ایک مخیّر ہندو تاجر، دیپ چند اوجھا رام نے اپنی آنجہانی ماں کی ’’اذیت ناک موت‘‘ پر 150 ایکڑ اراضی اور 50,000 روپے کی خطیر مالیت سے کراچی میں ایک سینی ٹوریم قائم کیا کہ آئندہ کوئی شخص دمہ، ٹی بی اور امراضِ سینہ سے سسک سسک کر موت کو گلے نہ لگائے۔ شہری آلودگی سے کوسوں دور ’’ ویرانے‘‘ میں سینی ٹوریم قائم کر دیا گیا۔ رفتہ رفتہ حالات کا دھارا بدلا اور ہندوستان دولخت ہوگیا تو یہ سینی ٹوریم پاکستان کے حصّے میں آیا۔ 1965ء میں اسے باقاعدہ ہسپتال کی شکل دے کر، یہاں پانچ وارڈز، جس میں 200 بستروں کی گنجائش تھی اور لیبارٹری قائم کی گئی۔ پھر 1973ء میں اسے سینی ٹوریم سے انسٹی ٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز کا درجہ دے دیا گیا اور ٹیوبرکلوسز اور چیسٹ ڈیزیز میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما کلاسز کا بھی آغاز کر دیا گیا۔ 1997ء میں اسے گلوبل ٹی بی یونٹ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور سارک ٹیوبرکلوسزسینٹر، نیپال نے ٹی بی کے علاج معالجے کے ضمن میں ’’سینٹر آف ایکسی لینس‘‘ قراردیا۔ 2003ء میں جب ڈاؤ میڈیکل کالج کو جامعہ کا درجہ دیا گیا تو اوجھا کو اس کا کیمپس بنا دیاگیا۔ایک اندازے کے مطابق کراچی میں ٹی بی اور امراض سینہ کے علاج معالجے کے لیے سرکاری و غیر سرکاری سینٹرز اور کلینکس کی تعداد قریباً 150ہے۔ تاہم کراچی کے 30 فی صد مریض اوجھا سے مستفید ہوتے ہیں۔ اوجھا کی مرکزی عمارت کے علاوہ شہر میں چار کلینک ملیر، لیاری اور ناظم آباد میں کام کر رہے ہیں، جہاں نہ صرف مریضوں کا ابتدائی معائنہ کیا جاتا ہے بلکہ ٹیسٹوں کے بعد تشخیص اور علاج کی سہولت بھی میسّر ہے۔ ان مراکز میں ایک اندازے کے مطابق سالانہ دو لاکھ مریض آتے ہیں۔ اسی طرح اوجھا انسٹی ٹیوٹ میں سالانہ قریباً 5000 مریض داخل ہوتے ہیں اور اکثرصحت یاب ہو کر معمول کی زندگی کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔