حامد ریاض ڈوگر

275

جسارت سنڈے میگزین: محترم امیر جماعت اسلامی ! 27,26 نومبر کو جماعت اسلامی کے زیر اہتمام کراچی میں ’’سندھ ورکرز کنونشن‘‘ منعقد کیا جا رہا ہے اس کے مقاصد کیا ہیں اور اس سے آپ کی کیا توقعات وابستہ ہیں؟
سینیٹر سراج الحق: ہمارے تمام اجتماعات کا بنیادی مقصد اس پیغام کو عام کرنا ہے کہ اسلامی نظام ہی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے اور جو طبقہ ہمارے اقتدار پر مسلط ہے وہ مسائل میں کمی کی بجائے اضافہ کا سبب بن رہا ہے۔ اور یہ مسائل ایک کینسر کی حیثیت حاصل کرتے چلے جا رہے ہیں۔ جس سے نجات صرف جماعت اسلامی ہی دلا سکتی ہے۔وقت کا تقاضہ ہے کہ ہمارے کارکنان عوام کے اندر جا کر اسلامی انقلاب کے لیے قوم کو تیار کریں۔ پیپلز پارٹی ایک طویل عرصہ سے سندھ کے اقتدار پر مسلط ہے مگر عوام کے مسائل کے حل کے لیے عملاً اس نے کچھ نہیں کیا اور عام آدمی کرپشن ، بدعنوانی، غربت ، بے روز گاری، مہنگائی اور بدحالی سے دو چار ہے۔ دشمن قوتیں منظم طور پر معاشرے میں بے حیائی ، لادینیت بے راہ روی اور بے حیائی کو فروغ دے رہی ہیں۔ سندھ کی سرزمین شدید بحرانوں سے دو چار ہے خراب طرز حکمرانی کے باعث ادارے تباہ و برباد ہو کر رہ گئے ہیں، میرٹ نام کی کوئی چیز نہیں اندرون سندھ کے عوام کی حیثیت بھیڑ بکریوں سے زیادہ نہیں وہ اپنے وڈیروں کے اشارے پرووٹ دینے پر مجبور ہیں مگر ان کو بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں اس صورتحال سے عوام خصوصاً نوجوانوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ ان حالات میں جماعت اسلامی کا یہ اجتماع روشنی کی ایک کرن ثابت ہو گا ، عوام کو امید کا پیغام دے گا اور صوبے میں نوید انقلاب بنے گا۔
جسارت سنڈے میگزین: کل پاکستان اجتماع عام، جماعت اسلامی کی روایت رہی ہے مگر اس سال یہ اجتماعات صوبوں کی سطح تک محدود کر دیئے گئے ہیں جس سے ملک کے مختلف صوبوں اور علاقوں کے لوگ باہمی تبادلہ خیال اور ملک گیر روابط کے موقع سے محروم ہو گئے ہیں قومی اتحاد و یگانگت، یکجہتی اور ہم آہنگی کے فروغ کا ایک مثبت اور تعمیری موقع ختم کیوں کر دیا گیا ہے؟
سینیٹر سراج الحق: صوبائی اجتماعات کا انعقاد ملک گیر اجتماع کی نسبت قدر آسان ہے کیونکہ اب پورے ملک کی سطح کے اجتماع کے انتظامات خاصے مشکل ہو گئے ہیں۔ یہ اجتماع ہر سال ممکن نہیں کیونکہ اس کے لیے درکار بڑے پیمانے پر وسائل کی فراہمی بھی ایک مسئلہ ہے حکومتیں بھی اس میں روڑے اٹکاتی ہیں یوں بھی 2018ء کے عام انتخابات کا مرحلہ جلد ہی آنے والا ہے چنانچہ صوبائی سطح پر اجتماعات کا فیصلہ کیا گیا اور یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں اس سے پہلے بھی صوبوں کی سطح پر اجتماعات ہوتے رہے ہیں اور ہم نے کل پاکستان اجتماع کو ختم نہیں کیا ان شاء اللہ آئندہ پورے ملک کی سطح پر بھی اجتماعات کریں گے۔
جسارت سنڈے میگزین: کل پاکستان اجتماعات میں بیرون ملک سے دیگر اسلامی تحریکوں کے قائدین اور مندوبین کو بھی مدعو کیا جاتا تھا۔ صوبائی سطح کے اجتماعات میں شاید بین الاقوامی اسلامی تحریکوں کی سرگرمیوں سے آگاہی کا یہ تسلسل بھی برقرار نہیں رہ سکے گا۔۔۔ اس کا کوئی متبادل آپ کے پیش نظر ہے؟
سینیٹر سراج الحق: موجودہ دور میں سوشل میڈیا بہت ترقی کر گیا ہے اور اس کے ذریعے دنیا بھر کی سرگرمیوں تک آسانی سے رسائی ممکن ہو گئی ہے اسلامی تحریکوں سے متعلق معلومات اور آگاہی کے لیے بھی یہ میڈیا خاصہ مدد گار اور موثر ہے۔ تاہم ہمارے صوبائی اجتماعات میں بھی غیر ملکی مندوبین تشریف لاتے ہیں سندھ ورکرز کنونشن میں بھی اور اس سے قبل صوبہ خیبر کے اجتماع میں بھی ترکی اور فلسطین کے اہم قائدین نے خطاب کیا۔
جسارت سنڈے میگزین: صوبہ خیبر میں اجتماع عام اور بلوچستان و پنجاب میں ارکان و امیدواران کے اجتماعات پہلے ہی منعقد ہو چکے ہیں۔ یہ اجتماعات اپنے متعینہ مقاصد کے حصول میں کس حد تک کامیاب رہے؟
سینیٹر سراج الحق: الحمد للہ! ہمارے یہ اجتماعات بہت کامیاب اور مفید ثابت ہو ے ہیں صوبہ خیبر میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہماری دعوت پر اجتماع میں آئے۔خواتین کی بھی اتنی بڑی تعداد اجتماع میں شریک ہوئی جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور اس کو دیکھ کر اپنے پرائے سب دنگ رہ گئے۔ اس کے علاوہ علماء،طلبہ، اساتذہ ،محنت کشوں اور نوجوانوں کی بھر پور شرکت نے اس اجتماع کو زبردست کامیابی سے ہمکنار کیا ۔ بلوچستان اور پنجاب کے اجتماعات اگرچہ عام نہیں تھے اور انہیں ارکان و کارکنان تک محدود رکھا گیا تھا اس کے باوجود حاضری کے لحاظ سے بھر پور ہونے کے ساتھ ساتھ کارکنوں کی تربیت اور تزکیہ کے حوالے سے بھی یہ اجتماعات نہایت مفید اور بامقصد رہے ان اجتماعات میں صوبوں کے مسائل زیر بحث لانے کا بھی موقع ملا اور ہم کارکنوں کو اس بات پر یکسو کرنا چاہتے تھے کہ پاکستان میں اسلامی انقلاب کا راستہ جمہوری راستے سے ہی ممکن ہے اور اس کی کامیابی تبھی یقینی ہو گی جب جمہور کے ساتھ ہمارا مضبوط اور مستحکم رشتہ استوار ہو گا۔ ہمیں اپنے رویوں کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانی ہے اور اپنی دعوت کو محبت اور خدمت کی بنیاد پر آگے بڑھاتے ہوئے جماعت اسلامی کو عوامی مقبولیت کی جانب بڑھانا ہے۔ ان اجتماعات کے ذریعے ہم نے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ جماعت اسلامی نہ صرف خود منظم ہے بلکہ کسی شور و ہنگامے کے بغیر لاکھوں لوگ59وں کی بستیاں انتہائی منظم انداز میں بسا بھی سکتی ہے اور چلا بھی شکتی ہے۔
جسارت سنڈے میگزین: سندھ خصوصاً شہری علاقوں کی انتخابی سیاست میں جماعت اسلامی کے ماضی کے موثر کردار کی بحالی میں ’’سندھ ورکر کنونشن‘‘ کس حد تک معاون ہو سکے گا؟
سینیٹر سراج الحق: سندھ ورکرز کنوننشن کراچی میں ہو رہا ہے اور اس کے اثرات بھی کراچی پر منعقد ہو گئے ہم صرف بھیڑجمع نہیں کرتے بلکہ اپنے ساتھیوں کی تربیت کرتے ہوئے انہیں نظریاتی طور پر بھی تیار کرتے ہیں۔ ہم اپنے ساتھ چلنے والوں کو یہ پیغام بھی دیتے ہیں کہ دوسروں کی طرف دیکھنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ’’ہم بدلے تو زمانہ بلے گا‘‘۔ اور ہم اس یقین کو پختہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی ہی میں دنیا کا کامیابی ہے اور آخرت میں جنت کے حصول کا راستہ بھی یہی ہے۔ جماعت اسلامی لوگوں کو جوڑنا چاہتی ہے اور ان پر واضح کرتی ہے کہ مسلکی، علاقائی اور لسانی تعصبات کی بنیاد پر تقسیم سے معاشرے ترقی کی جانب نہیں بڑھتے بلکہ یہ تعصیبات ان کے تنزل کا باعث بنتے ہیں۔
جسارت سنڈے میگزین: ایم کیو ایم کو درپیش حالات اور اس کی تقسیم در تقسیم سے سندھ کی شہری سیاست پر اس کی گرفت کس حد تک کمزور ہوئی ہے اور جماعت اسلامی نے اس خلا کو پر کرنے کے لیے کیا کوئی منصوبہ بندی کی ہے؟
سینیٹر سراج الحق: ایم کیو ایم کا باہمی انتشار اور تقسیم اس بات کی علامت ہے کہ یہ باب اب بند ہو چکا۔ جماعت اسلامی اس کے خلاء کو پر کرنے کے لیے منظم اور باصلاحیت کارکنوں کی ٹیم کے ساتھ میدان میں موجود ہے۔کراچی اور حیدر آباد کے گلی کوچوں میں لوگوں کی خدمت کے لیے ہمارے دفاتر موجود ہیں جماعت اسلامی نے مشکل ترین حالات میں بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا اور تشدد کے مقابلے میں تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ ہر طرح کے مصائب و مشکلات کا صبر و تحمل کے ذریعے مقابلہ کرتے ہوئے ہم سرخ رو ہوئے ہیں اور اب وہ لمحہ آن پہنچا ہے کہ لوگ جماعت اسلامی کی قیادت میں اسلام کا جھنڈا تھام کر آگے بڑھیں شہری اب خود کہتے ہیں کہ جو ترقیاتی کام جماعت اسلامی کے ادوار میں ہوئے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی اسی طرح شہر میں امن بھی تب ہی تھا جب جماعت اسلامی تھی۔
جسارت سنڈے میگزین: سندھ کی دیہی سیاست پر طویل عرصہ سے پیپلز پارٹی کا غلبہ ہے، کیا اندروان سندھ وڈیروں اور جاگیر داروں کی سیاست میں جماعت اسلامی کی پیش رفت کے بھی کچھ امکانات ہیں؟
سینیٹر سراج الحق: ہمارے کارکن اندرون سندھ نظریاتی اور دعوتی کام میں مصروف ہیں یہ پورا علاقہ جاگیرداروں کی سخت گرفت میں ہے تھانہ کچہری اور پٹواری سب ان کے ہاتھ میں ہیں۔ عام ہاریوں کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کیا جاتا ہے ان کو کسی قسم کا کوئی حق حاصل نہیں اور ان کا کام صرف وڈیروں کے بنگلوں کا طواف کرنا اور ان کے کھیتوں میں دن رات محنت کر کے جاگیر دار کے لیے غلے کے ڈھیر پیدا کرنا ہے ان کے اپنے گھر اور بچے دو وقت کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہیں کھا سکتے۔ ان کے چہروں کی زردی اور جسمانی کمزوری ظاہر کرتی ہے کہ وہ غیر انسانی سلوک کے شکار ہیں۔ ہم لوگوں میں یہی شعور بیدار کر رہے ہیں کہ اس صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ تمام مظلوم ظلم کے خلاف اکٹھے ہو جائیں۔ محروم ، مجبور ، بے کس، بے بس اور نظام کے ستائے ہوئے لوگوں کی نجات صرف جماعت اسلامی کا ساتھ دینے میں ہے۔ اسلام کے عملی نفاذ ہی سے سندھ کے مسلمانوں کو بھی امن ملے گا اور غیر مسلم بھی چین سے زندہ رہ سکیں گے۔
جسارت سنڈے میگزین: کرپشن کے خلاف جماعت اسلامی طویل عرصہ تحریک برپا کئے ہوئے ہے ’’پانامہ لیکس‘‘ کے بعد دیگر جماعاتیں بھی اس میدان میں کود پڑیں۔ آج کل یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے، جماعت اسلامی بھی اس میں ایک فریق ہے مگر جماعت اسلامی کی آواز یہاں کچھ نمایاں اور بلند سنائی نہیں دیتی، اس کی وجہ کیا ہے اور آپ عدالت عظمیٰ سے اس ضمن میں کیا توقع رکھتے ہیں؟
سینیٹر سراج الحق: کرپشن کے خلاف ہماری موجودہ ’’کرپشن فری پاکستان‘‘ مہم یکم مارچ کو شروع ہوئی تھی اس وقت تک پانامہ لیکس کا کہیں ذکر نہیں تھاپھر پانامہ لیکس آئیں تو دیگر جماعتیں بھی اس مہم میں شریک ہو گئیں۔ہم ان سب کا خیر مقدم کرتے ہیں ؂
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
عدالت عظمیٰ سے ہماری درخواست ہے کہ وہ ایک کمیشن بنائے اور دلیل اور ثبوت لانے کا بوجھ عوام کی بجائے نیب اور ایف آئی اے جیسے اداروں کے سپرد کرے۔ ہم چاہتے ہیں کہ احتساب سب کا اور بے لاگ ہو اگر ایسا ہو گیا اور آئین کی دفعات 63,62 پر ان کی روح کے مطابق عمل کیا گیا تو کرسیوں پر نظر آنے والے موجودہ چہرے جیلوں میں نظر آئیں گے۔
20 کروڑ عوام کی خاطر پانچ، چھ ہزار کرپٹ افراد کی قربانی کوئی بڑی اور بری بات نہیں۔ میں نے چند روز پہلے لاہور ٹیکس بار کے ارکان سے خطاب کے دوران بھی عدالت عظمیٰ سے درخواست کی تھی کہ وہ قوم کو مایوس نہ کرے اگر ایسا ہوا تو ملک میں انارکی اور خانہ جنگی کا شدید خطرہ ہے کیونکہ ماضی کی تاریخ بتاتی ہے کہ کرپٹ اشرافیہ اور حکمران ٹولہ ہمیشہ قانون کی گرفت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ان لٹیروں کا کبھی احتساب نہیں ہوا جس کی وجہ سے لوگ اس اندیشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ کہیں اس دفعہ بھی ان بدعنوان عناصر کے لیے عدالت سے ’’نظریہ ضروروت‘‘کا کوئی دروازہ نہ کھل جائے۔پاناما لیکس کا مقدمہ فی الحقیقت ملکی سلامتی اور بقاء کا معاملہ ہے یہ کوئی سیاسی مقدمہ نہیں جیسا کہ اسے رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حکمران ٹولہ خود تو ٹیکس دیتا نہیں مگر اپنی عیاشیوں کے لیے غریب عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ 18ٗ18 ملوں کے مالک بھی روز مرہ کی اشیاء پر وہی ٹیکس دے رہے ہیں جو ایک محنت کش، مزدور اور دیہاڑی دار دیتا ہے ہمارا مطالبہ بڑا واضح اور دو ٹوک ہے کہ بدعنوان ، قرضے معاف کروانے والے اور پانامالیکس میں شامل تمام لوگوں کا احتساب ہونا چاہئے وہ حکومت میں ہوں یا حزب اختلاف میں۔
جسارت سنڈے میگزین: وزیر اعظم محمد نواز شریف کی موجودہ حکومت اپنی دو تہائی سے زیادہ مدت پوری کر چکی ہے اور سرکاری طور پر ملک میں تعمیر و ترقی اور خوش حالی کا خواب ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔۔۔ آپ کی رائے حکومت کی اب تک کی کارکردگی سے متعلق کیا ہے؟
سینیٹر سراج الحق: مسائل حکمرانوں کے حل ہوئے ہیں اور ترقی بھی انہیں کے کارخانوں اور کاروبار کو حاصل ہوئی ہے۔ عوام کے حصے میں خوشحالی تو نہیں آئی ان کے ہاتھ بے روز گاری، بے بسی، ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں آیا ان کے مسائل میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے۔ معصوم اور بے گناہ لوگوں کا خون بہہ رہا ہے لوگ سڑکوں پر لٹ رہے ہیں۔ پنجاب میں حکمرانوں نے پولیس کے زور پر کنٹرول کر رکھا ہے عوام سے کئے گئے انتخابی وعدوں میں سے کوئی بھی ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ معاشرے میں انتشار اور بے چینی بڑھ رہی ہے خصوصاً چھوٹے صوبوں اور غریب علاقوں میں لوگ حکمرانوں کی نا انصافی کے خلاف شکوہ کناں ہیں۔ جنوبی پنجاب میں زبردست استراب پایا جاتا ہے وسائل کا بھاؤ یکطرفہ طور پر مخصوص علاقوں کی طرف ہے۔ عوام تعلیم ، صحت، چھت اور روز گار کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ملک کے 14 لاکھ شہری کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہے اور اس مرض کے ہاتھوں ہر سال 80 ہزار پاکستانی لقمہ اجل بن رہے ہیں ملک کے دو کروڑ بچے اسکولوں میں نہیں جا رہے لوگ غربت کے ہاتھوں تنگ آ کر اپنے معصوم بچوں سے محنت مزدوری کروانے اور پھر بھی دو وقت کی عزت کی روٹی حاصل نہ کر سکنے پر خود کشیوں پر مجبور ہے اس استحصالی نظام سے صرف جماعت اسلامی ہی عوام کو نجات دلا سکتی ہے کیونکہ ہمارے مخالفین بھی ہمارے کارکنوں کی امانت و دیانت اور جماعت اسلامی کے حقیقی جمہوری جماعت ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ ہم اقتدار میں آئے تو کرپشن کے سانپ کا سر کچل کر لوگوں کے لیے وسائل فراہم کریں گے اور انہیں روز مرہ استعمال کی پانچ بنیادی اشیاء آٹا، چاول، چائے اور گھی وغیرہ پر سبسڈی دیں گے اور ان کی خصوصی رعایتی نرخوں پر لوگوں کو فراہمی یقینی بنائیں گے۔ اسی طرح جماعت اسلامی عوام کے لیے مفت تعلیم کے ساتھ ساتھ پانچ موذی امراض کا مفت علاج بھی لوگوں کو مہیا کرے گی۔ ان امراض میں گردے، تھیلسیمیا، کینسر، یرقان اور دل کے امراض شامل ہیں۔
جسارت سنڈے میگزین: ایل او سی اور ملحقہ پاک بھارت سرحد پر کشیدگی آج کل عروج پر ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت کی یہ اشتعال انگیزی اور جنگی جنون کہیں خطے کو جوہری تصادم سے تو دو چار نہیں کر دے گا۔۔۔؟
سینیٹر سراج الحق: بھارت کی اشتعال انگیزی اور جارحیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور کنٹرول لائن پر فائرنگ اور بے گناہ پاکستانیوں کی شہادتیں روز مرہ کا معمول بن چکی ہیں۔ دراصل بھارت کشمیر پر اپنا کنٹرول ختم ہوتا دیکھ رہا ہے اور وہ عملاً وہاں کے عوام کے ہاتھوں شکست کھا چکا ہے۔ اپنی اس شکست کو چھپانے اور پاکستان کو کشمیری مسلمانوں کے مبنی برحق موقف کی حمایت سے روکنے کے لیے یہ جارحانہ اور اشتعال انگیز کارروائیاں کر رہا ہے وہ کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے اور عالمی رائے عامہ کی آنکھوں سے اس مسئلہ کو اوجھل رکھنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے حکومت پاکستان کو اس کا زور دار جواب دینا چاہئے۔ اور عالمی سطح پر ایسا ماحول بنانا چاہیے کہ دنیا کو ان بھارت اشتعال انگیزیوں کے باعث خطے میں امن کو در پیش خطرات کی سنگینی کا احساس ہو سکے۔ یہ بات بھی دنیا اور بھارت پر واضح کرنی چاہئے کہ بھارت اگر بڑا ملک ہے تو جنگ کی صورت میں اس کا نقصان بھی بڑا ہو گا۔ ہم بھارت کے انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے غیور عوام اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ ملکی دفاع کے لیے تیار ہیں۔ اور اگر بھارت نے ماضی کی طرح پاکستان کے خلاف کوئی حماقت کرنے کی کوشش کی تو پاکستانی قوم اپنی مسلح افواج کے ساتھ مل کر اسے ایسا سبق سکھائے گی کہ اس کی آنے والی نسلیں اسے ہمیشہ یاد رکھیں گی۔
جسارت سنڈے میگزین: پاک فوج کے موجودہ سربراہ جنرل راحیل شریف چند دنوں میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کی خواہشات اور توقعات کے برعکس انہوں نے ملک کی سیاست میں عملی مداخلت سے گریز کا راستہ اختیار کئے رکھا ان کی با عزت رخصتی سے متعلق آپ کی رائے اور نئے فوجی سربراہ سے آپ کی توقعات کیا ہیں؟
سینیٹر سراج الحق: جنرل راحیل شریف نے پاک فوج کے سربراہ کی حیثیت سے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم کی نظروں میں ایک باعزت مقام حاصل کیا ہے اور اب مختلف حلقوں کی خواہشات کے باوجود اپنے عہدہ میں توسیع نہ حاصل کر کے اپنے وقار اور قد کو پہلے سے زیادہ بلند کر لیا ہے۔ ان کا دور ملک کی فوج کی اعلیٰ پیشہ وارانہ کارکردگی کا مظہر ہے۔ نئے آرمی چیف سے بھی ہماری یہی توقع ہے کہ وہ پاکستان کی فوج کے سپاہیوں کو جہاد فی سبیل اللہ کے راستہ پر چلاتے ہوئے بہتر پیشہ وارانہ کارکردگی کو یقینی بنائیں گے اور ملکی سرحدوں کو در پیش خطرات کے پیش نظر ان کی حفاظت کے لیے اسلام کے بتائے ہوئے زریں اصولوں کے مطابق موثر اور ٹھوس پالیسیوں پر عمل پیرا ہوں گے۔
n n n

حصہ