نیوکراچی میں جماعت اسلامی کے کام کا آغاز کرنے والوں میں شامل ارشاد الٰہی صاحب مورخہ 11نومبر 2016ء رات نو بجے 72 سال کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جاملے۔ جن لوگوں نے اپنی زندگی اللہ کی راہ میں وقف کی، انہیں دیکھ کر رشک آتا ہے۔ بلاشبہ ان پاکیزہ لوگوں کی موت بھی قابلِ رشک ہوتی ہے۔ مرحوم کے بڑے صاحبزادے نے بتایا کہ دفتر سے واپس آکر حسبِ معمول والد صاحب کے ساتھ کچھ دیر گفتگو کی۔ بلڈ پریشر اور شوگر چیک کی، تمام چیزیں نارمل تھیں، کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں تھی۔ کپڑے تبدیل کرنے بالائی منزل پر گیا اور تھوڑی دیر بعد چھوٹے بھائی کامران نے آواز دی کہ بابو کی طبیعت خراب ہورہی ہے، جلدی آئیں۔ اور جتنی دیر میں مَیں نیچے پہنچا، روح پرواز کرکے ابدی سکون حاصل کرچکی تھی۔
ارشاد الٰہی صاحب اور ان کے گھر والوں سے انسیت کی بڑی وجہ نیوکراچی میں تحریکی افراد کا ایک خاندان کی شکل اختیار کرلینا تھا۔ قرآن کی ابتدائی تعلیم بھی اسی گھر سے حاصل ہوئی۔ ہماری بدقسمتی تھی کہ ہمارے بچپن میں جامعۃ الاخوان جیسے مدارس موجود نہیں تھے جس کا قلق آج بھی ہوتا ہے اور کمی محسوس ہوتی ہے، لیکن یہ کمی کسی حد تک جماعت اسلامی حلقہ خواتین پوری کرتی تھی اور ایسا ہی ایک مدرسہ، صالحہ خالہ (مرحوم کی زوجہ) نے اپنے گھر میں کھولا تھا، یہ دعوت کا منفرد انداز ہے جس نے ہر دور میں کام کی راہیں تلاش کیں، اس سے نیوکراچی میں جماعت کا کام مستحکم ہوا۔ صالحہ خالہ بچوں کو قرآن کی تعلیم اور ان کے گھر کی خواتین کو جماعت کی دعوت دیتیں۔ ارشاد الٰہی صاحب بچوں کے گھر میں موجود حضرات سے روابط قائم کرتے۔ آج نیو کراچی میں جماعت اسلامی کا جتنا کام ہے اُس میں بڑا حصہ اس گھرانے کا ہے۔ اللہ اپنی رحمتیں، برکتیں اس گھرانے پر نازل کرے (آمین)
ارشاد الٰہی صاحب کی پوری زندگی ہمارے لیے مثال ہے۔ 80کی دہائی میں جب کراچی پوری طرح عصبیت کی گود میں چلا گیا، تو متاثرہ علاقوں میں نیو کراچی بھی تھا جہاں یہ جادو سر چڑھ کر بولا۔ ہر گلی، محلہ اس کے سحر میں مبتلا تھا، لیکن ان حالات میں بھی جماعت اسلامی کو نیوکراچی میں زندہ رکھا، اس کا وزن قائم رکھا۔ یہ ان ہی بزرگوں کی قربانیوں کا ثمر ہے۔ ہم سوچتے تھے کہ جن ظالموں نے لانڈھی، کورنگی، لیاقت آباد سمیت کئی علاقوں میں ہمارے کارکنان کا جینا دوبھر کردیا، انہوں نے نیو کراچی میں ایسے حالات کیوں نہیں پیدا کیے؟ اور کبھی بھی جماعت کا کام کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی، اس کی بنیادی وجہ ان بزرگوں کا دعوت کے لیے ڈٹ جانا، رخصت یا ہجرت کے بجائے ثابت قدمی اختیار کرنا اور جاری دعوتی سرگرمیوں کو حکمت کے ساتھ برقرار رکھنا ہے۔ انفرادی رابطوں کا نعم البدل کوئی نہیں، اوریہ ہر دور میں یہ سب سے مؤثر طریقہ رہا ہے جس کا آج فقدان ہے۔ انفرادی رابطے ہی تھے جن کی وجہ سے مشکل سے مشکل حالات میں بھی دعوت کی راہیں تلاش کی جاتی رہیں، اور تحریک میں نیا خون شامل ہوتا رہا۔ بزرگوں کا طریقۂ دعوت یہی تھا اور آج شدت سے اس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
ارشاد الٰہی صاحب مولانا ادریس (منظر عالم) کے والد صاحب سے متاثر ہوکر تحریک میں شامل ہوئے اور تحریک ان کی زندگی میں شامل ہوگئی۔ یہاں مولانا ادریس مرحوم کا تذکرہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ وہ اصل فرد تھے جنہوں نے نیو کراچی میں کام کی بنیاد رکھی۔ ایک تھیلا ہر وقت اُن کے ہمراہ ہوتا جس میں ترجمان القرآن اور اسلامی لٹریچر موجود ہوتا جسے وہ تقسیم کرتے اور سرگرمیوں کی دعوت دیتے۔ اُس وقت شاید ہی کوئی گھر ہو جس نے اُن سے کوئی نہ کوئی خدمت نہ لی ہو، جب ہی غریب پرور مولانا ادریس بی ڈی ممبر بنے، اللہ ان کی تمام سعی قبول فرمائے(آمین)۔ ارشاد الٰہی صاحب اسی گوہر نایاب کا تراشا ہوا ہیرا تھے، جنہوں نے حلقے کی نظامت سمیت علاقے کی مختلف ذمہ داریاں بہ حسن و خوبی انجام دیں۔
اسلامی جمعیت طلبہ سے فراغت کے بعد میری خوش نصیبی تھی کہ ارشاد الٰہی صاحب زون کے ناظمِ تربیت تھے۔ اجتماعِ امیدواران بھرپور ایجنڈے کے ساتھ کرنا اور تربیت کے لیے لٹریچر اور مواد کی فراہمی ان کا خاصہ تھا۔ انسان اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے دعا کرتا ہے لیکن جس کا سب کچھ تحریک ہو اور تحریک کے لیے وقف کردیا ہو اُس کی دعاؤں میں بھی تحریک شامل رہتی ہے۔ اس لیے مرحوم ہر وقت تحریک اور اس کے ذمہ داران کے لیے دعائیں کرتے۔ لوگ مال و متاع جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں اور ہرکوئی اپنی اور اپنی اولاد کے کل کی فکر کرتا ہے لیکن جس نے اصل متاع کو پہچان لیا جو آخرت میں کام آنے والی ہے اعمال و صدقہ جاریہ، وہ اس کی تیاری کرتا ہے۔ اجتماع اہل خانہ جو ہماری رپورٹ کا حصہ ضرور ہے لیکن کتنے لوگ اس کا اہتمام کرتے ہیں یہ لمحۂ فکریہ ہے، لیکن ارشاد الٰہی صاحب کا اس عمل کو مستقل کرنا ان کے لیے دنیا اور آخر ت میں آنکھوں کی ٹھنڈک، اجرِ عظیم اور ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنے گا (ان شاء اللہ)۔ باقاعدگی سے ہفتہ وار اجتماع اہلِ خانہ کے نتائج کچھ اس طرح ظاہر ہوئے کہ آج زون نیوکراچی کی ناظمہ مرحوم کی بیٹی ہیں، اس سے پہلے زوجہ اور بہو بھی اس ذمہ داری پر رہی ہیں۔ تمام بیٹے بھی الحمدللہ جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں، اور پوتے/ نواسے میں کوئی جمعیت کا رکن ہے، کوئی رفیق۔ کہتے ہیں کہ ایک فرد جماعت میں نہیں آتا بلکہ ایک خاندان تحریک کا حصہ بنتا ہے۔ ارشاد الٰہی صاحب نے اس کو عملاً ثابت کرکے دکھایا۔
ارشاد الٰہی کو بحیثیت مدرس یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ درس کا حق ادا کرتے تھے، موضوع کی مناسبت سے قرآنی آیات اور احادیث سے مزین نوٹس بناکر اہم باتوں کو حاشیہ سے نمایاں کرنا اور اخلاص و للہیت درسِ قرآن میں لوگوں کی دلچسپی کا باعث بنتی۔ دورانِ درسِ قرآن رقت طاری ہوتی اور اس کو نمایاں ہونے سے بچانے کے لیے ہونٹوں کو بھینچ لیتے تھے۔آخری دیدار میں بھی یہ بات محسوس کی کہ ابھی بھی ہونٹ اسی حالت میں ہیں، بالکل اس حدیث کے مطابق کہ انسان جس حال میں زندگی گزارتا ہے موت بھی اسی حال میں واقع ہوتی ہے۔
ارشاد الٰہی سمیت تمام بزرگوں کی جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ کامل یکسوئی تھی۔ انتخابات کے نتائج کچھ بھی ہوں، ہوا موافق ہو یا نہ ہو، جذبات کبھی سرد نہیں ہوئے، نہ ہی کبھی کسی کی غیبت کرتے ہوئے دیکھا۔ ذمہ داران بدلتے رہے لیکن کبھی بھی رفتار میں کمی نہیں آئی۔ نہ ان لوگوں سے کوئی ناراض ہوا، نہ یہ کسی سے ناراض ہوئے، نہ نظریاتی یکسوئی میں کوئی کمی واقع ہوئی۔ کبھی تقابل نہیں کیا کہ کل جماعت اچھی تھی اور آج کی جماعت میں یہ کمی ہے۔ ہمیشہ اپنے حصے کا کام کیا۔ مولانا کے اس قول کے مطابق کہ ہم تو دیہاڑی کے مزدور ہیں اور اس کی اجرت آخرت میں حاصل کریں گے۔ ان کا بھی ایک ہی مؤقف ہوتا کہ جماعت اسلامی ہماری مجبوری ہے کہ یہ آخرت میں کامیابی کا واحد ذریعہ ہے۔ ساری زندگی تحریکی افراد کے ساتھ رہے۔ آخری وقتوں میں بھی بیٹے سے فرداً فرداً نام لے کر حال احوال معلوم کرتے۔ امیر زون احمد قاری نے بتایا کہ دس دن قبل ان کا فون آیا، سب کی خیریت معلوم کرتے رہے اور کہا میں کچھ پریشان ہوں۔ امیر زون نے فوراً ناظم حلقہ کی ذمہ داری لگائی کہ معلوم کرے کہ کیا پریشانی ہے، معلوم ہوا کہ بہت دن سے تحریک
(باقی صفحہ 41پر)
کے افراد کے ساتھ وقت نہیں گزارا، کچھ افراد سے ملاقات کے خواہش مند ہیں تاکہ اگر کوئی تکلیف پہنچی ہو تو معافی تلافی کرلیں۔ پیرانہ سالی کے باوجود جب بھی طبیعت بہتر ہوئی تحریک کے لیے اپنے آپ کو پیش کردیا۔ وقت کی پابندی کا یہ حال کہ خواہ کوئی آئے نہ آئے ارشاد الٰہی صاحب بروقت اجتماع میں موجود ہوتے۔ چلنے میں دقت ہونے لگی تو اپنے گھر میں ہفتہ وار اجتماع منعقد کرنے لگے۔ اجتماع کے کمرے میں دیواروں پر قرآنی آیات، احادیث اور مولانا کے اقتباس تحریر کرکے تربیت کا خاص ماحول بنادیتے اور اجتماع تربیت گاہ کا منظر پیش کرتا۔ ان سے محبت اور عقیدت ہی تھی کہ جب جنازہ کے لیے امیر صوبہ ڈاکٹر معراج الہدیٰ سے رابطہ کیا تو باوجود مصروفیت کے انہوں نے فوری وقت دے دیا۔ امیر حلقہ نعیم الرحمن کو صبح اطلاع ملی اور پھر وہ دس بجے جنازہ میں لواحقین سے تعزیت کررہے تھے۔ محبت کرنے والوں کی کثیر تعداد موجود تھی اور ہر شخص گواہی دے رہا تھا اور دعا کررہا تھا: اے الٰہی! ارشاد صاحب نے اقامتِ دین کا حق ادا کردیا، اب تُو بھی اپنا وعدہ پورا کر اور قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا، ان کی مغفرت فرما اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما۔ آمین