اسما صدیقہ

307

ماہِ ربیع الاوّل صدیوں کی خزاؤں کے بعد صبحِ بہاراں کی آمد، فصلِ گل کا مژدہ۔
ہزاروں برس پہلے ابوالانبیاء حضرت ابراہیمؑ کی بیت اللہ کی تعمیر کے وقت کی خدا سے مانگی گئی عاجزانہ دعا کی قبولیت کا مہینہ۔
دو ہزار سال پہلے روح اللہ حضرت عیسیٰ ابنِ مریمؑ کی آسمانوں پر جانے سے پہلے دی گئی بشارت کا پورا ہونا۔
سرزمینِ عرب کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کی اس کرن کے نمودار ہونے کا دور، جو چمکی تو مہر منیر بن کے تیرہ و تار وحشت و سفاکی کو نیست و نابود کرگئی اور غیر مہذب قوم انسان دوست، صلح جو، تمدن کی بانی قرار پائی۔ برسوں کی نفرتیں الفتوں میں بدل گئیں۔ یہ معجزہ تھا، انقلاب تھا کوئی، یا بنجر زمین کے زرخیر ہوجانے کا خوش کن اعلان تھا۔۔۔ یہ مبالغہ نہیں بلکہ یہ مثالیں کم سے کم ہیں، اس لیے کہ آج کا طاغوتی اصول Might is Right جتنا اندھیر اب مچائے ہوئے ہے اس سے زیادہ اُس وقت دنیا پر مسلط تھا۔ نہ کمزوروں کا کوئی پرسانِ حال تھا، نہ مظلوموں کا کوئی فریاد رس۔
پھر خدا نے انسانوں پر احسان کیا اور ولادتِ مصطفیؐ ہوئی۔ پھر اسی تمدن سے عاری معاشرے میں بعثتِ مصطفیؐ ہوئی۔ اللہ نے اپنی بے شمار نعمتوں میں سے کسی کو احسان نہیں قرار دیا مگر اس ذیل میں فرمانِ الٰہی ہے ’’اور درحقیقت اللہ نے مومنین پر احسان کیا کہ انہی میں سے ان کے درمیان ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات ان کو سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے۔‘‘
وہ عام انسانوں کی طرح پیدا ہوئے کہ بشر تھے، بشر کے لیے آئے تھے، مگر عظمتِ بشر نے اُن کو نوری سے زیادہ نور بنا دیا۔ وہ یتیم پیدا ہوئے، پھر والدہ بچپن ہی میں داغِ مفارقت دے گئیں اور محض دو سال بعد ہی دادا کا سایۂ شفقت بھی سر سے اٹھ گیا۔ آپؐ کفر و شرک اور ظلم و جہل کے ماحول میں پروان چڑھے مگر شروع ہی سے ’’امین و صادق‘‘ مشہور ہوئے۔ اس سچائی کے باب میں نیا تو کچھ بھی نہیں مگر سدا بہار سچ کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ صلح جوئی، شرافت، غم گساری اور غور و فکر آپؐ کے کردار کا حصہ بچپن سے رہا۔ یہی کچھ میلادِ مصطفیؐ، یہی سیرتِ رسولؐ ہے۔ اس میں کسی کو کیا اختلاف ہے! باقی سب کچھ جو حیاتِ طیبہ کا حصہ ہے وہ اس کی تائید کرتی تفصیلات اور واقعات ہیں جن کا ذکر ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔
اس کے بعد جو اضافی ترامیم ہیں یا تو بدعات ہیں یا فساد فی الارض کی بنیادیں، جس سے اس عظیم خوشی کا تعلق نہیں بنتا۔
آمدِ رسولؐ یا ظہورِ قدسی کا ذکر خدا کے احسان کا تذکرہ ہے۔ آپؐ خدا کے بعد ہیں جس کا شریک کوئی نہیں اور آپؐ کا ثانی کوئی نہیں۔ عالمین کے لیے رحمت، مومنین کے حق میں سراپا رحیم و شفیق۔ آپ کی تعریف خدا نے کی، پھر زمین و آسمان پر مدحتِ رسولؐ ہوئی اور ہوتی رہے گی۔
مدحت اس کی کیوں نہ کریں جو مدحت کا حق دار بھی ہے، بعدِ خدا جو اپنی حدوں میں مالک بھی، مختار بھی ہے۔ مگر جشن کی اصطلاح ہماری نہیں کجا کہ ہم رسولؐ کے تذکرے کے لیے یہ لفظ استعمال کریں۔ اس کا اظہار جس سطحیت کے انداز میں ہوتا ہے وہ معرفت و شعور کے برعکس عمل ہے۔ غموں کی دھوپ میں، حالات کے کرب میں ظہورِ قدسی کا ذکر، پھر حیاتِ طیبہ کا مطالعہ ’’لاتقنطو‘‘ کا مرہم ہے، وہ چھاؤں ہے جس کی ٹھنڈک ہم سب کو درکار ہے۔
ربیع الاوّل کی خوشی کا اظہار ہلہ گلا، شرک و بدعت اور غل غپاڑہ تک کرکے جیسے کیا جاتا ہے وہ ہم کو رسولؐ سے دور کرتا ہے۔ پھر بدعات اور فضولیات سے بچنے کے لیے سرے سے ذکر و سیرت کی محافل اور جلسوں پر تنقید کرکے خوامخواہ کی محاذ آرائی کا ماحول بنایا جاتا ہے جس سے فرقہ وارانہ محاذ آرائی اور آگے بڑھتی ہے۔ آخر خدا کے اس فرمان پر سب کا ایمان ہے ناں ’’اور ہم نے آپؐ کے ذکر کو بلند کیا‘‘۔ دراصل بات تو ساری یہ ہے کہ اس خوشی میں علمی و فکری عنصر اور شکر کا جذبہ کتنا ہے۔ بلندی، پاکیزگی اور باہمی محبت کا رنگ کتنا تیز ہے۔ محافلِ رسولؐ کے لیے کیا آداب اور کس قسم کی سجاوٹ درکار ہے۔ سبز جھنڈوں کو یک دم تنقید کا نشانہ بناکر کسی بدعت کا قلع قمع نہیں ہوسکتا، نہ ہی عَلم برداری کا وہ سطحی بوجھ اٹھانے سے حُبِِ رسولؐ کا حق ادا ہوسکتا ہے جو کہ قرآن و سنت میں کہیں فرض نہیں۔
غور سے دیکھیے، عَلم اونچے اٹھانے میں روایت اور محاذ آرائی کا جھنڈا سب سے اوپر ہوتا ہے۔ یقیناًیہ یہود کی آرزو ہوسکتی ہے کہ یا تو سرے سے ذکرِ رسولؐ کی محافل نہ برپا ہوں، اور پھر جب ولادت کا ذکر نہیں تو بعثت کیا معنی! یوں ذکر سے رفتہ رفتہ غفلت ہوتی چلی جائے یا پھر جشن کے نام پر ادب وآداب سب بھلا کر بے ہنگم جشن منائیں۔ لب پہ نامِ نبیؐ ہو اور انداز شیطانی ہوں (معاذ اللہ) اور پھر اتباع رسولؐ بھی ہونے لگے، یہ بے جوڑ بات ہے۔ رسولِؐ رحمت کے تذکرے کے بغیر ہم خدا تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔
لا سے الااللہ تک گر لو نہ دے اس کا وجود
حرف موجِ نور کو زنجیر کر سکتا ہوں
محافل کے سلسلے میں فرمان رسولؐ ہے جو جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ تم ہر عالم کے پاس نہ بیٹھو سوائے اُس عالم کے جو تم کو 5 چیزوں سے ہٹا کر 5 چیزوں کی طرف بلائے: شک سے یقین کی طرف، ریا کاری سے اخلاص کی طرف، دنیا کی رغبت سے زہد کی طرف، تکبر سے تواضع کی طرف اور عداوت سے صلح جوئی کی طرف۔‘‘
اس آئینے میں گردوپیش کی محافل کا حال دیکھیں، چہرے بڑے داغ دار نظر آئیں گے۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاکر خود کو رسولؐ کا پیارا اور دوسرے کو راندۂ درگاہ قرار دیا جارہا ہے۔ کیا ابتلا و آزمائش کے اس پُرفتن دور میں یہ رویّے ہمیں رسولِ خداؐ کے آگے سرخ رو کرسکتے ہیں؟
نفرتوں بھرے اندر کے اندھیرے اتنے گہرے ہیں کہ باہر کی لاکھوں روپے کی جگمگاہٹ ماند ہوکر رہ جاتی ہے۔ صرف مخالف سے ضد نبھانا، جلنا، جلانا حُبِّ رسولؐ کے سوا کوئی اور بات ہے جس سے دل مُردہ ہورہے ہیں اور دعوے بے دلیل ثابت ہورہے ہیں۔
لازم ہے کہ ظہورِ قدسی کا شکر و ذکر احسان مندی کے ساتھ رہے۔ حیاتِ طیبہؐ کے واقعات کے مدوجزر کو دہرایا جائے، ہجرت اور اس سے پہلے کی سختیاں جو دعوت کے رستے میں درپیش رہیں، سفرِ طائف کا المناک منظر، غزوہ بدر و اُحد، شبِ معراج کا مقدس سفر، خطبۂ حجۃ الوداع کے تذکرے۔۔۔ یہ سارے مناظر جو وصالِ نبیؐ کے عظیم غم تک جائیں، ہماری آنکھوں میں زندہ رہیں تو شاید کدورتیں دلوں سے دور ہوسکیں اور حُبِّ رسولؐ کا اظہار ہونے لگے۔
چلے نہ ایمان اک قدم بھی اگر ترا ہم سفر نہ ٹھہرے
ترا حوالہ دیا نہ جائے تو زندگی معتبر نہ ٹھہرے
شاید اس طرح دعوے کو دلیل مل جائے۔ آج ساری دنیا بے یقینی، دہشت گردی اور حادثات کی زد میں ہراساں ہے۔ غلامی ہر ہر سطح پر انسانوں کو جکڑے ہوئے ہے۔ لوگ کہیں سے نجات کی راہ تکتے ہیں، غم کا مداوا ڈھونڈتے ہیں تو وہ عالمین کے لیے رحمت ہیں۔ سلامتی سب کو درکار ہے، سلام سب پہ فرض ہے، سلام پڑھنے کی تاکید خدا نے کی اور اس ذکر میں وہ بذاتِ خود شامل ہے۔ خدارا اس عمل کو تنقید کا نشانہ بنانے سے گریز کریں اور سمت کو ٹھیک کرلیں۔ کمزوروں اور بے بسوں کا بھرم بعد خدا وہی ذاتِ والا صفات ہے:
جس تسلی سے روتے ہوئے ہنس پڑے
اُس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام
مجھ سے بے کس کی دولت پہ لاکھوں درود
مجھ سے بے بس کی قوت پہ لاکھوں سلام
پھر سمت کی درستی حیاتِ طیبہ کے ماحول میں خود کو لے جانے اور ڈوب جانے کی کیفیت میں احساسِ ندامت کو بھی ابھارنے لگے گی کہ کسی غم گسار کی محنتوں کا یہ میں نے خوب صلہ دیا، وہ جو میرے غم میں گھلا کیا، اُسے میں نے دل سے بھلا دیا۔ اسی ماہ میں نبیؐ کے خدا کے ساتھ وصال کا دن بھی ہے جو اس پوری کائنات کا بڑا سانحہ تھا۔ یہاں بھی درسِ توحید ملتا ہے کہ نبیؐ جب دعوت کا حق ادا کرچکے تو خدا نے ان کو بلا لیا کہ اُس کے سوا سب فنا ہے۔
اس غم کا پُرسہ رب العزت پہلے دے چکا ہے ’’محمد نہیں ہیں مگر ایک رسول، اور اس سے قبل بھی اور رسول گزر چکے ہیں، پھر کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کردیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی الٹا پھرے گا اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا۔‘‘
یعنی فطرت کے عین مطابق خوشی اور غم جہاں میں ساتھ ساتھ ہیں، دونوں میں حدود اللہ اور ضابطوں کو مدنظر رکھو، موت کا ذائقہ ہر ذی نفس کو چکھنا ہے اور بعثتِ رسولؐ توحید کے لیے ہے۔
ہماری محافل میں غم کے اس وجدانی پہلو کا تذکرہ کم کم ہی ہوتا ہے، اس طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ رسولؐ ایک بندے تھے۔
اب جب کہ دنیائے انسانی نفرتوں، وحشتوں اور ظلم و جبر سے اَٹ گئی ہے، انسان ہجوم میں تنہا رہ گیا ہے، ہر ایک جیسے کسی چشم لطف کا متلاشی ہے، جو اب بھی لوگوں کو ان محافل میں نظر آتی ہے، یہ آپؐ کے سراپا رحمت ہونے کا ثبوت ہے، آپؐ کے مقدس اشکوں کی تاثیر کی سچائی ہے جو آپؐ نے امت کے لیے بہائے تھے۔ ہر ایک کو عافیت دامانِ مصطفی کو تھامنے میں نظر آتی ہے۔
سایہ گستر نہ ہو گر صورت والیل وہ زلف
ساری دنیا کو میں تپتا ہوا صحرا لکھوں
تپتے ہوئے صحرا میں ہر کوئی کسی لہلہاتے نخلستان کے کھلنے کا آرزومند ہے جو اسم محمدؐ پہ ایک ہوئے بنا ممکن نہیں۔
ہماری ضرورت ہیں ایسی محافل جو تزکیۂ نفس، علم و عرفان اور یقین کے قمقموں سے منور ہوں، جہاں باہمی محبت کا ماحول ہو، مایوس کن فضا ختم ہونے لگے اور توحید اور رسالت کا ادراک ہوجائے سب ہی کو۔
nn

حصہ