نامزد آرمی چیف کو چھڑی تھما دی گئی جس کے بعد فوج کی کمان بدل چکی ہے، لیکن ترجیحات اور حکمت عملی نہیں بدلے گی۔ نئے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ ایک پُروقار تقریب میں سبک دوش ہونے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے کمان حاصل کرچکے ہیں۔ واضح رہے کہ حکومت نے راحیل شریف کو ایک سال کی توسیع کی پیشکش کی تھی او ریہ پیشکش چوہدری نثار اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف لے کر گئے تھے لیکن راحیل شریف نے دو سال کی توسیع مانگی تھی جس پر نواز شریف راضی نہیں ہوئے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ فوج کے سولہویں سپہ سالار ہیں، ان کا خاندان تین نسلوں سے فوج سے وابستہ ہے، ان کے والد اقبال باجوہ فوج میں کرنل تھے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقرری کا ملک بھر کی سیاسی جماعتوں نے خیرمقدم کیا ہے۔ وہ بہت سی خوبیوں کے مالک ہیں اور بہت خوش مزاج فوجی افسر ہیں۔ وہ اپنی رائے، جیسی بھی ہو، مخاطب پر واضح کرنے کے عادی ہیں اور اپنی بات منوانے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر امن قائم کرنا، کراچی آپریشن منطقی انجام تک پہنچانا، نیشنل ایکشن پلان کو سیاسی آلودگی سے پاک رکھنا، سی پیک منصوبہ مکمل کرانا اور فاٹا میں مستقل امن ان کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ جنرل راحیل شریف کی تقرری کے وقت فوج اور ملک کو جن مسائل اور حالات کا سامنا تھا جنرل قمر جاوید باجوہ کے لیے بھی ویسے ہی حالات ہیں۔ آپریشن ضربِ عضب ان میں سرفہرست ہے، اس آپریشن کے لیے دو سال کا وقت متعین کیا گیا تھا لیکن آج تین سال کے بعد بھی یہ مکمل نہیں ہوسکا، اور کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے، بلکہ آئی ڈی پیز کی صورت میں مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد بے گھر ہوکر بیٹھی ہوئی ہے۔ فاٹا آپریشن جس قدر جلد مکمل کرلیا جائے اور بے گھر ہونے والے آئی ڈی پیز کی اپنے گھروں میں واپسی ہوجائے یہ ملک کے لیے بہتر ہوگا۔ یہ ایک ایسا آپریشن ہے جس کے حوالے سے اب بھارت کی دلچسپی یہ ہے کہ یہ طوالت اختیار کرتا چلا جائے، جبکہ ہماری ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ اسے جلد مکمل کرلیا جائے تاکہ فاٹا میں سیاسی اصلاحات ہوسکیں اور سی پیک کا وہ حصہ جو یہاں سے گزرنا ہے وہ بھی وقت پر مکمل ہوسکے۔ یہ بہت بڑا ہدف ہے جسے جنرل قمر باجوہ کو اپنی مدت مکمل ہونے سے قبل حاصل کرنا ہوگا، جس کے لیے ضروری ہے کہ فوج کو ملک کے دیگر سیاسی مسائل میں الجھائے بغیر اپنا پیشہ ورانہ کام کرنے دیا جائے، اور جنرل قمر باجوہ اس حوالے سے ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ معلوم ہوتے ہیں، اسی لیے ان کی تقرری کے بعد آئی ایس پی آر نے بڑا کھلا پیغام دیا ہے کہ میڈیا فوجی تقرریوں سے متعلق بحث سے گریز کرے۔ یہ ہدایت اس بات کا بھی پتا دے رہی ہے کہ جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر باجوہ کے کام کرنے کے انداز مختلف ہوں گے۔ میڈیا سے کی جانے والی حالیہ اپیل سے یہ واضح ہورہا ہے کہ نئی فوجی قیادت پیشہ ورانہ امور پر توجہ کو اولین ترجیح سمجھتی ہے۔ پاک فوج کے حوالے سے ایک بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ وہ بھارت کو اپنا دشمن ملک سمجھتی ہے اور بلاشبہ یہ ہمارا دشمن ملک ہے، لیکن فوج یہ بھی سمجھتی ہے اور اس بات پر اس کا یقین ہے کہ اس دشمن نے دہشت گردی کی صورت میں ہمیں اندرونی سلامتی کے مسائل میں بھی الجھا رکھا ہے۔ اس خطہ میں اب بھارت، اسرائیل گٹھ جوڑ بھی قائم ہوچکا ہے، لہٰذا حکومت اور فوج دونوں کی توجہ اس بات پر ہوگی کہ ملک کی اندرونی سلامتی بھی یقینی بنائی جائے۔ فوج کی قیادت ملکی سلامتی کے حوالے سے اصل کام سے واقف ہے کہ اس وقت جو سینئر جرنیل فوج کی اگلی صفوں میں بیٹھے ہوئے ہیں وہ سب سقوطِ ڈھاکا کے بعد فوج میں شامل ہوئے ہیں، لہٰذا وہ ملک دشمنوں کی سرحدوں پر اور دیگر ذرائع سے سرگرمیوں کے انداز سے بخوبی واقف ہیں۔ جنرل قمرجاوید باجوہ نے سانحہ ڈھاکا کے گیارہ سال بعد 1982ء میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ وہ فوج کے باصلاحیت اور تجربہ کار جرنیل ہیں جن کی آرمی چیف کی حیثیت سے تقرری کے بہت سے پہلو ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ وہ فوج کی مسلسل پیشہ ورانہ تربیت اور جدید خطوط پر صف بندی کے قائل ہیں۔ ایک سپاہی کے طور پر وہ اسی کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ نیوکلیئر ڈاکٹرن میں جو تبدیلیاں لائی گئی تھیں ان میں جنرل قمر باجوہ کا کردار بنیادی نوعیت کا رہا ہے۔ جنرل راحیل شریف بھی اسی شعبے سے وابستہ رہے ہیں۔ اس شعبے کی کمان جنرل راحیل نے جنرل قمر کے سپرد کی تھی اور اب فوج کی کمان بھی انہی کے سپرد کرچکے ہیں، اس لحاظ سے ان کی تقرری سے سب سے بڑا پیغام یہی ہے کہ آنے والا جرنیل بھی جانے والے جرنیل سے مختلف اور کم صلاحیتوں کا حامل نہیں ہے۔
ملک اس وقت خطہ کی جس صورت حال کا سامنا کررہا ہے یقیناًاس صورت حال میں فوج کی کمان میں تبدیلی اور حکمت عملی زیربحث رہتی ہے، جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقرری بھی اس لحاظ سے زیربحث ہے، لیکن اطمینان اس بات کا ہے کہ ان کی تقرری کے وقت وزیراعظم نوازشریف نے معاملے کا بہت احتیاط سے جائزہ لیا، خطہ کی صورت حال سامنے رکھی، عالمی تناظر میں فوج کے بارے میں تاثر بھی مدنظر رکھا، آرمی چیف کی حربی صلاحیت کو حالاتِ حاضرہ کی میزان پر پوری طرح پرکھا گیا، تب کہیں جاکر یہ فیصلہ ہوا ہے۔ اگرچہ یہ بات کہی جارہی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے طویل سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ فیصلہ بہت پہلے کرلیا گیا تھا تاہم وزیراعظم نے اعلان اپنے وقت پر کیا۔ فوج میں کمان کی تبدیلی کے بعد اب نئی صف بندی ہوگی، یہ کوئی نئی بات نہیں، بلکہ جب بھی فوج کی کمان تبدیل ہوتی ہے تو یقینی طور پر فوج میں انتظامی لحاظ سے نئی صف بندی بھی کی جاتی ہے، جو جرنیل سپر سیڈ ہوجائیں وہ عمومی طور پر رخصت پر چلے جاتے ہیں، لیکن یہ کوئی ضروری بھی نہیں، تاہم فوج میں عمومی طور پر یہی ہوتا ہے، اب بھی یہ ہوگا۔ نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اب کورکمانڈرز کی تعیناتی کریں گے، ان میں راولپنڈی کی ٹین کور بہت اہم کور ہے جو لائن آف کنٹرول پر نظر رکھتی ہے۔ یہ فوج کی نہایت غیر معمولی کور سمجھی جاتی ہے۔ راولپنڈی، اسلام آباد اور یہاں موجود حساس مقامات کی حفاظت بھی اسی کے دائرۂ اختیار میں آتی ہے۔ اسی طرح ٹرپل ون بریگیڈ بھی اسی کی کمان میں ہوتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے آرمی چیف اس کور کے لیے کس جرنیل کا انتخاب کرتے ہیں۔ اسی کے کور کمانڈر لائن آف کنٹرول کی حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو حکومت اور فوج کے تعلقات ہمیشہ بحث کا بہت اہم موضوع رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آئیڈیل صورتِ حال یہ ہے کہ ملک کے چیف جسٹس اور آرمی چیف کی نہایت حساس پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے باعث انہیں میڈیا میں زیربحث نہیں لانا چاہیے، اور یہ بھی رائے دی جاتی ہے کہ انہیں خود بھی گم نام رہنا چاہیے۔ یقیناًیہ دونوں اس وقت گم نام رہیں گے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت نیک نام ہو۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں کوئی سیاسی بحران پیدا نہ ہو تو اسے چاہیے کہ انصاف پسند بنے اور اس کی عوامی شہرت حقیقی معنوں میں نیک نام ہو۔ بلاشبہ یہ بھی درست ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں سیاسی عمل میں عدم استحکام رہا ہے، کوئی بھی حکومت آئینی مدت مکمل کیے بغیر گھر جاتی رہی ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی نے مرکز میں اقتدار جب نوازشریف کے حوالے کیا تو کہا گیا کہ ایسا ملک کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ اب جب کہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ پاک فوج کے سربراہ بنے ہیں تو یہی بات فوج کی قیادت میں تبدیلی کے حوالے سے بھی کہی جاسکتی ہے۔ فوج میں کمان کی تبدیلی کی ملکی تاریخ میں جنرل عبدالوحید کاکڑ پاک فوج کے اب تک کے آخری سپہ سالار تھے جو اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد ریٹائر ہوئے۔جنرل موسیٰ خان، جنرل ٹکا خان، جنرل اسلم بیگ، جنرل عبدالوحید کاکڑ کے بعد، جنرل راحیل شریف ہیں جو تین سال کی مدت مکمل کرکے ریٹائر ہوئے ہیں۔ جنرل گل حسن اور جنرل جہانگیر کرامت سے استعفے لیے گئے، جنرل آصف نواز جنجوعہ دورانِ ملازمت انتقال کرگئے، جنرل ضیاء الدین بٹ تو محض دو گھنٹے کے آرمی چیف رہے جنہیں جنرل پرویزمشرف کے ساتھیوں نے قبول ہی نہیں کیا بلکہ آرمی چیف بننے پرگرفتار بھی کرلیا۔ یہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف نے ملک میں مارشل لا لگاکر کئی سالوں تک ملک کا نظم و نسق سنبھالا۔ ان میں جنرل ایوب خان اور جنرل پرویزمشرف ہائے ہائے کے نعروں کی گونج میں، اور جنرل ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہوجانے سے اقتدار سے الگ ہوئے۔ جنرل راحیل شریف کے پیش رو جنرل اشفاق پرویز کیانی ایک سال کی توسیع لے کر چار سال کے بعد ریٹائر ہوئے۔ ملکی حالات کا جواز پیش کرکے یہی مطالبہ جنرل راحیل شریف کے سامنے بھی رکھا گیا، کسی حد تک اس حوالے سے مہم بھی چلائی گئی، اور فیصلہ ہونے جارہا تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت تین سال کے بجائے چارسال کردی جائے، پاک فضائیہ اور پاک بحریہ اس سلسلے میں مثبت جواب دے چکی تھیں لیکن جنرل راحیل شریف نے کہا کہ یہ فیصلہ کرنا ہی ہے تو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کیا جائے۔ اب امکان ہے کہ اس فیصلے پر عمل ہوجائے۔ نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعد جی ایچ کیو میں کمان تبدیل ہونے کی تقریب ہوئی جس سے جنرل راحیل شریف نے الوداعی خطاب کیا، اپنے خطاب میں انہوں نے ایک بار پھر بھارت کو للکارا کہ وہ مہم جوئی سے باز رہے۔
حکومت کو سیاسی اور عدالتی محاذ پر ابھی بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم محاذ صوبہ سندھ ہے جہاں نیشنل ایکشن پلان کے مطابق امن قائم کرنے کی کوششوں میں حکومت ابھی تک کامیاب نہیں ہوپائی ہے۔ اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سندھ حکومت ہے، لیکن اسلام آباد میں یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ کراچی میں ہر قیمت پر امن قائم کرنا ہے۔ اب نئے آرمی چیف کی سب سے بڑی ترجیح کراچی اور سندھ میں امن قائم کرنا ہوگی۔ نیشنل ایکشن پلان پر اب نئی تازہ دم فوجی قیادت بہت اہم فیصلے کرنے والی ہے۔ فوجی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ فاٹا میں امن قائم ہوچکا ہے، اب وہاں پر عوام کی شرکت ممکن بنا کر انتظامی مشینری کو متحرک کرنا باقی رہ گیا ہے، لیکن کراچی میں مسائل ابھی موجود ہیں۔ اب فیصلہ یہ ہوا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کو سیاسی اثرات سے پاک کیا جائے گا اور کسی سے بھی رعایت نہیں ہوگی۔ بہت پہلے سوچا گیا تھا کہ ایم کیو ایم کے بحران کے بعد کراچی میں نئے سرے سے بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں، لیکن یہ تجویز بہت غور کے بعد ختم کردی گئی۔ اب فیصلہ ہوا ہے کہ سندھ اور مقامی حکومت کام کرے گی لیکن سہولت کار جہاں بھی ہوں گے انہیں کسی قیمت پر نہیں چھوڑا جائے گا۔ یہ بھی فیصلہ ہوا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر اسی وقت کامیابی سے عمل ہوگا جب کراچی کے شہریوں کے بنیادی مسائل حل ہوں، اس ضمن میں سفارشات مرتب ہورہی ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی جب بھی بات کی جاتی ہے پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم اسے ایک ایشو بنا لیتی ہیں، اب بھی پیپلزپارٹی نے اس جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے شوشا چھوڑ دیا ہے کہ آصف علی زرداری ملک واپس آرہے ہیں۔ پارٹی کی قیادت اس معاملے کو اس قدر بلکہ اس حد تک سیاسی ایشو بنانا چاہتی ہے کہ یہ بات ثابت کردی جائے کہ آصف زرداری کو وطن واپس نہیں آنے دیا جارہا ہے، حالانکہ وہ خود اپنی مرضی سے باہر گئے اور مرضی سے ہی واپس آئیں گے۔ پیپلزپارٹی ایک نئی سیاسی حکمت عملی بھی سامنے لائی ہے کہ بلاول بھٹو کو قومی اسمبلی میں لانے کی تیاری ہورہی ہے تاکہ فرینڈلی اپوزیشن کا تاثر ختم
(باقی صفحہ 41پر)
کیا جا سکے اور تحریک انصاف نے جس طرح احتجاج کی سیاست کرکے خود کو اپوزیشن جماعت ثابت کیا ہے اُس سے یہ سیاسی ساکھ چھین لی جائے۔ اسی لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ بلاول بھٹو اسی سال سے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے طور پر پارلیمانی سیاست کا آغاز کریں۔ اپنی والدہ کی نشست پر منتخب ہونے کے بعد وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرکا کردار ادا کریں گے۔ رہ گئی بات پاناما لیکس کی، تو تحریک انصاف اس حوالے سے کچھ نئے شواہد عدالت میں پیش کرنے جارہی ہے۔ حکومت بھی وزیراعظم کے بچوں کی بینک دستاویزات پیش کرے گی۔ اس کیس کی سماعت کے دوران اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ ایک عدالتی شخصیت نے ملاقات کے لیے وقت مانگ لیا ہے۔ یہ ملاقات کب اور کس ایجنڈے پر ہوگی اس بارے میں تفصیلات سامنے نہیں آسکی ہیں۔ اس کے باوجود عمران خان پُرامید ہیں کہ نئی تاریخ بننے جا رہی ہے، پاناما لیکس پر عدالتی فیصلہ تاریخ ساز فیصلہ ہوگا۔ nn