(گوادر بندرگاہ کی فعالیت (اخوند زادہ جلال نور زئی

232

جب کاشغر سے دو سو پچاس کنٹینر لے کر ٹرکوں کا قافلہ خیبر پختون خوا کے جنوبی راستوں سے گوادر کے لیے روانہ ہوا، تو اس کی خبر اہلِ بلوچستان کو بھی ہوئی اور بے صبری سے انتظار ہونے لگا۔ چنانچہ یہ قافلہ بلوچستان کی حدود میں ژوب کے راستے داخل ہوا۔ جس روٹ کا انتخاب کیا گیا تھا وہ مغربی ہے جس کا استعمال اور بروقت تعمیر، مختلف سیاسی جماعتوں کا مطالبہ ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ اس روٹ پر یہ پہلا قافلہ روانہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ آیا موسم کی خرابی یعنی پنجاب کے بعض علاقوں میں دھند وجہ بنی، یا مغربی روٹ بھی تجارتی سرگرمیوں کے لیے متوازی طور پر استعمال ہوتا رہے گا۔ بہرحال ذرائع ابلاغ پر جگہ جگہ اس کی کوریج ہوتی رہی۔ یوں یہ قافلہ12نومبر کو گوادر پہنچ گیا۔ گوادر میں پہلے کارگو جہاز کی روانگی کی مناسبت سے بڑے تزک و احتشام سے تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے کوئٹہ سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں، اساتذہ، یونیورسٹی کے طلبہ کو 12نومبر کو ہی لے جایا گیا۔ ان مہمانوں کو وہاں مختلف ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز میں ٹھیرایا گیا۔ میاں نوازشریف اور جنرل راحیل شریف مہمانِ خاص تھے۔ اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان، مختلف ممالک کے سفراء بشمول چین کے سفیر، قومی سلامتی کے مشیر جنرل ریٹائرڈ ناصر خان جنجوعہ، وفاقی وزیر میر حاصل بزنجو، جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ، مولانا فضل الرحمان، بلوچستان اسمبلی کے ارکان اور دیگر سول و عسکری حکام شریک ہوئے۔ ان مال بردار ٹرکوں کو فوج کی انتہائی سخت نگرانی میں گوادر تک پہنچایا گیا۔
اقتصادی راہداری کے تحت تجارتی سرگرمیوں کی نگرانی اور حفاظت فوج کے ذمے ہے۔ پاک فوج کا خصوصی سیکورٹی ڈویژن حفاظتی بندوبست پر مامور ہے۔ سی پیک کی سیکورٹی کے لیے 21 ارب 57 کروڑ کی لاگت سے پاک فوج اور سول آرمڈ فورسز کے 13731 اہلکاروں پر مشتمل سیکورٹی ڈویژن قائم کیا گیا ہے۔ خصوصی ڈویژن میں فوج کی مجموعی انفینٹری بٹالین 9229 اہلکاروں پر مشتمل ہے۔ پنجاب رینجرز کے 2190 اہلکار، فرنٹیئر کور بلوچستان کے ونگ میں 730 اہلکار، جبکہ سی پیک کی سیکورٹی کے لیے فرنٹیئر کور خیبرپختون خواہ کے 852 اہلکاروں پر مشتمل ونگ ہے۔
12نومبر کو وزیراعلیٰ اپنی ٹیم کے ساتھ گوادر میں تھے کہ شاہ نورانی مزار کے اندر خودکش حملہ ہوا۔ حملہ ایسے وقت میں ہونا معنی خیز ہے جب پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت گوادر بندرگاہ سے پہلا بڑا تجارتی کارواں روانہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ خوشی اور اطمینان کا ماحول بنایا گیا تھا اور دہشت گردوں نے ایک روز قبل خون کی ہولی کھیلی۔ دھمال کرنے والے لوگوں کو خون میں نہلایا دیا گیا۔ گویا بڑی شدت سے محسوس ہوا کہ یہ دہشت گرد آسانی سے پسپا ہونے والے نہیں اور پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی ہر ممکن کوششیں کی جائیں گی۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ پاکستان کی حکومت یا جو دوسرے صاحبانِ اختیار ہیں وہ کہاں تک بلوچستان کے عوام کو ترقی سے ہمکنار کرتے ہیں۔
سی پیک کے مغربی روٹ پر تنازع موجود ہے۔ خود گوادر کے اندر انفرااسٹرکچر قائم نہیں ہے۔ عوام خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں گوادر پورٹ ان کی رہی سہی خوشیاں نہ چھین لیں، اور آبادی کے ازدحام میں ان کی بقا کا مسئلہ کیسے حل ہوگا! بڑی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں اپنی جگہ، بلوچستان حکومت اس تناظر میں کتنی بااختیار ہے یہ الگ چبھتا ہوا سوال ہے۔ غرضیکہ پاکستان کی طرف سے اب تک اقتصادی راہداری کے ضمن میں نمایاں کام دکھائی نہیں دیتا۔ گوادر ہنوز پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ حکمران کہتے رہتے ہیں کہ صاف پانی کی فراہمی کے لیے ساڑھے گیارہ ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ مقامی آبادی اور بالعموم بلوچستان کے عوام کو ترقیاتی عمل میں شراکت دار بنانے کے دعوے ہورہے ہیں۔لیکن وہ تیزی دکھائی نہیں دیتی جو ہونی چاہیے تھی۔ 13نومبر کی اس تقریب میں وزیراعظم نے بہت ساری پرانی باتیں ہی دہرائیں۔ بہرحال وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’’سی پیک منصوبے سے گوادر تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن جائے گا۔ آزاد تجارتی زون کے لیے زمین مختص کردی گئی ہے۔ زون میں سرمایہ کاروں کو خصوصی مراعات دی جائیں گی۔ پاکستان مستقبل میں خطے کا اہم تجارتی و اقتصادی زون ہوگا اور خطے کی تین ارب آبادی اس منصوبے سے مستفید ہوگی۔ نئی سڑکوں کی تعمیر سے صوبے میں امن و استحکام اور خوشحالی آئے گی۔ وفاقی حکومت نے شہریوں کی سہولت کے لیے بلوچستان میں سڑکوں کی تعمیر پر75 ارب روپے خرچ کیے ہیں، جبکہ مزید 200 ارب روپے خضدار کوئٹہ اور ڈی آئی خان روڈ کی تعمیر پر خرچ کیے جائیں گے۔ ایف ڈبلیو او نے انتہائی مشکلات کے باوجود گوادر پورٹ کو فعال کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے‘‘۔ وزیراعظم نے خضدار، گوادر اور رتوڈیرو روڈ2017ء میں فعال کرنے کا اعلان کیا، اور چمن خیبر روڈ بحالی کا اعلان بھی کیا۔ وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ ’’وفاقی حکومت نے فری ٹریڈ زون اور گوادر سٹی کی ترقی کے لیے25 ارب روپے جاری کیے ہیں۔ گوادر میں پچاس بستروں کے حامل اسپتال کو تین سو بستروں تک اپ گریڈ کیا جائے گا۔ مطلوبہ افرادی قوت کی ضرورت پوری کرنے کے لیے گوادر میں ایک یونیورسٹی اور ایک ٹیکنیکل ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔‘‘
وزیراعظم نوازشریف نے پائلٹ پروجیکٹ کے پہلے تجارتی قافلے کی روانگی کا افتتاح کیا۔گویا ایک نامکمل بندرگاہ پر میگا پائلٹ ٹریڈ کارگو مغربی ایشیا اور افریقی ممالک کو روانہ کیا گیا۔ کاشغر سے گوادر تک دو سو پچاس ٹرکوں کا قافلہ عام قومی شاہراہوں سے گزرا۔ شاہراہوں کی تعمیر میں ابھی مزید وقت درکار ہے، بلکہ بہت وقت درکار ہے۔ گوادر پورٹ کی تکمیل، گوادر کو بین الاقوامی معیار کا شہر بنانے کے لیے عالمی معیار کی شاہراہوں کا جال بچھانا، بندرگاہ کو ریل کے ذریعے افغانستان اور ایران سے منسلک کرنا، اسی طرح بلوچستان کے عوام کا اعتماد بحال کرنا اور ان کے مستقبل اور روزگار کا تحفظ حکومت کے لیے امتحان ہے۔ (باقی صفحہ 41پر)
بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ افہام و تفہیم پیدا کرنا اور بلوچ شدت پسند رہنماؤں کو راضی کرنا بہت ضروری ہے۔ ایسا نہیں ہوگا تو حکومت کے لیے حالات سازگار نہیں بن سکتے۔ شاہ نورانی جیسے واقعات ہوں گے تو خود برادر ملک چین کو وسوسے لاحق ہوں گے۔ پاکستان بلوچستان کے اندر بلوچ شدت پسندوں تک کو قریب لانے میں ناکام ہے۔ بھارت سمندری سر حدوں کی پامالی بلکہ ان اطراف سے بھی جارحیت کا ارادہ رکھتا ہے۔ گوادر بندرگاہ سے روانہ ہونے والے کارگو کو پاکستان نیوی نے خصوصی تحفظ فراہم کیا۔ بھارت بلوچ شدت پسندوں کو پال رہا ہے۔ جب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اپنی انتہا کو پہنچے گی تو بلوچستان میں بھی اسی شدت سے حالات خراب ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ اس پہلو پر توجہ دی جانی چاہیے۔

حصہ