کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے تعاون سے بزم یارانِ سخن کراچی کے زیر اہتمام مورخہ 24 نومبر 2016ء کو پانچ بجے شام ابراہیم جلیس ہال کراچی پریس کلب میں راغب مراد آبادی کی یاد میں مذاکرہ اور مشاعرہ ہوا‘ پروگرام کے مطابق فراست رضوی نے صدارت کی۔ ڈاکٹر شاداب احسانی‘ رونق حیات اور اکرم کنجاہی مہمانان خصوصی تھے۔ سلمان صدیقی نے نظامت کی۔ فراست رضوی نے بوجوہ سب سے پہلے راغب مراد آبادی کے فن و شخصیت پرگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ راغب مراد آبادی سے ان کا تعلق 1973 میں قائم ہوا جب راغب صاحب لیبر ڈیپارٹمنٹ میں لیبر آفیسر تھے۔ برصغیر ہندو پاک میں مولانا ظفر علی خان کے بعد راغب صاحب سب سے تیز شعر کہنے والے شاعر تھے ان کو ’’شاعری کی مشین‘‘ کہا جاتا تھا‘ ان کی منظوم نظامت کا آج تک کوئی ثانی نہیں ‘ ان کو زبان سے عشق تھا وہ غلط تلفظ برداشت نہیں کرتے تھے‘ وہ لفظوں کو زندہ انسان سمجھتے تھے لہٰذا حرف و معنی کا احترام کرتے تھے۔ وہ شاعری کی روایات کے علم بردار تھے‘ عروض کے ماہر تھے‘ اصنافِ سخن میں رباعی ایک مشکل صنف سمجھی جاتی ہے‘ اس کے 24 اوزان مروج ہیں لیکن راغب صاحب نے رباعیات کی بحروں میں اضافہ کیا اور 26اوزان تحریر کیے‘ وہ موضوعاتی رباعیوں کے سرخیل تھے۔ راغب صاحب کے علاوہ کسی شاعر کے یہاں اس قدر موضوعاتی رباعیات دستیاب نہیں۔ انہوں نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی شاعری کی ان کا ایک مجموعہ کلام پنجابی زبان میں ہے۔ انہوں نے منظوم سفر نامہ لکھنے کی روایت ڈالی۔ فراست رضوی نے مزید کہا کہ وہ انسانی رشتوں کا بہت احترام کرتے تھے۔ وہ تعلقات نبھانے کا فن جانتے تھے‘ وہ اپنے دکھ درد چھپا کر دوسروں کو خوشیاں بانٹتے تھے‘ وہ ایک غیر معمولی انسان تھے‘ ان کے انتقال سے اردو ادب ایک عظیم شخصیت سے محروم ہوگیا ہے۔ فراست رضوی اپنا مقالہ پڑھ کر چلے گئے اس طرح ڈاکٹر اکرام الحق شوق کو منصبِ صدارت تفویض کی گئی۔ ان کی صدارت میں بقایا پروگرام پائے تکمیل تک پہنچا۔
ادبی ریفرنس کے دوسرے مقرر رونق حیات تھے انہوں نے کہا کہ راغب مراد آبادی اپنی ذات میں انجمن تھے‘ ان کے شاگردوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے‘ وہ سادے کاغذ پر بھی اصلاح دیا کرتے تھے لیکن راغب صاحب کے انتقال کے بعد ان سے جڑے تمام متشاعر ادبی منظر نامے سے غائب ہوچکے ہیں‘ راغب صاحب علم عروض کے حوالے سے ایک بڑی شخصیت تھے ان کی شاعری میں زندگی کے مختلف رنگ نظر آتے ہیں۔ اصنافِ سخن میں کوئی ایسی صنف نہیں ہے جس پر راغب صاحب کو پوری دسترس نہ ہو۔ ان کے قطعات‘ نظمیں‘ رباعیات‘ اصلاحِ معاشرہ کے سبق آموز مضامین سے مالا مال ہیں۔ ان کی غزلوں میں غزل کے تمام مروجہ اسلوب نظر آتے ہیں‘ وہ نہایت زیرک اور خوش فکر سخن ور تھے‘ وہ نیک سیرت انسان تھے‘ انہوں نے کئی مرتبہ میری نوکری بچائی تھی ڈاکٹر معین الدین قریشی بھی اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں۔ رونق حیات نے اس موقع پر مزید کہا کہ قلم کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے جو محکمے بنائے گئے تھے‘ وہ ’’ستائش باہمی‘‘ کے اصولوں پر کاربند ہیں خاص طور پر اکادمی ادبیات پاکستان کے بارے میں رونق حیات نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا جس پر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے چیئرمین زیب اذکار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کے روّیوں اور ناقص کارکردگی پر ایک اجلاس بلایا جائے تاکہ ادیبوں اور شاعروں کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا جاسکے اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے۔ زیب اذکار نے وعدہ کیا کہ وہ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے زیر اہتمام قلم کاروں کا استحصال کرنے والے تمام اداروں پر بات کرنے کے لیے ایک اجلاس منعقد کریں گے۔ اکرام کنجاہی نے کہا کہ راغب صاحب میرے استاد تھے‘ ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے وہ علم و فن کا سمندر تھے‘ وہ تمام عمر متحرک رہے‘ ان کی شاعری عام وخاص میں مقبول ہے۔ وہ روزانہ 200 صفحات کا مطالعہ کرتے تھے۔ راغب مراد آبادی کا اصل نام اصغر حسین تھا۔ ’’راغب‘‘ ان کا تخلص تھا۔ وہ مارچ 1918 میں بھارت میں پیدا ہوئے ان کا آبائی وطن مراد آباد تھا اسی حوالے سے وہ مراد آبادی کہلائے۔ مولانا ظفر علی خان‘ مرزا یگانہ چنگیزی‘ سید علی اختر‘ مولوی صفی لکھنوی‘ مرزا خادم ہوشیار پوری راغب صاحب کے اساتذہ میں شامل ہیں۔ راغب صاحب کی تصنیف و تالیف کی تعداد 42 ہے جن میں ان کے شعری مجموعوں کی تعداد 27 ہے۔ صفتِ غیر منقوط میں بھی ان کی کہی ہوئی نعتیں موجود ہیں‘ ان کی تصنیف و تالیف میں ساغر صدر رنگ (1944ء غزلوں کا مجموعہ)‘ عزم و ایثار (1946ء قومی اور سیاسی موضوعات پر منظومات)‘ ہمارا کشمیر (1949ء منظومات)‘ نذر شہدائے کربلا (1955ء رعبایات و سلام)‘ ترتیب (1968ء تجدید آبادی پر نثری کتاب)‘ تحریک (1968ء مسئلہ آبادی پر منظومات)‘ محنت کی ریت (1974ء تالیف)‘ ضیائے سخن (1974ء تالیف)‘ سو نعتیہ اشعار (1978ء مدحتِ خیر البشر سے انتخاب)‘ مدحتِ خیرالبشر (1979ء مرزا غالب کی زمینوں میں نعتیں)‘ مدح رسولؐ (1983ء‘ غیر منقوط نعتیں اور رباعیات)‘ بہ حضور خاتم الانبیاء 1986ء تقریبا 00 قرآنی آیات پر سلام و نعتیں‘ مکالماتِ جوش و راغ (1988ء)‘ کپاس کی اوٹائی سے متعلق ہدایات کی کتاب کا اردو ترجمہ کیا جس کو ’’پی آئی ڈی سی‘‘ نے شائع کیا۔ Ovation to china (1988ء میں شائع شدہ کتاب‘ چین کے بارے میں منظوم تاٰثرات)‘ رگِ گفتار (1989ء غزلیات کا مجموعہ)‘ آزادی (1991ء رباعیات کا مجموعہ‘ ہر رباعی کی ردیف آزادی)‘ تاریں دی لو (1992ء پنجابی زبان میں غزلیں)‘ بدرالدجیٰ (1992ء نعتیہ مجموعہ) جادۂ رحمت (سفرِِ حجاز مقدس پر منظوم تاثرات)‘ آیات و احادیث رباعی افروز (چھ سو آیاتِ قرآں اور احادیث پر رباعیات کا مجموعہ)‘ محمدؐ (1993ء تالیف ہر ردیف محمد صلی اللہ علیہ وسلم)‘ خطوطِ جوش ملیح آبادی (1993ء)‘ نقوش امریکا (1994ء رباعیات)‘ نیکیوں کا خزانہ (نثر کی کتاب جس کو ’’ہمدرد‘‘ نے شائع کیا)‘ امن وامان‘ قومی یکجہتی اور دہشت گردی (2003ء میں شائع ہوئی)‘ اسماء الحسنیٰ (2003ء رباعیات)‘ موت (542 رباعیات‘ 2004ء)‘ 11 طویل غزلیں (2008ء)‘ سلام بہ حضور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم (نعتیہ اشعار)‘ ہنسنا منع ہے (2008ء طنز و مزاح پر مشتمل کلام)‘ نغمے پاکستان کے (2008ء قومی نغمات)‘ A New Trail of Rubaiyat (2008ء میں شائع ہوئی)‘ میزانِ خرد (2008ء) سخن مختصر ثلاثیاں (2008ء) سدا بہار پھول (قومی و ملی نظمیں)‘ نقوشِ رفتگاں (تاریخ وفات اکابرین‘ منظوم)‘ خطوط مشاہرین بہ نام راغب (مختلف اکابرین ادب کے خطوط)‘ نقوشِ رفتگاں (جلد دوم 2008ء) چہرے (2008ء رباعیات کا مجموعہ‘ ہر رباعی کی ردیف چہرے)‘ روشنیوں کا شہر (1995ء منظوم)‘ قہرِ زمین (2005ء میں زلزلہ پر منظوم۔ برصغیر ہندو پاک کے علاوہ دنیا میں جہاں جہاں اردو بستیاں قائم ہیں‘ وہاں وہاں راغب مراد آبادی کا نام انتہائی عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ انہوں نے مختلف ممالک کے دورے کیے جب کہ زبان و ادب کے سلسلے میں ہونے والی بے شمار کانفرنسوں میں شرکت کی۔ حکومتِ پاکستان نے راغب صاحب کو پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا تھا اس کے علاوہ انہیں بے شمار ایوارڈز اور کیش پرائز دیے گئے۔ راغب صاحب کا انتقال کراچی میں ہوا‘ ان کی تاریخ وفات 19 جنوری 2011ء ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ راغب مراد آبادی عظیم المرتبت قلم کار تھے‘ وہ منکسرالمزاج انسان تھے انہوں نے بے شمار لوگوں کو اشعار لکھ لکھ کر دیے‘ ان کے طفیل بہت سے لوگ شاعر بن گئے۔ راغب صاحب کے انتقال کے بعد بہت سے متشاعر غائب ہوگئے اور کچھ نے دوسرا ٹھکانہ ڈھونڈ لیا۔
کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے چیئرمین زیب اذکار نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ راغب صاحب کی پوری شاعری ہمارے سامنے ہے ان کے منظوم سفر نامے بھی اپنی مثال آپ ہیں‘ ان کی نظمیں‘ رباعیات‘ غزلیں اور نثری فن پارے اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں معاشرتی ظلم و ستم اجاگر کیے اگرچہ وہ مزاحمتی شاعر نہیں تھے لیکن انہوں نے بین السطور معاشرتی مسائل بیان کیے۔ وہ ہمہ جہت اور ہمہ صفات شاعر تھے۔ زیب اذکار نے مزید کہا کہ ہم اپنے محسنوں کو بھول جاتے ہیں‘ ہم اپنے ہیروز کو بھول جاتے ہیں۔ بزم یارانِ سخن کراچی نے حضرت راغب مراد آبادی کی یاد میں ادبی ریفرنس کا انعقاد کیا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے۔ راغب صاحب کے دوسرے شاگردوں کو بھی راغب صاحب کے لیے ادبی ریفرنس منعقد کرنے چاہئیں۔ زیب اذکار نے اس موقع پر راغب صاحب کے لیے ایک قطعہ بھی سنایا:
راغب کی رباعی کا بدل بھی ہے کہیں پر
جو لمحہ جہاں رکھا تھا‘ اب تک ہے وہیں پر
کب قافیہ پیمائی کا فن اس پہ کھلا تھا
الفاظ بھی لایا تھا فلک سے وہ زمیں پر
تقریب کے ناظم سلمان صدیقی نے راغب صاحب کے بارے میں کہا کہ وہ ایک قد آور شخصیت تھے‘ ان کی علمی و فنی قابلیت کا اعتراف کرنا ہماری ذمے داری ہے‘ علم عروض کے حوالے سے فی زمانہ ان سے بڑا کوئی استاد سامنے نہیں آیا۔ ان کی شاعری میں تہہ داری ہے‘ ان کا لہجہ سب سے الگ ہے۔ راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) کے نزدیک یہ بات بھی قابل تحریر ہے سلمان صدیقی بہت اچھے نظامت کار ہیں اس تقریب کا ٹیمپو کئی بار خراب ہوا لیکن سلمان صدیقی نے ہر مرتبہ اپنے خوب صورت جملوں سے ماحول کو خوش گوار بنایا اور نہایت عمدگی سے اجلاس چلایا۔
صدر مشاعرہ ڈاکٹر اکرام الحق شوق نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ راغب صاحب نہایت نیک نفس اور پاکیزہ انسان تھے وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے‘ وہ غمِ دوراں اور غمِ جاناں سے گزرے تھے جس کا اظہار انہوں نے اپنی شاعری میں بھی کیا ہے انہوں نے ہر صنف سخن میں اپنا نام کمایا لیکن ان کی وجۂ شہرت رباعی تھی ان کے یہاں سیاسی مسائل‘ معاشرتی ناہمواریوں کا تذکرہ اور غزل کے مختلف مضامین پائے جاتے ہیں‘ انہیں اردو‘ فارسی‘ عربی‘ انگریزی اور پنجابی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ وہ زمانے کے سرد و گرم سے گزرے تھے لیکن انہوں نے ہر مشکل کا پامردی سے مقابلہ کیا لیکن ان کے جوان بیٹے کی موت نے ان کی کمر توڑ دی تھی‘ اس کے بعد وہ بیمار رہنے لگے۔ حکومتِ وقت نے ان کے علاج کے سلسلے میں کچھ نوازشات کی تھیں جو کہ ان کا حق تھا۔ اکرام الحق شوق نے اس موقع پر مزید کہا کہ ہمارا معاشرہ اپنے اسلاف کو غیر محسوس طریقے پر نظر انداز کرتا ہے ’’یاد رفتگاں‘‘ کے عنوان سے ادبی پروگرام کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ مشاعرے تو ہماری تہذیب و تمدن کا حصہ ہیں‘ ان کے ذریعے زبان و ادب کی ترقی ہو رہی ہے۔تقریب میں صاحبِ صدر‘ مہمانان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے اپنا کلام سنایا ان میں اختر سعیدی‘ محمد علی گوہر‘ رشید خان رشید‘ احمد سعید فیض آبادی‘ حامد علی سید‘ سیف الرحمن سیفی‘ عبدالمجید محور‘ صفدر علی انشاء‘ راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)‘ پروین حیدر‘سحر تاب رومانی‘ ضیا شہزاد‘ محسن سلیم‘ سعد الدین سعد‘ عارف نظیر‘ عارف شیخ عارف‘ گل انور‘ آئرن فرحت‘ کشور عدیل جعفری خالق آرزو‘ ماہ نور خان زادہ‘ الحاج نجمی‘ یوسف اسماعیل‘ فاروق بٹ‘ نصیر سومرو‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ کامران محور‘ عاشق شوکی‘ ذوالفقار پرواز اور زیب النساء زیبی شامل تھے۔
۔۔۔*۔۔۔
26 نومبر ہفتے کے دن گلستان جوہر کراچی میں اوورسیز پاکستانیز بنگلوز کی ادبی و ثقافتی تنظیم کے زیر اہتمام دوسرا سالانہ مشاعرہ منعقد ہوا۔ ممتاز ماہر تعلیم و شاعر پروفیسر منظر ایوبی اس مشاعرے کے صدر تھے۔ پروفیسر عنایت علی خان مہمان خصوصی تھے‘ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی مہمان اعزازی اور رشید خاں رشید ناظم مشاعرہ تھے۔ مشاعرے میں صاحب صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ رفیع الدین راز‘ ظفر محمد خاں ظفر‘ فیروز ناطق خسرو‘ خالد معین‘ سلمان صدیقی‘ شمس الغنی‘ اختر سعیدی‘ محمد علی گوہر‘ حجاب عباسی‘ سیف الرحمن سیفی‘ راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)‘ وسیم ساغر‘ ریحانہ احسان‘ شاہد اقبال صفدر علی انشاء‘ عاشق شوکی‘ بشارت علی بشر‘ علی کوثر‘ ڈاکٹر دلشاد بیگ‘ وقار زیدی‘ سلیم جہاں گیر‘ سجی سرتاج اور سلیم الدین نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔
یہ ایک عوامی مشاعرہ تھا جس میں سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی اس موقع پر سید سلیم الدین نے (جو کہ پروگرام آرگنائزر تھے) خطبۂ اسقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مشاعرے ہماری ادبی و ثقافتی اقدار کا حصہ ہیں لیکن اب یہ ادارہ کمزور ہوتا جارہاہے جب تک آپ زبان کو ترقی نہیں دیں گے آپ ترقی نہیں کرسکیں گے غیر ملکی زبانوں کو سیکھنا اچھی بات ہے لیکن اپنی قومی زبان اردو سے صرفِ نظر کرنا غیر اخلاقی عمل ہے انہوں نے مزید کہا کہ اس مشاعرے کے انعقاد میں حافظ نسیم الدین‘ اختر سعیدی‘ جاوید عارف‘ ریحانہ بخاری‘ حشمت اللہ اور دیگر نے میری بھرپور معاونت کی۔ مشاعرے کے سامعین بہت ادب نواز ہیں۔ صاحب صدر پروفیسر منظر ایوبی نے اپنا کلام سنانے سے قبل صدارتی خطبے میں کہا کہ مشاعرے ہر دور کی ضرورت رہے ہیں۔ اس زمانے میں بھی مشاعرے ہو رہے ہیں لیکن باذوق سامعین نظر نہیں آتے۔ الیکٹرانک میڈیا نے لوگوں کو اس قدر مصروف کر دیا ہے کہ اب ہر کوئی مشاعرے میں نہیں آتا۔ مشاعروں کا سلسلہ شروع رہنا چاہیے تاکہ ہماری نوجوان نسل اردو ادب سے جڑی رہے۔ اگر ہم اپنا ادبی ورثہ اپنی نسل تک منتقل نہیں کریں گے تو زبان و ادب کی ترقی کا سفر رک جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو تنظیمیں ادبی پروگرام منعقد کر رہی ہیں وہ قابل ستائش کام کر رہی ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان اداروں کے ساتھ معاونت کریں۔ اس موقع پر ڈاکٹر سلیم اویسی نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔
۔۔۔*۔۔۔
ممتاز شاعر اور ماہر تعلیم پروفیسر منظر ایوبی نے کہا ہے کہ شمش الغنی بنیادی طور پر شاعر ہیں اور بہت اچھے شعر کہتے ہیں لیکن انہوں نے انگریزی میں ’’شارٹ سیلر‘‘ لکھ کر صاحبانِ قلم کو خوش گوار حیرت سے ہم کنار کر دیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ممتاز شاعر شمش الغنی کے انگریزی ناول کی تعارفی تقریب میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شمش الغنی کا ناول اپنے اندر بہت معنویت لیے ہوئے ہے اس ناول میں مضمون نگار نے سامراجی اور استحصالی نظام کے خلاف اعلانِ جہاد کیا ہے انہوں نے زندگی کے مسائل لکھے ہیں تاکہ سچائیاں عام ہوں۔ اس تقریب میں سہیل احمد غازی پوری مہمان خصوصی تھے جب کہ قمر وارثی اور رفیع الدین راز مہمانانِ اعزازی تھے۔ سلمان صدیقی نے نظامت کی۔ مقررین میں وضاحت نسیم‘ علی اوسط جعفری‘ شاعری علی شاعر‘ حامد علی سید‘ سلمان صدیقی اور صفدر علی انشاء شامل تھے۔ سہیل احمد غازی پوری نے کہا کہ اس ناول میں جبرواستبداد کی بیخ کنی کی گئی ہے رفیع الدین راز نے کہا کہ شمش الغنی محب وطن ہیں انہوں نے اپنے ناول میں بین الااقوامی سازشوں کو بے نقاب کیا ہے۔ قمر وارثی نے کہا کہ یہ ناول ایک اہم تاریخی دستاویز ہے اس کا اردو ترجمہ بھی ہونا چاہیے تاکہ صاحبِ کتاب کے خیالات عام ہوسکیں۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ شمش الغنی نے اپنی نثر کے ذریعے بھی ناقدانِ سخن کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے انہوں نے ترقی پذیر ممالک کے مسائل اجاگر کیے ہیں۔ علی اوسط جعفری نے کہا کہ عالمی منظر نامہ بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے بڑی بڑی عالمی طاقتیں غریب اور کمزور ممالک کو ہڑپ کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں ان ویٹو پاورز نے ترقی پذیر ممالک کا معاشی استحصال کیا ہے۔ شمش الغنی نے موجودہ عالمی حالات کو بہت خوب صورتی سے بیان کیا۔ وضاحت نسیم نے اپنے مضمون میں کہا کہ شمش الغنی ایک پڑھے لکھے شخص ہیں ہم انہیں بطور شاعر جانتے تھے لیکن اب انہوں نے نثر لکھ کر ہمیں حیران کر دیا ہے ان کی یہ کوشش قابل ستائش ہے۔ صاحبِ کتاب شمش الغنی نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔