پاکستان

309

رجب طیب اردوان کا دورۂ پاکستان
لا غالب الا اللہ
نہیں کوئی غالب آیا سوائے اللہ کے۔۔۔
رجب طیب اردوان نے اپنی فتح و نصرت کو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت قرار دے دیا۔۔۔
صدر اردوان کا خطاب جس میں انہوں نے فوجی بغاوت کچلنے کو اللہ کی مدد و نصرت قرار دے دیا۔ یہ ہیں وہ لوگ جو زمین پر اکڑ کر نہیں چلتے، جو تکبر نہیں کرتے، جو صرف اللہ سے ڈرتے ہیں، اور دین کے لیے سیاست کرتے ہیں۔ یہی لوگ امتِ مسلمہ کے حقیقی وارث ہیں۔
(اوریا مقبول جان)
*۔۔۔*۔۔۔*
صدر رجب طیب اردوان نے پاکستانی پارلیمنٹ اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنے نصف گھنٹے تک جاری رہنے والے خطاب میں اعلان کیا کہ پاکستان اور ترکی کے درمیان تجارت کو تین ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا۔ جب کہ توانائی، عسکری، سیاسی اور سفارتی محاذوں پر دونوں ملک ایک دوسرے کو فائدہ پہنچانے کی بنیاد پر آگے بڑھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت کی اپنے ملک کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں ترکی ہر حوالے سے اپنے دوست ملک کے ساتھ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں پاکستان کمزور ہوا تو ترکی بھی کمزور ہوگا اور اگر پاکستان مستحکم ہوتا ہے تو ترکی بھی مستحکم ہوگا۔ دہشت گرد قوتوں کو واضح پیغام دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ترکی دہشت گردی کے عفریت کے خلاف لڑنے کے لیے اکٹھے ہیں۔
ترک صدر نے اپنے خطاب کے دوران ہر سال 500 پاکستانی طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالرشپ دینے کا اعلان کیا۔ رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ اسلام سراسر امن وسلامتی کا مذہب ہے، القاعدہ اور داعش جیسے گروہ اس کے نمائندے نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سب مل کر اسلامی دنیا اور مسلم ممالک کو تقسیم کرنے کے لیے وہاں انتشار پیدا کررہے ہیں۔ ترکی اور پاکستان یکساں طور پر دہشت گردی کا شکار ہیں، لیکن ہم اس عفریت سے پیچھا چھڑانے کے لیے ہردم تیار ہیں۔
(ممتاز یوسف زئی، پشاور)
*۔۔۔*۔۔۔*
مگر نہیں!
نوازشریف تم اردوان سے کچھ نہیں سیکھ سکو گے۔
بھلا سیکھ بھی کیسے سکتے ہو!
وہ نجم الدین اربکان جیسے ذہین انقلابی کی سرپرستی میں پلا بڑھا، اور تم نے لوہے کی بھٹی کے دھوئیں سے آغاز کرکے جنرل جیلانی کی صحبت پائی اور ضیاء الحق کو ’ابا جی‘ سمجھا۔
وہ فٹبالر رہا۔۔۔ بہادر ہے، سمجھدار اور منصوبہ ساز ہے۔۔۔ اور اِدھر ساری صلاحیتیں مال بنانے، اپنی ’ٹور‘ قائم رکھنے، جوڑ توڑ کرنے اور جاہ طلبی کی نذر ہوجاتی ہیں۔
وہاں عالمی قوت بننے کا عزم اور دنیا سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ ہے، اور یہاں ٹرمپ کی سرخ آنکھوں سے خوفزدگی۔
اردوان نے ملکی معیشت کو حقیقی بنیاد دے دی، اب وہ آگے اور آگے اور آگے کی طرف گامزن۔۔۔ اور اِدھر اسحاق ڈار جیسے شعبدہ باز جو آنکھوں میں دھول جھونکنے اور الفاظ کی جادوگری سے اچھی معیشت کے کاغذی پہاڑ کھڑے کرنے والے۔
ادھر دنیا ترکی کے اسپتالوں میں مفت علاج دیکھتی ہے اور یہاں ایک ایک بیڈ پر مریضوں کی باریاں۔
وہاں قوموں کی صف میں وقار سے کھڑے ہوکر عزت کی روٹی کھانے کے منصوبے ہیں، اور یہاں چینی ٹرکوں کے پنکچر لگاکر ان کے ڈرائیوروں کے لیے چائے کے ہوٹل بناکر اور ان کو بحفاظت سرحد پار کرواکر چند ٹکے سمیٹنے اور خوشی کے شادیانے بجانے کے عظیم الشان پلان، اور مستقبل کی ایسٹ انڈیا کمپنی سے بے فکری۔
وہاں سرکشوں اور باغیوں کے لیے آہنی ہاتھ ہیں، اور یہاں قتل کے انتالیس مقدموں میں ملزم شخص کو میئر بناکر چالیس دن میں ضمانت ملنے کا انتظام۔
نوازشریف صاحب! سیکھنے کے لیے سیکھنے کا جذبہ، طلب، اخلاص اور کچھ کر گزرنے کے خواب چاہیے ہوتے ہیں، تب دنیا سے لوہا منوایا جاتا ہے۔ مگر جہاں لوہا بیچنے اور ضمیر بیچنے میں کوئی فرق ہی نہ سمجھا جائے، جہاں ذلت کی جلا وطنی کو عزت کی قید پر ترجیح دی جائے، اور اقتدار کا حصول پہلا اور آخری مقصدِ حیات قرار پائے، اور حکمرانی ملنے کی وجہ بس خوش قسمتی اور قوم کی بدقسمتی ہو تو پھر صبر کے سوا کیا چارہ ہے!
اعمال کی سزا!
(زبیر منصوری، کراچی)
*۔۔۔*۔۔۔*
ترک صدر رجب طیب اردوان کس کا مہمان
پاکستان یا نوازشریف کا۔۔۔؟
نوازشریف کے فوٹو اور طیب اردوان کے ایک فوٹو کے ساتھ ایک ذمہ دار قسم کے دوست نے لمبی چوڑی دھواں دھار تقریر لکھ کر نوازشریف کے خلاف پوسٹ کی ہوئی ہے جس میں تعصب کی نمایاں جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔
اتنی عجلت بھی کیا تھی کہ ابھی اردوان کا دورہ بھی مکمل نہیں ہوا کہ رگڑا لگانا ضروری ہوگیا تھا!
حالانکہ بحیثیت سربراہ اس نے مہمان نوازی کا حق خوب ادا کیا ہے۔ آپ ضرور رگڑا لگائیں مگر ڈنڈی تو نہ ماریں۔
جیسے احتساب سب کا۔۔۔ اور چور تو چور ہوتا ہے خواہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں۔
کسی اور کو رگڑا لگائے بغیر (یعنی پرویزمشرف کی کابینہ کے وزیروں کے بغیر) قلم لے کر یک طرفہ کسی ایک چور پر چڑھائی کیا ابھی بہت ضروری تھی اس لیے گھوڑا دوڑانا ضروری ہوگیا تھا تاکہ اصل ایشو جو قابلِ فہم اور ہدفِ تنقید بننے کا حق رکھتا تھا، پس منظر میں چلا جائے۔ جو اصل ایشو بننا چاہیے تھا وہ تو یہ تھا کہ اردوان نوازشریف کا مہمان نہیں تھا بلکہ پاکستان کا مہمان تھا، اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نہ جاکر جو کوئی بھی جان بوجھ کر یا کسی عالمی قوت کے اشارے پر ان کو خوش کرنے کے لیے اجلاس میں نہیں گیا۔
اوپر سے ہمارے ساتھی اپنی عقل استعمال کرنے کے بجائے لکیر کے فقیر کا ثبوت دینا شروع کردیتے ہیں، جو اپنے آپ کو اسکالر، فلاسفر سمجھتے ہیں اور ایک متعصبانہ تجزیے پر واہ جی واہ بہت خوب کی گردان شروع کردیتے ہیں۔
پھر آزاد کشمیر جماعت اسلامی کی سیٹ ایڈجسٹمٹ کو منصورہ کے کھاتے میں ڈلواکر خوش ہوتے ہیں۔
حالانکہ جمہوری شعور ہو تو سمجھنا آسان ہوتا ہے کہ سیاست اور جمہوریت میں گِو اینڈ ٹیک ہوتا ہے جو وقت اور حالات کے مطابق اپنی شرائط پر کسی سے بھی کیا جا سکتا ہے۔
میرے اس نقطہ نظر سے ہرکسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
میں تو سراج الحق صاحب کی طرح چور کو چور سمجھتا ہوں خواہ وہ نوازشریف ہو یا عمران خان، یا جنرل پرویزمشرف کی کابینہ کا ٹولہ ہو۔
(تسنیم الرحمن، کراچی)
*۔۔۔*۔۔۔*
ترکی کو چاہیے کہ شام سے اپنی فوجیں نکال لے: حامد میر
’میر صاحب کاش آپ نے ایسی ہی تجویز اُس وقت بھی دی ہوتی جب ایران کے محترم صدر نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اور کہا ہوتا کہ ایران کو چاہیے کہ شام، عراق، یمن سے اپنی فوجیں نکال لے۔ پتا نہیں کیوں ایران کے معاملے پر حق گوئی سلب ہوجاتی ہے، یا کردی جاتی ہے۔‘
(طارق حبیب، کراچی)
*۔۔۔*۔۔۔*
اسلام سے تعلق پر فخرہے۔۔۔
ترکی سے آپ کے لیے محبتیں سمیٹ کر لایا ہوں
گزشتہ ایک صدی دوستی کی مثال ہے
مسئلہ کشمیر ہمارے ضمیروں کو زخمی کرتا چلا آرہا ہے
اللہ ہمارے تعاون کو روزِ آخرت تک قائم رکھے
ترک صدر رجب طیب اردوان
(فہد عبدالہادی، کراچی)
*۔۔۔*۔۔۔*
عمران خان کا غیر سنجیدہ رویہ
ترک صدر رجب طیب اردوان کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران، عمران خان کا بائیکاٹ ناقابلِ فہم ہے۔ ایک تو ترک صدر پاکستان کا دوست ہے، صرف نوازشریف کا نہیں۔ یہ کوئی واجپائی یا مودی نہیں، یہ سارے پاکستانیوں کے مہمان ہیں۔ دوسرا یہ کہ ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں بھی نوازشریف کے نہیں ہیں، پاکستانی عوام کے ہیں۔ یہ کہنا کہ ہم الگ ان سے ملیں گے، بچکانہ باتیں ہیں۔ سرکاری دورے پر آنے والا سرکار ہی کے بنائے ہوئے شیڈول کا پابند ہوتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا بھٹو صاحب کے دور میں امام کعبہ عبداللہ بن السبیل رحمہ اللہ تشریف لائے تھے، موصوف نے مولانا مودودی رحمہ اللہ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو ان کو بتایا گیا کہ ان سے ملاقات شیڈول میں شامل نہیں، امام کعبہ برہم ہوئے اور کہا کہ میں اپنے رسک پر اچھرہ جاکر ملاقات کروں گا، اس موقع پر بھٹو صاحب نے کوثر نیازی کی سرزنش کی کہ ان دونوں کے خوشگوار تعلقات سے تم نے حکومت کو کیوں بے خبر رکھا؟ یہاں اربکان بھی آئے تھے اور قاضی صاحب کے ساتھ مختصر سی ملاقات کے لیے بہت کوشش کرنی پڑی، اردوان مولانا مودودیؒ کے ارادت مندوں میں شامل ہیں، اور اس ناتے وہ جماعت اسلامی کو اپنی جماعت سمجھتے ہیں، لیکن آپ دیکھیں گے کہ وہ وہاں جائیں گے جہاں حکومت چاہے گی، پھر عمران خان کون ہے جو الگ ملاقات کرسکے!
(حمد اللہ قریشی)

حصہ