مجلہ
:
ارقم (شمارہ نمبر 5)
مدیر
:
ڈاکٹر ظفر حسین ظفر
صفحات
:
384 قیمت 800 روپے
ناشر
:
بزمِ ارقم، نزد نادرا آفس، راولا کوٹ، آزاد کشمیر
فون
:
+92-03015187686
+92-03015062021
ای میل
:
zafarhzafar11@gmail.com
ڈاکٹر ظفر حسین ظفر کی زیر ادارت شائع ہونے والا یہ نہایت خوبصورت اور علمی لحاظ سے ٹھوس مجلہ آزاد کشمیر سے شائع ہونے والے مجلات میں ایک بلند مقام رکھتا ہے۔ اس میں طبع ہونے والے مقالات درجہ اول کے علمی مقام کے حامل ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر اداریے میں تحریر فرماتے ہیں:
’’فکر و خیال کے متعین راستے پر ’ارقم‘ کا سفر جاری ہے۔ للہ الحمد۔ اس وقت ارقم کا پانچواں شمارہ آپ کے سامنے ہے۔ یہ شمارہ قدرے تاخیر سے شائع ہوا ہے۔ تاخیر کی وجوہات بے شمار ہیں لیکن ان کا تذکرہ بے محل ہے۔ بس اتنا بتانا کافی ہے کہ قطرے سے گہر ہونے تک کے سفر کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں، جنہوں نے کبھی اس وادئ پُرخار میں آبلہ پائی کی ہو۔
ایک منزل ہے، جس کی جانب سفر مقصود ہے۔ اگر تیز سواری مل گئی تو فبھا، ورنہ دھیرے دھیرے یہ سفر بھی جاری رہے گا اور نشانِِ منزل بھی نگاہوں کے سامنے رہیں گے۔ ان شاء اللہ! اصل شرط منزل کا شعور اور اس تک پہنچنے کی تڑپ ہے۔
میں کہ مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ
میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو
پچھلے دو عشروں سے ہمارا معاشرتی اور سماجی نظام تیزرفتار تغیرات کی زد میں ہے۔ محسوس اور غیر محسوس طریقے سے سماجی قدریں جس تیزی سے بدل رہی ہیں ان پر کسی کا اختیار نہیں ہے۔ بظاہر قریب آتی اور سکڑتی دنیا میں انسان انسان سے بے گانہ ہورہا ہے۔ یہ عجب قرب ہے کہ انسان اور انسان کے درمیان کہیں تو سنگِ خارہ کی دیواریں کھڑی ہیں اور کہیں شیشے کی۔ نازک مزاجی اس قدر ہے کہ اس کارگہِ شیشہ گری میں سانس بھی آہستہ لینا پڑتا ہے۔ محبت، ایثار، ہمدردی، خیرخواہی اور اخوت جیسے بنیادی انسانی اوصاف کے بجائے غیر اعلانیہ سلوگن: ’’سب سے پہلے اپنی ذات‘‘ پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔ ایک ہی گھر میں مقیم چھوٹے سے کنبے کے ہر فرد کی دنیا الگ ہے۔
سکڑتی اور قریب آتی ہوئی اس دنیا میں معاشرتی سطح پر عجیب رویّے اور رجحانات اپنا اثر چھوڑتے جارہے ہیں۔ ’’بچے تو دو ہی اچھے‘‘ ہیں لیکن جب یہ دو ’’اچھے بچے‘‘ ’’اپنی دنیا آپ‘‘ پیدا کرنے کے لیے مادیت کی دوڑ میں کہیں گم ہوجاتے ہیں تو پھر کئی والدین حسرت سے عمرِِ رفتہ کو صدا دیتے ہیں کاش! ایسا نہ ہوتا، ویسا نہ ہوتا۔
مغرب میں اگر خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے تو وہاں ریاست بہت طاقت ور ہے اور انسان کی آخری عمر کی محرومیوں اور ضروریات کا کچھ بندوبست موجود ہوتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں، جہاں ریاست محض چند خاندانوں کا ایک کلب ہے، وہاں خاندانی نظام کا بکھرنا کیسی کیسی پیچیدگیوں کا باعث ہوگا۔
اقبال نے اس تصورِ فکر کو کبھی چشم تہذیب کی نابصیری، کبھی فسادِ قلب و نظر اور کبھی شاخِ نازک پر آشیانہ بنانے سے تعبیر کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قومی زندگی کے ستّر برسوں میں کیا فکرِ اقبال سے ہم نے کماحقہٗ استفادہ کیا ہے؟ حالاں کہ اقبال کے نام پر کئی ادارے اور بعض جامعات میں پورے پورے شعبے موجود ہیں۔ ہماری آج کی سماجی قدریں مادے اور روح کی عجیب کشمکش میں ایک دوراہے پر نہیں بلکہ چوراہے پر کھڑی کسی فکری رہنمائی کی متلاشی ہیں۔ ہماری معاشرتی اور سماجی تشکیل میں مسلکی، گروہی، فرقہ وارانہ، لسانی اور علاقائی تعصبات حائل ہیں۔ وطن عزیز کی درس گاہیں بھی شدت پسندی اور دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہیں۔ بگاڑ اس قدر زیادہ ہے کہ اس کے بناؤ کے لیے ایک ہمہ گیر جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ادب اگر زندگی کے تنقیدی شعور کا ترجمان اور تفسیرِ حیات ہے تو پھر ہمیں اپنے سماج میں موجود دہشت اور وحشت کے اسباب تلاش کرتے ہوئے تعمیرِ جہاں کے لیے انہی اقدار اور پیمانوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا، جن کی بنیاد وہ تصورِ حیات ہے کہ صنعا سے حضرموت تک سونے سے لدی ہوئی کوئی تنہا عورت سفر کرے تو اسے کسی انسان کا خوف نہ ہو۔ شاعرِ مشرق تو اپنا وظیفہ یہی بتاتے ہیں:
از زمانِ خود پشیماں می شوم
در قرونِ رفتہ پنہاں می شوم
میں اپنے دور سے پشیمان ہوجاتا ہوں اور اپنے آپ کو قرونِ رفتہ کی یاد میں چھپا لیتا ہوں۔‘‘
اس گراں قدر شمارے میں درج ذیل محتویات ہیں:
سیرت: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ایک مدبر اور ماہرِ سیاست‘‘، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ۔
مشاہیر: ’’یادِ غالب‘‘، رضیہ اکبر حسن۔ ’’کیپٹن حسین خان (شہید)‘‘، بشیر حسین جعفری۔ ’’پروفیسر محبوب الرحمن (مرحوم)۔۔۔ یادیں اور مکتوبات‘‘، محمد راشد شیخ۔ ’’بابائے پونچھ: کرنل خان محمد خان‘‘، عبدالرحیم فانیؔ ۔ ’’شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف‘‘، محمد طارق خان۔
کشمیریات: ’’پاکستانی ادب میں مزاحمتی رویّے‘‘، طاؤس بانہالی۔ ’’وتستا سے جہلم تک‘‘، راجا نذر بونیاری۔
سفرنامہ: ’’اذنِ سفر دیا تھا کیوں۔۔۔؟‘‘، نگار سجاد ظہیر
تحقیق: ’’سید مودودی بحیثیت نثر نگار‘‘، ڈاکٹر محمد جاوید اصغر۔ ’’زبانِِ غیر میں کرتا ہے ترجمانیِ غیر‘‘، ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ ۔ ’’پہاڑی لوک ادب اور تعمیرِ معاشرہ‘‘، ڈاکٹر ظفر حسین ظفر۔ ’’سیالکوٹ میں اقبال کے اساتذہ‘‘، یاسر ذیشان۔ ’’یونان کی ادبی روایت اور اس کے اثرات‘‘، فیاض نقی۔ ’’مکاتیبِ جاوید اختر بھٹی بہ نام محمد افتخار شفیع‘‘، محمد ندیم صادق۔ ’’کولکتہ اور چراغ حسن حسرت‘‘، ظہیر جاوید۔
آپ بیتی: ’’آپ بیتی‘‘، کنور اعظم علی خاں خسرویؔ ۔
تبصرہ کتب: ’’گلیوں کے لوگ اور اقبال حسن خان: تحقیقی اور تنقیدی مطالعہ‘‘، ڈاکٹر عبدالکریم۔
اس شمارے میں شائع ہونے والے مقالات ویسے تو ایک سے ایک بڑھ کر ہیں لیکن خاص طور سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا غیر مطبوعہ مقالہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت ایک مدبر اور ماہر سیاست‘‘ اہم ہے۔ شخصیات پر تمام مقالات عمدہ ہیں، معلومات افزا ہیں۔ تحقیق میں ’’سید مودودی بحیثیت نثر نگار‘‘ ڈاکٹر محمد جاوید اصغر کی جامع تحقیق ہے۔ ’’زبانِ غیر میں کرتا ہے ترجمانیِ غیر‘‘ ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ نے جناب مقبول الٰہی پر عمدہ مضمون لکھا ہے۔ یہ مجلہ اگر باقاعدہ سہ ماہی یا ششماہی ہوجائے تو امید ہے پاکستان کے صفِ اوّل کے علمی، تحقیقی، دینی مجلات میں جلد ہی اعلیٰ مقام بنا لے گا۔ مجلہ صوری اور معنوی لحاظ سے منفرد ہے۔ nn