(تاریخ خلافت عثامنیہ(نجیب ایوبی

631

سلطان عبدالعزیز کے قتل کے بعد عبدالمجید اول کے بیٹے اور عبدالحمید ثانی کے بھائی مراد خامس نے 30 مئی 1876 عیسوی کو عثمانی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اور صرف دو ماہ خلیفہ رہنے کے بعد 31 اگست 1876عیسوی کو امور سلطنت سے معزول کردئیے گئے۔ سلطان مراد خامس نے کثیر تعداد میں شادیاں کیں۔ ان کے حرم میں نو ملکائیں موجود تھیں۔ ان کے مختصر عہد میں کوئی قابلِ ذکر واقعہ تاریخ میں موجود نہیں۔ سلطان مراد خامس کی معزولی کے بعد سلطاں عبدالحمید خان ثانی عثمانی سلطنت کے خلیفہ بنے۔ وہ سلطنتِ عثمانیہ کے 34 ویں فرماں روا تھے۔ 1876ء سے 27 اپریل 1909ء (اپنی دست برداری) تک خلافتِ عثمانیہ کی باگ ڈور سنبھالنے والے سلطان تھے۔ وہ 21 یا 22 ستمبر 1842ء کو استنبول میں پیدا ہوئے اور 75 برس کی عمر میں 10 فروری 1918ء کو فوت ہوئے۔
خلفائے بنو عثمان میں سلطان محمد فاتح کے بعد اگر کوئی خلیفہ تقویٰ و دینداری کے اعلیٰ معیار پر اترتا ہے تو وہ سلطان عبدالحمید خان ثانی تھے۔ حافظِ قرآن، مدبر اور کئی زبانوں کے ماہر۔ حکمت و دانش مندی میں اپنی مثال آپ۔
ہندوستانی مشاہیر میں سے مولانا شبلی نعمانی مرحوم نے سلطان عبدالحمید خان ثانی سے ملاقات کی اور اپنے شہرۂ آفاق سفرنامہ روم و شام میں اس کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ سلطان عبدالحمید خان ثانی نے مولانا کو علم و فضل کی بناء پر علمی ایوارڈ تمغاءِ نشان مجیدی عنایت کیا۔
اسی دور کی بات ہے جب مسلسل جنگوں اور لڑائیوں کی وجہ سے ترکی کا بال بال قرضے میں جکڑا ہوا تھا، یورپ کے یہودیوں نے دنیا بھر کے یہودیوں سے رقم جمع کی تاکہ فلسطین میں یہودیوں کے لیے زمین خرید سکیں۔ رقم جمع ہوجانے کے بعد فرانس کے سفیر کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی وفد سلطان کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ ہمیں اس رقم کے بدلے میں فلسطین میں زمین دے دی جائے تاکہ ہم اپنی عبادت گاہ بنا سکیں۔ سلطان چاہتا تو عثمانی سلطنت کے اس بدترین معاشی بحران میں اس خطیر رقم کو قبو ل کرلیتا، مگر سلطان نے اس رقم کو حقارت سے ٹھکراتے ہوئے تاریخی جملہ ادا کیا کہ ’’خلیفہ زمین کا مالک نہیں صرف منتظم ہوتا ہے۔ نہ مجھے اس کا اختیار ہے، نہ ہی میرا ایمان یہ بات گوارا کرتا ہے کہ میں اس ترغیب کو قبول کروں‘‘۔ سلطان کے انکار کے بعد فرانس اور برطانیہ سے تعلقات مزید خراب ہوتے چلے گئے۔ سلطان غازی عبدالحمید کی غیرتِ مسلم نے گوارا نہ کیا کہ فلسطین کی ایک انچ زمین بھی یہودیوں کے پاس جائے، چاہے ساری دنیا ہی سے مخالفت کیوں نہ مول لینی پڑے۔
سلطان غازی عبدالحمید حقیقی معنوں میں نہ صرف اپنی سلطنت و رعایا بلکہ تمام عالم اسلام کے لیے ہمدردی رکھتے تھے۔ اپنی ذاتی آمدن سے حبشہ کے دارالحکومت ادیس ابابا اور چین کے دارالحکومت پیکنگ (بیجنگ) میں قرآن، عربی اور علوم اسلامیہ سکھانے کے لیے مدارس قائم کیے اور ان پر ہونے والے تمام تر اخراجات اپنی جیبِ خاص سے ادا کرتے۔ علماء کے قدردان تھے۔ ان کے لیے گراں قدر وظائف جاری کرتے۔ خاص طور پر علمائے مکہ و مدینہ پر ان کا خاص اکرام ہوتا تھا۔
1897 عیسوی میں قبرص نے ترک مقبوضہ علاقوں پر حملہ کیا اور معاشی طور پر مقروض ترکی پر جنگ مسلط کردی، جس کا عثمانیوں نے بھرپور جواب دیا اور قبرصیوں کو مار بھگایا۔ اس جنگ میں قبرص کو شکستِ فاش ہوئی تھی، جس کا خمیازہ چالیس کروڑ پاؤنڈ کی صورت میں قبرصیوں کو ادا بھگتنا پڑا۔
یہ سلطان عبدالحمید کا آخری زمانہ تھا جب یورپ کے مسیحی حکمرانوں نے خطیر رقم خرچ کرنے کے بعد ترکی کے نوجوان طبقے میں مغربی طرز کی جمہوریت کا شوشا چھوڑا اور نوجوانوں میں انجمن ترقی و اتحاد کے نام پر ترقی پسند نوجوانوں کو اکٹھا کرنا شروع کیا۔
انجمن ترقی و اتحاد کے باغیانہ افکار جب تشدد کا راستہ اختیار کرنے لگے تو غازی سلطان عبدالحمید نے خون خرابے سے بچنے کے لیے دست بردار ہونے کا فیصلہ کیا۔ اور اس طرح 1909 عیسوی میں حکومت سے دست بردار ہوگئے۔ انھوں نے 33 سال آٹھ ماہ حکومت کی۔ مستعفی ہونے کے بعد نو سال زندہ رہے اور 1918 عیسوی میں انتقال فرمایا۔ غازی سلطان عبدالحمید عثمانی سلطنت کے چونتیسویں حکمران اور پچیسویں خلیفہ تھے۔ یورپی ناقدین نے ان کو جابر اور متشدد حکمران قرار دیا مگر حقیقت اس کے برخلاف ہے۔ مشہور شامی محقق ڈاکٹر احسن حقی نے تاریخ دولۃ العلیہ میں تحقیق سے ثابت کیا کہ یہ پروپیگنڈا یورپی نقادوں نے محض مذہب دشمنی کی بناء پر پھیلایا ہے۔
سلطان عبدالحمید کے دست بردار ہونے پر سلطان محمد خامس رشاد نے خلافت کا منصب سنبھالا۔ یہ غازی عبدالحمید ثانی کے سابق خلیفہ کے بھائی تھے۔ سابق خلیفہ دست بردار ہونے کے بعد سلوانکیا چلے گئے تھے۔ ایسے میں سلطان محمد خامس رشاد کے ہاتھوں پر بیعت لی گئی۔ سلطان محمد خامس رشاد نے نو سال کچھ ماہ حکومت کی اور جون 1918 عیسوی کو انتقال فرمایا۔ ان کے دورِ حکومت میں پارلیمانی نظام کو عملی طور پر نافذ کیا گیا۔
سلطان محمد خامس رشاد کے عہدِ حکومت کا سب سے قابل ذکر واقعہ دنیا کی پہلی خوں ریز عالمی جنگ تھی۔ یہ جنگ 7 جولائی 1914ء سے لے کر نومبر 1918ء تک جاری رہی۔ آدھی سے زیادہ دنیا اس کی تباہ کاریوں سے براہِ راست متاثر ہوئی۔
اس جنگ کی ابتدا جرمنی اور فرانس کے مابین ہوئی جو دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گئی۔ عثمانیوں نے جرمنی کا ساتھ دیا، اور چونکہ اس جنگ میں جرمنی کو اتحادی افواج کے مقابلے پر شکست ہوئی اس لیے اس کی قیمت ترکی کو بھی چکانی پڑی۔
اس جنگ کے ساتھ ساتھ انگریزوں نے شریف حسین مکہ کو اپنے جال میں پھانس لیا اور عربوں میں قوم پرستی کا بیج بو دیا، جس کے نتیجے میں شریف حسین مکہ نے بغاوت کردی اور عرب ریاستیں آپس میں اقتدار کی بندر بانٹ میں مصروف ہوگئیں۔ (اس کی مکمل تفصیل انیسویں صدی کے باب میں موجود ہے)
شریف حسین مکہ نے انگریز سیکرٹ ایجنٹ لارنس آف عربیہ کے کہنے میں آکر اپنی خلافت کا اعلان کردیا۔ مگر شریف حسین کو سلطان عبدالعزیز بن عبدالرحمان کے ہاتھوں 1923 عیسوی میں شکست ہوئی۔ شریف حسین حجاز فرار ہوگیا۔ اسے آخر وقت تک انگریزوں سے یہ امید رہی کہ وہ اس کو دوبارہ بادشاہ بنا دیں گے، مگر انگریز اس کو خاطر میں نہیں لائے اور شریف حسین نہ صرف عرب دنیا کی نظروں میں خراب ہوا بلکہ نظربندی کی حالت میں 1931 عیسوی میں دارِفانی سے کوچ کرگیا۔
سلطان محمد خامس کے بعد شہزادہ وحید الدین محمد ساوس کے ہاتھ پر بیعتِ خلافت ہوئی۔ ترکی عالمی جنگ میں شکست خوردہ ریاست تھی چنانچہ یورپی اتحادیوں نے اس کے حصے بخرے کرتے ہوئے عثمانی سلطنت کے آپس میں حصے بانٹ لیے۔ یونان نے ترکی کے کچھ علاقے ہتھیا لیے۔ فرانس نے شام پر قبضہ جما لیا۔ عراق پر برطانیہ نے قبضہ کیا ہوا تھا۔ ترکی بد انتظامی کی آگ میں جل رہا تھا۔
حکومت کی زمام کار ترقی پسند مصطفی کمال کے ہاتھ میں آچکی تھی۔ یونان سے عثمانی سلطنت اب بھی برسر پیکار تھی۔ سلطاں صرف نام کا سلطان تھا، عملاً تمام اختیارات مصطفی کمال کے پاس تھے۔ اس کے باوجود 1909ء میں جو دستورِ حکومت نافذ ہوا تھا اس کے مطابق سلطان کے پاس اب بھی کچھ اختیارات باقی تھے۔
1922 عیسوی میں یونان کے مقابل جنگوں میں ترکی نے فیصلہ کن برتری حاصل کرلی تھی۔ اس طرح مصطفی کمال کو موقع مل گیا کہ وہ سلطان محمد خامس سے اقتدار کا مطالبہ کرے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ مصطفی کمال نے سلطان سے لادینی حکومت کے قیام کا مطالبہ کردیا، مگر سلطان محمد خامس اس غیر آئینی مطالبے پر راضی نہ ہوئے۔ خانہ جنگی چھڑ چکی تھی۔ فوج نے اپنا مطالبہ بزور بندوق منوانے کا فیصلہ کیا اور 1922 عیسوی کو سلطان محمد خامس کو برطرف کردیا گیا۔ اس برطرفی کے بعد سلطان عبدالمجید خان ثانی بن عبدالعزیز ثانی کے ہاتھ پر بیعت کی گئی، مگر اس شرط پر کہ سلطان کو دنیاوی معاملات میں دخل اندازی کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا۔ اس کے دو ہی سال بعد 1924 عیسوی میں سلطان عبدالمجید الثانی کو معزول کرکے جلاوطن کردیا گیا۔ فرانس کے شہر نیس میں غربت وافلاس کے عالم میں 1933 میں عثمانی سلطنت کے آخری اور انتیسویں خلیفہ نے انتقال فرمایا۔ ان کے انتقال سے سلسلۂ خلافت کی لڑی ٹوٹ کر ایسے بکھری کہ آج تک امت خلیفہ کے لیے ترس رہی ہے۔
خلافت کے ختم ہوجانے سے عالم اسلام میں سوگواری پھیل گئی۔ ترکی میں جدیدیت کا بھوت ناچنے لگا۔ مذہبی حلقوں میں سوگ کا سماں تھا۔
ایسے میں عالم اسلام کے مذہبی و سیاسی زعما خلافت کی بحالی کے لیے تدابیر سوچنے لگے۔ مگر ان ہی کے حلقوں میں ایسے سیاسی عناصر بھی تھے جو درپردہ خلافت کی بحالی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے رہے۔ بالآخر 1926ء میں مکہ مکرمہ کے مقام پر ایک کانفرنس میں بحالئ خلافت مہم کا اعلان کیا گیا۔ اس اجلاس میں دنیا بھر سے معروف علماء و مشائخ نے حصہ لیا، جنھوں نے خادم الحرمین شریفین سلطان عبدالعزیز بن عبدالرحمان کی صدارت میں ایک جلسہ کیا، اور ایک عالمی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا اولین مقصد خلافت کی بحالی تھا۔
اس میں شریک ہونے والے تاسیسی اراکین میں خادم الحرمین شریفین سلطان عبدالعزیز بن عبدالرحمان آل سعود، علامہ سید سلیمان ندوی، رئیس عمر چکرنتو انڈونیشیا، سید رشید رضا المصری، مفتی امین الحسینی فلسطین، مولانا محمد علی جوہر ہندوستان، مفتی کفایت اللہ دہلوی ہندوستان، موسی جار اللہ روس، محمد علی علوبہ پاشا، مصری شامل تھے۔
(جاری ہے )

حصہ