(علامہ شبلی کی تاریخ نویسی (ملک نواز احمد اعوان

1638

کتاب
:
معارف شبلی
(علامہ شبلی نعمانی کی تاریخ نویسی پر معارف اعظم گڑھ میں شائع ہونے والے مضامین)
ترتیب و تقدیم
:
ٖڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق
صفحات
:
304 قیمت 340 روپے
ناشر
:
قرطاس۔ فلیٹ نمبر A-15 گلشن امین ٹاور گلستان/ جوہر بلاک 15 کراچی
موبائل
:
0321-3899909
ای میل
:
saudzaheer@gmail.com
ویب سائٹ
:
www.girtas.co.ur
ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق بڑے محنتی اور ہردم مصروف رہنے والے استاد ہیں۔ تاریخ پیدائش 19 مئی 1977ء کراچی۔ تحفیظ القرآن (دارالعلوم صابریہ فرقانیہ کراچی)، شہادۃ العلوم الاسلامیہ (دارالعلوم نضرۃ العلوم کراچی)، ایم اے (اسلامی تاریخ)، ایم اے (علوم اسلامیہ)، پی ایچ ڈی (اسلامی تاریخ) جامعہ کراچی، کراچی۔ حال مشغولیت اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ علوم اسلامی تاریخ جامعہ کراچی۔ ان کے قلم سے درج ذیل کتب نکلی ہیں:
اشاریہ ماہنامہ معارف اعظم گڑھ 656 صفحات بڑے سائز میں، وفیاتِ معارف 850 صفحات، مشرقِ وسطیٰ کا بحران، اشاریہ نعت رنگ، اشاریہ ’’جہانِ حمد‘‘، نعت نامے بنام صبیح رحمانی 940 صفحات، اشاریہ التفسیر، پیش نظر معارف شبلی، زیر طبع کتب جامعہ نظامیہ بغداد 500 صفحات، مکتوب ترکی (ڈاکٹر نثار احمد اسرار) 440 صفحات، اشاریہ ارمغانِ حمد 400 صفحات۔
زیرنظر کتاب میں ڈاکٹر سہیل شفیق نے مولانا شبلی نعمانی کی تاریخ نویسی کے متعلق شائع شدہ مقالات و مضامین کو جمع کردیا ہے اور اس پر ایک مبسوط مقدمہ بھی تحریر فرمایا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی شعبہ عربی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ تحریر فرماتے ہیں:
’’ڈاکٹر محمد سہیل شفیق کی علمی ریاضت سے اہلِ علم بخوبی واقف ہیں۔ اسی علمی انہماک و استغراق نے انھیں اربابِ علم و فن میں مقبولیت بخشی۔ یہ مرض اہلِ علم میں عام ہے کہ چند صفحات شائع کیا ہوئے کہ استکبار و افتخار کو اپنا ہم نشیں بنا ڈالا، جب کہ علم سے خشیت و انکساری آنی چاہیے، کیونکہ تحدیثِ نعمت ایک صاحبِ ایمان کا خاصہ ہے۔ ڈاکٹر محمد سہیل شفیق کو میدانِ تحقیق میں ایک تفرّد حاصل ہے۔ اسی کے ساتھ اشاریہ سازی میں بھی اپنی یکتائیت کو ثابت کر دکھایا، جس کی وجہ سے محققین و مصنفین کو کیا کیا سہولیات میسر ہوئیں، نیز ان کی تسوید و تحقیق کی رفتار تیز سے تیز تر ہوگئی۔ ماہنامہ ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ کا اشاریہ بناکر علمی و ادبی دنیا کو ایک انمول تحفہ عطا کیا۔ معارف کے علمی وفکری خزینہ بلکہ دفینہ کو عام کیا۔ یقیناًیہ ایک کارِ ثواب ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے یہ اشاریہ کیا بنایا کہ انھیں شبلی اور شبلی اکیڈمی سے عشق ہوگیا۔ عشاقِ شبلی میں جسے جگہ مل جائے وہ کتنا بخت آور ہے۔ اسی عشق نے آپ کے اندر یہ اشتیاق بھی پیدا کیا کہ شبلی کی تاریخ نویسی سے متعلق ماہنامہ ’’معارف‘‘ ہی سے کچھ مقالات کا انتخاب شائع کیا جائے تاکہ مہدی افادی کے قول ’’تاریخ کا معلم اوّل‘‘کو مزید استناد و اعتبار حاصل ہو۔ یقیناًشبلی کی تاریخِ اسلام پر مضبوط گرفت تھی اور تاریخِ اسلام کے تئیں استشراقی عبارتوں سے واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مخالفینِ اسلام مؤرخین کی یاوہ گوئیوں کا مسکت جواب دیا، جس کا اعتراف زمانے کو ہے۔ ڈاکٹر سہیل شفیق کا یہ انتخاب شاید کچھ اہلِ علم کے نزدیک لمحۂ فکریہ ہو۔ بہرِ نوع جو بھی ہو یہ ایک قابلِ قدر کام ہے، شبلی صدی کے تناظر میں شبلی کو یہ ایک لائقِ توصیف سلامِ عقیدت ہے۔
ادارہ قرطاس کی جانب سے علامہ شبلی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا یہ تسلسل قابلِ ستائش ہے۔ ترجمانِ قرطاس ’’الایام‘‘ میں شبلی کے علمی و تاریخی کارناموں کو بڑے اہتمام سے یاد کیا گیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ادارہ قرطاس میں اسی طرح بزم شبلی کی آرائش ہوتی رہے گی اور ڈاکٹر سہیل شفیق اسے نئے نئے انداز اور نئے نئے رنگ میں پیش کرتے رہیں گے۔ شاید آئندہ شبلی کے اس متوطن کو بھی شبلی نوائی کا موقع دیا جائے۔
ہم ڈاکٹر صاحب کی اس علمی کاوش پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ اس میں کلام نہیں کہ علمی حلقے اور طلبہ دونوں یکساں اس سے استفادہ کریں گے اور شبلی کی تاریخ نویسی سے روشناس بھی ہوں گے۔ خدا کرے ڈاکٹر صاحب کی یہ علمی کارفرمائیاں جاری و ساری رہیں اور دنیائے تحقیق کی تزئین میں سرگرمِ سفر رہیں‘‘۔
ڈاکٹر سہیل شفیق تحریر فرماتے ہیں:
’’شبلی کی تاریخی تصنیفات کے مطالعے سے شبلی کی تاریخ نویسی کے درجِ ذیل بنیادی اصول سامنے آتے ہیں:
شبلی کے نزدیک تاریخ کا سب سے بڑا اصول یہ ہے کہ تاریخ صرف سیاسی امور پر مشتمل نہ ہو بلکہ ادبی تہذیب و تمدن کی سرگزشت بھی ہو جس میں اجتماعاتِ انسانی کی معاشرت، اخلاق، عادات، مذہب ہر چیز کے متعلق معلومات کا سرمایہ مہیا کیا جائے۔
شبلی نے مؤرخ کے لیے صحتِ واقعہ میں روایت کے پہلو بہ پہلو درایت سے کام لینا بھی ضروری قرار دیا ہے، بلکہ اپنے تمام اصولِ تاریخ نویسی کے مقابلے میں سب سے زیادہ زور اسی پر دیا ہے۔
سبب اور مسبب یعنی Cause کا سلسلہ تلاش کیا جائے کہ اس کے بغیر حقیقت تک رسائی ممکن نہیں۔
شبلی کے نزدیک فلسفہ، انشا پردازی اور تاریخ کی سرحدیں جدا ہیں، ان میں وہی فرق ہے جو ایک خاکے، نقشے اور تصویر میں ہوتا ہے۔ مؤرخ کا فرض یہ ہے کہ وہ سادہ واقعہ نگاری سے تجاوز نہ کرے۔
شبلی تاریخ کو ملّی تناظر میں دیکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ’’المامون‘‘ کے مقدمے میں لکھا: ’’ہندوستان کی بہت سی تاریخیں لکھی گئیں اور مغلیہ و تیموریہ حکومت کے کارنامے بڑی آب و تاب سے دکھائے گئے، لیکن ظاہر ہے کہ ہندوستان کی مجموعی تاریخ بھی ہماری قومی تاریخ کا ایک بہت چھوٹا حصہ ہے۔‘‘
اسلام اور مسلمانوں سے متعلق یورپ کے کذب و افترا اور ان کی تاریخی غلطیوں کا ازالہ علامہ شبلی کی زندگی کا خاص مقصد اور مشن تھا۔ ان کی یہ خصوصیت بھی قابل ذکرہے کہ وہ جن کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں ان کے پایہ اعتبار و استناد کو پہلے ہی بیان کردیتے ہیں۔
شبلی کے نزدیک مغربی مصنفین کی غلط بیانیوں کی وجہ تعصب کے علاوہ یہ بھی تھی کہ وہ پرانے زمانے کا مقابلہ جدید دور سے کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک غلط اصول ہے، اور مؤرخانہ دیانت داری اور ہمدردی کا تقاضا ہے کہ ہم ماضی کو صرف ماضی کے معیار سے دیکھیں اور ’’موجودہ طرزِِ سلطنت سے ایشیائی حکومتوں کو نہ ناپیں۔‘‘
دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگ بعض بادشاہوں کے ذاتی افعال کو مذہب کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ حالانکہ یہ انفرادی افعال ہیں جو یورپ کے بادشاہوں سے بھی سرزد ہوتے رہے ہیں۔ ان کے لیے مذہب کو ملزم نہیں قرار دیا جا سکتا۔
دوسرے، شبلی کے نزدیک یورپ کی تاریخ میں ایک بہت بڑا نقص یہ ہے کہ اس میں راوی کے ثقہ یا غیر ثقہ ہونے کی پروا نہیں کی جاتی، بلکہ اگر کوئی ایسا موقع پیش آجاتا ہے تو ہر قسم کی بازاری افواہیں قلم بند کرلی جاتی ہیں جن کے راویوں کا نام و نشان تک معلوم نہیں ہوتا۔ ان افواہوں میں سے وہ واقعات الگ کرلیے جاتے ہیں جو عقل کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔ پھر ایک ’’کتاب‘‘ یا تاریخ بنالی جاتی ہے اور یہی اصولِ تصنیف ہے جو یورپ کی تصانیف کی بنیاد ہے۔
شبلی اسلامی علوم پر مکمل عبور رکھتے تھے اور اسلامی تاریخ و تہذیب پر ان کی نظر گہری تھی۔ نئے حالات، رجحانات، تازہ افکار و خیالات اور جدید مسائل و تحقیقات بھی ان کے لیے انوکھے اور نامانوس نہ تھے، اس لیے مستشرقین کے اعتراضات کی تہہ تک پہنچنے اور ان کے مدلل اور محققانہ جوابات دینے میں انھیں دشواری نہیں ہوئی۔
مواد کی ترتیب و تحلیل اور تنقید و تجزیے کی شرط تحقیق کو اول اول اردو میں شبلی نے برتا اور فنی طور سے برتا۔ یہی وجہ ہے کہ شبلی کی تمام تصانیف میں مختلف روایات میں سے متصادم و متضاد روایات پر محاکمہ و نقد ملتا ہے اور صحیح کو غلط سے تمیز کیا جاتا ہے۔
شبلی نے ہر ایک تصنیف کے مواد کے حصول کے لیے سینکڑوں مآخذ کے ہزاروں صفحات کھنگالے اور زیر خیال اور زیر قلم تالیف کے لیے تمام ممکنہ مآخذ کا پتا لگایا، ان کو مختلف کتاب خانوں میں تلاش کیا، ان کا مطالعہ کیا، ضروری معلومات اخذ کیں اور ہر طرح سے ان کو حاصل کیا۔‘‘
علامہ شبلی کا یوم وفات 18 نومبر 1914ء ہے۔
کتاب میں درج ذیل دس مضامین و مقالات شامل کیے گئے ہیں:
’’علامہ شبلی نعمانی‘‘ ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی۔ ’’مولانا شبلی بحیثیت مؤرخ‘‘ پروفیسر خلیق احمد نظامی۔ ’’شبلی کا نظریۂ تاریخ‘‘ ڈاکٹر سید محمد عبداللہ۔ ’’علامہ شبلی نعمانی کا نظریۂ تاریخ‘‘ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی۔ ’’علامہ شبلی اور سیرتِ نبویؐ کی تالیف۔۔۔ مقدمۂ سیرت پر ایک نظر‘‘ ضیاء الدین اصلاحی۔ ’’مولانا شبلی کی ایک عدیم المثال اور مہتم بالشان تصنیف سیرۃ النبیؐ‘‘ محمد عارف عمری۔ ’’علامہ شبلی کی سیرۃ النبیؐ‘‘، ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی۔ ’’الفاروق۔۔۔ ایک مطالعہ‘‘ ضیاء الدین اصلاحی۔ ’’علامہ شبلی کی المامون پر ایک نظر‘‘ سید صباح الدین عبدالرحمن۔ ’’علامہ شبلی کی تصنیف اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر: ایک جائزہ‘‘ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی۔
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع کی گئی ہے، خوبصورت سرورق سے آراستہ ہے۔ کتاب کا انتساب پروفیسر ڈاکٹر محمد شکیل صدیقی مرحوم کے نام ہے۔
۔۔۔۔۔۔**۔۔۔۔۔۔
کتاب
:
مولانا محمد تقی امینی کی فقہی خدمات
مصنف
:
ڈاکٹر محمد انس حسان
صفحات
:
276 قیمت 340 روپے
ناشر
:
قرطاس۔ فلیٹ نمبر A-15، گلشن امین ٹاور گلستان جوہر، بلاک 15 کراچی
موبائل
:
0321-3899909
مولانا محمد تقی امینی 22 شوال 1324ھ بمطابق 5 مئی 1926ء لکھنؤ سے متصل ضلع بارہ بنکی کے مشہور قصبہ سبیجہ میں پیدا ہوئے۔ والدِ ماجد کا نام عبدالحلیم تھا جو اپنے اخلاق و کردار اور تہذیب و شائستگی میں ممتاز تھے، ان میں خدمتِ خلق اور قربانی کا جذبہ بے مثال تھا۔ ابتدائی تعلیم علاقے کے قریبی مدرسے میں حاصل کی۔ قرآن مجید کے حفظ اور ابتدائی درجے کی عربی فارسی کتب اسی مدرسے میں پڑھیں۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم کے زمانے میں دو بزرگوں سے زیادہ اثر قبول کیا: صوفی افضل علی صاحب اور قاری محمد یامین صاحب۔ اس کے بعد فقہ میں مہارت مفتی کفایت اللہ صاحب سے حاصل کی۔ مختلف مدارس میں تدریس کی، ندوۃ العلماء لکھنؤ کی مجلس تحقیقاتِ شرعیہ میں رکن کی حیثیت سے شریک رہے، اس کے بعد علی گڑھ میں 1974ء میں مولانا کی آمد شعبۂ دینیات کے ناظم اور لیکچرر کی حیثیت سے ہوئی۔ طالب علموں سے ان کا سلوک محبت اور شفقت کا ہوتا تھا۔ مولانا سعود عالم قاسمی تحریر فرماتے ہیں:
’’مولانا طالب علموں سے بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے، ان کے مسائل پوچھتے، ان کی ضرورت کا خیال رکھتے، بہت سے طلبہ کی مالی امداد کرتے، کسی کو تکلیف میں مبتلا دیکھتے تو اس کی کسک اپنے دل میں محسوس کرتے اور اس کی مدد کے لیے بے چین رہتے، غریبوں اور ناداروں کا پورا خیال رکھتے، کبھی اپنے دروازے سے سائل کو ناکام نہ لوٹاتے تھے۔ ایسے لوگوں کا پتا چلاتے جو ان کی مدد کے مستحق ہوں، اور ان کی ہر ممکن مدد کرتے‘‘۔
مولانا محمد تقی امینی علیہ رحمۃ (1926ء ۔۔۔1991ء) نے درج ذیل کتب تحریر فرمائی ہیں:
اسلام کا زرعی نظام، عروج و زوال کا الٰہی نظام، حدیث کا درایتی معیار، اجتہاد کا تاریخی پس منظر، مسئلہ اجتہاد پر تحقیقی نظر، فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر، لامذہبی دور کا تاریخی پس منظر، احکامِ شرعیہ میں حالات و زمانہ کی رعایت، اسلام اور جدید دور کے مسائل، حکمتِ قرآن، مراسلاتِ علمی و دینی۔ مقالات اس کے علاوہ مزید ہیں۔
بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے ڈاکٹر سعید الرحمن تحریر فرماتے ہیں:
’’مولانا محمد تقی امینی برصغیر پاک و ہند بنگلہ دیش کی اُن معدودے چند شخصیات میں سے ہیں، جنہوں نے ایک طرف روایتی دینی نظام تعلیم کے ذریعے اسلام کے علمی ورثے تک براہِ راست اور گہرائی کے ساتھ رسائی حاصل کی، تو دوسری جانب گردوپیش کے تغیرات اور حالاتِ زمانہ کے تقاضوں کو بھی پوری طرح پیشِ نظر رکھا، جس سے ان کی تحریروں میں علمی اعتدال اور فکری توازن نظر آتا ہے۔
مولانا امینی نے فقہی موضوعات کو خاص طور پر اپنی علمی تحقیق کا موضوع بنایا ہے اور اسلام کے اصولِِ ثبات اور اصولِِ تغیر کے درمیان ہم آہنگی کو اجاگر کیا ہے۔ انھوں نے اجتہاد کی عصری اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے عصرِِ حاضر کے حوالے سے اس کے دائرہ ہائے کار کو خاص طور پر واضح کیا، جس میں نئے مسائل کی تحقیق کے علاوہ موقع و محل کی تعیین اور رفع حرج کی بنیاد پر اجتہاد کو شامل کیا ہے۔ نیز ملکی قانون سے استفادے کو بھی انھوں نے معتبر طریقہ ہائے کار میں شمار کرکے اس رویّے کی حوصلہ شکنی کی ہے کہ اس قسم کے قوانین کسی صورت لائقِ اعتنا نہیں ہوتے۔
مولانا امینی کی خدمات کثیرالجہات ہیں اور عصرِ حاضر کے تہذیبی مسائل سے لے کر قانونی مسائل تک ان کا دائرہ پھیلا ہوا ہے۔ انھوں نے فقہ میں جہاں اصولی نوعیت کے مباحث پر گفتگو کی ہے وہیں انھوں نے اجتہاد کے اجتماعی تصور کی اہمیت اجاگر کرکے اس کے لیے بنیادی رہنما اصولوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔
زیرنظر تالیف نوجوان فاضل عزیز جناب محمد انس حسان کے قلم سے قرطاس کی زینت بنی ہے۔ ان کو علمی موضوعات سے جو شغف ہے، وہ قابلِ تعریف ہے۔ انھوں نے مولانا محمد تقی امینی کی فقہی خدمات کا مفصل تعارف قلم بند کرکے اس کو اسلامی علوم سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بطور ارمغان پیش کیا ہے۔ فقہی علوم پر تحقیق کا ذوق رکھنے والے اصحابِ علم، اس تالیف کی مدد سے تحقیق و تدقیق کے کئی پہلو تلاش کرسکتے ہیں‘‘۔
کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے:
باب اول: مولانا محمد تقی امینی: احوال و آثار۔ حالاتِ زندگی، تصنیف و تالیف، تحقیقی مقالات، فقہی رجحانات، فقہی اسلوب، اسلوبِ تحریر۔
(باقی صفحہ 41پر)
باب دوم: فقہ اسلامی کے اصول و مبادی۔ فقہ اسلامی کا معنی و مفہوم، فقہ اسلامی کی اہمیت و ضرورت، فقہ اسلامی کے بنیادی مآخذ، قرآن مجید (فقہ اسلامی کا پہلا ماخذ)، سنتِ رسول (فقہ اسلامی کا دوسرا ماخذ)، اجماع (فقہ اسلامی کا تیسرا ماخذ)، قیاس (فقہ اسلامی کا چوتھا ماخذ)، فقہ اسلامی کا ارتقاء، عہدِ رسالت (فقہ اسلامی کا پہلا دور)، خلافتِ راشدہ (فقہ اسلامی کا دوسرا دور)، دورِ بنی امیہ (فقہ اسلامی کا تیسرا دور)، دورِ بنی عباس (فقہ اسلامی کا چوتھا دور)، جمود و تقلید کا دور (فقہ اسلامی کا پانچواں دور)، دورِ حاضر (فقہ اسلامی کا چھٹا دور)
باب سوم: فقہ اسلامی کی تشکیلِ جدید۔ سماجی حالات کی تغیر پذیری، ملّتِ اسلامیہ کا زوال، قانونِ فطرت کے تقاضے، معاشرتی تبدیلیاں اور شریعت، فقہ اسلامی پر یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا اثر، مسلم معاشرے کی بیداری، مسلم معاشرے کی تقسیم، جدید تدوین اور عصرِ حاضر، جدید تدوین کی نزاکت، فقہ کی تشکیلِ جدید پر کام نہ کرنے کے ممکنہ نتائج، جدید تدوین میں اجتہاد کی رعایت، جدید تدوین کی اجتماعی بنیادیں، جدید تدوین کے زیر موضوع مسائل، جدید تدوین کا مجوزہ طریقۂ کار۔
باب چہارم: عصرِ حاضر میں اجتہاد کا طریقۂ کار۔ اجتہاد کا معنی ومفہوم، اجتہاد کی ضرورت اور اہمیت، اجتہاد کی اقسام، عصرِ حاضر میں اجتہاد کا دائرۂ کار، عصرِ حاضر میں اجتہاد کی عملی صورتیں، عصرِ حاضر میں اجتہاد کا طریقۂ کار، عصرِ حاضر میں فقہی اجتہاد کے درجات، دورِ حاضر میں اجتہاد میں حائل دشواریاں، موجودہ دور میں اجتہاد میں احتیاط۔
باب پنجم: شرعی احکام میں حالات و زمانہ کی رعایت۔ قرآن کریم اور حالات و زمانہ کی رعایت، احادیثِ مبارکہ اور حالات و زمانہ کی رعایت، صحابہ کرام اور حالات و زمانہ کی رعایت، فقہاء عظام اور حالات و زمانہ کی رعایت۔
باب ششم: عصری مسائل اور اسلام۔ سود کا مسئلہ، سٹے بازی کا مسئلہ، اسٹاک ایکسچینج کا مسئلہ، بیمہ (انشورنس) کا مسئلہ، عورتوں کے حقوق کا مسئلہ، ملکیتِ اراضی کا مسئلہ، تعلیم کا مسئلہ، مفاہمت بین المذاہب۔
یہ جامع کتاب اپنے موضوع پر عمدہ تحقیق ہے۔ کتاب سفید کاغذ پر طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے، رنگین سرورق سے مزین ہے۔

حصہ