25 نومبر کو خواتین پر تشدد کا عالمی دن ہر سال اقوام متحدہ کے تحت منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ عالمی انجمن ہے، اس کے تحت جو دن منائے جاتے ہیں ان کی عالمی اہمیت اور ضرورت بھی ہوتی ہے۔ ایک طرف وہ ماحول کے تحفظ کا دن مناتی ہے تو دوسری طرف جانوروں کے حقوق کے تحفظ کا دن، سمندری مخلوق کے تحفظ کا دن، بوڑھوں، بچوں، عورتوں، معذوروں کے حقوق کا دن، مختلف بیماریوں کی آگہی کے ایام وغیرہ۔
لیکن تشدد کو خواتین کے ساتھ منسلک کرنا۔۔۔ یہ کوئی سادہ سا مفروضہ نہیں ہے۔ تشدد کی حمایت کوئی ذی شعور کبھی نہیں کرسکتا، لیکن تشدد کو کسی صنف کے ساتھ جوڑ دینا بجائے خود بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہاں معاملہ کمزور اور طاقت ور کا ہے۔ شقی القلب طاقتور، کمزور پر تشدد سے غالب آنا چاہتا ہے، اپنے مفاد کے لیے یا اپنی انا کی تسکین کے لیے۔ جسمانی طور پر چونکہ مرد قوی ہے اس لیے جہاں جہالت ہوگی، وہاں تشدد کی جانب بھی رجحان ہوگا۔ لیکن جتنے مرد عورتوں پر تشدد کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ مرد خود مردوں پر تشدد کرتے ہیں۔ معاشرے میں جتنے خونریزی کے واقعات اخبارات کی زینت بنتے ہیں اُن میں زیادہ تر مرد متاثر ہوتے ہیں یا عورتیں؟ آپس کی دشمنیوں کی بنا پر جو قتل ہوتے ہیں، جائدادوں کی بنیاد پر جو جھگڑے ہوتے ہیں، تجارتی لین دین پر جو فسادات ہوتے ہیں اُن میں کتنا تناسب عورتوں کا ہے اور کتنا مردوں کا، یہ ہم سب جانتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ عورتوں پر تشدد نہیں ہوتا، مگر اس تشدد کا اتنا پرچار کیا اس مسئلے کے حل کی جانب کوئی قدم ہے، یا اس کے پیچھے کوئی خطرناک ایجنڈا ہے؟ اس کو جاننا وقت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ فتنوں کا دور ہے اور فتنوں سے آگہی بجائے خود ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔ حضرت حذیفہ بن یمانؓ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شر اور فتنے کے بارے میں زیادہ سوال کیا کرتے تھے۔ جب آپؐ رحلت فرما گئے تو کبّار صحابہؓ بھی اپنے ایمان کے مقابلے میں حضرت حذیفہ بن یمانؓ کے ایمان کو زیادہ معتبر سمجھتے تھے اور اپنے مسائل میں رہنمائی کے لیے اُن سے رجوع کرتے تھے، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ حضرت حذیفہؓ کی رائے زیادہ معتبر ہوگی اس لیے کہ وہ شر اور فتنوں کے بارے میں ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ کیونکہ اگر آپ فتنے سے آگاہ نہیں ہوتے تو ہر وقت امکان ہوتا ہے کہ کہیں آپ خود اس فتنے میں مبتلا نہ ہوجائیں۔
یہ انسان کی نفسیات ہے کہ جس چیز کو بار بار کہا اور سنا جائے ذہن اس کے اثرات قبول کیے بغیر نہیں رہتا۔ اگر عورتوں پر تشدد ہوتا ہے اور اس درجہ میں ہوتا ہے کہ دنیا کو آگہی دلانے کے لیے ایک دن اس عنوان سے مختص کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے تو اتنے بڑے پیمانے کی سرگرمی کے بعد یقیناًاس مسئلے کے حل کے لیے عملی اقدامات بھی تجویز کیے جانے چاہئیں، اور جس طرح پولیو اور دیگر بیماریوں کے لیے مدت کا تعین کیا جاتا ہے اسی طرح اس بات کا تعین ہونا چاہیے کہ ہر سال یہ دن مناکر یہ اور یہ اقدامات کیے جاتے ہیں لہٰذا فلاں سن تک دنیا کی عورتوں پر تشدد ختم ہوجائے، اس لیے کہ اُس وقت تک اتنی آگہی اور اتنی قانون سازی کی جاچکی ہوگی۔۔۔ مگر عالمی اداروں کی رپورٹیں دیکھیں یا پاکستانی این جی اوز کی۔۔۔ واویلا ہر جگہ یہی ہے کہ عورتوں پر تشدد میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ اگر یہ دن اس لیے منایا جاتا ہے کہ قانون سازی میں کمی ہے، مزید قانون بننے چاہئیں تو عورت محفوظ ہوجائے گی، تو مغرب نے تو بہت قانون سازی کی ہوئی ہے، کیا وہاں کی عورت محفوظ ہے؟ ایشیا میں اگر عورتیں اسٹو (Stove) پھٹنے سے ہلاک ہوتی ہیں تو یورپ میں بوائے فرینڈ کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں۔ قانون سازی بجائے خود مسئلے کا حل نہیں ہے اور تیسری دنیا کے ممالک میں تو کتنے لوگ قانون سے آگہی رکھتے ہیں اور اپنے حقوق کا تحفظ کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔۔۔؟؟
اصل ایجنڈے کی طرف آتے ہیں۔ اب اس دن کس طرح کی سرگرمیاں تشکیل دی جاتی ہیں؟ کس طرح ذہن سازی کی جاتی ہے؟ کن مقاصد کی طرف پیش رفت کی جاتی ہے؟ آیئے اس کی ایک جھلک دیکھتے ہیں۔
اس ہفتے ایک این جی او کی طرف سے کراچی کے ایک ادبی و ثقافتی ادارے میں ایک پروگرام ہوتا ہے، ہمیں بھی شرکت کا دعوت نامہ پہنچا۔۔۔ جو کچھ آنکھوں نے دیکھا وہ شدید صدمے کا باعث اور غوروفکر کا متقاضی ہے۔
ہال میں یونیورسٹی اور کالجوں کے لڑکے لڑکیاں، اسٹیج پر میڈیکل کے شعبے سے وابستہ قابل اور مستند شخصیات۔ اس عمر کے لڑکے اور لڑکیوں کے سامنے سوال رکھا جاتا ہے کہ ’’جنس‘‘ (Sex) کے موضوع کو ہمارے ہاں قابلِ شرم کیوں گردانا جاتا ہے؟ ایک ماں چھوٹے بچے کو بتاتی ہے کہ یہ آنکھ ہے، یہ کان ہے، یہ ناک ہے۔۔۔ اس کے آگے کیوں نہیں بتاتی۔۔۔ جنسی جرائم میں اضافے کا سبب یہ ہے کہ گھروں میں بچوں کو اس موضوع پر آگہی نہیں دی جاتی۔ ماں باپ اولادوں سے ان موضوعات پر کھل کر بات کیوں نہیں کرتے۔۔۔ اسکولوں کے نصاب میں ’’جنس‘‘ کے موضوع کو شامل ہونا چاہیے۔ منتظمین کو افسوس تھا کہ وہ تمام کوششوں کے باوجود نصاب میں اس موضوع کو شامل نہ کراسکے۔ ابھی تک بمشکل ’’ملال‘‘ کے موضوع ہی کو شامل کرا سکے ہیں۔
لڑکیوں کے جو خاص ایام ہوتے ہیں ان پر کھل کر بات کی گئی کہ ہم کیوں سمجھتے ہیں کہ ان موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے ’’حیا‘‘ آڑے آنی چاہیے۔ لڑکوں کو بھی ان عنوانات پر اتنی ہی آگہی کی ضرورت ہے جتنی کہ لڑکیوں کو (واضح رہے کہ ان طلبہ و طالبات کا تعلق میڈیکل کے شعبے سے نہیں تھا)۔
فنِ رقص سے وابستہ ایک صاحبہ کی زیر ہدایت ایک اسٹیج پُرفارمنس تھی جس کا لب لباب یہ تھا کہ مولوی اپنی بیوی پر زیادہ تشدد کرتا ہے۔ داڑھی کو تشدد کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا۔ نیز یہ کہ دینی تعلیم گویا جہالت کی طرف لے کر جاتی ہے۔ عورت مرد کا تشدد برداشت کرتے کرتے اتنی مضبوط ہوجاتی ہے کہ ایک دن اس کا گریبان پکڑ لیتی ہے اور اس پر حاوی ہوجاتی ہے۔ حاوی ہونے والا منظر اس ڈرامے کا کلائمکس تھا جس پر شرکاء نے خوب داد و تحسین دی۔ اس پوری سرگرمی کا مقصد یہ تھا کہ ہمیں نئے دور میں نئے انداز میں داخل ہونا ہے، پرانے کلچر کو خیرباد کہنا ہے، ’’جنسی موضوعات‘‘ پر کھل کر بات کرنا چاہیے، اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا ہر ایک کو حق حاصل ہے۔ عورت کوئی کم تر مخلوق نہیں ہے، اس لیے مردوں کو ان کی ’’اوقات‘‘ میں رکھنا عورتوں کی اوّلین ذمے داری ہے۔ یہ این جی او ماسٹر ٹرینر تیار کررہی ہے۔ ساٹھ، ستّر کے قریب افراد تیار کرکے فیلڈ میں اتارے جا چکے ہیں جو بالخصوص نوجوانوں میں اس آگہی کو عام کررہے ہیں۔
ایک پروگرام کی کچھ آگہی میں نے یہاں رکھی۔ ان موضوعات پر ملک بھر کی آرٹس کونسلوں میں، گاؤں دیہات میں این جی اوز کے ذریعے کن ایجنڈوں کی تکمیل کی جارہی ہے، یہ جاننا سوشل میڈیا کے اس دور میں کچھ مشکل بھی نہیں۔ اب آپ دیکھیے کہ اوائل عمری سے آپ ایک لڑکی کے ذہن میں یہ بٹھا دیں کہ تمہارا لائف پارٹنر تمہارا حریف ہوگا، اس سے حقوق کی جنگ میں تمہیں جیتنا ہوگا۔۔۔ اس ذہن کے ساتھ کوئی لڑکی اپنا گھر بسائے گی تو اس نئی زندگی میں کتنا خیر ہوگا؟ اور کیا عورتوں کے جارحانہ رویّے مردوں کو تشدد پر مائل نہ کریں گے؟ گھروں کو میدانِ جنگ کون بنارہا ہے؟
اگر مرد عورتوں پر تشدد کرتے ہیں تو کیا اس پروپیگنڈے اور قانون سازی سے مرد باز آجائیں گے؟ اگر آپ مخلص ہیں کہ عورتوں پر تشدد نہ ہو تو اس کی ایک ہی صورت ہے کہ مردوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جائے۔ بڑے پیمانے پر اسکولوں کے جال بچھائے جائیں، قرآنی تعلیمات جو ایک پُرامن معاشرہ تشکیل دینے کے لیے ہیں اور عورتوں اور مردوں کو ان کی حدود بتاتی ہیں، ان تعلیمات کو عام کیا جائے۔ معاشرے سے جہالت دور ہوگی، لوگوں میں خوفِ خدا پیدا ہوگا تو وہ ہر طرح کی اخلاقی برائیوں سے تائب ہوجائیں گے۔ ایسی کتنی کوششیں نظر آتی ہیں آپ کو؟ اس کے بجائے عورت پر تشدد کا اتنا پرچار کیا جاتا ہے کہ دانش مندی کے ساتھ معاشرے کی صنفی تقسیم کی کوشش کی جاتی ہے۔ مرد کو ظالم، عورت کو مظلوم ثابت کیا جاتا ہے۔ عورتوں کو جارحانہ اقدامات کی تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ مردوں سے دست و گریباں رہیں۔ اپنے فرائض کے بجائے اپنے حقوق پر نظر رکھیں۔ معاشرے میں لفظ ’’تشدد‘‘ کا اتنا پرچار کیا جائے کہ ہر لڑکی ذہنی مریض بن جائے اور تشدد سے بچاؤ کی تدابیر پر ہی غور کرتی رہے۔ عورتوں پر تشدد واقعی اہم موضوع ہے، مگر اُن معاشروں کے لیے جہاں عورت کو اپنے باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کا تحفظ حاصل نہیں ہے۔ ہمارے سماج میں یہ ہر گھر کا مسئلہ بھی نہیں ہے، اور جہاں ہے وہاں مردوں کی جہالت کے علاوہ عموماً معاشی پسماندگی بھی اس کی وجہ ہے۔ بے کاری اور بے روزگاری بھی اس کی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے۔ اس حوالے سے تو کوئی عملی اقدامات نہ کیے جائیں، نہ تعلیم مفت کی جائے، نہ علاج کی سہولتیں، نہ روزگار کا بندوبست کیا جائے۔۔۔ ہاں روٹی اور علاج کے لیے ترستے لوگوں کو گمراہ کیا جائے، عورتوں کے ہاتھوں میں درانتی اور کلہاڑی تھما دی جائے کہ تمہیں مردوں سے ڈرنا نہیں ہے۔۔۔
جب عورتوں پر تشدد کا عالمی دن منایا جارہا ہے تو کم از کم ضرور سوچا جانا چاہیے کہ عورتوں پر تشدد حقیقتاً کہاں کہاں ہورہا ہے اور کون کررہا ہے؟ غزہ میں اپنے مکان کے ملبے پر دونوں ہاتھ اٹھائے آسمان کو تکتی اور گریہ کرتی اس عورت پر تشدد کا ذمے دار کون ہے؟ خونیں سرحد کے اُس پار جہاں مائیں اپنے جوان بیٹوں کو روز آخری بوسے دے رہی ہیں، بوڑھے باپ قبروں میں اتار رہے ہیں، جہاں پیلٹ گنوں سے مردوں ہی نہیں عورتوں کی بھی بینائی چھینی جارہی ہے، اس تشدد کی ایف آئی آر کہاں درج کرائی جائے؟ سری نگر سے تعلق رکھنے والے بزنس مین مقبول ڈار کی بہن لال چوک پر ایک مظاہرے میں زخمی ہوئیں اور پیلٹ گن کی فائرنگ سے ان کی بینائی ضائع ہوگئی۔ وہاں کی عورتوں پر کتنا اور کیسا تشدد ہورہا ہے جہاں چار ماہ تک نہ تعلیمی ادارے کھلے ہوں نہ کاروبار کی اجازت ہو۔ وہاں ہزاروں ملالاؤں کا تعلیمی سال ضائع ہوچکا ہے۔۔۔ وہ عورتیں جذباتی تشدد کے کس درجے میں ہیں جو اس تشدد سے نجات کے لیے اپنے پھول جیسے نوجوان بیٹوں کی پیشانیاں چوم کر انہیں گھر سے روانہ کردیتی ہیں کہ جاؤ اور ظالموں کا مقابلہ کرو۔ اور وہ پتھر اٹھا کر بھارتی فوج کی فائرنگ کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوجاتے ہوں تو وہ گھر سے پھنکنی، بیلن اور چمٹے اٹھا کر فوج کے مقابلے پر آجاتی ہیں۔
9 اکتوبر 2016ء کو مقبوضہ بیت المقدس میں غاصب صہیونی فوجیوں کا جرأت اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے والے فلسطینی مصباح ابوصبیح کی ماں، بیوی اور بیٹی ایمان سے کوئی پوچھے کہ ابوصبیح پر جس طرح ٹارچر کیا گیا، اس سے یہ عورتیں کس طرح جذباتی اور نفسیاتی تشدد کا شکار ہوئیں، اور وہاں کی عورتیں ہر طرح کے تشدد برداشت کرکے آزادی کے دیے کو روشن رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی معصوم بیٹی ایمان کہتی ہے: ’’چار ماہ تک تو ابو گرفتار رہے، پھر بیت المقدس میں داخلے پر بھی پابندی لگادی ان پر۔ فیس بک پر ابو نے اپنی آخری پوسٹ پر لکھا تھا ’’کوئی اندازہ کرسکتا ہے کہ مجھے قبلہ اوّل سے کتنی محبت ہے؟ میں چاہتا ہوں ساری زندگی اس کو دیکھتا رہوں، اس کی مٹی پر سجدہ کرتا رہوں، اس کی مٹی کو چومتا رہوں اور اسی مٹی کو ساتھ لیے رخصت ہوجاؤں۔ اللہ کی قسم میری پوری عمر، مال و دولت سب کچھ قبلۂ اوّل پر فدا ہو۔ قبلۂ اوّل میرا عشق، میری محبت ہے‘‘۔ جب اسرائیلی فوج ابو کو گرفتار کرنے آئی تو میں نے کہا کہ جیل میں تو ہمیں آپ سے کوئی بھی ملنے نہ دے گا۔ تب انہوں نے کہا ’’میں نے گرفتاری نہیں شہادت کا فیصلہ کرلیا ہے، تم لوگ قبلۂ اوّل میں نماز کے لیے ضرور جاتے رہنا اور تعلیم جاری رکھنا‘‘۔ یہ کہہ کر گھر سے نکلے، فائرنگ کی آوازیں آئیں۔ ہمارا گھر محاصرے میں تھا، صہیونی فوج ہمارے گھر کو اپنے ناپاک قدموں سے روند رہی تھی۔ میرے والد دو صہیونی فوجیوں کو واصل جہنم کرکے شہادت پا چکے تھے۔ میں، میرے چھوٹے بہن بھائی، امی، دادی سب صدمے سے نڈھال ہوگئے۔‘‘
ایمان کے چہرے پر بہتے آنسوؤں سے کوئی پوچھے کہ تشدد کسے کہتے ہیں۔۔۔ ملالہ کے تشدد پر رحم کھا کر اسے نوبیل انعام سے نوازنے والے کیا ایمان اور آسیہ اندرانی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی ہزاروں عورتوں پر ہونے والے تشدد سے بے خبر ہیں؟
nn