مغرب میں اسلام سے مکمل خوف کا تاثر ہے۔ یہ گویا گرما گرم خبر ہے، ہاتھوں ہاتھ بک رہی ہے، لمحہ بہ لمحہ بیچی جارہی ہے، اور ہر ذہن میں بٹھائی جارہی ہے۔ ’اسلام سے جنگ‘ مشہور سیاسی نعرہ بن چکا ہے۔ یہ سب ہرگز بے بس اکثریت کے سبب نہیں۔ مغربی پروپیگنڈسٹ تصادم کا نیا ماحول ترتیب دے رہے ہیں، نئے سپاہی ہیں، نئی وردیاں ہیں، نئے ہتھیار ہیں، اور نئے نعرے ہیں۔ عنوان مگر مغرب کا ہے، صفات بھی مغرب ہی کی ہیں۔ مسئلہ کیا ہے؟ خوف اسلامی تہذیب کی عالمگیریت کے امکان سے ہے، اور مسئلہ مغرب کی عالمگیر شناخت کا ہے۔ مغرب مشکل میں ہے۔ یہی مشکل مضمون کا مدعا ہے۔ عالمگیر شناخت کے مسئلے کی حالیہ کیفیت سمجھنے کے لیے لازم ہے کہ تاریخی تناظر میں اسے دیکھا جائے، صورت حال کی تفہیم آسان ہوجائے گی۔
مغرب میں تاریخِ جدید کی ابتدا عیسائی مذہب سے ہوئی۔ مذہبی پیشواؤں نے عزت وتکریم کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ یہ لوگ نیک لوگ نہ رہے۔ یہ جاگیردار بن گئے۔ یہ ہر حکم کے اجارہ دار بن گئے۔ جنگ ساز بن گئے۔ مصائب اور مظالم حد سے بڑھ گئے۔ لوگ متنفر ہوئے۔ مذہبی پیشواؤں کے ساتھ ساتھ مذہب کو دیس نکالا دیا گیا۔ آزادی، انفرادیت پسندی، روشن خیالی، اور سائنس نے اہلِ مغرب کو خودسر کردیا۔ یہ لوگ مظلوم لوگ نہ رہے۔ یہ سرمایہ دار بن گئے۔ یہ ہر حکم کے اجارہ دار بن گئے۔ یہ جنگ ساز بن گئے۔ مصائب اور مظالم حد سے بڑھ گئے۔ لوگ متنفر ہوئے۔ روشن خیالوں کے ساتھ ساتھ جدیدیت دیس سے نکالی گئی۔ نئی اصطلاحات نے فکر پر قبضے جمائے۔ لبرل ازم، ڈیموکریسی، نیولبرل ازم، اشتراکیت، اورٹیکنالوجی نئے نظام کے پیوندکار بن گئے۔ یہ لوگ تضادات میں الجھ گئے۔ عالمگیریت کے دعویدار تھے، مگر آفاقی نہ بن سکے۔ انسانیت کے ٹھیکیدار تھے، مگر انسان نہ بن سکے۔ مال ہی کو مشکل کشا سمجھے، سو یہ بھی ظالم بن گئے۔ جنگ ساز بن گئے۔ سرمایہ داربن گئے۔ فیشن ایبل بائیں بازو والے بن گئے۔ ناانصافیاں، منافقتیں، اور تضادات حد سے بڑھ گئے۔ لوگ بیزار ہوئے۔ لبرل ازم، نیولبرل ازم، ڈیموکریسی، اور عالمگیریت کے دعووں کو دیس نکالا دیا گیا۔
اب مغرب مذہبی انتہا پسند ہوگیا، دائیں بازو کا ہوگیا۔ یہ لوگ قوم پرست ہوگئے۔ یہ نسل پرست ہوگئے۔ یہ قدامت پرست ہوگئے۔ خدا پرست ہوگئے۔ مال ہی مگر مشکل کشا ٹھیرا۔ قتل و غارت ہی ہتھیار بنا۔ منافقتیں، تضادات، اور ناانصافیاں زوروں پر ہیں۔ مصائب اور مظالم حد سے بڑھے ہوئے ہیں۔ مغرب نے عالمگیر شناخت کی تراش اور تلاش میں انسانوں کی دنیا کا بڑا نقصان کیا ہے، اورآج بھی یہی ارادے ہیں۔
بات خدا سے چل کر خدا پر آپہنچی ہے۔ مغرب کو یاد آیا کہ کبھی وہ بھی خدا رکھتا تھا۔ یہ یاد بے سبب نہیں، حالات کی سچائیاں اعترافات کی دہلیز تک کھینچ لائی ہیں۔ مگر مغرب کی عالمگیر شناخت کا مسئلہ جوں کا توں ہے، بلکہ گمبھیرتر ہوگیا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
شناخت کا مسئلہ کائنات میں انسان کے مقام کا تعین کرتا ہے۔ تعین جس نوعیت کا ہوگا، شناخت طے کرے گا۔ کائنات اور زندگی کے بنیادی سوالات آئینہ ہیں، جوابات کی نوعیتیں شناختوں کا عکس ہیں۔ مغرب کی عالمگیر شناخت کا المیہ بھی اسی کلیہ کی زد میں ہے۔ مغربی فکر کے خطرناک ذہن نے مغرب کا یہ مسئلہ چند جملوں میں سمیٹ دیا ہے۔ جرمن فلسفی فریدرش نتشے نے جوکچھ ایک صدی پہلے کہا، آج بھی مغرب پر صادق آتا ہے۔ نتشے کے شہرۂ آفاق جملے ہیں: ’’خدا مرچکا ہے۔ ہم نے اسے قتل کیا۔ ہم خود کوکس طرح مطمئن کرپائیں گے جبکہ ہم قاتلوں کے قاتل ہیں؟ ہم نے مذہب کے تقدس اورطاقت کے ذریعے بہت خون بہایا، یہ خون کیسے ہمارے ہاتھوں سے صاف ہوگا؟ کون کرے گا؟ کون سا پاک پانی ہے، جو ہمارے ہاتھوں سے ان جرائم (پاپائیت کا اندھیر راج) کو دھو ڈالے گا؟ کب تک نجات کے میلے اور مقدس کھیل رچانے ہوں گے؟‘‘ مذہب کی مکروہ مسخ شدہ شکل سے خائف نتشے کے ان سلگتے سوالات کو دہرانے سے پہلے مغرب کی عالمگیر شناخت کا مسئلہ سادہ الفاظ میں دہرانا مفید ہوگا۔ چند مستقل صفات و اعمال نے ہر دور میں مغرب کے لیے عالمگیر شناخت کا تعین ممکن نہ ہونے دیا۔ منافقت، دورنگی، ظلم، کفر، مال کی محبت، اور عدلِ اجتماعی کی پامالی مغرب کا خاصہ رہے ہیں۔
مغرب مذہب سے مخلص نہ رہا۔ روشن خیالی مغرب میں خواب ہی رہی۔ مغرب عالمگیر معاشرہ بھی تشکیل نہ دے سکا۔ مغرب عالمی امن کا کوئی سامان نہ کرسکا۔ مغرب معاشی مساوات کا کوئی عالمی نظام وضع نہ کرسکا۔ مغرب خدا کے انکار سے، اور طاقت کے ہر اظہار سے بھی دنیا کو اپنا نہ بناسکا۔ مغرب خدا کے نام پر جنگ سے بھی کچھ حاصل نہ کرسکا۔ مغرب لالچی، ظالم، اور متکبر ہی رہا۔ مغرب فساد فی الارض کا سبب ہی رہا۔
دوبارہ نتشے کے وہ جملے، جو مغرب کے مذہب عیسائیت پر نوحہ تھے، پاپائیت کی صفات اور اعمال پرگواہ تھے۔۔۔ وہی آج پھر دائیں بازو، نسل پرست، اور نوقدامت پرستوں کے مغرب پرصادق آرہے ہیں۔ اسلام سے تصادم اور مسلمانوں سے نا انصافیوں میں مغرب نے خدا کی تعلیمات کا استحصال کیا ہے۔ خدا کی اخلاقیات کا قتل عام کیا ہے۔ مذہبی مغرب کے ہاتھ ناحق خون سے رنگے ہیں۔ یہ خون صہیونیت اور صلیبیت کے نام پر بہایا جارہا ہے۔ کیا صلیبیت یا صہیونیت مذہب کی مقدس توجیحات سے خود کو مطمئن کرپائیں گی؟ کیا معصوم انسانوں کے خون سے لتھڑے ہاتھ کسی مقدس پانی سے پاک ہو پائیں گے؟ کیا مسلمانوں پر مظالم سے، اسلام کی کردارکشی سے مغرب کی تہذیب کوئی عالمگیر شناخت حاصل کرپائے گی؟ کیا اس ظلمِ اجتماعی سے مغرب کی عالمگیر شناخت کا مسئلہ حل ہوپائے گا؟ واشنگٹن سے پیرس اور دِلّی سے ماسکو تک اسلام سے خوف و دہشت کا کالا دھندہ مغربی تہذیب کی کوئی قابلِ قبول شناخت متعین کرسکے گا، یا عالمگیر حیثیت طے کرسکے گا؟ ہرگز نہیں، ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ عالمگیر شناخت کا حصول یوں ممکن نہ ہوگا۔ مغرب کی تہذیب تیزی سے زوال پذیر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے فرانس کے اسلام دشمن امیدواروں تک، اور دِلّی کی مسلمان دشمن حکومت سے تل ابیب کی غاصب حاکمیت تک مغرب کو عالمگیر شناخت کا
(باقی صفحہ 41پر)
سنگین مسئلہ درپیش ہے۔ یہ سب اسلام دشمنی میں ایک ہیں، مگر کوئی قابلِ قبول عالمگیر شناخت تشکیل دینے کے اہل نہیں۔
مغرب کو بالآخر تسلیم کرنا ہوگا کہ سورج مشرق ہی سے طلوع ہونا تھا، اور تادم حشر مشرق ہی سے طلوع ہوگا۔ عالمگیر شناخت کے لیے آفاقیت کی صفات و اعمال کا ہی حامل ہونا ہوگا۔ دین و دنیا دونوں معاملات میں مغرب کو اسلام کی آفاقی تہذیب سے ہی رجوع کرنا ہوگا۔ یہی واحد طریقہ ہے، جو مغرب کونتشے کے سوالات سے نجات دلاسکتا ہے۔