بلاشبہ دنیا میں دو ہی نظام چل رہے ہیں، ایک رحمن کا اور دوسرا شیطان کا۔ ان کے سوا کوئی تیسرا نظام نہیں۔ جو اپنے آپ کو ان دونوں نظاموں کے درمیان رکھنے کی کوشش کرے تو حقیقت میں وہ دھوکے میں ہوتا ہے اور اس کا طرزعمل بھی منافقانہ ہوتا ہے۔ رحمن نے اِس دنیا کا جو نظام وضع کیا ہے اس میں اسی ایک رحمن (اللہ) کی بڑائی کا قولاً، فعلاً اور عملاً اظہار و اعلان ہے۔ اس دنیا کا خالق و مالک وہی ہے، وہی رازق ہے، وہی داتا ہے اور وہی ہر مشکل حل اور آسان کرنے والا ہے۔ وہ رحیم بھی ہے۔ اس میں صفتِ غفاریت انتہا کی ہے تو وہ قہار و جبار بھی ہے۔ اسی کے قبضۂ قدرت میں سارا جہاں ہے اور سب کچھ اسی کے امر سے ہے۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ تمام اسی کی مخلوق ہیں، اسی لیے پورے جہاں میں صرف اسی کا تصرف ہے، اسی کا حکم چلتا ہے۔ انسان تو درکنار یہ تہہ بہ تہہ زمین اور ایک کے اوپر ایک آسمان، عظیم چاند اور دنیا کو روشن کرنے والا سورج، آسمانوں کی بلندیوں کو چھوتے پہاڑ اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے دریا و سمندر، قسم قسم کے چرند و پرند، ہاتھی اور اونٹ جیسی طاقتور مخلوق اور چیونٹی جیسے حشرات الارض۔۔۔ الغرض تمام مخلوقات اسی کے حکم سے صبح و شام کرتے ہیں، اسی کے اذن سے کوئی کام کرتے ہیں، اور یہی وہ مخلوقات ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ کی جانب سے رزق کے وعدے کی تکمیل کا پختہ ایمان ہوتا ہے۔
رحمن نے زندگی گزارنے کے لیے جو نظام دیا ہے وہ اخوت، محبت، رواداری، امن، عزت، احترام، تکریم، خیر خواہی، عفو اور اتحاد و باہمی تعاون پر قائم ہے۔ اس نظام میں انسان خیر خواہی کی بنیاد پر ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرتا ہے اور اس کے بدلے کسی اجر و فائدے کی توقع نہیں رکھتا۔ اسے اگر کسی سے بدلے کی امید ہوتی ہے تو وہ صرف اللہ کی ذات سے ہوتی ہے، کیونکہ رحمن کے نظام کو ماننے والے ہر فرد کے دل میں یہ بات پختہ ہوتی ہے کہ اس دنیا میں کسی کو فائدہ دینے یا نقصان پہنچانے کی طاقت اس کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ عزت وذلت اسی کے ہاتھ میں ہے، وہی ہے جس کے قبضۂ قدرت میں رزق اور وسائل کی تمام کنجیاں ہیں، حتیٰ کہ نیکی کرنے کی طاقت اور گناہ سے بچنے کی توفیق بھی اسی کی طرف سے ہے۔ ایسے نظام کے ماننے والے کبھی بھی ناکام و نامراد اور مایوس نہیں ہوسکتے، کیونکہ ایک عام انسان بھی ایسے نظام کو ایک نظر دیکھ کر ہی بتا سکتا ہے کہ یہی وہ نظام ہے جس کی انسانیت کو اشد ضرورت ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اسی نظام کے نفاذ کے لیے اللہ نے ایک لاکھ سے زائد انبیا و رسول مبعوث فرمائے۔ رحمن کے بھیجے ہوئے تمام رسولوں نے انسانوں کے سامنے اسی نظام کو پیش کیا جو اوپر بیان کیا گیا ہے، اور یہ بھی بتادیا کہ اس نظام کے بدلے ہم تم لوگوں سے کوئی اجر بھی نہیں مانگتے، ہمارا اجر تو اللہ کے یہاں ہے، اور ہم اسی کے اجر کے طالب بھی ہیں۔ انسانوں کی خیرخواہی اور بھلائی کے لیے بنائے گئے اس نظام کو صرف شیطانی نظام کی رنگینیوں کی وجہ سے لوگوں نے ماننے سے انکار کردیا۔ کیونکہ شیطان نے اُن کے سامنے ذاتی مفادات کے خول کا ایسا نظام پیش کیا جس میں اُن کی اپنی ذات کا ہی فائدہ تھا، اسی لیے ان لوگوں نے شیطانی نظام کو بڑی خوشی اور تیزی سے قبول کیا۔
رحمن کے مقابلے میں شیطان نے جو نظام دیا ہے وہ ذاتی غرض اور مفاد پر قائم ہے۔ اس نظام میں انسان کی تمام کوشش ذاتی مفاد تک ہی ہوتی ہے، اسے صرف اپنی ذات اور فائدہ نظر آتا ہے، اس نظام کے مطابق انسان کو صرف اپنے فائدے کا سوچنا چاہیے چاہے اس سے دوسرے کو کتنا ہی نقصان برداشت کرنا پڑے۔ یہ نظام انسان کو اپنی ذات تک ہی محدود کرکے خودغرض، مطلب پرست، ظالم اور منافق بناتا ہے۔ ان کے نزدیک اپنے معمولی فائدے کے لیے کسی بھی حد تک جانا بری بات نہیں، اسی لیے ہم ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ ان کی صبح انہی کی ذات سے ہوتی ہے اور رات بھی۔ ان لوگوں کو انسان اور انسانیت سے کوئی غرض نہیں ہوتی، اپنے فائدے کے لیے یہ ایک وحشی کی طرح کسی کو بھی نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے، ایسے میں ان کا وجود پوری انسانیت کے لیے ناسور اور تکلیف کا باعث بن جاتا ہے، لیکن وہ اپنی دھن میں ایسے مگن ہوتے ہیں کہ انہیں اپنی ذات کے سوا کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا، وہ ایک پاگل یا بدحواس جانور کی طرح کبھی کسی کو کاٹتے ہیں تو کبھی کسی کو۔ ان کی زندگی سے چین و سکون بالکل غائب ہوجاتا ہے، بے چینی ان کا مقدر بن جاتی ہے، اور اس طرح وہ ایک جانور سے بھی بدتر زندگی گزار کر اِس دنیا سے کوچ کرجاتے ہیں۔
الغرض دنیا میں درحقیقت یہی دو نظام قائم اور رائج ہیں۔ اب رحمن کے نظام کے مطابق جو معاشرہ وجود میں آئے گا وہی اسلامی معاشرہ کہلائے گا، اور معاشرہ جو شیطان کے نظام کے تحت تشکیل پائے گا وہ کفر کا معاشرہ ہوگا۔ اسی بنیاد پر ان دونوں معاشروں کی حقیقت کو سمجھیں۔ کفر کا معاشرہ ذاتی غرض اور مفاد پر قائم ہوتا ہے، اس کے نزدیک اس کائنات کی حقیقت ذاتی غرض اور مفاد ہی ہے، اسی لیے اس معاشرے میں جو انسان بھی ذاتی غرض اور مفاد کے لیے کام کرے گا اُس پر کوئی بھی اعتراض نہیں کرے گا، کیونکہ ایسا کرنے والا اس معاشرے کی عین حقیقت کے مطابق ہی کام کررہا ہوتا ہے اور پورا معاشرہ اسی پر کاربند ہوتا ہے، اس لیے کسی کو اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں ملتی۔ ایسے معاشروں میں اگر کسی کے مفاد کو کوئی خطرہ یا نقصان کا اندیشہ لاحق ہوجائے تو سب سے پہلے اس بات کو دیکھتے ہیں کہ اگر مفاد کو بچانے کے لیے ٹکراؤ یا جنگ کی جائے تو اس سے کتنا فائدہ ہوگا؟ اس سے اصل مفاد کا تحفظ ہوگا یا اسے نقصان ہوگا؟ یا پھر اس ٹکراؤ کے نتیجے میں اس کی بے چینی تو نہیں بڑھے گی؟ الغرض وہ ٹکراؤ یا تصادم کی صورت میں بھی اپنے ذاتی مفاد اور غرض کو سامنے رکھے گا۔ اگر اس تصادم کے نتیجے میں اس کے مفاد کو تحفظ و ترقی حاصل ہوگی تو وہ تصادم سے گریز نہیں کرے گا، اور اگر اس کو یہ اندیشہ لاحق ہوجائے کہ مفاد کو نقصان پہنچے گا تو تصادم اور ٹکراؤ سے اجتناب برتے گا۔ اسی لیے ان کے مذہب میں بھی یہی صورت حال ہے۔ مثلاً عیسائیت محبت کو بنیاد بناتی ہے، اور حقیقت میں وہ محبت کو بھی غرض اور مفاد کی ایک چیز یا ذریعہ مانتے ہیں کہ اس کے ذریعے بھی فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے محبت (غرض و فائدے) کی بنا پر بھی ان کے معاشروں میں تصادم اور ٹکراؤ نہیں ہوتا۔
دنیا میں دوسرا نظام رحمن کا ہے، جس سے اسلامی معاشرہ وجود میں آتا ہے، جس کی بنیاد بے غرضی اور خیرخواہی پر ہے۔ یعنی ان کے نزدیک اس کائنات کی حقیقت، دنیا کی خوبصورتی اور امن و سکون بے غرضی اور خیرخواہی پر مبنی ہے۔ اگر اسلامی معاشرہ حقیقتاً اسی بنیاد پر قائم ہو تو یہاں بھی کوئی اعتراض کرنے والا نہیں ہوگا۔ ہر فرد اس معاشرے کی عین حقیقت کے مطابق کام کررہا ہوگا، اور اس کے نتیجے میں نہ کوئی تصادم ہوگا اور نہ ہی کوئی جنگ۔ ہر دو صورت میں انسان فائدے میں ہی ہوگا۔ لیکن یہاں فائدے کی نوعیت کچھ مختلف ہے، کہ یہاں ذاتی غرض اور فائدے کے بجائے اجتماعی یا کسی دوسرے کے فائدے کی بات ہوگی کہ میرا کام ہی دوسروں سے خیرخواہی کرنا اور ان کو فائدہ پہنچانا ہے۔ ایسے میں انسان رب والی صفات سے متصف ہوکر انسانیت کی بھلائی اور خیرخواہی میں مصروف ہوگا، اور اس کی ذات سراسر خیر ہی خیر بن کر فلاحِ انسانیت کا ذریعہ بنے گی۔ ایسا انسان پوری دنیا کے لیے امن و سکون کا باعث و ضامن ہوتا ہے جو دوسروں کے آرام کے لیے اپنا آرام قربان کردیتا ہے، اور دنیا بھی ایسے لوگوں کو ہی یاد رکھتی ہے۔
اس وقت مسلمانوں کے زوال کا یہی سبب ہے کہ ان کا معاشرہ اپنی حقیقی بنیاد پر قائم نہیں، بلکہ جبر پر قائم ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جبر پر کوئی بھی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔۔۔ اگر قائم رہے تو ترقی نہیں کرسکتا۔ اس دنیا سے فائدہ وہی اٹھا سکتا ہے جو مکمل طور پر کسی ایک نظام کی طرف ہو۔ چاہے وہ نظام شیطان کا ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی اسے اصل بنیاد کے ساتھ اپناتا ہے تو وہ دنیا کے فوائد ضرور حاصل کرے گا (جو ان کا مقصد بھی ہے)۔ ان دونوں نظاموں کے درمیان رہنے والا کسی بھی حقیقت یا بنیاد پر نہیں ہوتا، اور مسلمانوں کی بھی یہی صورت حال ہے کہ وہ منافقت کا رویہ اختیار کرتے ہوئے ان دونوں نظاموں کے درمیان ہیں۔ یہی حالتِ جبر ہے کہ اپنے خیالات، دل کی آواز، معاشرے کے دباؤ اور نہ جانے کن عوامل کی وجہ سے کسی ایک نظام کو مکمل طور پر اپنایا نہ جائے۔ یہ بھی امرِ مسلّم ہے کہ جو جبر پر ہوتا ہے وہ حقیقت یا حقیقی بنیاد پر نہیں ہوتا، اور جو کوئی بھی مکمل طور پر کسی حقیقت کے ساتھ نہیں ہوتا وہ غیر متوازن ہوتا ہے۔ اب وہ کوئی اجتماعیت ہو یا اکیلا انسان۔۔۔ کبھی بھی ترقی نہیں کرپائے گا۔
nn