بچوں کی بلند آواز سے پورا اسکول گونجتا اسمبلی گراونڈ میں قطاریں باندھے ہم سب اپنے دھیان پڑھتے چلے جاتے۔
’’لپے‘‘ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
یہ تو کچھ بڑے ہو کے معلوم ہوا کہ ’’لپے‘‘ آتی دراصل لب پہ آئی ہوئی دعا ہے جو علامہ اقبال نے بچوں کے لیے کہی۔
زندگی ہو میری پروانے کی صورت یارب
علم کی شمع سے ہو و مجھ کو ’’مو و حابت‘‘ یارب
ہم محبت کو ایسے ہی کھینچ کے پڑھا کرتے۔ کسی کسی دن ذرا تبدیلی ہوتی اور
یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑ پا دے
پڑ ھایا جاتا۔ اک سماں بندھ جاتا اور جب اس مصرع پہ پہنچتے ’’رفعت میں مقاصد کو ہمدوش ثریا کر ‘‘تو ہم کن اَنکھیوں سے مس رفعت اور سا نولی سلونی سی مس ثریا کو دیکھا کرتے کہ پورا سکول اُن کا نام لے رہا ہے تو یہ دل میں کیسا محسوس کر رہی ہوں گی۔۔۔یہی سوچتے دوسرا مصرع ادا کر لیتے
’’خود دارئ ساحل دے آزادئ دریا دے ۔۔۔یا رب
قومی ترانہ میں سایۂ خداے ذوالجلال پڑھتے سر کو جھکاتے اور ڈسپلن کی ٹیچر کے سامنے سے ڈرتے ہوے گزرتے کلاس روم میں جا بیٹھتے۔ کلاس دہم تک یہی ترتیب رہی۔ گورنمنٹ مسلم سکول کی میڈم نظامی کے مشہور زمانہ ڈسپلن میں تربیت پاتے ہم گرلز گائیڈ‘ بزم ادب کی دلچسپ سر گرمیوں سے گزرتے سیکھنے کے مراحل طے کرتے اسکول کی منزل عبور کر گئے۔
اقبال اس پورے سفر میں ساتھ رہتے اپنی نظموں کی صورت۔ سالانہ تقریبات میں ’’ماں کا خواب‘‘ پر کیا گیا ٹیبلو ایسے نقوش چھوڑ گیا کہ آج بھی ذہن و دل پر زندہ ہیں۔
میں سوئی جو اِک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے مِرا اِضطراب
یہ دیکھا، کہ میں جا رہی ہوں کہیں
اندھیرا ہے اور راہ مِلتی نہیں
لرزتا تھا ڈر سے مِرا بال بال
قدم کا تھا دہشت سے اْٹھنا محال
کالے کپڑوں میں ملبوس ماں کا کردار ادا کرتی اداس سی چال چلتی طالبہ ایک قطار میں سفید کپڑے پہنے کچھ لڑکے ہاتھوں میں دیے اٹھائے ہوئے آ رہے ہیں کچھ دور ایک اور بچہ ہے رفتار بھی آہستہ اور دِیا بھی بجھا ہوا۔ یہی لڑکا اس ماں کا بیٹا ہے۔ سانس رکنے لگتی اب کیا ہو گا؟
جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی
تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی
زمرد سی پوشاک پہنے ہوئے
دِیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے
وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رَواں
خْدا جانے، جانا تھا اْن کو کہاں
اِسی سوچ میں تھی کہ، میرا پسر
مجھے اْس جماعت میں آیا نظر
وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا
دِیا اْس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا
کہا میں نے پہچان کر ، میری جاں!
مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں
جْدائی میں رہتی ہْوں میں بے قرار
پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار
نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی
گئے چھوڑ ، اچھی وفا تم نے کی
جو بچے نے دیکھا مِرا پیچ و تاب
دِیا اْس نے منہ پھیر کر یْوں جواب
رْلاتی ہے تْجھ کو جْدائی مِری
نہیں اِس میں کچْھ بھی بَھلائی مِری
یہ کہہ کر وہ کچْھ دیر تک چپ رہا
دِیا پھر دِکھا کر یہ کہنے لگا
سمجھتی ہے تْو، ہو گیا کیا اِسے؟
تِرے آنسوؤں نے بْجھایا اِسے
ایک دوسری کلاس کی طالبہ کے ذہن میں یہ مناظر چپک گئے ٹیبلو کا اختتام ہوتا ہے۔ ماں خواب سے جاگتی ہے اور دوسری کلاس کی طالبہ کی آنکھیں چھلکنے کو بے تاب ہیں۔ بھرے گراونڈ میں موجود ہر طالب علم اور ہر استاد کی یہی کیفیت ہے۔
یوں اقبال سے شناسائی کی یہ پہلی منزل تھی۔ اب جو مائیں جوان اولاد رخصت ہونے کے بعد اس کیفیت سے گزرتی ہیں حقیقت میں انہیں دیکھا ہے تو اقبال یاد آتے ہیں کیسے فطرت سے آشنا اور غم شناس تھے کہ ماؤں کے اندر کے دکھ پہچانتے تھے۔
اقبال ہمارے بچپن میں اجنبی نہ تھے۔’’ بانگ درا‘‘،’’ بال جبریل‘‘ نصابی کتابوں کی طرح مطالعہ کا حصہ ہوتی ساتھ ساتھ رہتی ۔’’پرندے کی فریاد‘‘ پڑھتے تو گھنٹوں اداس رہتے سوچتے رہتے یہ قید کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے کاش کوئی اسے رہائی دلا دے ۔یہ درختوں پہ چہچہاتے ہی بھلے لگتے ہیں۔
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
لگتی ہے چوٹ دل پر آتا ہے یاد جس دم
شبنم کے آنسوؤں پر کلیوں کا مسکرانا
(یہاں پہنچ کر ہمارے ننھے دل کو بھی چوٹ لگتی )
جب سے چمن چھٹا ہے یہ حال ہو گیا ہے
دل غم کو کھا رہا ہے ، غم دل کو کھا رہا ہے
(یہ مصرع بار بار دہراتے)
گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دکھتے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے
آزاد مجھ کو کر دے، او قید کرنے والے
میں بے زباں ہوں قیدی ، تْو چھوڑ کر دعا لے
بس بار بار دہراتے اور سوچتے کاش کوئی رہائی دلا دے اسے۔
’’ایک مکڑا اور مکھی ‘‘پڑھتے ہوے رونگٹے کھڑے ہو جاتے سوچتے اُف یہ خوشامد کیسی بری بلا ہے کیوں مکڑے کی باتوں میں آئی مکھی اور اپنی جان گنوائی
مکڑے نے کہا دل میں، سْنی بات جو اْس کی
پھانسوں اِسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا
کیا سبق دیا زندگی بھر کے لیے
درختوں کی شا خوں پہ جھولتے ’’ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا‘‘ گایا کرتے اور کسی سہیلی کو اداس دیکھتے تو پو چھتے کیا ہوا کیوں اداس بلبل بنی بیٹھی ہو۔ گاؤں کی ٹھنڈی تاروں بھری رات میں جگنو تلاشتے پھرتے ٹارچ کی مانند جلتے بجھتے اس ننھے سے پرندے کے پیچھے پاگل ہو جاتے ۔
کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
میں راہ میں روشنی کروں گا
اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دیا بنایا
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
کتنا پیارا کردار ہے جگنو کا۔ بھولے بھٹکوں کو راہ دکھانے والا
’’پہاڑ اور گلہری‘‘ نے ہمیں گلہری کی محبت میں ایسا گر فتار کیا کہ ہم آج بھی کہیں گلہری دیکھ لیں تو نظر اس سے ہٹا نہیں پاتے۔ اسے کیاریوں‘ لان کی دیواروں اور درختوں پہ پھدکتا دیکھتے رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کیا کمال کا جواب دیا گلہری نے۔ کیا کہنے اس ننھی مخلوق کے۔
بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی بْرا نہیں قدرت کے کارخانے میں
’’گائے اور بکری‘‘ تو ایسے چلتے پھرتے کردار تھے کہ ان کی ہر ادا ازبر تھی۔ چھٹیوں میں گاؤں جا نا ہوتا تو وہ سارا منظر تخلیق شدہ ہوتا۔
اک چراگاہ ہری بھری تھی کہیں
تھی سراپا بہار جس کی زمیں
کیا سماں اس بہار کا ہو بیاں
ہرطرف صاف ندیاں تھیں رواں
تھے اناروں کے بے شمار درخت
اور پیپل کے سایہ دار درخت
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں
طائروں کی صدائیں آتی تھیں
چھپڑ کنارے ؛بھینسوں اور بکریوں کے ریوڑ آتے تو ہم ان کی کیر یکٹر اسٹیڈی کیا کرتے۔ سوچا کرتے واقعی بھینس نے نا شکری کی ہوگی ابھی بھی دیکھو کیسی بے زاری ہے چال میں اورچلتا منہ رکتا نہیں ہے۔ دوسری جانب بکری! واہ کتنی منظم سی زندگی ہے اس کی اور کیسی صابر وشکر ہے۔
سن کے بکری یہ ماجرا سارا
بولی، ایسا گلہ نہیں اچھا
قدر آرام کی اگر سمجھو
آدمی کا کبھی گلہ نہ کرو
گائے سن کر یہ بات شرمائی
آدمی کے گلے سے پچھتائی
دل میں پرکھا بھلا بُرا اُس نے
اور کچھ سوچ کر کہا اُس نے
یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی!
شکر ہے بکری نے گائے کوآدمی کی قدر سکھادی پھربھی گائے کے تیور دیکھ کے ڈر ہی لگتا رہا۔ پھر ہم بکریوں کا اسکول بناتے اور چھڑی لے کر ان کو مزید ڈسپلن سکھاتے اور شام پڑنے پر انہیں اگلے دن وقت پہ آنے کا کہہ کر گھر کی طرف دوڑ لگا دیتے۔
یوں بچپن کی کئی خوشیاں ’’علامہ اقبال‘‘ کے سنگ گزارتے ہم بڑے ہو گئے۔ کیسے خوب صورت انداز سے ذہن سازی کی اقبالؒ نے اور اس فکر کو لے کر پروان چڑ ھنے والے بچوں کو ستاروں سے آگے کی منازل دکھائیں‘ شاہین کی پرواز اور انداز سکھائے‘ کہیں عقل و خرد سے گھتیاں سلجھائیں تو کبھی عشق کو امام بتایا‘ کبھی ساقی نامہ تو کبھی شکوہ جواب شکوہ کبھی امام بر حق کی پہچان بتائی تو کبھی لا الہ الاللہ کے اسرارورموز سمجھائے۔
تو پھر کیا خیال ہے ننھے منے پھولوں کی پیاری پیاری امیوں کا بچوں کو شاہین بنانا ہے تو انہیں اقبال سے آشنا کریں ؟؟؟ تو پھر آج سے ہی آغاز کریں۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجا لا ہو جائے
آمین۔