(جماعت اسلامی کا ورکرز کنونشن (حامد ریاض ڈوگر

261

فرائیڈے اسپیشل: جماعت اسلامی ماضی میں کُل پاکستان اجتماعاتِ عام منعقد کیا کرتی تھی، امسال انہیں صوبوں کی سطح تک محدود کردیا گیا ہے۔ اس طرح مختلف صوبوں کے لوگ باہمی تبادلہ خیال اور ملک گیر روابط کے ایک اہم اور مؤثر ذریعے سے محروم ہوگئے ہیں، اور یوں قومی اتحاد و یگانگت، یکجہتی اور ہم آہنگی کے فروغ کا یہ موقع ختم ہونے کے منفی اثرات سامنے نہیں آئیں گے؟
لیاقت بلوچ: جماعت اسلامی کا پورے ملک کی بنیاد پر اجتماع عام حاضری اور انتظامات کے حوالے سے بہت بڑا اور ہمہ گیر پروگرام ہوتا ہے جس میں پورے ملک کی قومی وحدت اور یکجہتی کا اظہار ہوتا ہے اور مختلف علاقوں کے لوگوں کو باہم تبادلہ خیال کا موقع ملتا ہے۔ لیکن یہ کوئی مستقل طے شدہ امر نہیں کہ ہر سال مرکزی سطح پر اجتماع منعقد کیا جائے۔ حالات اور ضرورت کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اِس سال چاروں صوبوں نے اپنی شوراؤں کی مشاورت سے صوبائی سطح پر اجتماعات کے انعقاد کا فیصلہ کیا جس کی مرکزی جماعت نے تائید کی۔ حکومت کی نااہلی کے باعث عوام کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ خاص طور پر 2018ء کے عام انتخابات چونکہ قریب تر ہیں، اس حوالے سے صوبائی سطح پر اجتماعات کو زیادہ مفید اور کارکنان کے تحرک کا بہتر ذریعہ سمجھا گیا۔ مرکز سے صوبائی اجتماعات کو مکمل رہنمائی اور تعاون فراہم کیا گیا۔ اس لیے ان اجتماعات کے منفی نہیں بلکہ مثبت اثرات ہی مرتب ہوں گے۔ ان شاء اللہ
فرائیڈے اسپیشل: صوبہ خیبر پختون خوا میں اجتماع عام اور پنجاب میں ارکان و امیدواران کا اجتماع گزشتہ ماہ منعقد ہوا۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی اجتماع منعقد ہوچکا ہے۔ یہ صوبائی اجتماعات کس حد تک اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب رہے؟
لیاقت بلوچ: خیبر پختون خوا کی صوبائی جماعت نے اپنے اجتماع کو عام اجتماع کی شکل دی اور اس مقصد کے لیے ہر سطح پر بہت بڑے پیمانے پر عوامی رابطہ کیا گیا، جس میں حواتین، نوجوانوں، طلبہ، علماء اور ہر جماعت کے کارکنان نے منظم طریقے سے محنت کی، جس کے نتیجے میں وہاں صوبے کی سیاسی تاریخ کا مثالی اجتماع ہوا جو جماعت اسلامی کی دعوت، سیاسی و انتخابی پیغام عام کرنے اور کارکنان کو ایک نئے عزم و جذبے کے ساتھ آئندہ مراحل میں کام کرنے کے لیے رہنمائی کا باعث بنا۔ یہ بہت ہی کامیاب اجتماع تھا جس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے۔ مقامی ذرائع ابلاغ نے بھی کھل کر اس اجتماع کی تحسین کی ہے اور اضلاع و نچلی سطح پر آج بھی اس اجتماع کے مثبت اثرات کے پیش نظر محنت اورتحرّک جاری ہے۔ بلوچستان اور پنجاب میں ارکان امیدواران کے اجتماع منعقد ہوئے ہیں۔ یہ بھی ان کی صوبائی جماعتوں نے اپنی شوراؤں کے فیصلے کے مطابق منعقد کیے۔ بلوچستان کا اجتماع بھی مقاصد کے اعتبار سے بہت کامیاب رہا، جب کہ پنجاب میں تنظیم کی ریڑھ کی ہڈی ارکان اور امیدواران کو متحرک کرکے صوبائی تنظیم نے اضلاع کے تعاون سے ہر سطح پر محنت کی اور طویل مدت کے بعد جماعت اسلامی پنجاب کا تنظیمی اعتبار سے ایک اچھا تجربہ سامنے آیا اور ایک بھرپور اجتماع منعقد ہوا۔ جب تنظیم متحرک ہوگی اور ارکان کام کریں گے تو عوامی رابطہ مہم میں یہ بہت مؤثر اور معاون ثابت ہوں گے۔ نظریاتی تحریکوں کے لیے کامل یکسوئی سے کارکنان کو متحرک رکھنا تحریکی ضرورت ہوتی ہے، اس ضرورت کو پورا کرنے میں یہ اجتماعات ممد و معاون ثابت ہورہے ہیں۔
فرائیڈے اسپیشل: اب کراچی میں ’’سندھ ورکرز کنونشن‘‘ کی تیاریاں جاری ہیں۔ اس سے آپ کی کیا توقعات وابستہ ہیں؟
لیاقت بلوچ: جماعت اسلامی سندھ 26 اور 27 نومبر کو کراچی میں ’’سندھ ورکرز کنونشن‘‘ منعقد کررہی ہے۔ میں خود بھی باغ جناح کراچی میں عملی کاموں کی ابتدا اور انتظامات کے افتتاح کے حوالے سے شریک ہوا تھا۔ کراچی، حیدرآباد اور اندرون سندھ کے اضلاع میں ذمہ داران اس کنونشن کے لیے بہت متحرک ہیں۔ باغ جناح کراچی میں بہت وسیع جگہ ہے جسے سیاسی پروگراموں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ مگر جلسہ گاہ کی وسعت کے باعث عام طور پر سیاسی جماعتیں یہاں جلسے نہیں کرتیں۔ جماعت اسلامی سندھ نے اس وسیع و عریض باغِ جناح میں اپنا ورکرز کنونشن منعقد کرنے کا فیصلہ کرکے ایک چینلج قبول کیا ہے۔ توقع ہے کہ سندھ بھر سے مرد و خواتین، مزدور، ہاری، نوجوان، طلبہ، اساتذہ، دانشور اور علماء بہت بڑی تعداد میں اجتماع میں شریک ہوں گے اور یہ اجتماع خود سندھ جماعت اسلامی کی تاریخ کا بڑا اجتماع ہوگا۔ خاص طور پر سندھ کی سیاست کو جس طرح دیہی اور شہری میں تقسیم کیا گیا ہے ہمارا یہ ورکرز کنونشن تعصبات پر مبنی اس خلیج کو پوری طرح ختم نہیں تو بڑی حد تک کم کرنے کا باعث ضرور بنے گا۔ اس لیے کہ ان تعصبات نے سیاست میں کراچی اور حیدر آباد میں ایم کیو ایم اور اندرونِ سندھ پیپلز پارٹی کو بار بار انتخابی فتح سے ہمکنار کیا ہے، مگر ان دونوں جماعتوں کے طرزعمل نے شہروں اور دیہی علاقوں کو کھنڈرات اور کچرے کے ڈھیروں میں تبدیل کردیا ہے۔ پینے کا صاف پانی دستیاب ہے اور نہ گندے پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام۔ جس کے باعث صوبے کے عوام حیوانوں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ اس صورت حال میں جماعت اسلامی کا سندھ ورکرز کنونشن صوبے میں بیداری، امید اور عزم نو کا پیامبر ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: لیاقت صاحب آپ نے جیسا کہ خود ذکر کیا، سندھ شہری اور دیہی کی بنیاد پر طویل عرصے سے تقسیم چلا آرہا ہے، تاہم اب شہری سندھ کی نمائندگی کی دعویدار ایم کیو ایم جن حالات سے دوچار ہے اس کے کیا اثرات سامنے آسکتے ہیں؟
لیاقت بلوچ: کراچی اور حیدرآباد بڑے شہر ہیں، ہر جماعت کو یہاں سیاست کرنے کا حق ہے، مگر سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے مائنڈسیٹ نے کراچی کے حالات کو جس سطح پر پہنچا دیا ہے اسے ٹھیک کرنے کے لیے خود انہیں بھی بڑی قربانیوں کے ساتھ سخت جدوجہد کرنا پڑرہی ہے۔ لیکن کراچی کی سیاست کا اصل مسئلہ یہ نہیں کہ ایم کیو ایم متحد رہتی ہے یا کتنے حصوں میں تقسیم ہوتی ہے۔۔۔ یا باقی جماعتوں کی سیاسی ساکھ کتنی ہے اور کتنی نہیں۔ کراچی کی اصل ضرورت یہ ہے کہ سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اپنا مائنڈسیٹ بدلیں اور شفاف اور غیر جانب دارانہ انتخابات کو یقینی بنایا جائے۔ کراچی کے عوام باشعور ہیں اور 30 سال کے تجربات نے اب کراچی کے عوام کو اس سطح پر لا کھڑا کیا ہے کہ دہشت گردی، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور ’’را‘‘ کے آلہ کاروں سے نجات پائیں۔ اس کا واحد علاج یہ ہے کہ درست ووٹر لسٹیں بنائی جائیں، صحیح حلقہ بندیاں ہوں اور غیر جانب دارانہ انتخابات ہر صورت یقینی بنائے جائیں۔ کراچی اسی صورت میں قومی دھارے میں بھی واپس آئے گا اور یہاں کے عوام ملک و ملت کی ترقی میں پہلے کی طرح مثبت اور انقلابی کردار ادا کر پائیں گے۔
فرائیڈے اسپیشل: موجودہ حکومت اپنی دو تہائی سے زائد مدت مکمل کرچکی ہے اور حکمران ملک میں تعمیر و ترقی اور خوشحالی کا خوب چرچا کررہے ہیں۔ حکومت کی اب تک کی کارکردگی سے متعلق آپ کی رائے کیا ہے؟
لیاقت بلوچ: پاکستان کی اصل ضرورت یہ ہے کہ یہاں جمہوریت مستحکم ہو اور جمہوری کلچر کے ساتھ قومی ادارے اپنے فرائض ادا کریں۔ وفاق اور صوبوں کی حکومتیں گڈ گورننس قائم کریں، عوام کے مسائل اور دکھ درد کا مداوا ہو۔ مگر نوشتۂ دیوار یہ ہے کہ 70 سال سے جاری غلط روش، کرپٹ طرزِ حکمرانی، سیاست اور اقتدار کو عبادت اور خدمت کے بجائے لوٹ مار کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے جس سے ملک کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے، اور پاکستان آج گمبھیر مسائل اور بحرانوں میں گھرا ہوا ہے، جب کہ مقبول عوامی جماعتوں میں نہ تو اندرونی جمہوریت ہے اور نہ ہی ان میں اہل اور باصلاحیت لوگوں کو آگے لانے کا دم خم ہے۔ کرپٹ، نااہل اور خوشامدی قسم کے لوگ ان جماعتوں کی قیادتوں کو حصار میں لیے ہوئے ہیں، جس کے باعث حکومتوں میں گڈ گورننس نام کی کوئی چیز موجود نہیں اور عوام کے مسائل گمبھیر سے گمبھیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ خود رو رہے ہیں کہ اربوں روپے پولیس کو دیئے گئے ہیں مگر حکمرانوں کا اپنا لاہور شہر بھی اسٹریٹ کرائم، قتل و غارت اور ناجائز قبضوں کا گھر بنا ہوا ہے جس سے حکومت کی رسوائی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ حکمران اچھی حکومت کے ذریعے عوام کو مطمئن کرنے کے بجائے پولیس و سرکاری دفاتر میں سیاسی مخالفت کی بنیاد پر بالادستی اور بھرم قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2013ء کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کو مطمئن نہیں کرسکیں اور اس مدت میں بے یقینی اور انتشار میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں عوام کو ان تجربات کی روشنی میں شعور اور ووٹ کی طاقت سے بہتر فیصلے کرنا ہوں گے ورنہ یہ لاوارث پن، بے بسی اور ذلت و خواری جاری رہے گی۔
فرائیڈے اسپیشل: جماعت اسلامی کرپشن کے خلاف کئی ماہ سے تحریک برپا کیے ہوئے ہے۔۔۔ ’’پانامہ لیکس‘‘ کے بعد دیگر جماعتیں بھی اس میدان میں کود پڑیں اور آج کل یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں بھی زیر سماعت ہے جس میں جماعت اسلامی بھی ایک فریق ہے، مگر جماعت کی اس ضمن میں زیادہ مؤثر اور محسوس سرگرمی دکھائی نہیں دے رہی۔ آپ اس معاملے کا انجام کیا دیکھ رہے ہیں؟
لیاقت بلوچ: جماعت اسلامی طویل مدت سے کرپشن کے خلاف مسلسل تحریک چلا رہی ہے اور کرپشن و کرپٹ مافیا کے خلاف عوامی ذہن بیدار کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اِس سال یکم مارچ سے جماعت اسلامی کی ’’کرپشن فری پاکستان‘‘ مہم کے دوران جلسے، جلوس، ٹرین مارچ، کل جماعتی کانفرنسیں اور دستخطی مہم وغیرہ جاری ہیں۔ نیب اور نادرا کے دفاتر کے باہر بڑے بڑے دھرنے بھی دیئے گئے ہیں۔ اگرچہ ان ساری سرگرمیوں کو ذرائع ابلاغ وہ کوریج نہیں دیتے جو ہمارا حق ہے، مگر امرِ واقع یہ ہے کہ محترم سراج الحق صاحب کی قیادت میں ایک تحریک تسلسل سے جاری ہے۔ پھر دوسرا اور اہم تر پہلو یہ ہے کہ دوسری جماعتیں اگرچہ کرپشن کے خلاف شور مچا رہی ہیں اور ذرائع ابلاغ ان کو غیر معمولی کوریج بھی دے رہے ہیں، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ کرپشن کے خلاف بلند بانگ باتیں کرنے والوں کے دائیں بائیں کرپٹ لوگ نمایاں کھڑے نظر آتے ہیں جن کے اپنے نام پانامہ پیپرز اور قرضے معاف کروانے والوں کی فہرستوں میں سرفہرست ہیں، مگر وہ بھی چور مچائے شور کے مصداق کرپشن کے خلاف باتیں کرتے نہیں تھکتے، اور ہمارے ذرائع ابلاغ اس پہلو کو سراسر نظرانداز کرتے ہوئے انہیں پروجیکشن دے رہے ہیں۔ الحمدللہ جماعت اسلامی اس اعتبار سے سرخرو ہے کہ یہاں کسی کے دامن پر کوئی داغ نہیں۔ خود جماعت اسلامی میں احتساب کا ایک مؤثر اندرونی نظام موجود ہے، اس لیے جماعت اسلامی کی ’’کرپشن فری پاکستان‘‘ تحریک محض سیاسی شوشا نہیں، اور نہ ہی یہ سیاست میں آگے بڑھنے کے لیے لانچنگ پیڈ ہے، بلکہ پاکستان کو دیمک اور سرطان کی طرح لاحق مرض کے علاج کے لیے یہ تحریک سچائی، حقائق اور اخلاص پر مبنی ہے۔ عدالت عظمیٰ میں کئی درخواستیں زیر سماعت ہیں، مگر جماعت اسلامی کی درخواست اس دلیل پر مبنی ہے کہ عدالتِ عظمیٰ عدالتی کمیشن تشکیل دے جو پانامہ لیکس میں موجود ناموں کی بلاامتیاز تحقیق کرکے مؤثر ٹرائل کا روڈمیپ بنائے اور ان ٹی او آرز، جن پر حکومت اور حزب اختلاف کا اتفاق ہوچکا تھا، کی روشنی میں یہ عدالتی کمیشن اپنی کارروائی مکمل کرے۔ اس پر بعض حلقے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی درخواست طویل التوا کا سبب بنے گی۔ مگر یہ پروپیگنڈا اُن کرپٹ عناصر ہی کا ہے جو خود کو احتساب سے بچانا چاہتے ہیں۔ ورنہ ہمارا مطالبہ 20 کروڑ عوام نہیں صرف اُن 400 کے لگ بھگ لوگوں کے احتساب کا ہے جن کے نام پانامہ لیکس میں شامل ہیں۔ اگر محض ایک نام ہی کو مرکز و محور بنا کر احتساب کی بات کی گئی تو یہ کرپٹ، نااہل اور عوام کا خون چوسنے والے عناصر کو سیاسی شہید بنانے کے مترادف ہوگا۔
فرائیڈے اسپیشل: جنرل راحیل شریف پاک فوج کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی میعاد مکمل کرنے کے بعد چند دنوں میں ریٹائر ہورہے ہیں۔ ان کے دور میں حکومت اور فوج کے تعلقات میں خاصے اتار چڑھاؤ آئے تاہم بہت سے لوگوں کی خواہشات، توقعات اور خدشات کے باوجود انہوں نے جمہوری اقتدار میں فوجی مداخلت سے گریز کی پالیسی پر عمل کیا۔
لیاقت بلوچ: طویل مدت کے بعد پاکستانی فوج کے سربراہ باعزت، سربلند اور باوقار انداز میں اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہورہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے مسلسل متحرک رہ کر فوجی کمان کا حق بھی ادا کیا اور ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانے کے لیے جوہری کردار ادا کیا، جس سے فوج کی ساکھ بھی بحال ہوئی ہے اور عوام کے دلوں میں فوج کے لیے پھر سے محبت کے جذبات موجزن ہوئے ہیں۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ موجودہ حالات میں افواج کے اداروں کی اہمیت و ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے، فوج اگر آئین اور حالات کے تقاضوں سے ہٹ کر اقدام کرتی تو پاکستان بھی گرداب میں پھنس جاتا اور فوج کی جو ساکھ بحال ہوئی ہے اس کے بجائے ملک دشمن قوتوں کا کام آسان ہوجاتا۔ اس مسئلے پر جنرل راحیل شریف ملک کی فوجی تاریخ میں اپنا نیک نام اور مقام حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی ادارہ اور اس کا سربراہ اپنی ساکھ اور حالات کو ٹھیک کرنا چاہے تو یہ ناممکن نہیں۔ اس لیے آئندہ چند دنوں بلکہ چند گھنٹوں میں نئے آرمی چیف کی تقرری کا درپیش مرحلہ خالصتاً میرٹ، اہلیت اور فوج کی وحدت و یکجہتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے مکمل ہوجانا چاہیے۔ وزیراعظم محض صوابدیدی اختیار کے گھمنڈ میں فیصلے نہ کریں۔
فرائیڈے اسپیشل: اس ضمن میں نئے آرمی چیف سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے؟
لیاقت بلوچ: فوج کے نئے سربراہ کے لیے جنرل راحیل شریف نے بہت سے کام آسان بھی کردیئے ہیں اور آنے والے حالات میں بعض پہلوؤں سے یہ ٹاسک مشکل تر بھی ہے۔ اس لیے ہمیں توقع ہے کہ نئے سربراہ فوج میں اندرونی یکجہتی کو برقرار رکھتے ہوئے عوام اور فوج کے درمیان بحال ہونے والے اعتماد کے رشتے کی بھی حفاظت کریں گے۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان دشمنوں میں گھرا ہوا ہے، چین پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ دشمنوں کی آنکھ میں بری طرح کھٹک رہا ہے، اس لیے
(باقی صفحہ 41پر)
جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اقتصادی ترقی کے اس عظیم منصوبے کی حفاظت کرنا بھی فوج اور عوام کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: حکمران زرمبادلہ کے ذخائر ریکارڈ سطح تک پہنچنے کے دعوے کررہے ہیں، جب کہ دوسری جانب تین برس میں دس کھرب روپے کے قرضے لینے کا ریکارڈ بھی قائم کیا گیا ہے مگر عوام کو کوئی ریلیف ابھی تک نہیں مل سکا۔ اس تضاد کا سبب کیا ہے؟
لیاقت بلوچ: پاکستان کی معیشت قرضوں کی لعنت میں اس قدر بری طرح جکڑی ہوئی ہے کہ سود کی ادائیگی کے لیے بھی نئے سودی قرضے لینا پڑرہے ہیں۔ اس طرح قرضوں کے بوجھ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ وزیر خزانہ تصویر کا ایک رخ دکھاتے ہیں جب کہ زیادہ خطرناک، سیاہ اور عوام کا خون چوسنے والے پہلو کو عوام سے پوشیدہ رکھتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے پیش کردہ یہ اعداد و شمار سچ پر مبنی نہیں بلکہ عوام کو دھوکا دینے کے لیے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ قرضوں کی معیشت عوام کی خوشحالی کی ضامن نہیں ہوسکتی۔ قرضوں سے نجات خودانحصاری اور حکمران طبقات کی عیاشیوں پر بندشیں عائد کرکے ہی مل سکتی ہے اور کشکول ٹوٹ سکتا ہے۔ مگر آزمودہ کرپٹ عناصر کے ذریعے قومی معیشت کی بحالی کسی طور ممکن نہیں۔ اس کے لیے اہل، دیانت دار، سادگی اور وسائل کے اندر رہ کر کام کرنے والی قیادت اور ٹیم لازمی ہے۔
فرائیڈے اسپیشل: ترک صدر حال ہی میں پاکستان کا دورہ مکمل کرکے واپس گئے ہیں، اُن کی جماعت سے جماعت اسلامی کے خاصے قریبی نظریاتی تعلقات رہے ہیں، جب کہ اس دورے کے دوران جماعت اسلامی اور اس کی قیادت کو مکمل نظرانداز کیا گیا، ایسا کیوں ہوا؟
لیاقت بلوچ: ترک عوام اور قیادت سے پاکستان کا لازوال محبت کا رشتہ ہے۔ طیب اردوان کی قیادت میں ترکی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ ترک عوام نے حال ہی میں فوجی قیادت کو جس جرأت اور بہادری سے ناکام بنایا ہے یہ موجودہ تاریخ کا انوکھا باب ہے۔ طیب اردوان ایسے وقت میں پاکستان آئے جب پاکستان کو واقعی اُن کی ضرورت تھی۔ مگر اس دورے میں دو امور تشویش ناک رہے۔ اول تحریک انصاف کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ، جب کہ ہماری خواہش اور درخواست تھی کہ اس اہم موقع پر قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔ دوئم وزیراعظم نوازشریف کی تنگ نظری، جس کے سبب یہ قومی اہمیت کا موقع بھی حکمران خاندان اور پارٹی تک محدود رہا جس سے قومی مفاد کو نقصان پہنچا۔ حالانکہ طیب اردوان کے دورے سے قبل ان کے مشیر پاکستان آئے تھے تو وہ منصورہ بھی آئے۔ مگر ظاہر ہے کہ جب حکومت پاکستان میں ترک صدر کے دورے کے ٹی او آرز ہی بدل ڈالے تو یہ ضروری نہیں تھا کہ طیب اردوان پاکستان کی سیاسی قیادت سے ملتے۔

حصہ