(پاکستان لیکس (سید اقبال چشتی

236

(دوسرا حصہ )
آج جہاد کو فساد میں تبدیل کر نے والے نہ جا نے کس کے اشارے پر اپنی پالیسی پر نظر ثانی کر نے کے لیے تیار نہیں جس کا نتیجہ ہے کہ وہ تمام جنگجو‘ جو کل تک مجاہد اور آنکھ کا تارا تھے‘ آج دہشت گرد قرار دیے جارہے ہیں۔ ہم نے بیرونی آقاؤں کے اشارے پر اپنے ہی ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا دوسروں کی جنگ کو آج اپنی جنگ کہا جا رہا ہے یہ بیرونی جنگ اپنے ملک میں کیسے اور کیوں کر داخل ہوئی؟ کل تک ملک کی سرحدیں افغانستان کی طرف سے محفوظ سمجھی جا تی تھیں لیکن آج وہاں سے بھی حملے ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں بننے والی طالبان تحریک آخر کن وجوہ کی بنا پر پاکستان کی مخالف ہوگئی اور اس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی فضا اُمڈ آئی‘ کیا اس حوالے سے امریکا نے پاکستان کو بھی پھنسا دیا کہ ہم تو پھنسے ہوئے ہیں تم بھی پھنسو اور سارا ملبہ پاکستان پر ڈال کر راہِ فرار چاہتا ہے۔
بہرحال زمانہ اپنی چال چل گیا لیکن کل کے دوست اور حامی آج دشمن کیسے ہوگئے؟ جنرل مشرف کو آنے والی ایک کال کے بعد یا یہ بھی بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کا کھیل ہے؟ امریکا کی افغانستان سے وا پسی پر یہ لیکس بھی سامنے آئے گی کہ کس کی پالیسیوں نے ملک کو دہشت گردی کے حوالے کیا؟ ملک میں چوتھا مارشل لا مشرف نے لگایا اور منتخب وزیر اعظم کو بر طرف کر دیا گیا۔ نواز شریف کیوں باہر گئے؟ کیا ڈیل ہوئی‘ کن شخصیات اور ممالک نے اس ڈیل میں کردار ادا کیا؟ اس بارے میں لوگوں کو کچھ کچھ پتا ہے لیکن شوکت عزیز کون تھے؟ کہاں سے آئے؟ کیوں آئے اور پاکستان کے چار سال وزیر اعظم رہنے کے بعد کہاں چلے گئے۔۔۔؟ یہ کس کی ڈیل تھی شوکت عزیز کو کوئی جانتا بھی نہیں تھا پھر بھی الیکشن جیت جاتے ہیں۔ جناب شوکت عزیز جب تھر کے علاقے سے الیکشن لڑ رہے تھے تو کسی صحافی نے تھر جا کر عوام سے سوال کیا کہ ’’کیا آپ شوکت عزیز کو جا نتے ہیں؟‘‘ تو اکثریت کا جواب تھا کہ ’’ہم شوکت عزیز کو تو نہیں جانتے لیکن یہ کوئی ضرور بڑے ارباب صاحب ہیں۔‘‘ اس ارباب غلام رحیم کی مہربانی سے بڑے ارباب صاحب وزیراعظم کے عہدے تک پہنچ جا تے ہیں امپورٹڈ اشیا کی طرح امپورٹڈ وزیر اعظم بھی پاکستان کی تاریخ کا حصہ بن جا تے ہیں۔
پاکستان کا درد رکھنے والے شوکت عزیز اب پاکستان میں نہیں رہتے اور نہ ہی پاکستانیوں کی محبت کے لیے ان کے دل میں کوئی درد نہیں اُٹھتا ہے۔ عجب تما شا ہے کہ تیس سال سے پاکستان میں رہنے والی افغانی خاتون شربت گلہ کو پاکستا نی شناختی کارڈ بنوانے پر گر فتار کر لیا جاتا ہے‘ لیکن جس شخص کے پاس پاکستانی پاسپورٹ، شناختی کارڈ اور نہ ہی ووٹر لسٹ میں نام ہوتا ہے‘ وہ پاکستان کا وزیر اعظم بن جا تا ہے۔ یہ پاکستان کی ہسٹری میں ایک ایسی مسٹری ہے جو شاید ہی کبھی سامنے آئے۔ لیکن جب جنرل مشرف کے جرائم پر سے پردہ اُٹھے گا تو سب لیکس اور راز باہر آئیں گے۔
جنرل مشرف کے جرائم کی فہرست بہت لمبی ہے سوائے ایک کارنامے کے کہ انہوں نے امریکا کو افغانستان کی دلدل میں لا کر پھنسا دیا اور امریکا اس دلدل سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے کیونکہ امریکا کو جلدی ہے لیکن طا لبان کو کوئی جلدی نہیں‘ اس بارے میں طالبان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ٹائم ہی ٹا ئم ہے۔
کہتے ہیں وقت ایک سا نہیں رہتا ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگانے والے بہ قول فضل الرحمن ’’سب سے پہلے اپنی جان بچا کر پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کے سارے خواب اپنے دل میں لیے ملک سے باہر چلے گئے۔‘‘ جنرل مشرف کے دور میں بننے والا مذہبی جماعتوں کا اتحاد ’’ایم ایم اے‘‘ (متحدہ مجلس عمل) ختم ہوگیا اور مولانا فضل الرحمن ایم ایم اے کی بحا لی کی خواہش دل میں رکھے اکیلے ہی الیکشن میں چلے گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایم ایم اے کا اتحاد کیوں بنا؟ اور شاندار کا میا بی حاصل کر نے کے بعد ختم کیو ں ہو گیا۔۔۔؟ اس اتحاد کے بننے اور ختم ہونے کی کہانی عوام کو کبھی سننے کو ملے گی۔ مشرف کے دور میں کئی کہانیوں نے جنم لیا جن میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی معطلی اور بحالی کی کہانی بھی ایک معمہ ہے۔ وکلا اور سیا سی تحریک کے ذریعے بحال ہو نے والے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے بحال ہونے کے بعد 12 مئی 2007 میں اُن تمام سیاسی کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ کا کوئی فیصلہ نہیں کیا‘ لیکن اب 12 مئی کے سانحہ پر گرفتاریاں بھی ہو رہی ہیں اور شور بھی خوب سنائی دے رہا ہے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کی معطلی اور بحالی یقیناًایک کامیاب تحریک تھی لیکن معصوم لوگوں کو قتل کر نے والے اب تک آزاد ہیں‘ یہ افتخار چوہدری پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ بات بات پر ’’ازخود نوٹس‘‘ لینے والے چیف جسٹس نے 60 سے زائد افراد کے قتل کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟ اسی طرح بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری کے 300 ملازمین اور طاہر پلازہ میں وکلا جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیے گئے‘ اس پر کوئی قانون حرکت میں نہیں۔۔۔ آیا اصل کہانی کیا ہے؟ کب اصل بڑے مجرم پکڑے جا ئیں گے؟ شہریوں کے ساتھ یہ کیسا خونی کھیل کھیلا گیا۔۔۔ کبھی تو اس کا اسکرپٹ لکھنے والے اور اس پر عمل کر نے والے سا منے آئیں گے۔
اسکرپٹ لکھنا امریکیوں کو بہت اچھا آتا ہے اسی لیے دنیا میں ہالی ووڈ کی فلمیں زیادہ مشہور ہیں کیونکہ امریکا دنیا پر حکمرانی کرتا ہے اور اپنی حکمرانی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے وا لے کو راستے سے ہٹانے کے لیے جان دار اسکرپٹ اور فلم بنا کر دنیا کے سامنے اسے حقیقت کا رنگ دیتا ہے۔ یہ انہی اسکرپٹ لکھنے والوں کا کمال ہے اور اسی کمال کا نتیجہ ہے کہ اسامہ بن لادن‘ جس نے اللہ کی حکمرانی اور جہاد کی بات کی‘ دنیا نے دیکھا کہ آسائش کی زندگی ترک کرکے میدانِ جہاد کو منتخب کر نے والا اسامہ بن لادن اور کل کا مجا ہد‘ اسکرپٹ کے بعد کیسے دہشت گرد بن جاتا ہے اور امریکی فوج اس مجاہد کی تلاش میں کیسے لگی رہی اور بالآخر پاکستان سے ’’امریکی اسامہ بن لادن‘‘ کو (بقول امریکی کما نڈر) ایک مقا بلے کے بعد مردہ حالت میں گرفتار کر لیتے ہیں اور اس کی لاش سمندر کے حوالے کر دی جاتی ہے۔۔۔ کیا اسکرپٹ تھا۔۔۔ کیا ڈراما کیونکہ اگر امریکا کو اسامہ بن لادن کی لاش بھی مل جاتی تو وہ پوری دنیا میں اس کی نمائش کر تا اور اسلام کو بدنام کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی۔۔۔ لیکن یہ ڈراما ہی تھا۔۔۔ ہیلری کلنٹن کی ای میل کی طرح جولین اسائنج کب اس راز پر سے پردہ اُٹھائیں گے کہ یہ حقیقت ہے یا افسانہ۔۔۔؟
حقیقت تو یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔۔۔ ان کی زندگی میں ایک فسانے کی حیثیت رکھنے والے ان کے شوہر آصف علی زرداری اپنی بیگم کی الم ناک موت کے بعد ایک بہت بڑے سیاست دان بن کر سامنے آئے اورآتے ہی ’’صدر پاکستان‘‘ بھی بن گئے۔ آصف علی زرداری ہر سال 27 دسمبر کو محترمہ کی برسی کے موقع پر جلسے سے خطاب کرتے ہو ئے کہتے ہیں کہ ’’میں محترمہ کے ’’قاتلوں‘‘ کو جانتا ہوں۔۔۔‘‘ مگر آج تک انہوں نے قاتلوں کے نام نہیں بتائے اور اپنی پانچ سالہ دور حکومت میں اس قتل کی سازش سے پردہ نہیں اُٹھا سکے۔۔۔ ’’چاروں صوبوں کی زنجیر‘‘ اتنی آسانی سے کٹ گئی اور قاتلوں کے نام اب تک سامنے نہیں آئے۔۔۔ معلوم نہیں اس میں کیا حکمت پو شیدہ ہے؟ شاید زرداری صاحب بھی کسی ’’پاکستان لیکس‘‘ کا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔ بے نظیر بھٹو کو کن خفیہ ہاتھوں نے قتل کیا‘ یہ جاننے کے لیے زرداری سمیت پورا پاکستان بے چین ہے‘ لیکن کراچی کے عوام کو ’’کے الیکٹرک‘‘ کے ہا تھوں کس نے یرغمال بنایا‘KESCکو کس نے اتنی کم قیمت پر فروخت کیا؟ اس میں بھی کیا کچھ نامعلوم افراد کا گروہ ملوث تھا؟ اس ادارے کی فروخت کے بعد کراچی کے سادہ عوام نے کے الیکٹرک کو تو دل کھول کر گالیاں دیں جو ہر سال اپنا منا فع 20 سے 25 ارب ظاہر کرتا ہے لیکن صدقے جاؤں سادہ دل عوام کے‘ کہ جو ادارے کو تو گالیاں دیتے ہیں اور بیچنے والوں کو جھولیاں بھر بھر کے ووٹ۔۔۔ مزا تو تب ہے کہ جب کراچی کے عوام جتنی نفرت کے الیکٹرک سے کر تے ہیں اتنی ہی نفرت کراچی میں تیس برس سے راج کرنے والی پارٹی اور اس ادارے کو بیچنے والوں سے بھی کریں تو خود بخود سارے راز باہر آجا ئیں گے۔
نفرت اور دشمنی کی آگ میں اللہ کسی کو نہ جلائے لیکن معلوم نہیں ڈاکٹر عافیہ سے حکمرانوں اور امریکا کو کیا اللہ واسطے کا بیر ہے جو اس کی رہائی کی کوشش نہیں کرتے۔ ہیلری کلنٹن جب امریکا کی وزیر خارجہ تھیں اور وہ پاکستان کے دورے پر آئی تھیں تو جماعت اسلامی کا ایک وفد لیاقت بلوچ کی قیادت میں ان سے ملا اور ڈاکڑ عافیہ سے متعلق جب محترمہ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ ’’مجھے اس معاملے کے بارے میں کچھ علم نہیں۔‘‘ ظاہر ہے محترمہ کیوں اس بات کو قبول کرتیں کہ ہم نے عافیہ کو قید کر رکھا ہے؟ وہ تو امریکی وزیر خارجہ تھیں۔۔۔ لیکن ہمارے ادارے بھی اس بات کو قبول نہیں کرتے کہ لاپتا افراد ہمارے پاس ہیں۔ جب بھی کسی ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کوئی کمیشن بنا تو کچھ عرصہ شور ہوا اور پھر خاموشی چھا گئی۔۔۔ کون پاکستانی شہریوں کو لاپتا کرتا ہے اور کیوں؟ اس سوال کا جواب تو عدالت عظمیٰ بھی حاصل نہیں کر سکی لیکن کبھی تو اس راز سے بھی پردہ اُٹھے گا کہ ایک عورت کو پاکستانی حدود سے کیونکر اُٹھا کر امریکا لے جایا گیا؟ عافیہ کی رہائی کے معا ملے پر حکمران خا موش کیوں رہتے ہیں جب تک اپوزیشن میں ہوتے ہیں لاپتا افراد کے کیمپ کا دورہ‘ عافیہ کی والدہ سے ملاقاتیں اور وعدے ہی وعدے۔۔۔ لیکن حکمرانی کے منصب پر پہنچنے کے بعد سب بھول جا تے ہیں۔ ڈاکٹرعافیہ کا ایسا کیا جرم تھا کہ 80 برس قید کی سزا دی گئی۔ ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان واپس لانے کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن سابق حکمران ملک سے باہر بھاگ کر پاکستان کی ترقی کے خواب دیکھتے ہیں۔ حکمران جب تک حکومت میں ہوں تو سب اچھا لیکن جیسے ہی حکمرانی ختم‘ ملک سے باہر چلے جا تے ہیں‘ عدالتیں وارنٹ پر وارنٹ جاری کر تی ہیں لیکن یہاں کوئی عدالت کا احترام پامال نہیں ہوتا‘ عدالتیں فلاں کیس‘ یہ کیس‘ وہ کیس میں مکمل شواہد کے باوجود طاقت ور‘ ملک و قوم اور آئین کے مجرم کیسے باہر چلے جا تے ہیں پھر احترام کرنے کی باتیں ہوتی ہیں۔
احترام تو سب سیاسی پارٹیاں میڈیا کا بھی کر تی ہیں لیکن میڈیا کو شاید یہ احترام پسند نہیں اسی لیے قانون کی پاسداری کے برخلاف کسی کو زیادہ ملتا ہے تو کسی کو تھوڑا سا بھی وقت نہیں ملتا۔۔۔ میڈیا کی آزادی کا نعرہ لگا نے والے خود کب آزاد ہوں گے عدالت اور میڈیا میں پیسہ چلتا ہے یہ کھیل کب تک جاری رہے گا؟ ہماری عدالتوں اور میڈیا کو کس نے اور کیوں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا؟ یہ طاقت کا یا سیاست کا کھیل ہے جمہوری عمل آگے بڑھ رہا ہے اس لیے اس راز سے بھی پردہ اُٹھنے کو ہے۔۔۔ پردہ تو ہمارے عوام کی آنکھوں کے سا منے چھایا ہوا ہے جو ہر سراب کے پیچھے بھا گنے لگتے ہیں۔ بیس سال تک ’’تانگا پارٹی‘‘ کہلانے والی جماعت میں ایسا کیا شان دار مستقبل نظر آنے لگتا ہے کہ بڑے بڑے نام تحریک انصاف میں چلے جاتے ہیں‘ میڈیا پورا پورا دن اُس پارٹی کو کوریج دینے میں لگا رہتا ہے‘ ہر جلسہ براہ راست دکھایا جاتا ہے۔۔۔ ایسا کیا جادو ہوتا ہے کہ چند برسوں کے اندر ملک کی معروف اور مشہور جماعتوں کی شخصیات تحریک انصاف میں جانے لگتی ہیں اور انتخابات میں قومی و صوبائی سطح پر بھاری تعداد میں سیٹیں حاصل کر لیتی ہے۔۔۔ منتخب حکومت کے خلاف طویل دھرنا دیا جاتا ہے۔۔۔ اس کے اخراجات پر باتیں ہوتی ہیں‘ آخر یہ امپائر کون ہے جو گرتوں کو سہارا دیتا ہے‘ جس کی اُنگلی کے اشارے پر سب کچھ ہونے لگتا ہے‘ یہ ایک معما ہے لیکن شاید اس راز پر سے اس پارٹی کے اپنے ہی لوگ ایک دن پردہ اُٹھا ئیں گے پاکستان میں امپائر کا مستقبل تو ختم ہو چکا ہے کیونکہ جب سے لاہور میں سری لنکا کی ٹیم پر حملہ ہوا تھا اُس دن سے آج تک پاکستان میں امپائرنگ نہیں ہو رہی‘ یہی وجہ ہے کہ اب امپائر بھی دبئی کا رخ کر رہے ہیں کیونکہ دبئی کو پاکستان کا درجہ دے دیا گیا ہے اس لیے اب میچ دبئی میں ہوتے ہیں اور ہمارے سابق حکمران بھی دبئی میں رہتے ہوئے بھی پاکستان میں ہی رہتے ہیں۔
سری لنکا کئی سال تک تامل ناڈو کی تحریک کی وجہ سے متاثر رہا لیکن ہر میچ اپنی ہی سر زمین پر کھیلا۔۔۔ دہشت گردی کا سرا تو کبھی نہیں ملا مگر ہر بار سر ضرور ملا۔ دیکھیں اب دہشت گر دی کا یہ سرا کس جگہ جا کر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
پاکستان میں بہت سے جولین اسائنج اپنے سینوں میں بہت کچھ راز لیے بیٹھے ہیں جن کے قلم کی نوک بس کسی بھی وقت جنبش کر نے کو ہے‘ اگر پاکستانیوں نے خود ان لیکس پر سے پردہ نہیں اُٹھایا تو دنیا میں جس طرح تبدیلی کی ہوائیں چل رہی ہیںیہ کسی بھی لمحے پاکستان کا رُخ کر سکتی ہیں کیونکہ آتش فشاں ایک وقت تک انتظار کرتا ہے لیکن پھر اچانک پھٹ پڑتا ہے اور سب کچھ اپنے اندر سے اُگل دیتا ہے۔۔۔ اپنے آپ کو مضبوط سمجھنے والے اس کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں جیسے امریکا کے صدارتی انتخاب میں اپنے آپ کو مضبوط اور امریکا کے مستقبل کا صدر سمجھنے والی ہیلری کلنٹن نے اپنی شکست کا ذمے دار منظر عام پر آنے والی خفیہ ای میلز کو قرار دیا ہے‘ ایک چھوٹی سی بات پر دنیا پر حکمرا نی کرنے والی قوم نے اپنے لیے ایسے فرد کو صدر قبول کر نے سے انکار کر دیا کہ جو خفیہ طریقے سے حکومتی اور سیاسی معاملات چلاتا رہا ہو۔ امریکی قوم کتنی ہی برائی کی دلدل میں مبتلا ہوں لیکن ایک بات اس قوم میں ہے کہ وہ اپنے لیڈر کو برائی میں مبتلا نہیں دیکھ سکتی‘ امریکی قوم نے تو ہیلری کو مسترد کر دیا کیا پاکستانی قوم وکی اور پاناما لیکس کے بعد اپنی ہی قوم سے جھوٹ بو لنے والوں کو اگلے انتخابات میں مسترد کرے گی یا ’’پاکستان لیکس‘‘ کا انتظار کرے گی۔۔۔؟
nn

حصہ