(تیسری اور آخری قسط)
ہم پر جب بھی برا وقت آتا ہے، کہیں کوئی تخریب کاری ہوجاتی ہے، کوئی بڑا دھماکا ہوجاتا ہے تو ہم عام طور پر ان سارے واقعات میں غیر ملکی ہاتھ تلاش کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ کیا سود کا نظام ہم نے خود اپنے اوپر مسلط کیا ہوا نہیں ہے؟ کیا ہم اپنے اسکولوں میں جو تعلیم اپنے بچوں کو دے رہے ہیں اُس کا نصاب کسی غیر ملک سے مرتب ہوکر اور چھپ کر آتا ہے؟ کیا ہم ناجائز منافع کسی باہر کے ملک کے کہنے پر لیتے ہیں؟ کیا ہم کم نہیں تولتے؟ کیا ہم ناپ تول اور لین دین میں جائز اور ناجائز کا خیال رکھتے ہیں؟ کیا ہماری تجارت حلال اور حرام کی حدود کے کے تعین کے ساتھ معاشرے میں مروج ہے؟ کیا ہم ایک دوسرے کے حقوق کا اسی طرح خیال رکھتے ہیں جس طرح اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے؟ کیا سوار پیادہ کو سلام کرتا ہے؟ کیا امیر اپنے غریب عزیزوں، قرابت داروں اور رشتے داروں کا خیال رکھتا ہے؟ کیا اُس رزق میں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے، ہم حق داروں کو اپنا شریک بناتے ہیں؟ اگر ایمان دارانہ جواب مانگا جائے تو جواب سو فیصد ’’نفی‘‘ میں آئے گا۔۔۔ تو پھر ان ساری باتوں اور برائیوں میں ہم قصور اوروں میں تلاش کریں؟ اپنے عیبوں پر پردے ڈالیں اور ہر بڑی تباہی کے پس منظر میں اپنے دشمن ممالک کے ’’سری پائے‘‘ تلاش کرنے بیٹھ جائیں تو اصلاحِ احوال کیسے ممکن ہے؟
ہمارے معاشرے (اسلامی معاشرے) میں اتنی برائیاں داخل ہوچکی ہیں کہ ہم اپنی (اسلامی) قدروں کو یا تو یکسر بھلا بیٹھے ہیں یا پھر اب ان پر عمل کرنا ہمارے لیے دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ ’’تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو سوائے اس کے‘‘۔۔۔ تو کیا ہم ایسا ہی کر تے ہیں؟ کیا ہماری زندگی کا ہر ہر انداز اس آیہ کریمہ کا حوالہ دیتا ہوا نظر آتا ہے؟
’’والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوکر رہیں تو انھیں اُف تک نہ کہو‘‘۔۔۔ تو کیا ہم ایسا ہی کرتے ہیں، یا ان کے ساتھ ہر قسم کی بدگوئی، بدتہذیبی روا رکھتے ہیں؟ ان سے نجات کی راہیں تلاش کرتے ہیں، یا اپنا وقت ان کی خدمت گزاری میں صرف کرتے ہیں؟ کہا جارہا ہے کہ ’’نہ ان (والدین) کو جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان کے ساتھ احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو، اور دعا کرو کہ پروردگار ان پر رحم فرما جس طرح انھوں نے ہمیں بچپن میں رحمت و شفقت کے ساتھ پالا تھا‘‘۔۔۔ اب دیکھتے جائیں، پرکھتے جائیں اور جائزہ لیتے جائیں کہ کیا واقعی ہمارے اعمال ان آیات کی روشنی میں پورے اترتے ہیں؟ جب ہم سچے دل سے اس بات کا بغور جائزہ لیں گے تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ ہم اپنے والدین کے ساتھ تلخی سے بولتے ہیں، ان کی فرماں برداری تو درکنار، ان کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خیال کم ہی رکھتے ہیں۔ جب نمازیں ہی بہت تکلیف کے ساتھ پڑھتے ہیں بلکہ اکثر پڑھتے بھی نہیں ہیں تو دعائیں ہم خاک کریں گے! اور ان کے لیے رحمت و شفقت کی توفیق کیا خاک طلب کریں گے! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’’رشتے داروں کو ان کا حق دو اور مسکین و مسافر کو اس کا حق دو‘‘۔۔۔ تو کیا ہمارا رویہ ایسا ہی ہے؟ کیا ہم اُس رزق پر جو اللہ ہی نے ہمیں عطا کیا ہے، سانپ کی طرح کنڈلی مارکر نہیں بیٹھے ہوئے؟ کسی کو خود سے بڑھ کر دینا تو درکنار اگر کوئی غرض مند ہمارے در پر فریادی بن کر آجائے تو اس کی مدد کرنے کے بجائے ہم اس کو بے دردی کے ساتھ ٹھوکر مارنے کے لیے تیار و آمادہ ہوجاتے ہیں یا نہیں؟ ’’حاجت مندوں کو نرمی سے جواب دینے کی تعلیم ہے، اس صورت میں کہ تم خود رحمت کے طلب گار ہو‘‘۔۔۔ تو کیا ہمارے انکار میں نرم گفتاری ہوتی ہے؟ یا ہمارا لہجہ اور بھی زہریلا ہوجاتا ہے؟
فرمایا گیا کہ ’’اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم انھیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی‘‘۔۔۔ تو کیا ہمیں خاندانی منصوبہ بندی میں یہی ساری باتیں اور مقاصد نظر نہیں آتے؟ تو کیا ایسا کرنا، سوچنا، اس طرزعمل کو اپنانا اور ایسے اداروں سے وابستہ ہوکر ایسی تعلیم کو پھیلانا اور ان سے حاصل کی ہوئی آمدنی سے اپنے گھر والوں اور بیوی بچوں کی پرورش کرنا حلال اور جائز ہوا؟ پھر فرمایا کہ ’’قتلِ نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے، مگر حق کے ساتھ‘‘۔۔۔ تو کیا ہم نہیں دیکھ رہے کہ معاشرے میں کسی کو کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ بغیر کسی جرم و خطا مار دینا اتنا عام ہوگیا ہے کہ شاید اب ایک، دو یا دس بارہ جانیں ضائع ہوجانے پر کسی کو کوئی ملال بھی نہیں ہوتا۔ یہ سارے افعال کیا اسلامی ہیں؟ اور ان کا معاشرے میں تیزی کے ساتھ پھیلتے جانا معمول نہیں بنتا جارہا؟ کہا گیا کہ ’’عہد کی پابندی کرو‘‘۔۔۔ تو کیا ہم ایسا کرتے ہیں؟ یا فخر کے ساتھ یہ کہتے اور گاتے نظر آتے ہیں کہ ’’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا‘‘۔ پھر کہا جارہا ہے کہ ’’پیمانے سے دو تو پورا بھر کر دو۔ ترازو سے تولو تو پورا تولو‘‘۔۔۔ لیکن کیا ہماری یہ کوشش نہیں ہوتی کہ پیمانہ ہو یا ترازو، خریدار کی آنکھوں میں دھول جھونکیں اور نظر بچاکر ڈنڈی مار جائیں؟
جھوٹ سے دور رہنے کو کہا گیا ہے، ہم جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے۔ حُسنِ سلوک کے لیے کہا گیا ہے، بدسلوکی اور بے ایمانی کو ہم نے اپنا پہننا اوڑھنا بنا رکھا ہے۔ پاکیزگی کو نصف ایمان کہا گیا ہے لیکن نہ ہمارا لباس پاک ہے، نہ جسم، نہ روح اور نہ دل، اور نہ وہ ماحول جس میں ہم سانس لے رہے ہیں۔ نمازیں ہم پڑھتے نہیں، روزے نہ رکھنے کے لاکھوں عذر تراش لاتے ہیں، حج ایک (نعوذ باللہ) فضول خرچی کا عمل لگتا ہے، اور زکوٰۃ صدقات اس لیے نہیں کرتے کہ اس سے دولت میں کمی کا خدشہ ہوجاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اور پھر بھی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہم ہی لاڈلے ہیں۔
کیا شادی بیاہ میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس سے ہماری اسلامی قدروں کا کوئی تعلق ہے؟ یہ ڈھول ڈھمکا، یہ جانوروں کی طرح ہوہوہو اور ہاہاہا، یہ اونچی آوازوں میں گانے بجانے، یہ پریوں کی طرح خواتین اور بچیوں کا پورے پنڈال میں اڑتے پھرتے اِدھر سے اُدھر جانا، یہ مردوں کا بے غیرتی کی تصویر بنے رہنا، اور یہ ہر قسم کی فضول رسومات کو اختیار کرنا اور اس پر بضد رہنا۔۔۔ کیا یہ سب ہماری تہذیب، ثقافت اور اقدار کا نمونہ اور حصہ ہیں؟
عجیب تر بات یہ ہے کہ ہم جب بھی پرانی قدروں کی بات کرتے ہیں تو نجانے کیوں ہم ان قدروں میں یہ بات تلاش کرنے بیٹھ جاتے ہیں کہ کون سرہانے کے بجائے پاؤں کی جانب بیٹھ گیا ہے، گھر کی خواتین مردوں کے ساتھ بیٹھنے کے بجائے زمین پر بیٹھ گئی ہیں، میاں بیوی اور بچے ایک ساتھ کھانا نہیں کھا سکتے وغیرہ۔ ان جیسے اعمال ہمیں اچھی قدریں لگتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سارے افعال ہماری اچھی تہذیب کی نشانیاں ہیں اور ان کو معاشرے میں جاری و ساری رہنا چاہیے۔ لیکن فقط یہ چند ادب آداب کے طور طریق ہی ہماری (اسلامی) اقدار نہیں۔ اسلامی اقدار تو وہی ہیں جن کا تذکرہ اوپر کی سطور میں کیا گیا ہے۔ جب تک ہماری زندگی ان طور طریقوں کی پابند نہیں بنے گی اُس وقت تک نہ تو ہماری حالت بدل سکتی ہے اور نہ ہمیں سکونِ قلب، اطمینان اور چین نصیب ہوسکتا ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
جنھیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تم نے
وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی
nn