نریندر مودی کی پاکستان کا پانی بند کرنے کی تواتر کے ساتھ دھمکی جہاں 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے، وہیں برصغیر میں تباہ کن جنگ کا موجب ہوسکتی ہے، کیونکہ اگر پاکستان کے صوبہ پنجاب کو اُس کے حصے کے پانی سے محروم کردیا جاتا ہے تو یا تو وہاں کی آبادی بھوک پیاس سے مرجائے گی یا نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔ عقلِ سلیم اور فطرتِ انسانی ان دونوں صورتوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، کیونکہ زندہ رہنا ہر انسان کا پیدائشی حق ہے جسے خدائے بزرگ و برتر کے سوا اُس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ لہٰذا ’’جب تک سانس ہے تب تک آس ہے‘‘ کے مصداق ہر انسان اپنی جان بچانے کے لیے ہر چیز داؤ پر لگا دیتا ہے، کیونکہ قدرت نے انسان کو خود حفاظتی کی حس ودیعت کی ہوئی ہے، اسے مہذب دنیا کے تمام قوانین نے نہ صرف اپنالیا ہے بلکہ اس کا نفاذ بھی یقینی بنایا ہے۔ میری مراد انسان/ذی روح کی حسِ خود حفاظتی سے ہے جسے ہر ملک کا قانون Right of Self Defence کہتا ہے اور اس کی رو سے اگر کوئی فرد خود کو قاتلانہ حملے سے بچانے کے لیے اقدام قتل کرنے والے کو ہلاک بھی کردیتا ہے تو وہ قانون کے نزدیک مجرم نہیں تصور کیا جائے گا بلکہ عدالت اسے بری کردے گی۔ اسی طرح بین الاقوامی قانون ریاستوں کو جارحیت سے دفاع کے لیے جوابی کارروائی کا اختیار دیتا ہے، اس ضمن میں اقوام متحدہ کے منشور کی شق 51 بڑی واضح ہے کہ اپنی حدود میں بیرونی جارحیت سے دفاع کے لیے متاثرہ ریاست نہ صرف خود بلکہ اپنی حلیف ریاستوں کے ساتھ مل کر جارح کے خلاف جنگ کرسکتی ہے، دریں اثناء اسے سلامتی کونسل کو صورت حال سے فوراً آگاہ کردینا چاہیے۔ نریندر مودی نہ صرف متنازع ریاست کشمیر میں کنٹرول لائن یا آزاد کشمیر کی دیہی آبادی کو نشانہ بنارہا ہے بلکہ محاذِ جنگ پاکستان تک پھیلادیا ہے اور اپنی سرحدی فوج کو اندرون پاکستان حملہ کرنے پر مبارکباد بھی دی ہے۔ علاوہ ازیں کوا چلا ہنس کی چال کے مصداق امریکہ کی نقل کرتے ہوئے اس نے اپنے جاسوسی ڈرون کواڈ ہیلی کاپٹر کو پاکستان کی فضائی حدود میں داخل کردیا جو مار گرایا گیا۔ یہ کھلی زمینی، فضائی دراندازی ہے جو موثر جوابی کارروائی کی متقاضی ہے۔ یہ دراندازی اتفاقیہ نہیں ہے کیونکہ بھارت کی آبدوز نے بھی پاکستان کے سمندری حدود میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی جبکہ سمندری قانون کی رو سے غیر ملکی آبدوزوں کو دوسری ریاست کی سمندری حدود میں داخل ہوتے ہی سطح آب پر آنا لازمی ہے۔ یہ تو ہوئی بھارت کی عسکری دراندازی۔
اس کے علاوہ اب نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف بڑا اوچھا ہتھیار استعمال کیا ہے، اس نے 25نومبر بروز جمعہ انتخابی مہم کے دوران پنجاب کے شہر بھٹنڈا میں اعلان کیا کہ میں دریائے راوی، بیاس اور ستلج کے پانی کا ایک قطرہ بھی پاکستان کو نہیں دوں گا بلکہ اس کا رخ پنجاب، ہریانہ اور ریاست جموں وکشمیر کی طرف موڑ دوں گا۔ (ڈان مورخہ 26نومبر 2016ء)
یاد رہے پنجاب کی غیرمنصفانہ تقسیم کے باعث بھارت کو ماؤنٹ بیٹن نے کشمیر میں داخل ہونے کے لیے جو چور دروازہ دے دیا تھا اُس کے ذریعے اس نے ریاست جموں اور کشمیر کے دو تہائی حصے پر غاصبانہ قبضہ کرلیا اور ریاست میں رائے شماری سے متعلق سلامتی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آج تک اس پر قابض ہے جہاں سے بھارت اور پاکستان کی سمت بہنے والے دریا گزرتے ہیں۔ پاکستان کی سابق حکومتوں کی کمزوری کے باعث جواہرلال نہرو نے دریاؤں پر بند باندھ کر پاکستان کے حصے کا پانی روک دیا۔ زراعت پیشہ افراد جانتے ہیں کہ کھیتوں کو سیراب کرنے والے پانی کو کم کرنے یا روکنے اورکاٹنے سے کسانوں میں کتنا خوان خرابہ ہوتا ہے، کیونکہ یہ ان کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے۔ قارئین ذرا تصور کریں کہ جب گاؤں میں کھیتوں کا پانی روکنے سے کسانوں میں خونریز تصادم ہوجاتا ہے تو اگر بیس کروڑ آبادی والے ملک کا پانی کاٹ دیا جائے تو کیا دونوں ممالک میں جنگ نہیں بھڑک سکتی؟ اگر نریندر مودی ایسا کرتا ہے تو اس کا یہ اقدام 19 ستمبر 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہوگی، کیونکہ مذکورہ معاہدے کے تحت ان دریاؤں کو پاکستان اور بھارت کے مابین حسب ذیل تقسیم کردیا گیا تھا۔ دریائے سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کو، جبکہ راوی، بیاس اور ستلج بھارت کو دے دیے گئے، لیکن دس سال کے عبوری دور میں دونوں ممالک ان تمام دریاؤں کا پانی استعمال کرسکتے تھے، تاہم اس اثنا میں پاکستان کو پانی کے ذخائر کے لیے بند تعمیر کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جس میں اس نے تاخیر سے کام لیا، جبکہ بھارت نے دریاؤں کے بالائی حصے پر بھاکرا ننگل بند باندھ کر پاکستان کے حصے کے پانی کا بہاؤ اپنی طرف موڑ لیا جس پر دونوں ریاستوں میں تنازع کھڑا ہوگیا۔ اس سلسلے میں پاکستان نے بھارت سے مذاکرات کیے جو لاحاصل رہے اور وہ من مانی کرتے ہوئے مزید بند بناتا رہا۔ بالآخر 1960ء میں عالمی بینک کے توسط سے سندھ طاس معاہدہ طے پایا جس پر صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان ‘ وزیراعظم بھارت جواہر لعل نہرو اور عالمی بینک کے نمائندے نے دستخط کیے۔ اس طرح یہ دو طرفہ نہیں سہ فریقی یعنی بین الاقوامی معاہدہ ہے۔ اس کی رو سے مندرجہ بالا دریاؤں کی تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے بھارت اور پاکستان کے نامزد کردہ مندوبین پر مشتمل دو رکنی انڈس کمیشن قائم کیا گیا جو معاہدے پر عملدرآمد کے سلسلے میں فریقین کے مختلف مواقف کا جائزہ لے کر یہ یقین کرنے کا مجاز ہے کہ آیا ان کے درمیان اختلافِ آرا ہے یا تنازع۔ اول الذکر صورت میں کمیشن کسی غیرجانب دار فرد سے رجوع کرسکتا تھا، جبکہ تنازع کی صورت میں اسے مصالحتی یا ثالثی کمیشن کے حوالے کردیا جانا چاہیے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان نے عبوری دور میں بھی بند تعمیر نہ کرکے معاہدے کی خلاف ورزی ضرور کی ہے لیکن اس دوران میں بھارت نے جس سرعت کے ساتھ پاکستان کے دریاؤں کا رخ پھیرنے کے لیے ان پر بند باندھے ہیں وہ سندھ طاس معاہدے کی سنگین خلاف ورزی ہے، کیونکہ بین الاقوامی دریاؤں کے پانی پر بالائی اور زیریں ریاستوں دونوں کا مساوی حق ہے، یوں بھی بین الاقوامی ثالثی ادارے نے فیصلہ سنایا ہے کہ گو بھارت نے بگلیہار بند باندھ کر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی تاہم اس نے جتنے رقبہ اراضی پر بند باندھا ہے وہ معاہدے کی متعین کردہ پیمائش سے تجاوز کرگیا ہے۔ اس سنگین خلاف ورزی کا کیا مداوا ہے، یہ فاضل ثالثی عدالت نے نہیں بتایا۔ قانون کی رو سے تو تجاوزات مسمار کردیے جاتے ہیں، لیکن بھارت اس کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ یکے بعد دیگرے بند باندھتا جارہا ہے، جبکہ ادھر پاکستان کی جانب سے بے عملی دیکھنے میں آرہی ہے، البتہ عوامی جمہوریہ چین نے بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے تبت سے بہنے والے برہم پتر دریا پر بند باندھنے کا اعلان کردیا ہے، جس کی تعمیر کے بعد بھارت کے صوبوں آسام اور بنگال میں بہنے والے پانی میں 34 فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اگر چین کے اس اقدام سے بھارت کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے تو وہ پاکستان کو اُس کے حصے کے پانی سے محروم نہیں کرسکتا ورنہ تو ہمیں بین الاقوامی عدالت یا ثالثی ادارے (Tribunal) سے انصاف کی توقع نہیں ہے۔ اگر عوامی جمہوریہ چین اقوام متحدہ میں بنگلہ دیش کے داخلے پر ویٹو نہیں لگاتا تو بھارت کبھی پاکستان کے جنگی قیدیوں کو رہا نہ کرتا۔ بین الاقوامی قانون کو بروئے کار لانے کے لیے طاقت کا استعمال ناگزیر ہوجاتا ہے۔
اس وقت نریندر مودی باؤلے کتے جیسا ہوگیا ہے اور ہر چہار سو بھونک رہا ہے۔ اسے اندرون ملک اپنے صوبوں میں پانی کی تقسیم پر تنازعے کا سامنا ہے جسے حل کرنے کے بجائے وہ عوام کو پاکستان کے خلاف ورغلا رہا ہے۔ ہریانہ اور پنجاب میں پانی کی تقسیم کا تنازع شدت اختیار کرگیا ہے، جسے وہ اس لیے حل نہیں کرسکتا کہ اگر اس کے فیصلے سے ہریانہ مطمئن ہوتا ہے تو پنجاب ناراض ہوجائے گا اور انتخاب میں اس کی انتہا پسند پارٹی کی حمایت نہیں کرے گا۔ اس طرح اگر وہ پنجاب کے حق میں فیصلہ کرتا ہے تو ہریانہ اس کے خلاف ہوجائے گا۔ پاکستان کے دریاؤں کا پانی شمالی ہندوستان کے صوبوں کو دے کر وہ وقتی طور پر تو دونوں کو مطمئن کرسکتا ہے حالانکہ یہ بھی اتنا آسان نہیں ہوگا، کیونکہ اگر مقبوضہ کشمیر کے باشندے اپنی سرزمین سے بہنے والے دریاؤں کا پانی پنجاب اور ہریانہ کو فراہم کرنے کی مخالفت کریں ۔ اور ضرور کریں گے، تو اس کے لیے نریندر مودی کو کشمیر سے پنجاب کو بہنے والے دریاؤں کے کنارے پر مزید فوج لگانی پڑے گی۔ جس طرح بھارت اپنے مقبوضہ علاقے سے پاکستان کی سرزمین میں بہنے والے پانی کو روک سکتا ہے تو کیا کشمیری باشندے اپنی سرزمین سے بہنے والے دریاؤں کا پانی بند نہیں کرسکتے؟
جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے مودی شمالی ہندوستان سے پاکستان کو بہنے والے دریاؤں کا پانی کاٹ سکتا ہے اور اسے پنجاب اور ہریانہ کی طرف موڑ کر بین الصوبائی یا بین الریاستی تنازعات کا مداوا کرسکتا ہے، لیکن وہ جنوبی ہند میں کرناٹک اور تامل ناڈو کے مابین دریائے کاویری کے پانی کی تقسیم کے تنازع کو کیسے سلجھائے گا؟ کیونکہ دریائے کاویری تو شمالی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان نہیں بہتا۔
اس وقت کرناٹک اور تامل ناڈو میں جنگ کے سے حالات پیدا ہوگئے ہیں کیونکہ تامل ناڈو کو شکایت ہے کہ کرناٹک کی صوبائی حکومت بنگلور میں تعمیر شدہ بند میں دریائے کاویری کے پانی کا وافر ذخیرہ محفوظ کیے ہوئے ہے اور اسے تامل ناڈو کو فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جبکہ بھارت کی عدالت نے کرناٹک کی حکومت کو بنگلور کے آبی ذخیرے میں سے تامل ناڈو کو درکار پانی فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔ اس حکم نامے پر عمل کرنے کے بجائے 12 ستمبر 2016ء کو بنگلور میں عدلیہ کے فیصلے کے خلاف فسادات بھڑک اٹھے اور بلوائیوں نے تامل ناڈو کے دو شہریوں کو ہلاک اور اس صوبے میں اندراج کردہ سو گاڑیوں کو جلا کر تباہ کردیا۔ اسی طرح 1991ء میں بھی پانی کی تقسیم پر خونزیز فسادات پھوٹ پڑے تھے جن میں 18 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
کرناٹک اور تامل ناڈو میں دریائے کاویری کے پانی کی تقسیم پر تنازع کی جڑیں انیسویں صدی میں حکومتِ برطانیہ کے دور میں نظر آتی ہیں۔ اُس وقت کرناٹک برطانیہ کے زیرنگیں ریاست میسور کے نام سے موسوم تھا جسے ایسٹ انڈیا کمپنی نے میر صادق کی سازش سے سلطان ٹیپو کے خلاف جنگ کرکے فتح کرلیا تھا، چنانچہ 1892ء میں حکومتِ برطانیہ نے میسور کے فرمانروا سے دریائے کاویری پر بند نہ باندھنے سے متعلق معاہدہ کیا، بعد ازاں 1924ء میں برطانیہ اور مہاراجا نے ایک اور معاہدے کے ذریعے مذکورہ بند تعمیر نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔ (اکنامسٹ 17ستمبر2016ء۔صفحہ 26) اس کی وجہ یہ تھی کہ بنگلور میں دریا کے بالائی حصے پر بند باندھنے سے صوبہ مدراس کے گنجان آباد زیریں علاقے میں واقع کھیتوں کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا جس سے مقامی آبادی میں خوراک کی کمی کا خدشہ پیدا ہوگیا۔
1974ء میں کرناٹک (سابق ریاست میسور) کی صوبائی حکومت نے 1892ء اور 1924ء کو معاہدوں کو یہ کہہ کر منسوخ کردیا کہ یہ برطانوی سامراج کے مسلط کردہ معاہدے تھے جو کالعدم قرار دے دیے گئے ہیں۔ اُس وقت دونوں صوبوں کی آبادی میں بھی اضافہ ہوگیا، خاص کر تامل ناڈو میں بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورت کے لیے دھان کی کاشت میں بھی اضافہ ہوا جس کی آب پاشی کے لیے زیادہ پانی درکار تھا۔ بدقسمتی سے اس خطے میں موسم برسات میں پانی کی کمی کی وجہ سے کھیتوں کی آب پاشی کے لیے مزید پانی کی اشد ضرورت محسوس ہوئی تو تامل ناڈو
(باقی صفحہ 41پر)
نے بنگلور کے آبی ذخائر میں سے اپنے حصے کے پانی کا مطالبہ کیا جسے کرناٹک کی حکومت نے مسترد کردیا۔ کاویری کے پانی کی تقسیم کا تنازع 2007ء میں ایک ثالثی عدالت کے روبرو پیش کیا گیا جس نے کرناٹک کی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ بنگلور کے پانی کے ذخائر سے تامل ناڈو کو وافر مقدار میں پانی فراہم کرے نیز ثالثی عدالت نے 1892 ء اور 1924ء کے معاہدوں کو جائز اور نافذ العمل قرار دے دیا۔(اکانومسٹ صفحہ 26، 17 نومبر 2016ء)
بھارت کی عدلیہ نے دریائے کاویری کے پانی کی تقسیم پر جو فیصلہ کیا اور خصوصی ثالثی عدالت نے کرناٹک کو بنگلور کا بند کھول کر تامل ناڈو کو پانی کی ترسیل کو یقینی بنانے سے متعلق جو فیصلہ کیا ہے وہ بین الاقوامی دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے بارے میں مروجہ بین الاقوامی قانون اور رواج Custom کے عین مطابق ہے، لہٰذا پاکستان کے وکلا اور مقننین کو سندھ طاس معاہدے اور ہندوستان میں دریائے کاویری کے پانی کی تقسیم سے متعلق بھارت کی عدلیہ کے فیصلے کی روشنی میں بھارت اور پاکستان کے آبی تنازع کے حل کے لیے عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنا چاہیے۔