجود تھا ان کو چند منٹ پہلے بغاوت کی خبر مل گئی اور وہ جس ہوٹل میں رہائش پذیر تھے وہاں فوجی دستے کی آمد سے پہلے ہی نکل کر اےئر پورٹ پہنچ گئے ۔ اس دوران انہوں نے ایک خاتون صحافی جن کا تعلق سی این این نشریاتی ادارے سے تھا کے ذریعے ترک قوم کو ایک پیغام دیا اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے ۔ ترک عوام نے بلند حوصلگی ،جرآت اور اتحاد کا ایک فقید المثال مظاہر ہ پیش کیا جس سے سازش ناکام ہوگئی اور طیب اردگان کی جمہوری نمائندہ حکومت بچ گئی ۔ بری ،فضائی اور بحریہ کے ہزاروں افسروں اور نوجوانوں ن بغاوت میں حصہ لیا جس کیے پیچھے امریکہ میں مقیم فتح اللہ گولین نے ماسٹر مائنڈ کا کردار ادا کیا ۔ ترک فوج کے سربراہ نے فوجی بغاوت میں حصہ لینے سے انکار کر کے ایک اہم کردار ادا کیا لیکن سازش کی ناکامی میں کلیدی کردار ترک قوم کا رہا انہوں نے 240جانوں کی قربانی دے کر اور ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر یہ کامیابی حاصل کی اس لیے بجا طور پر طیب اردگان نے باغی عناصر اور ان کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جس کی باز گشت ان کے دورہ پاکستان کے دوران بھی سنائی دی پاکستان میں قائم پاکستان پاک ترک سکولوں کے نیٹ ورک کا تعلق کا بھی گولین سے ہے جو پوری دنیا میں قائم ہے ۔ اس میں کام کرنے والے ترک اساتذہ کے بارے میں ترک حکومت نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ ان کو واپس ترکی بھیجا جائے تاکہ ان کی اسکروٹنی کی جا سکے ۔ پاکستانی حکومت نے برادرانہ تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان اساتذہ کی پاکستان میں قیام کے لیے جاری کردہ ویزوں کو منسوخ کرتے ہوئے ان کو واپس جانے کے لیے حکم نامہ جاری کر دیا جس پر پاکستانی میڈیا میں سخت رد عمل سامنے آیا ۔ 16پاک ترک سکولوں میں زیر تعلیم 11ہزار طلبہ و طالبات اور ان کے خاندانوں نے بھی ناراضگی کا اظہار کیا ۔چونکہ ان سکولوں میں معیاری نظام تعلیم ان ترک اساتذہ کے دم سے تھی اس لیے ان کی اچانک رخصتی یقیناًان کی کارکردگی کو متاثر کرتی ۔ ترک صدر رجب طیب اردگان کے دورے میں یہ مسئلہ خاصا اجا گر کیا گیا جس نے ان کے دورے کی افادیت کو بھی متاثر کیا جہاں ان کا پرتپاک استقبال اور فوجی انقلا کی ناکامی پر ان کو مبارک باد ملنی چاہیے تھی وہاں ترک اساتذہ کی ہمدردی میں میڈیا کے حلقوں نے نے اس کو وہ اہمیت نہ دی جو ملنی چاہیے تھی ۔ انھوں نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب کے دوران فتح اللہ گولین کی تحریک کو پاکستان کے لیے بھی خطرناک قرار دیا ۔ اب ظاہر ہے کہ جو تحریک ترکی کے لیے ستم قاتل کے برابر ہوگی وہ پاکستان کے لیے بھی نقصان کا باعث بن سکتی ہے ۔ کیونکہ مذہبی آڑ میں وہ ایک غیر ملکی گماشتے کا کردار ادا کررہی ہے اور اپنے ہی ملک کو سازش کے ذریع فتح کرنے کے درپے ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردگان کا یہ دورہ کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل تھا۔خاص طور پر پاکستان کے ازلی دشمن بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کی بڑھک کے بعد کہ “ہم پاکستان کو تنہا کر دیں گے “ایک اہم غیر ملی سربراہ کا پاکستان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اعلان بہت اہم اور ضروری تھا دنیا میں پاکستان کے کئی دوست ممالک ہے جو مشکل اوقات میں پاکستان کے کام آتے رہے ہیں۔ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، ایران ، چین وغیرہ ۔ لیکن ترکی اس میں بہت اہم کردار ادا کرتا رہا ہے ۔ خاص طور پر موجودہ ترک قیادت نے آڑے وقتوں میں کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا ہے ۔ ابھی کچھ ہی عرصے پہلے جب بنگلہ دیش میں پاکستان کی حمایت کے جرم میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر اور سابقہ وزیر اور رکن پارلیمنٹ مولانا مطیع الرحمن نظامی اور ان کے چند ساتھیوں کو نام نہاد انٹرنیشنل کورٹس کی جانب سے پھانسی کی سزا دی گئی تو پاکستانی حکومت اپنی سفارتی مجبوریوں کی وجہ سے کماحقہ احتجاج نہ کر سکی ۔ لیکن ترک حکومت نے سفارتی سطح پر سخت ترین احتجاج کیا اور بنگلہ دیش سے اپنا سفیر بھی احتجاجاً کچھ عرصے کے لیے واپس بلا لیا ۔ یادر ہے کہ اس موقع پر عوامی مظاہرے بھی ہوئے جو ترک عوام کی پاکستانی عوام اور مفادات کے ساتھ محبت اور دلچسپی کی مظہر ہے ۔ ترک حکومت نے مسئلہ کشمیر پر بھی پاکستانی موقف کی بھر پور حمایت کی ہے اور بار ہا کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کی حمایت اور ہندوستانی افواج کی جبرو زیادتیوں پر صدائے احتجاج بلند کی ہے ۔ اس طرح پاکستان کے نیوکلےئر پروگرام کی حفاظت اور سلامتی کے خلاف ہونے والی عالمی مہم کی بھی نفی کی ہے اور ہر فورم میں پاکستان کا دفاع کیا ۔ ایسی حکومت کااگر ہم ساتھ نہ د ے تو یہ احسان فراموشی کہلائے گی ۔ بد قسمتی سے پاکستان میں موجود سیکولر اور لادینی طبقہ ملک کے اندر اور باہر اسلامی تحریکوں اور قیادتوں کی مخالف میں اتنا آگے چلا جاتا ہے کہ قومی مفادات کو بھی پس پشت ڈال دیتا ہے ۔ ترک صدر نے اپنے دورے کے دوران پاکستان کے ساتھ کئی دفاعی اور کاروباری منصوبوں پر تعاون کے لیے بھی دستخط کیے ہیں۔ ترک کاروباری ادارے اور حکومت اس وقت بھی پاکستان کے ساتھ اشتراک عمل کر رہی ہے ۔ اگر چہ اس میں سابقہ ادوار میں مشکلات پیش آتی رہی ہے ۔ اسلام آباد پشاور موٹروے کی تعمیر کے لیے ترک کمپنی کے ٹھیکے کو منسوخ کرایا گیا تھا۔ اسی طرح کراچی میں بجلی پیدا کرنے والے ترکی کے جہاز کے ساتھ بھی معاہدہ مہنگا ہونے کی وجہ سے منسوخ ہوا تھا ۔ اس کے باجود ترکی نے کئی اہم منصوبوں میں پاکستان کی مدد کی ہے ۔ لاہور میں میٹروبس کا منصوبہ ترک حکومت ہی کی عطیہ کردہ بسوں سے شروع ہوا تھا ۔ 2005میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں اور کشمیر میں آنے والے خوفناک زلزلے کے موقع پر اور اس کے بعد ترک حکومت اور فلاحی اداروں نے بڑے پیمانے پر پاکستانی عوام کی مدد کی تھی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔ اس طرح 2010اور 2011میں آنے والے سیلابوں کے موقع پر جو بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی کا سامنا کرنا پڑا تھا تو ترک اداروں نے بھر پور امداد اور تعاون کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس وقت بھی ترکی ایک درجن کے لگ بھگ فلاحی ادارے پاکستان میں عوامی فلاح و بہبود کے لیے منصوبوں میں تعاون کر رہے ہیں۔ ویسے تو ترکی کے فلاحی ادارے دنیا میں انسانی ہمدری کی بنیاد پر کام کرتے ہیں لیکن پاکستان میں ان کی دلچسپی سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔ اس کا انداز ہ مجھے ترکی کے دوبار دوروں کے دوران بھی ہوا اور عید الضحیٰ کے موقع پر ہر سال ترکی جانب سے پاکستانی عوام کوکروڑوں روپوں کی قربانی کے جانور عطیہ کرنے سے بھی ہوتا ہے ۔ جو وہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں مختلف اداروں پشمول الخدمت فاؤنڈیشن کے ذریعہ کرتے ہیں۔ رجب طیب اردگان کو اسلام آباد کے علاوہ لاہور شہر میں ایک عوامی استقبالیہ اور عشائیہ بھی دیا گیا لیکن پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ جو حق مہمان نوازی ہے وہ شائد پوری طرح ادا نہ ہو۔

حصہ