قبائل کے بارے میں ماضی میں اتنا پروپیگنڈا کیا گیا ہے کہ جب بھی ان کا ذکر سامنے آتا ہے تو انہیں ایک غیر مہذب، اجڈ اور دہشت گرد قوم کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ قبائل پر دہشت گردی کے الزامات لگنے اور قبائلی علاقوں کو دہشت گردی پیدا کرنے کی نرسریاں قرار دینے سے پہلے ان علاقوں کو علاقہ غیر کے نام سے بدنام کرنے کی ذہنیت اور سوچ کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ کسی زمانے میں قبائل کے سر ہیروئن فروشی، اسمگلنگ، اغوا برائے تاوان اور خوں ریزی میں مہارت جیسے قبیح الزامات تھوپنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا۔ قبائل کی اس ہولناک تصویرکشی میں اپنوں، پرایوں سب نے ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ ڈالنے کی کوشش کی۔ قبائل کے ساتھ اس زیادتی پر بیرونی قوتوں اور بیرونی اداروں کا سلوک تو کسی حد تک قابلِ فہم تھا، لیکن اپنوں کی جانب سے اس امتیازی سلوک کی وجہ آج تک سمجھ میں نہیں آسکی ہے کہ آخر انہوں نے ایسا کیوں کیا! قبائل کے ساتھ ایک اور ظلم یہ ہوا کہ ایک جانب ان کو منظم انداز میں بدنام کرنے کا سلسلہ جاری رہا اور دوسری جانب انہیں بعض مخصوص مفادات کے لیے رٹے رٹائے القابات کے تحت پاکستان کے بازوئے شمشیرزن، پاکستان کے وفادار اور بے تنخواہ سپاہی جیسے خوشنما القابات سے بھی نوازا جاتا رہا۔ قبائل کے ساتھ دوسرا ظلم یہ ہوا کہ ان کی سادگی اور اخلاص کو سربازار نیلام کرتے ہوئے پہلے کشمیر اور بعد ازاں افغان جہاد میں بطور نرم چارہ جھونکا گیا۔ اسی طرح افغان جہاد کے دوران اور طالبان دورِ حکومت میں بیرونی دنیا سے بڑی تعداد میں غیر ملکی مجاہدین کو پہلے قبائلی علاقوں کی راہ دکھائی گئی اور بعد میں وہاں موجود قانونی، سیاسی اور انتظامی خلا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان ہزاروں غیر ملکی جنگجوؤں کو ایک جانب یہاں آزادانہ بسایا گیا تو دوسری طرف بعد میں ان لوگوں کو عالمی امن کے لیے بہت بڑے خطرے سے تعبیر کرتے ہوئے ان کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے ذریعے امریکہ اور دیگر مغربی قوتوں کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان اقدامات کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیاگیا کہ مغرب اور امریکہ کی خوشنودی کے لیے ہمارے حکمران کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب یہاں عسکری عملیات کے ذریعے عام لوگوں کی زندگی کو اس بری طرح تہہ وبالا کیاگیاکہ ان کے زخموں کو مندمل ہونے میں شاید صدیاں لگ جائیں گی۔
قبائل کی زبوں حالی کے بارے میں مجھے نوحے کی صورت میں یہ طویل تمہید محمد عرفان محسود نامی ایک ایسے نوجوان قبائلی کے کارنامے جاننے کے تناظر میں باندھنی پڑی ہے جس نے آئی ڈی پی بننے کو اپنا روگ نہیں بنایا بلکہ اس نے بے گھر ہونے کی کیفیت کو نہ صرف ایک چیلنج کے طورپر قبول کیا بلکہ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں اور عزم کو بروئے کار لاتے ہوئے مارشل آرٹ کے شعبے میں عالمی سطح پر نام کمانے کا راستہ اپنایا۔ عرفان محسود ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنی مدد آپ کے تحت مارشل آرٹ کی ایک چھوٹی اکیڈمی قائم کرکے جہاں اپنے بعض کارناموں کے ذریعے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام درج کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں وہاں انہوں نے اپنے عزم اور کارکردگی سے ثابت کیا ہے کہ اگر ہمت جوان ہو تو انسان نامساعد حالات میں بھی بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق عرفان محسود جن کا تعلق جنوبی وزیرستان کے محسود قبیلے سے ہے اور جو گومل یونیورسٹی میں ایم فل فائن آرٹس کے طالب علم ہیں، چالیس دن کے قلیل عرصے میں پانچ عالمی ریکارڈ قائم کرکے قبائلی علاقوں کے پہلے اور پاکستان کے چوتھے کھلاڑی بن گئے ہیں جنہیں یہ ریکارڈ اپنے نام کرنے کا منفرد اعزاز حاصل ہوا ہے۔ عرفان محسود نے اپنی کمر پر 40 پونڈ وزن کے ساتھ اپنی ایک ٹانگ ہوا میں اٹھاکر ایک منٹ میں سب سے زیادہ یعنی21 پش اپ لگانے کا ریکارڈ قائم کیاہے۔ اس کے علاوہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے انہیں چالیس دن کے مختصر عرصے میں مسلسل ریکارڈ توڑنے والا کھلاڑی بھی قرار دیا ہے۔ انہوں نے ایک ٹانگ پرکھڑے ہوکر گھٹنے سے ایک منٹ میں 87 کک لگانے کا اعزاز بھی حاصل کیا ہے۔
عرفان محسود نے راقم الحروف سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اب تک جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ ان کی شبانہ روز محنت کا ثمر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ سب کچھ اپنی مدد آپ کے تحت کررہے ہیں اور بار بار کی درخواستوں کے باوجود اب تک کسی بھی حکومتی ادارے نے ان کی کوئی مدد نہیں کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چند سال پہلے جب انہیں اپنے خاندان کے ہمراہ بے سروسامانی کی حالت میں جنوبی وزیرستان سے نکلنا پڑا تھا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان اعزازات سے سرفراز ہوں گے اور ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہوگا۔ مارشل آرٹ کے شعبے کے انتخاب کے متعلق عرفان محسود نے کہا کہ انہیں بچپن ہی سے کھیل کود خاص کر کشتی،کبڈی اور جوڈو کراٹے کھیلنے میں دلچسپی تھی، لیکن چونکہ وزیرستان میں انہیں نہ تو کسی قسم کی سہولیات دستیاب تھیں اور نہ ہی اس سلسلے میں ان کی راہنمائی کرنے والا کوئی سینئر فرد موجود تھا اس لیے جب انہیں آئی ڈی پی بن کر اپنا گھربار چھوڑکر ڈیرہ اسماعیل خان میں پناہ لینا پڑی تو یہاں انہوں نے چند دیگر دوستوں کے ہمراہ مارشل آرٹ میں حصہ لینا شروع کیا اور اب الحمدللہ وہ خود ایک اکیڈمی چلا رہے ہیں جس میں وزیرستان کے نوجوانوں کے علاوہ کئی مقامی نوجوان بھی مارشل آرٹ کی تربیت حاصل کررہے ہیں۔ عرفان محسود نے کہا کہ وہ اپنی تعلیم کی تکمیل کے ساتھ ساتھ مارشل آرٹ میں بین الاقوامی سطح پر ملک وقوم کا نام روشن کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے ان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومتی ادارے ان کی پذیرائی کریں تو وہ نہ صرف کئی دیگر عالمی ریکارڈ بنا سکتے ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ملک وقوم اور بالخصوص قبائل کا نام روشن کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
عرفا ن محسود کی کارکردگی اورکارناموں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اگر قبائلی نوجوانوں کو زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتیں دکھانے کے مواقع فراہم کیے جائیں تو ان میں نہ صرف مختلف شعبوں میں گراں قدر خدمات اور کارنامے انجام دینے کی استعداد موجود ہے بلکہ ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر انہیں دہشت اور خوف کی فضا سے باہر نکال کر پُرامن اور قابلِ فخر شہری بھی بنایا جاسکتا ہے جو یقیناًقبائل کے ساتھ ساتھ خود پوری قوم کی بھی ضرورت ہے۔ امید ہے عرفان محسود جیسے باصلاحیت نوجوانوں کو اپنی صلاحیتیں ملک وقوم کی خاطر بروئے کار لانے کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ریاست کے تمام متعلقہ ادارے اپنا قومی اور اخلاقی کردار ادا کرنے میں کسی مصلحت اور چشم پوشی سے کام نہیں لیں گے۔ nn