تاریخ خلافت عثمانیہ عثمانی سلطنت دیلوایہ ہوگئی
غازی سلطان عبدالمجید اول بن سلطان محمود خان ثانی نے 3 جولائی 1839 عیسوی کو خلافت کا منصب سنبھالا۔ ان کے خلافت پر فائز ہونے سے پیشتر سلطان محمود ثانی کے دورِ خلا فت میں مصرکے محمد علی پاشا کو فرمانِ خلافت جاری کرتے ہوئے خدیو کے لقب سے نوازا گیا تھا۔ خدیو محمد علی پاشا کے حوالے سے ذکر گزشتہ مضامین میں تفصیل کے ساتھ آچکا ہے، تاہم مختصراً یہ بتانا ضروری ہے کہ خدیو مصر نے عثمانی سلطنت سے بہت زیادہ توقعات وابستہ رکھیں اور ہر موقع پر اپنے لیے مالی منفعت کے راستے تلاش کیے۔ یہاں تک کہ عثمانی سلطنت کی کشتی میں سوراخ کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
غازی سلطان عبدالمجید اول جب خلافت پر بیٹھے تب ان کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ عثمانی سلطنت کی حالت روز بروز خراب ہوتی جارہی تھی۔ یورپی محاذ پر مستقل جنگیں ہورہی تھیں۔ عیسائی حکمرانوں نے عثمانی سلطنت کو حصوں میں تقسیم کرنے کا عزم کیا ہوا تھا۔ داخلی محاذ پر بدانتظامی اور اضطراب کی کیفیت تھی۔ عیسائی یورپی حکومتوں سے اُن کی شرائط پر معاہدے کرنے پڑرہے تھے جس سے عثمانی سلطنت کو ہر بار نقصان ہی پہنچ رہا تھا۔ غازی سلطان عبدالمجید اول نے مغربی یورپ کی اہم سیاسی قوتوں برطانیہ اور فرانس کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے اور انہی اتحادیوں کے ذریعے روس کے خلاف جنگِ کریمیا لڑی۔ 30 مارچ 1856ء کو معاہدۂ پیرس کے ذریعے سلطنتِ عثمانیہ کو یورپی اقوام کا باقاعدہ حصہ قرار دیا گیا۔ عبدالمجید کی سب سے بڑی کامیابی تنظیمات کا اعلان اور نفاذ تھا، جس کا آغاز ان کے والد محمود ثانی نے کیا تھا۔ اس طرح 1839ء سے ترکی میں جدیدیت کا آغاز ہوگیا۔
یورپی حکمرانوں نے عثمانی سلطنت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا تھا اور پروپیگنڈے کو پھیلانے کے لیے بڑی تعداد میں اپنے جاسوس عثمانی حکمرانوں کے اطراف پہنچا دیے تھے جن کا کام سلطنت کے فیصلوں پر غیر ضروری تنقید اور عثمانی حکمرانوں کی کردارکشی تھا۔
ان حالات میں نصبیں کے میدانِ جنگ میں خدیو مصر کے مقابلے پر عثمانی سلطنت جس طرح شکست سے دوچار ہوئی اس سے عثمانیوں کے وقار کو بہت دھچکا پہنچا۔ طرفہ تماشا یہ ہوا کہ عثمانی امیرالبحر احمد پاشا نے کمالِ ہوشیاری اور مکاری سے اسکندریہ (مصر) کے محاذ پر اپنی افواج اتار دیں اور اپنے بحری بیڑے کو مصریوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس غداری اور بزدلانہ حرکت کے پیچھے جو عنصر تھا وہ یہ تھا کہ احمد پاشا کو خسرو پاشا کے وزیراعظم بنائے جانے سے سخت مایوسی ہوئی تھی۔ احمد پاشا کے درپردہ والئ مصر محمد علی پاشا سے مراسم بھی تھے، چنانچہ رقابت کی انتہا پر پہنچ کر اس نے اپنی بحری فوج کے بہت بڑے حصے کو والئ مصر کے حوالے کردیا۔ 13 جولائی 1839 عیسوی کو یہ واقعہ پیش آیا، اور اس کے بدلے میں اس نے بیش بہا مراعات حاصل کیں۔
اس واقعے نے عثمانی سلطنت کو بے دست و پا کردیا تھا۔ مگر اس صورت حال میں بین الاقوامی سطح پر عجیب حالات پیدا ہونا شروع ہوئے۔ انگلستان جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے سہارے برصغیر میں اپنے قدم جما چکا تھا، اسے سمندری راستہ بند ہوجانے کا خوف لاحق ہوگیا۔ فرانس کو یہ دکھائی دینے لگا کہ اگر وہ اپنی فوجی قوت کو استعمال کرکے انگلستان کو زیر کرلے تو برصغیر ہندوستان پر اپنا تسلط قائم کرسکے گا۔ روس کو عثمانی سلطان آبنائے باسفورس سے گزرنے کا پروانۂ راہداری جاری کر ہی چکے تھے۔ روس کو سمجھ آرہا تھا کہ احمد پاشا کے بحری بیڑے کو مصر کے حوالے کرنے سے مصر کے حکمران اسی بحریہ کو ترکی کے خلاف استعمال کریں گے اور اس طرح باسفورس کا راستہ روس کے لیے بند ہوجائے گا۔ اس کھچڑی کہانی میں روس اور برطانیہ ایک ہوگئے اور فرانس کے خلاف آواز بلند کرنے لگے۔ اس کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ روس کو عثمانیوں سے کوئی ہمدردی پیدا ہوگئی تھی۔ روس کی عثمانیوں سے عداوت پہلے کی طرح اب بھی موجود تھی، لیکن سمندری راستوں پر قبضے اور راہداری نے بڑے حریفوں کو ایک کردیا تھا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سلطان عبدالمجید اول کے دور میں سلطنتِ عثمانیہ جدیدیت کی راہ پر گامزن ہوئی اور سلطنت میں امن قائم ہوا، لیکن اس جدیدیت کی سلطنتِ عثمانیہ کو بہت مہنگی قیمت بھی چکانی پڑی۔ تاریخ میں پہلی بار جنگِ کریمیا کے دوران سلطنتِ عثمانیہ کو اگست 1854ء میں غیر ملکی قرضہ لینا پڑا۔ اس کے بعد 1855ء، 1858ء اور 1860ء میں بھی سلطنت نے قرضے لیے، اور یوں معاشی طور پر قرضوں میں جکڑتی گئی۔ یہ عثمانیوں کی وہ غلطی تھی جس نے اقتصادی طور پر سلطنت کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ دوسری جانب شاہ اور شاہی محل کے اخراجات بھی حد سے تجاوز کرچکے تھے جس کا اندازہ استنبول میں دولمہ باغچہ جیسے عظیم الشان محل کی تعمیر سے بھی ہوتا ہے جس پر 35 ٹن سونے کی لاگت آئی۔
عبدالمجید 25 جون 1861ء کو 39 سال کی عمر میں ٹی بی کی بیماری میں مبتلا ہونے کے باعث انتقال کرگئے۔ 7 جولائی1861 عیسوی کو ان کی جگہ ان کے بھائی عبدالعزیز اول تختِ سلطانی پر بیٹھے۔ اُس وقت آسٹریا اور ہنگری کے مابین قبضے کی کشمکش عروج پر تھی۔ اور روس کی نگاہیں پولینڈ پر جمی ہوئی تھیں۔ ہنگری دولتِ عثمانیہ کو جزیہ ادا کرنے والی ریاست تھی جس کا عثمانی سلطنت سے معاہدہ بھی تھا۔ پاپائے اعظم کے مقدس فرمان پر سرعت کے ساتھ عملی اقدامات اٹھائے جارہے تھے، جس میں عثمانی سلطنت کو ختم کرنے کی ہدایت بھی موجود تھی تاکہ کسی طرح دینِ مسیح کے عالمی اقتدار کے لیے راستہ ہموار کیا جا سکے۔
ان کے دورِ حکومت میں جو اہم اصلاحات ہوئیں ان میں 1840ء میں عثمانی کاغذی نوٹوں کا اجرا، فوج کی تنظیمِ نو، 1844ء میں عثمانی قومی ترانہ اور قومی پرچم کا انتخاب، فرانسیسی طرز سے ملتے جلتے مالیاتی نظام کا آغاز اور تنظیمِ نو، فرانسیسی طرز پر ہی ضابطۂ فوجداری و دیوانی کی تنظیمِ نو،1848ء میں جدید جامعات و تعلیمی اداروں کا قیام، 1856ء میں غیر مسلموں پر عائد اضافی محصولات کا خاتمہ، 1856ء میں غیر مسلموں کو فوج میں شمولیت کی اجازت، معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے انتظامی امور میں بہتری کے لیے اقدامات۔ غازی سلطان عبدالمجید کے دور میں پہلی بار پگڑی کی جگہ فاس (جو بعد ازاں ترکی ٹوپی کہلائی) کو اختیار کیا گیا۔
فرانس کی افواج کے بیروت سے نکل جانے کے بعد ہی سلطان عبدالمجید کے انتقال کرجانے کے بعد ان کے بھائی غازی سلطان عبدالعزیز خلیفہ بنائے گئے۔
یورپی محاذ پر عیسائی حکمرانوں کی صورت میں مستقل خطرہ موجود تھا۔ اُس زمانے میں عیسائی تین مختلف گروہوں میں تقسیم تھے اور ان کے درمیان بھی پاپائیت کا جھگڑا موجود تھا، مگر مسلمانوں کے مقابلے پر وہ اپنے اندرونی معاملات کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ تین بڑے فرقوں میں سے ایک فرقہ رومن کیتھولک عیسائی تھا جس کی قیادت اطالوی پاپائے اعظم کے پاس تھی۔ اس کی خواہش یہ تھی کہ عثمانی سلطنت میں بسنے والے تمام عیسائی اسے اپنا قائد اور رہنما تسلیم کریں۔ دوسرا فرقہ پروٹسٹنٹ تھا جس کی قیادت جرمنی کے فرماں روا کے پاس تھی۔ ایک اور فرقہ آرتھوڈکس تھا جس کی سربراہی روس کررہا تھا۔
روس کے شہنشاہ عظیم پطرس اعظم نے مرنے سے پہلے اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ یورپ میں عثمانیوں کے خلاف مسیحی بالادستی کی جدوجہد ہر قیمت پر جاری رکھی جائے اور مجبور کیا جائے کہ عثمانی سلطنت اپنے ہاں بسنے والے آرتھوڈکس عیسائیوں کا خیال رکھے اور روس کو ان کے معاملات کا نگران تصور کیا جائے۔ اسی نظریے اور مطالبے کی بنیاد پر ملکہ کیتھرائن نے پولینڈ اور عثمانی یورپی علاقوں میں جنگیں بھی کیں۔ ان جنگی سلسلوں کی ایک مشہور جنگ نہرالطونہ کی جنگ ہے جو شہر سلسترا کی جنگ کہلاتی ہے۔ اس جنگ میں عثمانیوں نے روس کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔ مگر پسپا ہوتے ہوئے روسی جس علاقے سے گزرتے، وہاں کی تمام آبادی کو قتل کرتے ہوئے جاتے۔ یہاں تک کہ تمام علاقہ انسانی لاشوں اور مُردہ جسموں سے اٹ چکا تھا۔ وہاں کی اکثریت کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتی تھی۔
عثمانی سپہ سالار عثمان پاشا نے عقب سے روسیوں پر حملہ کیا اور روسیوں کو عبرتناک شکست دی۔ اسی بہادری پر عثمان پاشا کو غازی کا لقب دیا گیا۔
عبدالعزیز نے عثمانی بحریہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ابتدا کی۔ 1875ء میں عثمانی بحریہ میں 21 بحری جنگی جہاز اور 173 دیگر جہاز شامل تھے۔ اس لحاظ سے وہ برطانیہ اور فرانس کی بحری افواج کے بعد دنیا کی تیسری سب سے بڑی بحری قوت بن چکی تھی۔
ان کے دور میں ہی پہلی مرتبہ بذریعہ ریل سلطنت کے مختلف شہروں میں رابطہ قائم کیا گیا اور اس مقصد کے لیے استنبول میں سرکیجی ریلوے اسٹیشن کا قیام عمل میں لایا گیا، جو آج بھی استنبول میں اسی آب و تاب کے ساتھ قائم ہے۔
ان کے دور میں استنبول میں آثارِ قدیمہ کا عجائب گھر قائم ہوا۔ ان کے عہد میں ہی 1863ء میں ترکی میں پہلی مرتبہ ڈاک ٹکٹ شائع کیے گئے اور ترکی نے 1875ء میں یونیورسل پوسٹل یونین میں بانی رکن کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی۔
لیکن المیہ یہ بھی تھا کہ عثمانی سلطنت شدید ترین معاشی بحران میں مبتلا ہوچکی تھی۔ غیر ملکی قرضوں، پُرتعیش طرزِ زندگی اور شاہی اخراجات نے سلطنت کو کنگال کردیا۔ یہاں تک کہ 1875ء میں سلطنت تقریباً دیوالیہ ہوگئی۔ ساتھ ہی ساتھ 1875ء میں بوسنیا و ہرزیگووینا اور بلغاریہ میں بہت بڑے پیمانے پر بغاوتیں ہوئیں۔ اور 11 مئی 1876ء کو دارالخلافہ میں بغاوت کے نتیجے میں 29 اور 30 مئی 1876ء کی درمیانی شب سلطان کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا گیا۔ 4 جون کو ان کی لاش پراسرار انداز میں شاہی محل میں پائی گئی۔ اس موت کو خودکشی کہا گیا۔ مگر ایسا نہیں تھا، وہ محلاتی سازش کا شکار ہوکر قتل کردیے گئے تھے۔
nn
جماعت اسلامی کے تحت 26اور 27 نومبر باغ جناح کراچی میں ہونے والا سندھ ورکرز کنونشن اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جاری ہے۔ اجتماع کے میدان پر سجے ایک خوبصورت شہر کو دیکھ کر شاید ہی کسی کا ذہن اس جانب مبذول ہو کہ یہ میدان کچھ روز قبل چٹیل تھا۔ بنجر دل و دماغوں اور بنجر صحراؤں کو چار چاند لگانا ہمیشہ جماعت اسلامی کا وصف رہا ہے۔ آج کا یہ سندھ ورکرز کنونشن بھی اس کی ایک واضح مثال ہے۔
جماعت اسلامی کی جانب سے سندھ ورکرز کنوشن کے سلسلے میں باغ جناح میں شرکا کے لیے تیاریوں کا سلسلہ کئی روز سے ہی شروع کردیا گیا تھا۔ شرکا کے لیے عارضی رہائش گاہوں اور فوڈز کورٹ سمیت دیگر ضروری انتظامات کیے گئے، جبکہ مرد و خواتین کے لیے الگ الگ اجتماع گاہیں بنائی گئیں ہیں۔ گوشہ اطفال اور ضروری طبی امداد کے لیے خصوصی کیمپ کے علاوہ بڑی تعداد میں اسٹالز بھی لگائے گئے ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے بڑی تعداد میں افراد کی شرکت کے پیش نظر باغ جناح میں بڑے پیمانے پر انتظامات کیے گئے ہیں اور ماہرین اور تجربہ کار افراد پر مشتمل کمیٹیاں مہمانوں کے لیے تمام قسم کی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں۔
کنونشن میں نوجوانوں اور خواتین کے حوالے سے بھی خصوصی سیشن بھی رکھے گئے ہیں۔ جن میں جماعت اسلامی کی مرکزی اور صوبائی قیادت سمیت مختلف طبقہ فکر کی نمایاں شخصیات شریک رہیں گی۔ اس پورے کام کو منظم کرنے کے لیے انتظامی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے تحت مزید کچھ کمیٹیوں نے کئی روز کی محنت سے آج یہ خوبصورت شہر سجادیا۔ اس پوری انتظامی کمیٹی میں بہت سارے شعبہ جات شامل ہیں۔
اجتماع گاہ کا تفصیلی نقشہ
کنونشن کے داخلی گیٹ سے سیدھی طرف اسقبالیہ بنایا گیا ہے۔ استقبالیے کے عقب میں ہی مردانہ ٹوئلٹ کے انتظامات کیے گئے جبکہ آگے چند قدموں پر انتظامی امور کا کیمپ لگایا گیا ہے۔ اس جانب سے الٹے ہاتھ کی طرف مختلف اشیا کے اسٹالز موجود ہیں۔ انتظامی کیمپ کے ساتھ ہی فوڈ کورٹ کے اسٹالز لگائے گئے بنایا گیا ہے۔ اس سے بائیں طرف مرد حضرات کے لیے عارضی رہائش گاہیں تعمیر کی گئی ہیں۔ اسی طرح دوسری رہائش گاہیں داخلی گیٹ کے بالکل ساتھ ہی داخل ہوتے ہی ہیں۔ کنونشن کے لیے مرکزی اجتماع گاہ کے مشرقی جانب ایک بڑا عالی شان اسٹیج بنایا گیا ہے۔ جس کے عقب میں ہی خواتین کے لیے اجتماع گاہ کو مختص ہے۔ خواتین کی اجتماع گاہ میں ایک بڑی اسکرین بھی نصب کی گئی ہے جس سے کنونشن کی مکمل کارروائی کو دیکھی جارہی ہے۔ خواتین کے لیے جلسہ اسلامی انقلاب کے لیے بھی خواتین کی اجتماع گاہ میں ایک بڑا اسٹیج بنایا گیا ہے۔ خواتین کی رہائشگاہیں بھی خواتین کے اجتماع گاہ کے سیدھی طرف بنائی گئی ہیں اور خواتین کے فوڈ کورٹ اسٹالرز بھی اس سے متصل ہی ہیں۔ باغ قائد کے مشرقی جانب کا مکمل حصہ پارکنگ کے لیے مختص ہے اور وہاں پر مکمل پارکنگ کے انتظام کیے گئے ہیں۔
کام کی نوعیت
کنونشن میں کام کئی روز سے ہی جاری کردیا گیا تھا۔ تعمیراتی کمیٹی کی ذمہ دا ری کا جائزہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں پر دن کی روشنی اور رات میں مصنوعی روشنی کر کے دن رات کام جاری رہا۔ ٹوئلٹس کی تعمیر کے لیے وہاں پر موجود کمیٹی کے ممبران سے ملاقات کے دوران ان کہنا تھا کہ ہمارے لیے باغ جناح گراؤنڈ کی زمین ہموار نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے تعمیر کے سلسلے میں انتہائی دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ زمین اوپر نیچے ہونے کی وجہ سے کام دو سے تین گنا زیادہ تھا۔ مگر انہوں نے کس حسن اسلوبی سے اسے تشکیل دیا اور تعمیرات کو بہت ہی محتاط انداز میں ممکنہ سہولیات سے آراستہ ایک منظم بستی تعمیر کردی۔
کنونشن کے امور کے ذمہ دار انجینئر صابر احمد نے نمائندہ جسارت کو بتایا کہ کنونشن کے سلسلے میں جماعت اسلامی صوبہ سندھ کی جانب سے 24رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے اس پورے اجتماع کے حوالے سے مختلف امور کا جائزہ لے کر اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی میں اس نوعیت کا یہ منفرد کنونشن تھا اس لیے اس کی تیاریوں کے حوالے سے معلومات کچھ خاص نہیں تھیں۔ اس لیے تجربے کے طور پر پشاور کے کنونشن کی تیاریاں جاننے کے لیے میں باقاعدہ وہاں گیا اور وہاں پر ہونے والے اجتماع کے پہلوؤں کو دیکھا اور ان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس کنونشن کو تشکیل دیا گیا۔ اجتماع میں رات بھی آرہی تھی اور پھر رہائش اور کھانے کا انتظام بھی کرنا تھا اس لیے یہ ہمارے لیے کچھ مشکل تھا۔ پھر موسم کا خیال رکھتے ہوئے اس طرح کے انتظاما ت کرنے تھے۔ جس کی وجہ سے مختلف امور کے لیے الگ الگ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔
اجازت نامہ
کنونشن کے لیے اجازت اور این او سی لینے کے لیے کمیٹی کے ممبر مسلم پرویز کی ذمہ داری لگائی تھی۔ انہوں نے وزیربلدیات جام شورو سے ملاقات کی۔انہوں نے اجازت نامے کے ساتھ ساتھ ہمیں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ یہ اجازت نامہ اجتماع کے سے کم از 17دن قبل ہی مل گیا، مگر اس میں ہمارے لیے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا چہلم اور کراچی میں حالیہ منعقد کی ہونے والی دفاعی نمائش، آیڈیاز 2016ء مسائل تھے۔ ان دونوں حساس نوعیت کے پروگرامات کی وجہ سے ہمارے لیے مسائل بننے تھے جس کی وجہ سے کنونشن کا انعقاد فوری کرنے کے بجائے اب کیا گیا ہے۔ تاہم سیکورٹی اداروں کو ہم نے یقین دہانی کرادی کہ جماعت اسلامی کی جانب سے کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور الحمد للہ ہماری جانب سے سیکورٹی اداروں کو کوئی پریشانی نہیں ہوئی ہے۔
تعمیرات کمیٹی
کمیٹی تعمیرات میں وضو خانہ،طہارت وغیرہ شامل ہے۔ 17دن قبل ہی میدان کا سروے کیا گیا۔ یہ میدان ملٹی لیول گراؤنڈ ہے۔ جہاں پر تعمیرات کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ جس کے لیے ماہر انجینئرز نے باقائدہ انتھک محنت سے ایک نقشہ تیار کیا۔ اس نقشے کے ذریعے تعمیرات کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ جس میں خواتین کے لیے الگ انتظامات اور مردوں کے لیے الگ انتظامات تشکیل دیے گئے ہیں۔
فوڈ کمیٹی
کھانا بنا کر دینے میں کھانے کا ضیا ع بہت ہوتا ہے اور اس سلسلے میں بہت بڑی افرادی ٹیم کو لگانا پڑتا ہے۔ 60فوڈ اسٹال مردوں میں اور 20فوڈ اسٹال خواتین میں لگائے گئے ہیں۔ ان فوڈ اسٹالز پر کنٹرول ریٹ پر تمام کھانے مہیا ہوں گے۔ کھانے کا معیار بھی گھر کے کھانوں کی طرح ہی ہوگا۔ کھانے کے لیے اپنی مرضی کی قیمت نہیں لی جائے گی بلکہ کمیٹی کی جانب سے طے شدہ پرائز ادا کیے جائیں گے۔
ٹینٹنگ اور ڈیکوریشن کمیٹی
اس پورے ایریے کو ٹینٹ لگا کر ڈیکوریڈ، کرسیاں لگانا اور کارپٹ وغیرہ کے انتظامات اس کمیٹی کے سپرد کیا گیا ہے۔ کمیٹی کے انتظامات کی رفتار بھرپور رہی اور قبل از وقت اپنے ہدف کو حاصل کرلیا گیا۔
اسٹالز کمیٹی
مختلف اشیا کے 70اسٹالز لگائے گئے ہیں۔ ان اسٹالز کے بھی باقاعدہ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو انہیں دیکھے گی۔
تزئین و آرائش کمیٹی
تزائین و آرائش کے کام کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی کی ذمہ داری میں جھنڈے، بینرز ، راستوں کی نشاندہی سمیت مختلف کام ہیں۔
اسٹیج کمیٹی
اسٹیج کمیٹی کی ذمہ داری براہ راست امیر جماعت اسلامی کے پاس ہے۔ اسٹیج پر 150افراد کے بیٹھنے کی جگہ ہو۔ جبکہ خواتین کے اجتماع گاہ میں بھی ایک اسٹیج بنایا گیا ہے۔
ٹریفک کنٹرول کمیٹی
ٹریفک کنٹرول کمیٹی بھی باقاعدہ اپنے کام کو منظم انداز میں کرنے میں مشغول ہیں۔ اس کمیٹی کی سب سے اہم اور خاص ذمہ داری یہ رکھی گئی ہے بیرون شہر سے آنے والے کارکنان اور ذمہ داران کو ریلوے اسٹیشن سے اپنی گاڑیوں میں اجتماع گاہ تک پہنچائیں گے۔ البتہ بسوں اور کوچز کے ذریعے آنے والے قافلوں کو اجتماع گاہ پر ہی ریسیو کیا جائے گا۔
فراہمی آب و نکاسی آب کمیٹی
ایک لاکھ لیٹر پانی اسٹوریج کے لیے یہاں پر ٹینکر موجود ہے۔ کمیٹی نے سب سے پہلے اسے ٹینکر کو صاف کیا، اس کے بعد لیبارٹری ٹیسٹ کیے گئیے۔ پانی کے استعمال میں حفظان صحت کے اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ واٹر بورڈنے پانی کی فراہمی میں مکمل تعاون کیا ہے اور ان کا تعاون جاری ہے۔ایم ڈی واٹر بورڈ بھی یہاں تشکیل لائے تھے اور انہوں نے یہاں کے انتظامات کا خود جائزہ لیا۔
سیکورٹی کمیٹی
سیکورٹی کا معاملہ کراچی میں بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ سیکورٹی کے انتظامات کے لیے باقاعدہ تربیت یافتہ نوجوانوں کو تعینات کیا گیا ہے۔ مرکزی گیٹ سمیت مکمل اجتماع گاہ کو تربیت یافتہ نوجوانوں نے اپنے حفا ظتی حصار میں لے رکھا ہے۔ داخلی راستے پر مکمل سیکورٹی کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ نوجوان آنے جانے والے پر کڑی نظر رکھے ہوئے اور ساتھ جامع تلاشی کا بھی سلسلہ بھی جاری ہے۔
کنونشن کی محنت اور اس پر کیے جانے والے انتظامات اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اس بات کا اندازہ اس اجتماع میں آنے والے بخوبی لگا سکتے ہیں تاہم ایک بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ انتظامات کرنے والوں نے کرپشن، لوٹ کھسوٹ، کشیدہ صورتحال اور مایوسیوں کے بجھتے چراغوں میں امیدکی کرنیں پیدا کی ہیں۔ ان کرنوں کو نظر انداز کرنے کے بجائے حاصل ہونے والے ثمرات کو سمیٹنا چاہیے تاکہ لیل و نہار اور شب و روز ایک کرنے والوں کی محنت رنگ لائے۔